بس عشق ہو — کشاف اقبال (دوسرا اور آخری حصّہ)

’’ممتحنہ کے معنی ہیں وہ عورت جس کا امتحان لیا جائے۔‘‘اسے برہان کا اس کے نام کا مطلب پوچھنا اچھا لگا۔
’’جو عورتیں صلح حدیبیہ کے بعد مکے سے ہجرت کر کے مدینہ آئی تھیں،وہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتی تھیں،اس لیے رسول پاکﷺ نے حکم دیا کہ ان کا امتحا ن لیا جائے۔ اگر پاس ہو گئیں تو مسلمان نہیں تو کافر۔‘‘وہ نام کے معنی بتانے کے ساتھ ساتھ نام کی تشریح بھی کرنے لگی۔
’’نام کا مطلب تو کافی گہرا ہے۔اس کا مطلب تمہارے امتحان تو کافی ہونے ہیں، نام جو ممتحنہ ہے۔‘‘برہان کو اس نام کے مطلب نے کافی متاثر کیا۔
’’امتحانات تو سب ہی کے ہوتے ہیں۔‘‘
’’امتحان میں پاس ہو جاؤ گی؟‘‘ برہان کے اس سوال پر ممتحنہ کو اچنبھا ہوا۔
’’کون سا امتحان ؟‘‘
’’ہمیشہ ہمیشہ ساتھ رہنے کا امتحان۔عشق کو اشک نہ بننے دینے کا امتحان۔‘‘برہان سنجیدہ ہو گیا۔
’’آپ کا عشق میری سادگی ہے،اسے اشک نہیںبننے دوں گی۔ یہ آپ کے لیے سدا رشک ہی رہے گا، ہو جاؤں گی پاس۔‘‘اس کی زندگی میں آگے کتنے امتحان ہوں گے،وہ یہ نہیں جانتی تھی،فی الحال تو برہان اس کا امتحان لے رہا تھا۔
’’صرف پاس نہیں ہونا،اچھے نمبر بھی لینے ہیں۔‘‘وہ کسی استاد کی طرح اسے امتحان میں اچھے نمبر لینے کی تاکید کرنے لگا۔
’’اس امتحان میں ہم برابر کے شریک ہیں اور یہاں تو چیٹنگ بھی ضروری ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ کے بنا اچھے نمبر کیا،پاس ہونا بھی دشوار ہو جائے گا۔‘‘وہ اسے امتحان کے متعلق ضروری ہدایات فراہم کرنے لگی،جیسے کوئی نگران ہو۔
’’مجھے چیٹنگ کرواؤ گی نا؟ تنہاتو نہیں چھوڑو گی؟‘‘ وہ نیم مسکراہٹ لیے اس کے جواب کا منتظر تھا۔
’’میری چھوڑیں،اپنی سنائیں،آپ تنہاتو نہیں چھوڑیں گے؟‘‘وہ بھی مسکرانے لگی۔
’’کبھی نہیں!ویسے کتنی عجیب سی بات ہے نا؟ جہاں محبت کی بات چل رہی ہو،وہاں بے وفائی کا ذکر آتا ہے،جہاں ساتھ رہنے کی بات چل رہی ہو وہاں تنہائی کا ذکر ضرور آجا تا ہے۔‘‘برہان نے ایک تلخ حقیقت بیان کی۔
’’کیوں کہ اچھائی کا تعلق برائی سے ہمیشہ سے رہا ہے۔جہاں بات سچ کی ہو،وہاںجھوٹ نہ بولنے کی بات آ جاتی ہے،جہاں بات ثواب کی ہو،وہاں گناہ نہ کرنے کی بات آ جاتی ہے۔بالکل اسی طرح جہاں بات محبت کی ہو وہاں بے وفائی نہ کرنے کا اور جہاں بات ساتھ رہنے کی ہو وہاں تنہا نہ چھوڑنے کا ذکر آ جاتا ہے۔‘‘
برہان کی بیان کی گئی تلخ حقیقت کی وضاحت کرنے والی اس کی شریکِ حیات تھی۔
اب وہ اپنے لیپ ٹاپ پر نکاح کی تصاویر دیکھنے لگا جو اُسے مختلف رشتہ داروں کے ذریعے موصول ہوئی تھیں۔
’’تم بہت خوب صورت لگ رہی تھیں۔ تمہیں جی بھر کر دیکھ نہیں پایا نکاح میں پر اب دیکھ رہا ہوں۔میری بیوی دنیا کی سب سے حسین دلہن لگ رہی تھی۔ آئی لو یو۔‘‘یہ آج پہلی بار تھا۔جب اس نے اپنے شوہر کے منہ سے اپنی تعریف سنی۔
