بس عشق ہو — کشاف اقبال (دوسرا اور آخری حصّہ)

وہ لوگ سمندر کنارے پہنچ چکے تھے۔فلم کا دوسرا اور اس دن کا آخری شوٹ وہیں ہونا تھا۔وہ شام کا وقت تھا۔کیمرا، لائٹس ،کاسٹیومز،سب کچھ تیار تھا۔
سین کی ڈیمانڈ کے مطابق حیال اور برہان کو ساحل پر بٹھا دیا تھا۔ایک دوسرے کے بہت قریب۔گیت شروع کیا جا چکا تھا۔
تو موسم ہے کوئی خوشنما
تو روح ہے کوئی جاوداں
کوئی شکوہ نہ شکایت مجھے
رب نے دونوں جہاں دے دیے
برہان سمندر کنارے بیٹھا حیال کی ہتھیلی کو چومنے لگا،اس کی زلفوں کو کان کے پیچھے اڑسنے لگا۔
جائے جہاں تک یہ نظر
پائے تجھے ہی بس ادھر
چاہے ہو کیسا بھی سفر
بن کے تو رہنا ہم سفر
دونوں ایک دوسرے کے گلے سے جا لگے۔ممتحنہ کی آنکھوں سے دو بوند آنسو بے ساختہ بہ نکلے۔
ہاتھوں پہ میرے ہے لکھی
تو جس طرح سے زندگی
میں نے ہے سانسیں اب سبھی
کر دیں تجھی پہ آفریں
حیال برہان کے ماتھے کو چومنے لگی اور برداشت کی ساری حدیں اب ختم ہو چکی تھیں۔
وہ جو ابھی تک ایک ہدایت کار، کوریو گرافر اور نمیر علی کے ساتھ بیٹھی اپنے منگیتر کو ایک غیر لڑکی کے ساتھ رومانی گیت پر رومانس کرتا دیکھ رہی تھی،وہاں سے اٹھ کر تھوڑا دور جانے لگی،برہان اور حیال کی نظروں سے بہت دور۔





گیت اپنے آخری مراحل پر تھا۔وہ اٹھ کر وہاں سے جانے ہی لگی کہ اس کے سیدھے پاؤں کے تلوے پر سمندری ریت پر پڑی کانٹے دھار ٹہنی کی دھار چبھ گئی جو ایک بار اس کے تلوے سے لگی تو چمٹی رہی۔ وہ ایک پاؤں کے سہارے کھڑی تھی،دوسرا پاؤں زمین پر رکھتی تو کانٹے نما دھار اندر گھس جاتی۔وہ چلانے لگی پر اتنا زور سے نہیں کہ برہان کو آواز سنائی دے۔
اس کی چیخ بھی بناوٹ سے پاک تھی۔اس کے چلانے پر نمیر ،جو اس کے قریب ہی تھا اس کے پاس آ گیا اور فوراً اس کے پیر سے وہ کانٹے نما دھار نکالنے لگا۔
برہان کی نظر ممتحنہ پر پڑی جس کی شکل صاف بیان کر رہی تھی کہ وہ تکلیف میں ہے۔ آنکھیںچھوٹی ہو گئی تھیں اور ہونٹ دانت تلے دب گئے تھے۔ وہ شوٹ کو بیچ میں ادھورا چھوڑتا اس کے پاس دوڑتا ہوا آ گیا۔ برہان کے بھاگنے سے پہلے حیال کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں تھا اور جیسے ہی برہان نے اپنی منگیتر کو تکلیف میں دیکھا، تب اس نے کچھ اور دیکھنا ضروری نہ سمجھا ،نہ فلم کا شوٹ، نہ گیت، نہ اداکاری۔ حیال اسے اپنے پاس سے جاتا دیکھ،دیکھتی ہی رہ گئی۔
’’کیا ہوا ممتحنہ،تم ٹھیک تو ہو؟‘‘وہ نمیر کو اس کے پاس سے ہٹا کر اسے سہارا دینے لگا۔
’’اتنا بڑا حادثہ نہیں ہوا تھا کہ آپ شوٹ ادھورا چھوڑا کر میرے پاس دوڑتے ہو ئے آ جائیں۔‘‘ کانٹا چبھنے کی وجہ سے اس سے صحیح طرح چلا نہیں جا رہا تھا۔ وہ برہان کے رحم و کرم پر تھی۔
