بس عشق ہو — کشاف اقبال (دوسرا اور آخری حصّہ)

’’وہ مجھ سے دور جا رہی ہے پھوپھو۔اس کو کیسے یقین دلاؤں کہ حادثہ اس کے ساتھ ہوا ہے،ہماری محبت کے ساتھ نہیں۔مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ کچھ ہی دنوں میں مجھے پہچاننے سے بھی انکار کر دے گی۔‘‘ عنایہ بیگم اور حارث کے وہاں سے جاتے ہی برہان اندر آگیا۔
’’یقین تم نہیں،میں دلاؤں گی،اتنا یقین کر لو اپنی پھوپھو کی بات پر۔ اگر تم دونوں کی محبت پہلے سے اسٹرانگ تھی تو پھر یہ تو خوشخبری کی بات ہے۔ ٹریٹمنٹ کے بعد بھی تمہیں وہی ممتحنہ اپنی آنکھوں کے سامنے ملے گی ، جو حادثے سے پہلے تمہارے سامنے تھی۔‘‘وہ اپنے بھتیجے کو یقین دلانے لگیں کہ سب کچھ بالکل پہلے جیسا ہو جائے گا۔
’’اس کے دل میں میرے لیے وہ مقام پھر سے پیدا کردیں، آپ کو دل سے دعائیں دوں گا۔‘‘صرف ایک ہی دن گزرا تھا ممتحنہ کے چہرے پر سے مسکراہٹ کو غائب ہوئے پر برہان کو لگا کہ جیسے صدیاں بیت گئی ہوں۔ایک ایک پل صدیوں پر بھاری تھا۔
’’آج سے ہم دونوں سہیلیاں ہیں۔ ٹھیک؟‘‘ڈاکٹر فاخرہ، ممتحنہ کے آگے اپنا ہاتھ بڑھائے ہوئے تھیں۔ آج ممتحنہ کی پہلی نشست تھی۔
’’آپ جو کہیں گی وہ میں بن جاؤں گی بس آپ پلیز مجھے اس ٹراما سے باہر نکال دیں۔میں چڑچڑی رہتی ہوں،اپنے آپ کو بے کار سمجھنے لگی ہوں۔فوراً غصہ ہوجاتی ہوں،مجھے نیند نہیں آتی،پلیز کچھ کریں۔‘‘ممتحنہ نے ڈاکٹر فاخرہ سے ہاتھ ملا لیا۔
’’So,we are friends, right?، اب تم مجھ سے کوئی بھی بات نہیں چھپاؤ گی،چاہے وہ ذاتی کیوں نہ ہو اور اگر تم نے مجھ سے کوئی بھی بات نہیں چھپائی تو میں تمہاری ساری پرابلمز سولو(Solve)کر دوں گی۔‘‘وہ ایک مخصوص سائی کائٹرک انداز کے ساتھ اس سے گفت گو کر رہی تھیں۔
’’ہونہہ۔‘‘ممتحنہ نے اپنا سر جھکا لیا۔
’’ویری گڈ۔اب مجھے یہ بتاؤ کہ وہ کون سی چیز ہے جو تمہیں سونے نہیں دیتی؟کوئی ایونٹ کوئی حادثہ؟‘‘اور اس کے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ لیے ہوئے بولیں۔
’’م…میری سادگی؟‘‘وہ اپنے جسم کے ہر گوشے پر نظر دوڑاتی ہوئی اپنی اس خوبی کو تلاش کرنے لگی جو اس کے جسم سے آزاد ہوچکی تھی ۔جب اسے وہ خوبی اپنے آپ میں کہیں نظر نہیں آئی،تو وہ رونے لگی۔
’‘دیکھو ممتحنہ، رونے سے تو کچھ حاصل نہیں ہونے والا،پر جو کچھ تمہیں ابھی حاصل ہے،وہ تمہارے رونے سے،تمہارے رویے سے مزید لاحاصل ضرور بن جائے گا۔ اس لیے،رونا تو ہرگز ٹھیک نہیں ہے؟‘‘اس کو روتا دیکھ کر ڈاکٹر فاخرہ نے اسے گلے سے نہیںلگایا بلکہ اسے مضبوط بننے دیا،خود کو سنبھالنے کا موقع دیا۔