’’شکر ہے! آپ نے میری تعریف تو کی۔میں تو مایوس ہی ہو گئی تھی اور سوچنے لگی تھی کہ سب ہی نے میری تعریف کی پر شوہر نے نہیں،اس کا مطلب یہی ہوا کہ میرا اتنا تیار ہونا بے کار گیا،جب شوہر ہی کو اچھی نا لگ سکی،پھر فائدہ ،دنیا والوں سے تعریفیں بٹورنے کا؟‘‘اسے سکون مل گیاتھا شوہر کے منہ سے بالآخر اپنی تعریف سننے کے بعد۔
’’تمہیں میرے لیے اچھا لگنے کے لیے بننا سنورنا ضروری نہیں۔مجھے عشق تمہاری سادگی سے ہے، چاہے وہ سادگی تمہارے باطن کی ہو یا ظاہری ،پر آج دلہن بن کر تم نے کمال ہی کر دیا۔‘‘وہ اس کی سادگی پر ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر قصیدے پڑھنے لگا۔
’’اُف! ایک تو آپ کے ان سادگی پر قصیدوں سے میں بور ہو گئی ہوں۔فرض کریں!اگر میرے اندر یہ سادگی نہ ہوتی تو؟‘‘اس نے مذاق مذاق میں برہان سے ایک سنجیدہ سوال پوچھ لیا۔





’’تو شاید مجھے تم سے عشق بھی نہ ہوتا۔ تم سے عشق میں نے تمہاری سادگی ہی کو دیکھ کر کیا ہے اور یہ کبھی نہ ختم ہونے والی خوبی ہے، جاوداں ہے۔‘‘وہ اسے اس سے عشق کرنے کی بنیادی وجہ بتانے لگا۔
’’ہونہہ۔ اور…‘‘اسے نیند کے ہچکولے آنا شروع ہو گئے۔
’’اور یہ کہ تم قسم کھاؤ کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے،کچھ بھی سے مراد کچھ بھی،تم مجھ سے جدا نہیں ہوگی۔‘‘
’’کھا لی قسم!‘‘
’’اتنی جلدی قسم بھی کھالی؟دو سیکنڈز بھی نہیں لیے سوچنے کے لیے؟‘‘اس نے برہان کے کہتے ہی قسم کھا لی۔
’’قسم سچی وہی ہوتی ہے جو فوراً کھا لی جائے۔ایسی قسم کے ٹوٹنے کے بہت کم چانسز ہوتے ہیں ورنہ ایسا کون ہے دنیا میں جو سوچ بچار کرنے کے بعد قسم کھاتا ہے؟جو سوچ بچار کر نے کے بعد قسم کھاتے ہیں وہ قسم کھانے سے پہلے یہی سوچ رہے ہوتے ہیں کہ کتنے دن تک ،کتنے مہینوں تک وہ اپنی قسم پر قائم رہ پائیں گے۔‘‘اس کی بات میں وزن تھا۔ برہان بھی اثبات میں سر ہلائے بغیر نہ رہ سکا۔
’’میری بیوی تو کافی ذہین بھی ہے۔گھر اچھے سے سنبھالے گی اپنا۔‘‘وہ اپنی بیوی کی تعریف کرنے لگا۔
’’برہان؟‘‘اس نے غنودگی والی آواز میں شوہر کا نام لیا۔
’’جی مسز برہان؟‘‘برہان سمجھنے لگا کہ وہ اس سے یہ کہنے والی ہے کہ اسے نیند آ رہی ہے،پر اس بار اس نے غلط سمجھا۔
’’آئی لو یو۔‘‘برہان کی عادت میں شامل ہو گیاتھاممتحنہ کو آئی لو یو کہنا ،پر ممتحنہ کے لیے یہ پہلی بار تھا۔
’’آئی لو یو ٹو ممتحنہ۔‘‘بات کرتے کرتے ممتحنہ بھی سو گئی اور برہان بھی ۔فجر تک کا پلان تھا باتیں کرنے کا پر دو گھنٹے بھی نہ کر سکے۔
٭…٭…٭
اس کی آنکھ فجر کے وقت کھلی تو اس نے اپنا موبائل دیکھا۔ اسے کال ٹائمنگ دیکھ کر پتا چلا کہ برہان بھی اس کے ساتھ ہی سو گیا تھا۔وہ سر جھٹک کر وضوکرنے چلی گئی۔
واپس آئی تو اس کے موبائل کی اسکرین پر ’برہان کالنگ‘ کے الفاظ جگمگانے لگے۔
’’ارے واہ! فجر میں آنکھ کھل گئی آپ کی مسٹر مجازی خدا؟‘‘برہان دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئی۔
’’آپ کا حکم تھا کہ نماز اکٹھے ادا کریں گے۔ رد کیسے کر سکتا تھا۔‘‘وہ ہنسنے لگی۔