’’حادثہ چھوٹا ہو یا بڑا ،تمہارے ساتھ ہو تو میرے لیے بہت ہی بڑا ہو گا۔‘‘وہ اسے سہار ا دے کر بٹھانے لگااور اسپاٹ بوائے سے فرسٹ ایڈ بکس منگوا کر اس کے تلوے پر مرہم لگانے لگا۔
’’جتنی خدمت کروانی ہے کروا لو، پر جب میں برہان کی خدمت کرنے لگوں گی،تب تمہاری خدمت کرنے کے لیے تمہارے پاس ہر کوئی ہو گا، بس برہان نہیں ہوگا۔‘‘وہ ممتحنہ کو شاطر نظروں سے دیکھنے لگی۔
’’میں بالکل ٹھیک ہوںبرہان ۔پلیز آپ اپنا شوٹ جاری رکھیں۔‘‘ممتحنہ کے لاکھ منتیں کرنے پر برہان مانتے ہی بن پڑااور جو گیت ادھورا چھوڑا تھا اسے مکمل کیا۔
٭…٭…٭
’’مجھے اسے تمہارے ساتھ دیکھ کر بالکل اچھا نہیں لگا۔‘‘وہ برہان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر واپس جا رہی تھی کہ برہان اس سے گویا ہوا۔
’’میں آپ کی وجہ سے پوزیسسو ہو سکتی ہوں تو کیا آپ میری وجہ سے نہیں ہو سکتے؟‘‘وہ اس کی محبت کا امتحان لینے لگی۔
’’تو اب بدلہ لو گی؟‘‘وہ اسے گھورنے لگا۔
’’بدلہ تو نفرت میں لیا جاتا ہے،محبت میں تو امتحان لیا جاتا ہے۔‘‘وہ بھی اسے گھورنے لگی۔
’’تو کس بات کا امتحان لے رہی تھیں وہاں؟میرے صبر کا؟‘‘اس نے گاڑی کی رفتار تھوڑی تیز کر دی۔
’’جی بالکل! جس طرح میں نے آپ کو اور حیال کو ساتھ دیکھ کر صبر کیا اسی طرح چاہتی تھی کہ آپ کا بھی صبر دیکھوں۔‘‘وہ اسے گاڑی کی رفتار تیز کرتا دیکھ کر مسکرانے لگی۔
’’تمہارا صبر تو لاجواب رہا پر میرا صبر جواب دے گیا ممتحنہ۔‘‘فی الحال گاڑی کا پٹرول جواب دے رہا تھا، لہٰذا اس نے گاڑی کا رُخ پٹرول پمپ کی جانب موڑ دیا۔
’’بس، یہی کہنا چاہ رہی تھی آپ سے کہ جس طرح آ پ کا صبر جواب دے سکتا ہے اس طرح میرا بھی دے سکتا ہے۔‘‘وہ اپنے پرس سے پانی کی بوتل نکال کر پانی پینے لگی۔
’’میں نے کہا تھا نا تم سے،کسی بھی سین کو دل پر مت لینا؟‘‘وہ اسے کچھ باتیں یاد دلانے لگا۔پٹرول بھرا جا چکا تھا۔
’’دل پر نہ لینے کا حق کیا صرف مجھے ہی ہے؟آپ کے کھاتے میں بھی یہ حق اسی شدت کے ساتھ لکھا گیا ہے جس طرح کہ میرے۔‘‘وہ بھی اسے کچھ باتیں یاد دلانے لگی۔
’’ممتحنہ جہاں میں تھا وہاں ایکٹنگ ہو رہی تھی پر جہاں تم تھی وہاں سب رئیل تھا۔‘‘پمپ سے نکلتے ہی گاڑی کی رفتار اور تیز ہو گئی اور ممتحنہ اندر ہی اندر ہنسنے لگی۔
’’غلط! ایکٹنگ تو وہاں بھی چل رہی تھی جہاں میں تھی، نمیر علی کی۔‘‘وہ جو بہت دیر سے ایک بات دل میں بٹھائے تھی،بالآخر زبان پر لے ہی آئی۔
’’کیا مطلب؟نمیر علی کی ایکٹنگ؟‘‘وہ بوکھلا گیا۔
’’مطلب یہ کہ حیال نے نمیر علی کو مہرہ بنایا ہے ہم دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کے لیے۔اب پلیز اس بات کی تفصیلات پوچھنے مت بیٹھ جائیے گا۔میں یہ بات یقین کے ساتھ کہہ رہی ہوں۔‘‘وہ حیال کا منصوبہ اچھی طرح سمجھ چکی تھی۔