’’ہونہہ۔‘‘
’’تو بتاؤ مجھے، اگر میں دن کی روشنی میں اپنے گھر میں اندھیرا کر دوں، تو کیا وہ رات کہلائے گی؟‘‘وہ اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگیں۔
’’ہرگز نہیں!‘‘ممتحنہ حاضر جواب رہی۔
’’اگر میں رات کے اندھیرے میں اپنے گھر کی ساری بتیاں جلاد وں، تو کیا وہ دن کہلائے گا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ممتحنہ نے بھی ان کی آنکھوں میں جھانکنا شروع کر دیا۔اسے ان کی آنکھوں میں اپنے لیے اپنائیت محسوس ہوئی۔
’’تو کیا اگر کوئی تمہاری سادگی تم سے چھین لے،زبردستی،تو کیا تم معصوم نہیں کہلاؤ گی؟‘‘
’’نہیں! میں معصوم کہلاؤں گی۔‘‘ ڈاکٹر فاخرہ کا ٹریٹمنٹ آہستہ آہستہ اپنے اثرات دکھانے لگا۔
’’تو پھر جب تم معصوم ہو، پھر اپنے آپ کو کسی کا گناہ گار کیوں ٹھہرا رہی ہو؟سادگی انسان کے اندر ہوتی ہے میری جان اور جسم کی عزت چلے جانے سے روح کی عزت نہیں چلی جاتی، جسم زندہ رہتا ہی روح کے زندہ رہنے کی وجہ سے ہے، توپھر تم کیوں جسم کے مرنے پر اپنی روح کو بھی مار رہی ہو؟اپنی روح کو جینے کا موقع دو،جسم خود اس ٹراما سے باہر نکل آئے گا۔‘‘انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں اور زیادہ نرمی پیدا کر دی تا کہ اس کا جسم نرم ہو سکے، اس کے رویے میں لچک آسکے۔
’’میں نے ساری دنیا سے اس سادگی کو چھپا کر رکھا تھا،صرف ان کے لیے۔ اب جب یہ سادگی ہی نہیں رہی تو میں بھی ان کا سامنا نہیں کرنا چاہتی۔ میں جی تو رہی ہوں،پر اب ان کے ساتھ جینا نہیں چاہتی۔ گناہ گار ہوں میں ان کی۔‘‘اس کا ہاتھ جو ابھی تک ڈاکٹر فاخرہ کے ہاتھ میں تھا، اس نے فوراً ہٹا لیا۔
’’اچھا ریلیکس!ہم نہیں کرتے فالتو باتیں۔کچھ اپنی باتیں کرتے ہیں، ٹھیک؟‘‘ممتحنہ کے رویے کو وائلنٹ ہوتا دیکھ کر ڈاکٹر فاخرہ نے دوبارہ سے ابتدائی اسٹیج پر جانے کا فیصلہ کیا۔
’’ہونہہ۔‘‘





کیا تمہارے ساتھ اس رو ز جو کچھ بھی ہوا ،اس میں تمہاری کہیں کوئی غلطی تھی؟ٹھیک طرح سوچ لو، پھر مجھے جواب دینا۔‘‘اب انہوں نے اپنا ہاتھ ممتحنہ کے بازو پر رکھ دیا۔
’’نہیں! وہ ایک حادثہ تھا اور میں نے تو اس حادثے سے بچنے کی بہت کوشش بھی کی تھی،پر میری کوئی غلطی نہیں تھی۔‘‘