’’جبراً نماز نہ پڑھیں۔ ویسے عمر اتنی ہو گئی ہے کہ جبر کرنا بھی جائز ہے۔‘‘وہ اپنی ہنسی روک نہ سکی۔
’’عادت ڈالنا پڑے گی او ر اس کا آغاز آج سے کروں گا، ابھی سے۔خدا نے میری اتنی بڑی دعا قبول کی ہے،اس کا شکر میں ساری زندگی ادا کرنا چاہوں گا۔‘‘وہ لاؤنج کی طرف فون کان میں لگائے جائے نماز لینے چلا گیا۔
’’مجھے بہت خوشی ہو گی اگر آپ نماز کے پابند بن جائیں گے۔‘‘وہ ہمیشہ سے چاہتی تھی کہ اس کا شوہر نماز کا پابند ہو۔
وہ نماز سے فارغ ہوئی ہی تھی کہ برہان کا پھر فون آ گیا۔
’’نماز پڑھ لی آپ نے؟‘‘وہ جان چکی تھی کہ اس نے نماز ادا کر لی ہو گی،بس رسماً پوچھا۔
’’جی! پڑھ لی۔‘‘ وہ نماز کے بعد ٹیرس میں آ کر آسمان پر رات کو صبح میں بدلتے دیکھنے لگا۔
’’دعامیں کیا مانگا؟‘‘وہ ابھی تک دوپٹا سر پر اوڑھے ہوئے تھی۔
’’یہی کہ اے اللہ ! مجھے نماز کا پابند بنا دے اور جیسا میری بیوی چاہتی ہے مجھے ویسا بنا دے۔‘‘اب اس کا مقصد صرف ایک تھا اور وہ تھا اپنی بیوی کی ہر بات ماننا ،خواہ وہ حکم ہو یا التجا۔
’’اور تم نے کیا مانگا دعا میں؟‘‘اب وہ اس کی دعا کے بارے میں پوچھنے لگا۔
’’یہی کہ اے اللہ!میری نئی زندگی شروع ہونے جا رہی ہے،اس کو نظر ِ بد سے بچانا اور ہماری وفا کو تا عمر سلامت رکھنا۔‘‘ایک طرف نماز کی پابندی کی دعا کی جارہی تھی، تو دوسری طرف سلامتی کی دعا کی جارہی تھی اور محبت کی۔
’’یہ رات میرے لیے بہت یادگار رہے گی، اس میں زندگی تھی۔‘‘وہ اس کے ساتھ بتائے لمحات کا مرکزی خیال بتانے لگا۔
’’اچھا؟و ہ کیسے؟‘‘وہ اس مرکزی خیال کی تشریح جاننا چاہتی تھی۔
’’وہ ایسے کہ اس رات دو بہت بڑی قوتیں وافر مقدار میں موجود تھیں۔محبت اور زندگی اور یہ وہ قوتیں ہیں جو اگر آپ کی زندگی میں کثرت کے ساتھ موجود ہوں تو آپ کا دل کہہ اٹھتا ہے کہ اور کیا چاہیے۔مجھے بھی اب کچھ نہیں چاہیے،تمہاری محبت نے مجھے خدا سے ملا دیا ہے اور خدا کی بندگی نے شکر سے۔‘‘برہان ندیم تشریح کرنے میں ماہر تھا۔وہ محبت کی تشریح بہت پہلے سے جان چکا تھا اور بندگی کی تشریح کرنا اسے اس رات ہی آیا۔یعنی نکاح والی رات۔
’’نیند تو نہیں آ رہی؟‘‘وہ اس سے پوچھنے لگا۔اسے خود جو نیند آرہی تھی۔وہ فجر میں اٹھنے کا عادی نہیں تھا۔
’’جی! آ تو رہی ہے۔‘‘وہ جمائی لیتے ہوئے بولی۔
’’سو جاؤ۔ میں بھی سونے لگا ہوں۔‘‘
’’شب بخیر۔‘‘و ہ بستر پر جانے لگی۔
’’صبح بخیر۔ اندھیرا ختم ہو چکا اور ایک نئی صبح کا آغاز ہوا ہے۔اپنا خیال رکھنا۔آئی لو یو۔‘‘اور ایک بار پھر اظہار محبت کرنے کے بعد وہ سونے چلا گیا۔
وہ رات محبت کی رات تھی،نکاح کے بندھن میں بندھ جانے والے دو محبت کرنے والوں کی رات۔وہ رات شکر کی رات تھی، محبت کو پا لینے پر خدا کا شکر کرنے کی رات۔
٭…٭…٭
ممتحنہ کی آنکھ صبح آٹھ بجے کھلی۔وہ فریش ہو کر تیار ہونے کے بعد نیچے کچن میں چلی آئی۔
’’یہ کیا کر رہی ہو تم؟جاؤ ٹیبل پر بیٹھو تمہارا ناشتا وہیں آ جائے گا۔‘‘رخصتی کو ایک دن باقی تھا اور اپنی بیٹی کو کام کرتا دیکھ کر اشتعال کی کیفیت میں آ گئیں۔