’’جو بھی ہے،بس مجھے اس کا تمہارے ساتھ باتیں کرنا، ہنسنا مسکرانا،پاؤں سے کانٹا نکالنا اچھا نہیں لگا۔‘‘گاڑی کی رفتار رفتہ رفتہ کم ہونے لگی۔
’’میری زندگی میں چاہے کتنے ہی نمیر کیوں نہ آئیں،میں صرف آپ ہی کو چاہوں گی۔‘‘ممتحنہ کے یقین دلاتے ہی برہان نے اپنا دوسرا ہاتھ اس کے ہاتھوں پر مضبوطی سے رکھ دیا۔
’’ایک بات کہوں؟محبت میں جب درمیان میں دیوار آ جائے تو اسے گرایا نہیں جاتا،خاطر میں نہ لاتے اسے پھلانگا جاتا ہے۔چاہے حیال ہو یا نمیر،ہم خاطر میں ہی نہیں لائیں گے۔‘‘وہ اس کے ہاتھ چومنے لگا۔
٭…٭…٭
وہ گھر پہنچی تو آٹھ بج چکے تھے۔عنایہ بیگم ہمیشہ کی طرح آٹھ بجتے ہی ٹی وی کے آگے بیٹھ گئیں۔
’’امی۔آج میری خاطر ٹی وی کو سائیڈ پر رکھ دیں۔‘‘
سلام دعا کرنے کے بعد وہ عنایہ بیگم کے برابر آبیٹھی۔حارث ابھی تک آفس سے نہیں آیا تھا۔موقع اچھا تھا عنایہ بیگم سے بات کرنے کا۔
’’میری جان کیا ہو ا ہے؟‘‘ممتحنہ کے کہتے ہی عنایہ بیگم نے ریموٹ کا لال بٹن دبایا اور اپنی بیٹی کے لیے پریشان ہو گئیں۔
’’خیریت نہیں ہے امی۔وہ ہمارے بیچ آ گئی ہے،اب اسے کیسے دور کروں یہ میری سمجھ میں نہیں آ رہا۔‘‘وہ عنایہ بیگم کے گلے لگ کر اپنی محبت کی موجودہ صورت حال کا اظہار کرنے لگی۔
’’کون آگئی بیچ میں مجھے بتاؤ۔میں ضرور تمہاری مدد کروں گی۔‘‘وہ اس کے آنسو پونچھتے پونچھتے اس سے تمام تر تفصیلات پوچھنے لگیں۔
سننے کے بعد وہ واقعی پریشان ہو گئیں۔
’’میں نے تم سے کہا تھا نا کہ برہان کو شوبز میں مزید کام کرنے کی اجازت نہ دیتی،پر تم نے دی۔اب بھگتو۔‘‘عنایہ بیگم بہت غصہ ہوئیں۔
’’بھگت ہی رہی ہوں۔’ہاں تو کر ہی دی تھی میں نے،اب فوراً ’نا‘ کہہ کر ان کے دل میں بال نہیں آنے دے سکتی۔‘‘اسے اپنی کی گئی غلطی پر پچھتاوا ہونے لگا۔
’’اگر وہ پہلے اس سے محبت کرتی تھی تو اب یہ تمہار ے لیے نقصان دہ ہے۔‘‘عنایہ بیگم جانتی تھیں کہ ان کی صاحبزادی کتنی سادہ اور معصوم ہے،اس لیے وہ اپنی بیٹی کو دلاسا دینے کے بجائے اسے محبت میں مضبوط بنانا چاہ رہی تھیں۔
’’جانتی ہوں،میں کیا کروں اب؟‘‘وہ عنایہ بیگم کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے ہوئی تھی۔
’’ممتحنہ بیٹا ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا۔عورت اگر کسی کو اپنا بنالے تو اسے کبھی کسی اور کا ہونے نہیں دیتی اور اگر کسی سے محبت کر لے تو پھر اسے اپنا کر کے ہی رہتی ہے۔‘‘وہ مشورے دینے سے پہلے اسے آنے والے طوفان سے آگاہ کرنے لگیں۔
’’تو پھر یہاں جنگ دو عورتوں کی ہے،وہ اگر اسے اپنا بنا کر رہے گی تو میں بھی اسے اس کا نہیں ہونے دوں گی۔‘‘ممتحنہ کے اندر سچی محبت کا جذبہ دیکھ کر عنایہ بیگم کو خوشی ہوئی۔