’’کمال ہے ممتحنہ صاحبہ،کوئی غلطی بھی نہیں اور احساس ندامت ایسا کہ جس کی کوئی حد ہی نہیں۔تالیاں ہونی چاہئیں اس غلطی پر جو ہوئی ہی نہیں۔‘‘وہ اس پر طنز کرکے اس کو اس کی غلطی کا احسا س دلانے لگیں کہ وہ اس غلطی پر ماتم کرکے کتنا غلط کر رہی ہے جو اس نے کی ہی نہیں۔ممتحنہ جواب میں خاموش رہی اور اس کا خامو ش رہنا ڈاکٹر فاخرہ کو اس بات کی گواہی دے گیا کہ ٹریٹمنٹ کچھ حد تک کام یاب جا رہا ہے۔
’’اب اگر وہ واقعہ ذہن میں آیا تو روؤ گی؟چیخو گی؟یاد رکھنا! اگر ایسا کرو گی تو بہت بڑی بے وقوفی کرو گی۔تمہارے رونے سے،چیخنے سے،اسے کچھ فرق نہیں پڑے گا جس نے تمہارا یہ حال کیا پر انہیں ضرور فرق پڑے گا جو اپنا حال نہیں دیکھ رہے،صرف تمہیں صحت یاب دیکھنے کے لیے۔سنا ہے بڑی وفا دار بیٹی ہو،ماں باپ کی ہاں میں ہاں،نہ میں نہ ملاتی ہو،تو پھر کیوں کر رہی ہو ان کے ساتھ ایسا؟ماں باپ کا ذرا بھی خیال ذرا بھی عزت ہے تمہارے دل میں؟مجھے نہیں لگتا کہ ہے،اگر ایسا ہوتا تو تم اس واقعے کو یاد ہی نہیں کرتی اور اگر بدقسمتی سے وہ واقعہ تمہارے ذہن میں آبھی جاتا تو تم اسے فراموش کر دیتی،اسے خاطر میں ہی نہ لاتی۔کیوں سوار کر رہی ہو اس حادثے کو اپنے ذہن ودل پر؟ماں باپ کو تکلیفیں دینے کے لیے؟انہیں ہسپتا ل پہنچانے کے لیے؟‘‘اب وہ اسے ڈانٹنے لگی تھیں۔اس کے اندر ماں باپ کی عزت کا احسا س پیدا کرنے لگی تھیں۔
’’نہیں!کیوں کروں گی میں ان کے ساتھ ایسا؟‘‘اسے حارث اور عنایہ بیگم کی وہ قربانیاں یاد آنے لگیں جو انہوں نے اپنی بیٹی کے لیے دی تھیں۔اسے اچھا پڑھایا،اس کے شوق کو سر آنکھوں پر رکھ کر اس شوق کو پورا کرنے کے لیے امریکا پڑھنے بھیجا،اس کی پسند کی شادی کروائی،اس کی پسند کو ہمیشہ اپنی پسند سمجھا۔
’’تم کر رہی ہوایسا ممتحنہ ۔اس حادثے کو یاد کر کر کے تم اپنے ماں باپ کو دکھ دے رہی ہو،تکلیفیں دے رہی ہو،تم نے سوچا بھی…‘‘
’’نہیں کروں گی یاد! فراموش کر دوں گی اس حادثے کو اپنے ذہن و دل سے پر اپنے ماں باپ کو دکھ دینے کے بارے میں، میں سوچ بھی نہیں سکتی۔‘‘وہ رونے لگی اور ڈاکٹر فاخرہ پہلی نشست ہی میں کام یاب ہونے لگیں۔
٭…٭…٭
پندرہ دن گزر گئے۔ ڈاکٹر فاخرہ کے مطابق ممتحنہ کی اب صرف ایک نشست باقی تھی۔ ممتحنہ کی حالت بہت بہتر ہو چکی تھی۔اب اسے ڈر بالکل بھی نہیں لگتا تھا۔اسے نیند بھی پرسکون آنے لگی تھی۔ وہ اب چڑچڑی نہیں رہی تھی۔ڈاکٹر فاخرہ کے کیے گئے ٹریٹمنٹ اور بتائی گئی ایکسر سائز نے ممتحنہ کی حالت بہت بہتر کر دی تھی اور اب وہ ایک نارمل زندگی جینے لگی تھی۔
’’ممتحنہ بیٹا!برہان تم سے ملنے آیا ہے۔‘‘وہ دبئی کی ایک عمار ت کے بارہویں فلور کے ٹیرس پر کھڑی تھی کہ عنایہ بیگم نے اسے ایک بری خبر سنائی ۔