’’اور ہاں! آج بھی نرسری؟تمہارا دماغ تو خرا ب نہیں ہوگیا؟کل رخصتی ہے تمہاری یاد بھی ہے؟‘‘اپنی بیٹی کو تیار دیکھ کر وہ جان گئیں کہ وہ کہاں جانے کی تیاری کر رہی ہے۔
’’کل رخصتی ہے تبھی تو آج جا رہی ہوں۔میں نے طے کر لیا ہے کہ شادی کے بعد چھوڑ دوں گی۔ اپنے شوہر، ساس سسر اور اپنے گھر کا خیال رکھوں گی،گھر کے ہر گوشے کو پھولوں سے سجاؤں گی۔ آج آخری بار جا رہی ہوں اور چاہتی ہوں کہ آپ مجھے ٹوکنے کے بجائے دعائیں دیں۔‘‘وہ ناشتا بنانے میں عنایہ بیگم کی مدد کرنے لگی۔ گھر میں مہمان آئے ہوئے تھے پر سب ابھی تک سو رہے تھے۔عنایہ بیگم نے طے کر لیاتھا کہ ناشتا باہر سے آئے گا۔وہ تو صرف اپنے شوہر اور بیٹی کے لیے ناشتا تیار کر رہی تھیں۔
’’میری دعائیں تو ہمیشہ تمہارے ساتھ ہیں میری جان اور مجھے تمہارا شادی کے بعد نرسری چھوڑنے کا فیصلہ بہت میچور لگا۔ تم نے ابھی سے یہ ثابت کر دیا کہ تم ایک اچھی بہو ثابت ہو گی۔وہ اس کے سرپر ہاتھ رکھ کر دعائیں دینے لگیں۔
’’جب آپ اچھی بہو ثابت ہو سکتی ہیں، تو آپ کی بیٹی کیوں نہیں؟‘‘وہ عنایہ بیگم کے ماتھے کو چومنے لگی۔
’’تمہارے شوہر کا فون آگیاہے، اس کی صبح کو صبح بنا دو۔‘‘عنایہ بیگم اس کے موبائل کی رنگ ٹون سنتے ہی پہچان گئیں۔
’’السلام و علیکم! صبح بخیر۔‘‘سلام میں پہل برہان نے کی۔
’’وعلیکم السلام۔کیا بات ہے ۔بڑی جلدی صبح ہو گئی آپ کی۔وہ اپنی امی سے تھوڑا دور جا کر اس سے بات کرنے لگی۔
’’اللہ میری دعائیں قبول کرنے لگا ہے۔‘‘وہ مسکرایا اور بستر سے اٹھنے لگا۔
’’یہ تو بہت اچھی بات ہے۔‘‘وہ برہان کے بدلتے رویوں کو دیکھ کر بہت خوش ہو ئی۔
’’مجھے زارا نے بتایا کہ تم آج آخری بار نرسری جا رہی ہو کیوں؟‘‘برہان کو وجہ جاننے کا تجسس ہوا۔
’’میں شادی کے بعد صرف گھر ،اپنے شوہر اور اپنے سسر کا خیال رکھنا چاہتی ہوں۔بس۔‘‘وہ اسے معصومانہ انداز میں نرسری چھوڑنے کی وجہ بتانے لگی۔
’’یہ تو بہت اچھی بات ہے۔اب میں صبح اٹھوں گا تو مجھے کم از کم یہ نہیں کہا جائے گا کہ ناشتا ٹھنڈا ہو رہا ہے،کر لیجیے گا۔میں نرسری جا رہی ہوں بلکہ یہ کہا جائے گا کہ برہان،اٹھ جائیں، میرے ساتھ ناشتا کر لیں۔‘‘وہ ہنسنے لگااور اس کے ساتھ ساتھ اس کی بیگم بھی۔
’’اچھا اب مذاق بعد میں کیجیے گا۔پہلے ناشتا کر لیں،میں بھی ناشتا کرنے لگی ہوں۔‘‘وہ اسے ناشتے کی تاکید کرنے کے بعد خود ناشتا کرنے لگی۔
٭…٭…٭
’’السلام و علیکم مسز برہان۔نئی دلہن کو تو رخصتی کے بعد روپ چڑھتا ہے پر آپ کا تو نکاح کے بعد ہی یہ حال ہو گیا۔‘‘ممتحنہ کو نرسری میں داخل ہوتا دیکھ کر زارا اسے مسز برہان کے لقب سے نوازنے لگی۔
’’یہ کس قسم کا مذاق تھا؟‘‘ آفس جا کر اُس نے اپنا ہینڈ بیگ صوفے پر رکھا اور ای میل کھول کر آج کے آرڈرز چیک کرنے لگی۔
’’تمہیں میری ہر بات مذاق ہی لگتی ہے۔سچ کہہ رہی ہوں میری جان،بہت کھل رہی ہو آج ماشا ء اللہ۔‘‘زارا ڈول دھونے لگی۔