’’شاباش! اور برہان کو اپنا بنا کر رکھنے کی اور کسی اور کا نہ ہونے دینے کے لیے تمہیں روز برہان کی نظر میں اس کے آس پاس رہنا ہوگا اس لیے تم روز اس کے ساتھ شوٹ پر جایا کرو گی۔‘‘وہ اپنی بیٹی کو اس کی منگنی اور اس سے بھی کہیں زیادہ اہم اس کی محبت کا تحفظ کرنے کا مشورہ دینے لگیں۔
’’ہونہہ…پر…ابو سے کیسے اجازت مانگوں گی؟مجھ سے اجازت نہیں مانگی جائے گی امی۔‘‘
حارث بھلے بہت اچھا باپ تھا پر وہ اپنے ابو کے نام سے بھی ڈرتی تھی اور وہ ڈر عزت کا دوسرا نام تھا۔
’’اس کی تم فکر مت کرو۔جب میں تمہارے ابو کو تمہارا معاملہ بتاؤں گی تو وہ خود وہی مشورہ دیں گے جو میں نے تمہیں دیا۔‘‘ وہ اپنی بیٹی کو اپنے شوہر کے خیالات سے آگاہ کرنے لگیں۔
’’اور ایک بات یاد رکھنا میری جان،جیت ہمیشہ سچی محبت کی نہیں ہوتی،کچھ کہانیاں ادھوری بھی رہ جاتی ہیں اور ان کہانیوں کے ادھورا رہنے کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ حریف بہت طاقتور ہوتا ہے اور ہم اپنی محبت کو بس اس دعا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں کہ ہماری محبت تو سچی ہے،امر ہو جائے گی۔ہاتھ پیر چلانے پڑتے ہیں،لڑنا پڑتا ہے،جان دینا پڑتی ہے،تب جا کر کہیں یہ داستان مکمل ہوتی ہے۔‘‘محبت کی ادھوری کہانی اور مکمل کہانی کی تشریح بیان کرنے والی وہ عنایہ بیگم تھیں۔
’’امی،آپ کا بہت شکریہ،مجھے مشورہ دینے اور انجام سے آگاہ کرنے کا بھی۔آئی لو یو۔‘‘وہ اپنی امی کو بوسہ دینے لگی۔
’’اب تم بھی ٹی وی دیکھ لو، تھک گئی ہو گی، جاؤ فریش ہو کر آ جاؤ۔‘‘عنایہ بیگم سے اس کی ذہنی تھکن نہ دیکھی گئی۔
٭…٭…٭
’’ کل ایک بہت بڑا شوٹ ہے ہمارے لیے۔‘‘حیال نے گھر پہنچتے ہی اسکرپٹ کو تھوڑا بہت پڑھنے کے بعد نمیر علی کو فون کیا۔
’’اچھا! وہ کیسے؟‘‘نمیر کے کردار کی انٹری فلم میں کچھ وقت کے بعد کی تھی اس لیے وہ اسکرپٹ کے ابتدائی سین سے ناواقف تھا۔
’’وہ ایسے کہ کل شوٹنگ پر آگ لگنے والا سین ہے اور یقینا مصنوعی آگ کا استعمال کیا جائے گا۔‘‘وہ کچھ سوچ بچار کرنے لگی۔
’’تو؟‘‘نمیر کو تجسس ہوا۔
’’تو یہ کہ اب یہ تمہارے اوپر ہے کہ تم اس نقلی آگ کوکیسے اصلی آگ میں تبدیل کرتے ہو۔یہ کام کر کے تم مجھے نہال کر دو گے اور میں تمہیں۔بس کچھ بھی کر کے تمہیں میرا یہ کام کرنا ہے،سمجھ گئے؟‘‘
اسے بس یہی سمجھ آیا کہ اس نے نقلی آگ کی جگہ اصلی آگ لگانی ہے باقی وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہا کہ اصلی آگ کا استعمال ہوگا کس پر۔
’’کام ہو جائے گا!‘‘وہ اسے یقین دلانے کے بعد فون بند کرنے ہی لگا تھا کہ حیال گویا ہوئی۔