عنایہ بیگم اسے برہان کے آنے کی اطلاع دیتے ہی کچن کی طرف چلی گئیں۔ برہان جب اس کے کمرے میں آیا، تو وہ اسے کہیں نظر نہ آئی۔ وہ ٹیرس کی طرف گیا، تو دیکھا کہ وہ وہاں سے کودنے والی ہے۔ برہان نے اسے فوراً ہی اپنی جانب کھینچ لیا۔
’’تمہارا دماغ خراب ہے؟کیوں کر رہی ہو میرے ساتھ ایسا؟ساری قسمیں سارے وعدے سب بھول گئیں؟‘‘ممتحنہ کا رویہ بھلے سب کے ساتھ،اپنے ساتھ بہتر ہو گیا تھا پر برہان کے ساتھ وہ پہلے جیساتھا۔
’’آپ کیوں آئے ہیں یہاں؟کیوں روز آجاتے ہیں میرے سامنے؟نکاحی بیوی ہو ں اس لیے؟تو پھر قصہ ہی ختم کر دیں۔طلا ق دے دیں مجھے اور میری نظروں سے دور ہوجائیں۔گھٹن ہونے لگتی ہے جب آپ میرے پاس آتے ہیں۔‘‘برہان کے اسے اپنی جانب کھینچنے کے باعث وہ برہان کے بہت قریب تھی۔وہ اس کے دونوں بازو پوری قوت کے ساتھ پکڑے ہوا تھا۔
’’ط…طلا…طلاق؟ممتحنہ تم مجھ سے طلا…؟‘‘اس مرد کی آنکھوں میں اس وقت آنسو تھے۔ وہ جو اس پر غصہ کرنا بھی گناہ کبیرہ سمجھتا تھا،آج اسے کے منہ سے طلاق جیسا گھناؤنا لفظ سن رہا تھا۔
’’یہ تھا تمہارا عشق؟یہ تھی تمہاری قسم؟‘‘وہ اس کے منہ سے اپنے پوچھے گئے سوالات کا جواب سننا نہیں چاہتاتھا،نہ اسے وہ اپنے آنسو دکھانا چاہتاتھا جو اس کی آنکھوں سے زار و قطار بہ رہے تھے۔ اس نے تو اسے خو د سے دور کر دیا،اس کے بازوؤں پر سے اپنا ہاتھ ہٹا دیا۔وہ اس کے بازوؤں پر سے اپنا ہاتھ ہٹانے کے ساتھ ساتھ محبت پر سے اپنا ایمان اٹھانے لگا۔وہ اسے اس کے حال پر چھوڑتا ہوا وہاں سے چلا گیا،مگر اس کے آنسو،اس کے آنسو شاید ممتحنہ کے دل کو تر نہ کر سکے۔
’’آپ نے اسے دنیا والوں کے لیے تو ٹھیک کر دیا پر افسوس!میر ے حق میں کچھ بہتر نہ کر سکیں۔‘‘وہ ممتحنہ کے گھر سے نکلتے ہی اپنی پھوپھوکے گھر آ گیا۔
’’مگر میں نے ہار نہیں مانی ابھی۔ایک نشست اب بھی باقی ہے ڈئیر۔‘‘ڈاکٹر فاخرہ کے انداز سے صاف ظاہر تھا کہ وہ سب ٹھیک کرنے والی ہیں۔
’’میرا کوئی فائدہ نہیں ہوا اور نہ ہوگا ان نشستوں سے۔ وہ میرے ساتھ اب بھی ویسی ہی ہے اور اب تو مجھے دیکھنا بھی نہیں چاہتی۔میرا نام سنتے ہی اس نے سوسائیڈ اٹیمپٹ کی۔‘‘
سوسائیڈ والی بات نے ڈاکٹر فاخرہ کو صحیح معنوں میں حیران کر دیا۔
’’وہ سوسائیڈ بھی کر ے گی اور اس سب میں صرف تمہاری غلطی ہے برہان۔‘‘اب وہ مصنوعی خفگی کے ساتھ اسے ڈانٹنے لگیں۔
’’م…میری غلطی؟‘‘برہان کچھ نہ سمجھ سکا۔