’’آج تو بہت سارے آرڈرز آئے ہوئے ہیں،لگتا ہے لوگوں کو ممتحنہ کا مسز برہان بننا کچھ خاص پسند نہیں آیا۔‘‘وہ دونوں قہقہے لگانے لگیں۔
’’اچھی بات ہے نا!آج یہاں آخری دن بھی ہے ہمارا۔آرام و سکون کے ساتھ تمام آرڈرز تیار کریں گے اور ڈھیر ساری باتیں کریں گے۔‘‘وہ دونوں اب نرسری کے باغ میں پھول چننے جانے لگیں۔
’’زارا اگر تم چاہو تو میرے بعد یہ نرسری یہ کمپنی تم چلا سکتی ہو۔کسی اسسٹنٹ کو ہائر کر لینا اس طرح مصروف بھی رہو گی۔نرسری چھوڑنے کا فیصلہ صرف میں نے کیا ہے اور میں نہیں چاہتی کہ تم بھی میرے جانے کی وجہ سے یہاں سے چلی جاؤ۔‘‘وہ پھول چنتے چنتے اس سے ضروری بات کہنے لگی۔
’’نہیں ممتحنہ، میں تمہاری جگہ نہیں لے سکتی۔اس کمپنی میں اگر تم رہو گی تو فقط یہاں کی اونر بن کر اور اگر تم نہیں، تو کوئی بھی نہیں اور ویسے بھی ذرا سوچو ،اگر تم نہ ہوئیں تو میرا یہاں دل لگے گا؟‘‘ممتحنہ کو اس کی کہی بات درست لگی۔
آج برہان صبح ہی ممتحنہ کی نرسری کی طرف آنے والا تھا۔دوپہر کو اس کا جاب انٹرویو تھا،اس لیے آج وہ صبح ہی اپنی بیگم سے ملنے کے لیے جانے لگا۔
’’تمہارا نکاح کر کے ایک فائدہ تو ضرور ہوا ہے۔تم سلجھنے لگے ہو۔‘‘برہان کو صبح صبح ناشتے کی میز پر دیکھ کر ندیم صاحب مسرور ہو گئے۔
’’یہ بات تو آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں ابو۔آج میرا انٹرویو بھی ہے، دعا کیجیے گا۔‘‘وہ اپنے باپ کا سر پر ہاتھ رکھنے کا منتظر تھا۔
’’انٹرویو کے لیے دعا؟ایسی کون سی فلم یا ڈراما ہے جس کے انٹرویو کے لیے تم دعا کرنے کا کہہ رہے ہو؟‘‘انہیں عجیب لگا۔
’’نہیں ابو، جاب انٹرویو ہے۔فلموں اور ڈراموں کو آپ کا بیٹا خیر باد کہہ چکا ہے۔‘‘اب تو ندیم صاحب کو پختہ یقین ہو گیا کہ برہان کا بدلتا رویہ اس کی بیگم کی وجہ سے ہے۔
’’خوشی ہوئی جان کر۔اللہ کام یاب کرے ۔خدا حافظ۔‘‘اور وہ باپ کی دعائیں سمیٹتا گھر سے نکل گیا۔
٭…٭…٭
’’وہ آج نرسری آئی ہے۔جاؤ تم اپنا کام شروع کرو۔‘‘حیال نمیر علی کے ساتھ ممتحنہ کی نرسری کے باہر تھوڑا فاصلے پر اپنی گاڑی میں بیٹھی تھی۔نمیر علی نے اپنے ساتھ ایک اور بندے کو ہائر کر لیا تھا جوبائیک پر وہاں آیا تھا۔
’’آپ جائیں حیا ل صاحبہ۔آپ کا کام ہو جائے گا۔‘‘
نمیر علی اپنے ہائر کیے ہوئے بندے کے ساتھ نرسری کی طرف جانے لگا۔نرسری کا دروازہ بند تھا۔اسے دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔اللہ بخش کو ڈیوٹی پر آنے میں ابھی تقریباً ڈیڑھ گھنٹا باقی تھا۔
’’کون ؟‘‘زارا دروازے پر آئی اور دروازے کے ہول سے دیکھنے لگی۔
’’ہم ہارٹی کلچر سوسائٹی آف پاکستان(Hoticulture Society of Pakistan)کی طرف سے آئے ہیں۔ممتحناز فلورل کمپنی کا انٹرویو لینے۔‘‘ نمیر علی نے اپنے ہائر کردہ بندے کو ہول کے آگے کھڑا کر دیا تا کہ کسی کی نظر اس پر نہ پڑے۔
(ہارٹی کلچر سوسائٹی آف پاکستان، ایک نامور سوسائٹی ہے جو پھول پودوں سے تعلق رکھتی ہے اور جس کا سالانہ فنکشن ہر سال کراچی سی ویو میں منعقد کیا جا تا ہے۔)