’’ تمہارا یہ کام کرنے کے بعد تمہیں ایک بڑا پراجیکٹ کچھ اس طرح ملے گا جیسے تمہاری کوئی نیکی کا صلہ ہو۔‘‘اس نے آخر تک اسے لالچ دکھائی تا کہ وہ دل لگا کر اپنا کام کر سکے۔
’’ویسے بڑی ہی کوئی بے مروت قسم کی عورت ہے۔مجھے بڑے پراجیکٹس مل جائیں پھر میں تو اس کے منہ بھی نہیں لگوں گا۔کیا کرتے ہو تم نمیر،اتنی شاطر عورت کے فین بننے چلے۔‘‘فون رکھتے ہی نمیر اس سنگ دل عورت کو گالیاں دینے لگا۔
٭…٭…٭
’’صحیح مشورہ دیا تم نے اسے،ہمیں ہی اپنی بیٹی کو مضبوط بنانا ہو گا ورنہ زمانہ تو اتنا برا ہے کہ ہماری پھول جیسی بیٹی کو روند دے گا۔‘‘ عنایہ بیگم اپنے کمرے میں حارث کو اس روز ممتحنہ کے ساتھ ہونے والے تمام تر واقعات سے آگاہ کرنے لگیں۔
’’میں بھی یہی سوچتی ہوں ۔اسے روز برہان کے ساتھ جانا چاہیے اور رہی بات اس کی حفاظت کی تو یقینا برہان اس فرض سے پوری طرح واقف ہے۔‘‘ عنایہ بیگم اپنی بات ختم کر کے حارث کو چائے لینے کا اشارہ کرنے لگیں جو سائیڈ ٹیبل پر کافی دیر پہلے سے رکھی تھی۔
’’میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب میں روز آپ کے ساتھ شوٹنگ پر جایا کروں گی۔‘‘عشا کی نماز ادا کرنے کے بعد اس کے موبائل پر برہان کا فون آیا۔
’’اتنی بڑی خوش خبری اتنے عام سے انداز میں سنا رہی ہو؟یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ میرا آئینہ میرے ساتھ رہے گا۔‘‘ممتحنہ کے منہ سے یہ خوش کن خبر سنتے ہی اس کا دل باغ باغ ہو گیا۔
’’ہونہہ… نظر تو رکھنا پڑتی ہے۔‘‘اسے اپنی امی کی کہی باتیں یاد آنے لگیں۔
’’اب مجھ پر نظر رکھو گی؟‘‘برہان سنجیدہ ہو گیا۔
’’نظر اس پر رکھی جاتی ہے جو آپ کی نظروں سے اوجھل ہو پر آپ کی تو رہائش ہی میری نظروں میں ہے۔‘‘برہان کی سنجیدگی مسکراہٹ میں بدل گئی۔
’’میں اس پر نظر رکھوں گی۔‘‘ممتحنہ کے ذہن پر حیال پوری طرح سوار ہو چکی تھی۔
’’تم اسے مجھ سے زیادہ اہمیت دینے لگی ہو۔‘‘وہ اس پر طنز کرنے لگا۔
’’نہ چاہتے ہوئے بھی محبت ایسی صورت حال پیدا کر دیتی ہے کہ محبوب سے زیادہ محبوب پر نظر رکھنے والے کو اہمیت دینا پڑتی ہے۔‘‘ ممتحنہ نے جب سے حیال کی آنکھوں میں برہان کو پانے کی خواہش دیکھی تھی،اسے اس سے نفرت ہونے لگی تھی۔
’’وہ کیا بگاڑ لے گی ہمارا جب ہمیں کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔‘‘وہ اسے سمجھانے کی کوشش کرنے لگا کہ حیال ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔
’’اس کی حرکتیں یہی بتا رہی تھیں کہ وہ بہت کچھ بگاڑ سکتی ہے۔اوہ جب وہ ہمارا سب کچھ بگاڑ دے گی تب ہمیں احساس ہوگا کہ ہمیں اب تک فرق کہیں نہیں پڑا۔‘‘و ہ اسے فرق نہ پڑنے کا انجام بتانے لگی۔
’’ہونہہ۔آج مجھے بھی اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ وہ مجھ میں بہت پہلے ہی سے دل چسپی لیا کرتی تھی۔تمہاری کہی باتوں پر بہت غورو فکر کیا پھر اس کے ساتھ گزارے گئے اب تک کے لمحات کے بارے میں،تب جا کر مجھے اندازہ ہوا کہ وہ مجھ میں دل چسپی ہی نہیں،مجھ سے یک طرفہ محبت کرتی تھی۔‘‘ وہ اسے اپنے شبہات اور اعتماد سے آگاہ کرنے لگا۔
’’سچی محبت میں امتحانات ضرور ہوتے ہیں برہان۔میں ہمیشہ یہی سوچتی رہتی تھی کہ اگر ہماری محبت سچی ہے تو اب تک امتحانات کا شکار کیوں نہیں ہوئی۔وہ تو بھلا ہو حیال طاہر کا ،کم از کم اس کے ہمارے درمیان آنے پر مجھے اس بات پر تو یقین ہوا کہ ہماری محبت واقعی سچی ہے۔‘‘
اس سے پہلے کہ برہان کوئی تلخ بات کرتا ،اس نے اپنی بات جاری رکھی۔
’’یقین پہلے بھی تھا پر بار بار یہی خیال آتا تھا کہ محبت سچی ہے تو امتحانات کا شکار کیوں نہ ہوئی۔‘‘حیال کا ان کے درمیان آنے پر کچھ تو فائدہ ہوا تھا۔
’’وہ مجھے تم سے چھیننے کی بہت کوشش کرے گی۔‘‘برہان کو وہ سینے سے لگنے والا سین یاد آ گیا۔
’’جی بالکل! صرف کوشش ہی کر سکتی ہے وہ۔‘‘وہ ہنسنے لگی۔
’’تو پھر کل چل رہی ہو نا میرے ساتھ اس کی ایک اور کوشش دیکھنے؟‘‘اسے ممتحنہ کا اپنی محبت کے تحفظ کے لیے قدم اٹھانا اچھا لگا۔
’’جی چلوں گی،اس کی ایک اور ناکام کوشش کا نظارہ کرنے۔‘‘ وہ دونوں قہقہے مارنے لگے۔
٭…٭…٭
وہ برہان سے بات کرتے کرتے ہی سو گئی تھی۔اس کی آنکھ پھر فجر کے وقت کھلی۔ اس نے وضو کیا اور دوپٹا سر کے گرد باندھنے کے بعد نماز ادا کرنے لگی۔
وہ ڈر آج بھی اس کے آس پاس رہا۔محبت کا فرض سے قضا ہوجانے کا ڈر۔پر اب اس ڈر کی شدت پچھلے دنوں سے کم تھی۔پہلے وہ ڈراسے ڈراتا تھا پر اب اسے اس ڈر کے ساتھ نماز فجر کی عادت ہوگئی تھی۔
وہ نماز فجر ادا کرنے کے بعد سو گئی،اس کی آنکھ صبح آٹھ بجے کھلی۔وہ فریش ہوتے ہی کچن میں ناشتا بنانے آگئی۔
’’تو پھر تیار ہو جنگ کے لیے؟‘‘اس کو کچن میں آتا دیکھتے ہی عنایہ بیگم نے سوال کیا جو حار ث کے لیے ناشتا بنانے میں مصروف تھیں۔
’’تیار ہوں۔‘‘اب وہ فریج سے انڈا نکالنے لگی۔
’’آج شوٹ کتنے بجے ہے؟‘‘وہ ایک طرف حارث کے لیے پراٹھا بنا رہی تھیں تو دوسری طرف ممتحنہ کے آملیٹ کے لیے فرائی پین چڑھانے لگیں۔
’’شام کو ہے۔آج میں نرسری جاؤں گی پھر وہیں سے برہان پک کرلیں گے۔‘‘عنایہ بیگم نے اصرار کیا کہ اپنی بیٹی کا ناشتا خود بنا دیں گی پر ممتحنہ ان کے اصرار کو خاطر میں نہ لائی۔
’’چلو یہ اچھا ہے۔نرسری بھی ہو آؤ گی اسی بہانے۔‘‘وہ حارث کا ناشتا ٹیبل پر لے جانے لگیں۔
’’صبح بخیر میری گلابو۔کیسی ہے میری پھول سی بیٹی؟‘‘حارث صبح صبح اپنی بیٹی کی شکل دیکھتے ہی کھلکھلا سا جاتا۔