زارا تو جیسے پاگل ہو گئی اور اس نے فوراً دروازہ کھول دیا۔ زارا کے دروازہ کھولنے سے پہلے ہی نمیر علی نے ماسک پہن لیا تھا۔
’’اندر چل، کہاں ہے تیری اونر مسز برہان؟‘‘اس نے اس کے سر پر بندوق رکھی۔
’’کون ہو تم لوگ؟‘‘ممتحنہ کا وجود دیکھتے ہی نمیر علی اس کے پاس آ گیااور دوسرا بندہ زارا کے پاس کھڑا رہا۔
’’تو اندر چل تجھے بتاتا ہوں کہ میں کون ہوں۔‘‘
وہ بندوق اس کے سر پر رکھتا اسے بالوں سے گھسیٹتے ہوئے آفس میں لے جانے لگا۔ وہ چیختی چلاتی رہی پر اس نے اس کی ایک نہ سنی اور اسے آفس میں لے جا کر دروازہ اندر سے بند کر دیا۔
زارا کے دوسرے ہاتھ میں موبائل تھا۔وہ لوگ چوری کرنے نہیں آئے تھے اس لیے اس کے موبائل پر اس آدمی کی نظر نہ پڑ سکی۔زارا نے چالاکی سے برہان کو فون ملا دیا۔
’’ممتحنہ کو کچھ مت کہنا۔ وہ آدمی کمرا بند کر کے کیا کر رہا ہے کچھ بولتے کیوں نہیں؟‘‘برہان سب سن رہا تھا پر اسے ابھی بھی پوری بات سمجھ نہیں آئی تھی۔
’’وہ تمہاری کمپنی کی اونر ممتحنہ کی آبرو ریزی کر رہا ہے۔اب سمجھ آئی؟جتنا چلّانا ہے چلاّؤ، کوئی نہیں سننے والا۔‘‘برہان نے گاڑی کی رفتار تیز کر دی۔
آفس کا دروازہ بند ہو چکاتھا۔اب ممتحنہ عمیر علی کی گرفت میں تھی اور اس سے پناہ مانگ رہی تھی کہ بندوق نہ چلائے پر وہ تو بندوق چلانے آیا بھی نہیں تھا۔وہ تو کچھ اور ہی کرنے آیا تھا۔
ماسک کی وجہ سے وہ نمیر علی کا چہرہ نہ دیکھ سکی۔ اس درندہ صفت نے ممتحنہ کے دونوں ہاتھ باندھ دیے اور اس کے وجود سے دوپٹا کھینچ لیا تب ممتحنہ کو پتا چلا کہ وہ مرنے والی ہے،بندوق سے نہیں بلکہ اُس سے بھی زیادہ اذیت ناک موت سے۔ وہ چیخنے لگی، اپنے پاؤں سے اسے مارنے لگی پر اسے کچھ فرق نہ پڑا۔وہ بندوق کونے میں پھینکنے کے بعد اس کی طرف بڑھنے لگا۔
’’مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے ممتحنہ!I Love you۔‘‘وہ ماسک والا درندہ جیسے جیسے اس کے قریب آیا، وہ برہان کی یادوں کے قریب ہونے لگی۔وہ سوائے چیخنے کے کچھ نہیں کر سکتی تھی۔
’’اگر آپ کی اجازت ہو تو کیا میں آپ کی اس کلاس کا اسٹوڈنٹ بن سکتا ہوں مس فلورسٹ؟‘‘اگر پھولوں کو خدانے آواز بخشی ہوتی تو اس وقت وہ لاکھوں پھول جو اس کی نرسری کی زینت بنے تھے،چیخ چیخ کر پورا محلہ سر پر اٹھا دیتے،ان کے باغبان سے اس کی سب سے قیمتی متناع جو چھینی جارہی تھی۔
’’تمہیں پتا ہے جس طرح سور ج مکھی کا رخ سورج کی کرنوں کی جانب ہوتا ہے ،بالکل اسی طرح تمہارا وجود بھی ہمیشہ اجالوں کی طرف رہتا ہے۔زندگی سے بھرپور،زندگی کو جینے والی ہو تم۔‘‘زندگی تو اس کی تارتار کی جارہی تھی۔وہ عزت جو اس نے سالوں سنبھال کر رکھی تھی،غیروں سے چھپا کر رکھی تھی، پل بھر میں ہی روندی گئی۔
’’جو سادگی بناوٹ سے نہیں،بنیاد ہی سے آپ کا زیور اور لباس بنی ہو، وہ سادگی اتنی آسانی سے نہیں ملا کرتی۔ نہ جانے کون سی نیکی کا صلہ آج مجھے اس خدا نے تمہارے حصول کی شکل میں دیا ہے۔‘‘ اگر اس کا لباس اور اس کا زیور اس کی سادگی تھا، تو اس وقت اس کا لباس اور اس کا زیور نوچا جا رہا تھا۔
’’اگر تمہاری اجازت ہو تو میں کل اپنے گھر والوں کو ہمارے رشتے کی بات کرنے لے آؤں؟‘‘ وہ درد میں چلّا رہی تھی پر افسوس چلّانے سے کچھ نہیں ہونے والا تھا۔
’’میں نہیں چاہتا کہ تم میں سو دریا کو اپنے اندر اتارنے کا فن آجائے۔تم اپنی آنکھیں خالی کر کے اس دریا کو میرے حوالے کر دو۔یہ جب میری آنکھوں کی زینت بنے گا، تو خود بہ خود خوشی کا آنسو بن جائے گا۔‘‘ان آنسوؤں کو بہانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اس درندے میں ہوس اتنی تھی کہ اسے ترس آنے والا نہیں تھا،پر وہ ہوس اس کے جسم سے زیاد ہ اپنے مقاصد کو پالینے کی تھی۔
’’اپنے سارے آنسو آپ کے حوالے کر دوں گی تو میری آنکھوں کا کیا اثاثہ بچے گا؟محبت میں کبھی کبھار آنسو بہانا اچھا شگن ثابت ہوتا ہے۔اس لیے تھوڑا رحم میری آنکھوں پر بھی کر دیجیے گا۔‘‘
برہان کی آنکھیں بھر چکی تھیں۔گاڑی کی رفتار سے بھی زیادہ تیز اس کے آنسوؤں کی رفتار تھی۔
’’میں اپنے پہلے گناہ کی طرح ہر وہ چیز فرامو ش کر دوں گا جو تمہیں نا پسند ہو۔‘‘وہ گناہ جو اس وقت اس کے وجود کے ساتھ کیا جا رہا تھا ،اسے فراموش کرنا اس سادگی کے مجسمے کے لیے خود ایک گناہ کبیرہ سا تھا۔
’’دل کی بات ایک ساتھ ایک ہی وقت میں زبان پر نہیں لاتے۔یہ باتیں بہت پاک ہوتی ہیں،ان کی تاثیر بہت گہری ہوتی ہے،اس لیے دل کی باتوں کو تھوڑا تھوڑا کر کے زبان تک لایا جاتا ہے۔ایسا کرنے سے دل اور زبان دونوں خوش رہتے ہیں۔‘‘اس کے دل کی بات زبان نہیں آنکھیں کر رہی تھیں، آنسوؤں کی شکل میں۔
’’ہماری محبت جب عشق بن جائے تو ڈوبو گی میرے ساتھ؟‘‘ڈوب تو رہی تھی،پر اس کی عزت اور ناموس کے ساتھ ساتھ اس کی ہنسی۔
’’ڈوبتے کو تو تنکے کا سہارا ہی کافی ہوتا ہے اور پھر میرے ساتھ تو آپ ہوں گے،ڈوبیں گے بھی اور پار بھی جائیں گے۔‘‘ وہ اپنی محبت کے سفینے کو ڈوبنے نہیں دینا چاہتا تھا،پار لگانا چاہتا تھا،صحیح سلامت۔
’’ہو سکتا ہے کہ ہماری زندگی میں آگے بہت سے لہریں،بہت سے طوفان آئیں،وعدہ کرو ساتھ نہیں چھوڑو گی۔‘‘کیا وہ اپنے وعدے پر قائم رہ پائے گی؟
’’محبت میں وعدے نہیں کیے جاتے،قسم کھائی جاتی ہے اور میں قسم کھاتی ہوں،ساتھ نہیں چھوڑوں گی ۔‘‘ممتحنہ کی کھائی گئی قسم اس وقت اسے امید کی ایک کرن بھی نہ دکھا سکی۔
’’تم باتیں بہت کم کرتی ہو مگر بہت وزنی کرتی ہو۔پر تم سے زیادہ باتیں تمہاری آنکھیں کرتی ہیں۔‘‘ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی عزت کا جنازہ اٹھتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔
’’جہاں سے محبت شروع ہوتی ہے وہیں سے محبت کو کھو دینے کا ڈر بھی شروع ہو جاتا ہے۔ڈرو مت ممتحنہ،یہ ڈر سچی محبت کی علامت ہے۔‘‘عزت تو جا چکی تھی،کیا اس کی محبت بھی عزت کے جانے کے ساتھ چلی جائے گی؟کیا برہان اسے اس کی پارسائی کے بغیر قبول کر لے گا؟