’’میں بالکل ٹھیک۔آپ بتائیں؟‘‘وہ اپنا ناشتا بھی حارث کے پاس لے آئی اور اپنے اور حارث کے لیے اپنے ہاتھوں کی بنی چائے بھی۔
’’تمہاری امی نے مجھے سب بتا دیا اور میں بھی وہی چاہتا ہوں جو تمہاری امی چاہتی ہیں۔‘‘ممتحنہ تو اپنی امی سے پوچھنا ہی بھول گئی تھی کہ اس کی صورت حال جاننے کے بعد ابو کے کیا تاثرات تھے۔
’’تھینک یو ابو۔بس آپ دعا کیجیے گا۔‘‘اس نے ناشتا کرنا شروع کر دیا۔
نرسری پہنچتے ہی ممتحنہ نے زارا کو سارا واقعہ سنا دیا جو اس کے ساتھ پیش آیا۔
’’مجھے تو حیال لگتی ہی ایسی تھی،دوسروں کے حق پر ڈاکا ڈالنے والی۔خیر،تمہارے امی ابو نے صحیح فیصلہ کیا،تمہیں زیادہ سے زیادہ برہان بھائی کی نظروں کے سامنے رہنا چاہیے خاص کر اس وقت جب و ہ شوٹ پر ہوں،حیال کے ساتھ۔‘‘گزرے ہوئے کل کا واقعہ سنتے ہی زارا اپنی سہیلی کے لیے پریشان ہوگئی۔
’’ہونہہ…‘‘وہ دونوں اس دن کے آرڈرز تیار کرنے کے لیے پھول چننے لگیں۔
دوپہر کا ڈیڑھ بج چکا تھا۔آج ممتحنہ کی گل کاری کی کلاس بھی تھی۔اس کے کہنے سے پہلے ہی زارا تمام آرڈرز لے کر نرسری سے چلی گئی۔
’’میں جا رہی ہو ں آرڈرز پہنچانے۔تم بے فکر ہو کر لیکچر دینا۔Will get back to you soon۔‘‘اور وہ چلی گئی۔
آج اسے گل اشنھ پر لیکچر دینا تھا۔وہ اپنے لیپ ٹاپ سے ضروری معلومات اکٹھا کرنے کے بعد لان میں گل اشنھ کے پودے سجانے چلی گئی۔
آج اس نے بے بی پنک رنگ کی کرتی زیب تن کی تھی۔بال پونی میں باندھ لیے اور اُن میں گلابی رنگ کا گل اشنھ لگا لیا اور لیکچر دینے کے لیے تیار ہو گئی۔
آج پھر ہلکی ہلکی بارش نے نرسری کا سما باندھ لیا تھا۔نرسری کے ہر پھول ہر پودے پر بارش کی بوندیں گرنا شروع ہو گئیں۔اسٹوڈنٹس آنے لگیں اور وہ چھتری ان کے حوالے کرنے لگی۔
’’منگنی ہو جانے پر بہت سی مبارک باد۔‘‘ جو جو اسٹوڈنٹ نرسری میں داخل ہوتی، ممتحنہ کو اس کی منگنی پر مبار ک باد دینے لگتی۔
’’صرف مس فلورسٹ کو ہی مبارک باد دی جائے گی؟‘‘برہان بھی نرسری آ پہنچا۔
’’آپ آج بھی آ گئے برہان؟‘‘برہان کے روز روز نرسری آنے پر وہ تنگ آ گئی تھی۔
’’تمہاری خوشبو لے آئی مجھے یہاں تک۔میں راستہ بھٹک گیا تھا،تمہاری خوشبو کا پیچھا کرتے کرتے یہاں تک آیا ہوں۔‘‘وہ بارش میں بھیگنے کے باعث چھینکنے لگا۔ممتحنہ نے فوراً اسے اپنی چھتری کی لپیٹ میں لے لیا۔
’’کسی شاعر نے کہا ہے کہ ’ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں،مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں اور میں تمہیں دیکھ کر اس شعر میں بس تھوڑی بہت تبدیلی کروں گا۔‘‘ ممتحنہ اپنے آس پاس اسٹوڈنٹس کو دیکھتی اس سے اپنی چھتری سمیت دور ہونے لگی پر اس نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔اب برہان کے سرپر ممتحنہ کی چھتری نہیں تھی پر اس کے ہاتھ میں ممتحنہ کا ہاتھ ضرور تھا۔
’’ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں۔‘‘ وہ اسٹوڈنٹس کی پروا کیے بغیر اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے برستی بارش میں اسے اپنے دل کے حال سے آگاہ کرنے لگا۔
’’آپ کی شاعری ختم ہو گئی؟اب میرا ہاتھ چھوڑنا پسند کریں گے؟‘‘تمام اسٹوڈنٹس ان کے درمیان محبت کو دیکھ کر محظوظ ہوئے جا رہی تھیں۔
’’جس شاعر کا خواب ہی تم ہو،اس کی شاعری کی کتاب کا کوئی اختتام ہو سکتاہے بھلا؟‘‘اس نے ممتحنہ کو شاعر کے خواب سے تشبیہ دینے کے بعد اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔
’’آ…آ…اچھوں۔‘‘اب کی بار وہ جان بوجھ کر چھینکے لگا۔
’’اب یہ چھتری آپ کے پاس نہیں آئے گی۔‘‘وہ سمجھ چکی تھی کہ وہ اسے اپنے پاس بلانے کے لیے چھینک رہا ہے۔
’’یہ لیجیے،گزارا کیجیے۔‘‘اس نے لیکچر شروع کرنے سے پہلے دوسری چھتری برہان کے حوالے کر دی۔وہ جانتی تھی کہ برہان کو صرف اس کی چھتری کا سہارا چاہیے،چناں چہ وہ اس پر طنز کرنے لگی۔
’’السلام و علیکم دوستو! آج میں آپ سے یہ ہرگز نہیں پوچھنے والی کہ آ ج کون سا پھول ہماری محفل کی شان بنے گا۔وہ اس لیے کیوں کہ میں جانتی ہوں اس کا نام آپ کو نہ انگریزی میں آتا ہوگا اور نہ اردو میں۔‘‘تمام اسٹوڈنٹس اپنے اردگرد سجے ہلکے جامنی رنگ کے پھولوں کو تکنے لگیں۔کچھ اس طرح جیسے وہ اس پھول کو پہلی بار دیکھ رہی ہوں۔برہان بھی ان میں شامل تھا۔
’’اس پھول کا شمار دنیا کے دس خوب صورت ترین اور رومانی پھولوں میں ہوتا ہے۔اسے ہم انگریزی میں کہتے ہیں آرکڈ(Orchid)اور اردو میں گل اشنھ۔‘‘سب کو انگریزی والا نام تو ہضم ہو گیا پر اردو والا نام کچھ عجیب سا لگا۔
’’واٹ؟‘‘ تین چار اسٹوڈنٹس نے اس پھول کا نام سنتے ہی سوال کیا۔
’’گل اشنھ۔الف،شین،نون، دو چشمی ھ۔‘‘برہان نے ان اسٹوڈنٹس کو اطمینان سے اس پھول کا نام بتایا۔ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ برہان کے سامنے ممتحنہ اپنا منہ کھولے اور وہ اس کی زبان سے نکلا ایک حرف بھی فراموش کر دے۔
’’ہونہہ۔‘‘برہان کے کہتے ہی سب کو اس پھول کا نام سمجھ آ گیا اور سب نے اپنی کاپی پر لکھ لیا۔ برہان کے منہ سے اس پھول کے صحیح ہجے سن کر وہ حیران رہ گئی اور اسے نظر بھر کر دیکھنے لگی۔
’’میں چاہتی ہوں کہ اب آپ لوگ ایک ایک گل اشنھ تو ڑ لیں۔‘‘سب اپنے پاس رکھے پودوں میں سے ایک گل اشنھ توڑنے لگے پر برہان،وہ اس کے پاس آ کر اس کے بالوں میں لگا گل اشنھ نکالنے لگا۔




Loading

Read Previous

بس عشق ہو — کشاف اقبال (حصّہ اوّل)

Read Next

آدھی روٹی — محمد طاہر رفیق

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!