’’تم سے عشق میں نے تمہاری سادگی ہی کو دیکھ کر کیا ہے اور یہ کبھی نہ ختم ہونے والی خوبی ہے، جاوداں ہے۔‘‘وہ خوبی اب جاوداں نہیں رہی تھی، کیوں کہ اب وہ خوبی ہی نہیں رہی تھی،بدنامی بن چکی تھی۔
نمیر علی نے اپنی درندگی کی پیاس بجھانے کے بعد اس جیتی جاگتی نعش کے ہاتھ، جو درندگی کرتے وقت اس نے باندھے ہوئے تھے،کھول دیے کیوں کہ اسے پتا تھا کہ…اب وہ نعش چلنے پھرنے کیا، ہاتھ پاؤں تک چلانے سے قاصر ہے۔
زارا بہت بری طرح چلانے لگی تھی۔اسے کلوروفارم سونگھا کر بے ہوش کر دیا گیا اور وہ دونوں وہاں سے فرار ہو گئے۔
’’قسم کھاؤ کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے،کچھ بھی سے مراد کچھ بھی،تم مجھ سے جدا نہیں ہوگی؟‘‘جدا تو وہ خود سے ہوچکی تھی،و ہ اپنے آپ سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہی تھی پھر اس ناپاک جسم کے ساتھ اپنی محبت کا سامنا کیسے کرتی۔
اس کی تیز رفتار گاڑی کو رکنا ہی پڑا۔شہر کی سب گاڑیاں جو رک گئی تھیں،ٹریفک سگنل جو آ گیا تھا۔
’’نہیں ممتحنہ، بس اپنے آپ کو نقصان مت پہنچانا۔ میں آ رہا ہوں بس ابھی۔‘‘وہ زارو قطار آنسو بہانے لگا۔ و ہ اپنے موبائل پر پولیس کو فون کرنے لگا،پر نمبر ڈائل کرتے کرتے رک گیا۔اسے وہ دن یاد آگیا جس دن ایک پولیس والے کی وجہ ہی سے اس کی ممتحنہ کی وہ حالت ہوئی تھی،اس نے فوراً اپنا موبائل برابر والی سیٹ میں پھینک دیا، یہ سوچنے کے بعد کہ کہیں اس بار بھی ایک پولیس والے کی وجہ سے…
وہ ٹریفک میں پھنسا ہوا تھا کہ اسے ایک جانی پہچانی سی خوشبو اپنے اطراف میں محسوس ہونے لگی،کیلہ للی(Calal Lilly) کی،اسے اس خوشبو سے خوف آنے لگا۔
’’بھائی یہ پھول لے لو،تیری گھر والی خو ش ہو جائے گی۔‘‘ایک کم عمر لڑکا اس کے بالکل قریب کیلہ للی کے گلدستے لے آیا۔برہان انہیں دیکھ کر ایک لمحے کے لیے پیچھے ہٹ گیا۔
’’یہ فیونرل فلاور ہے۔کسی اپنے کی موت پر دیا جاتا ہے۔اس کے بار ے میں تو یہ بات بھی مشہور ہے کہ اگر آپ کا کوئی اپنا انتقال کر گیا ہو تو آپ کو اس پھول کی خوشبو اپنے آس پاس محسوس ہوتی ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ آپ کا اپنا کسی پر سکون جگہ منتقل ہو گیا ہے اور اب کبھی وہاں سے واپس نہیں آئے گا۔‘‘برہان کو اس حسین پھول کے گلدستوں سے نفرت ہونے لگی۔
’’ہٹاؤ اس کو میری نظروں سے، اسے کچھ نہیں ہوگا،کچھ نہیں ہونے دوں گا میں اسے۔‘‘برہان نے غصے میں آ کر اس پھول کو اپنے ہاتھوں سے اس طاقت سے دور کیا کہ وہ سفید پھول کے سارے گلدستے روڈ پر جا گرے۔سگنل پر ہری بتی جل چکی تھی اور برہان نے اپنی گاڑی ایک بار پھر بھگانا شروع کردی۔
’’خدا تیری مشکل آسان کرے۔‘‘وہ کم عمر لڑکا اپنے اٹھاتے ہوئے اسے دعائیں دینے لگا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

بس عشق ہو — کشاف اقبال (حصّہ اوّل)

Read Next

آدھی روٹی — محمد طاہر رفیق

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!