’’سر پہ چڑھا رکھا ہے تم نے اسے۔روز اس کی آنکھوں کے سامنے رہتے ہو،اس کا چڑچڑا ہونا تو بنتا ہے۔ایک دن!بس ایک دن بلکہ ایک دن تو کیا کچھ گھنٹوں کے لیے اس کی آنکھوں کے سامنے رہتے ہوئے اس کی آنکھوں کے سامنے سے اوجھل ہو جاؤ پھر دیکھنا اس کی تڑپ،اس کی چیخ،اس کی محبت،اس کا عشق۔‘‘برہان اب بھی ان کی بات سمجھ نہ سکا۔
’’کیا کہنا چاہ رہی ہیں پھوپھو؟کھل کر بات کریں۔‘‘برہان کو ان کی شارٹ کٹ والی باتیں بالکل سمجھ نہ آئیں۔
’’اس کا تمہارے ساتھ رویہ درست اس لیے نہیں ہوا کیوں کہ ابھی تک میں نے اس سے تمہارے متعلق کوئی خاص بات ہی نہیں کی،شروع میں کرنا چاہی تھی پر وہ وائلنٹ ہو گئی تھی اس لیے میں رک گئی اور سوچنے لگی کہ پہلے وہ مسائل حل کر لیے جائیں جو آسانی سے ہو رہے ہیں۔‘‘برہان ان کی کہی باتیں سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔
’’وہ تم سے اب بھی عشق کرتی ہے برہان۔عشق وہ بلا ہے جو ایک بار پیچھے لگ جائے تو پھر کبھی پیچھا نہیں چھوڑتی اور اس عشق نے اس کا بھی پیچھا نہیں چھوڑا۔وہ بس تم سے چھپا رہی ہے،خود کو تمہارا گناہ گار جو سمجھتی ہے۔ہر نشست میں اس کا موضوع تم ہوتے ہو پھر ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ تم سے پیچھا چھڑانا چاہ رہی ہو۔وہ اپنے آپ سے بھاگنا چاہ رہی ہے تمہارے لیے۔بس اسے اس بات کا یقین دلانا ہے کہ وہ غلط کر رہی ہے اور یہ کام میں کل کروں گی۔ اس کی آخری نشست میں، بس اب میں جو جو پوچھتی جاؤں ،اس کا جواب مجھے دیتے رہنا۔‘‘وہ برہان کو یقین دلانے لگیں کہ انہوں نے ممتحنہ کو اس حد تک نارمل کر دیا ہے،اب وہ اپنا کام ادھورا نہیں چھوڑیں گی۔
٭…٭…٭
آج جب و ہ اپنی آخری نشست کے لیے ڈاکٹر فاخرہ کے کلینک گئی تو اس نے وہاں کچھ اور ہی ماحول دیکھا۔
’’بہت پسند ہیں نا پھول تمہیں؟فلورسٹ جو ہو۔‘‘ڈاکٹر فاخرہ پورا کمرا مختلف قسم کے پھولوں سے سجائے اس کی منتظر تھیں اور پھر وہی ہوا جو انہوں نے سوچا تھا،وہ کمرے میں داخل ہوتے ہی ان پھولوں کو جی بھر کر دیکھنے لگی جو کبھی اس کا سب کچھ ہوا کرتے تھے۔
’’بہت زیادہ۔‘‘اس کی نظر سب سے پہلے جامنی رنگ کے گل لہمی پر پڑی اور اس یادگار پھول پر صرف اس کی نظر کا پڑنا تھا کہ ماضی کی حسین یادوں میں کھو گئی۔
’’آر یو اوکے؟‘‘ڈاکٹر فاخرہ نے جان بوجھ کر اسے جھنجھوڑ کر ڈسٹرب کیا۔وہ برہان کے ذریعے ساری ضروری معلومات اکٹھا کر چکی تھیں۔
’’ج…جی۔‘‘ڈاکٹر فاخرہ کے جھنجھوڑنے پر وہ بوکھلا سی گئی۔
’’تمہیں کون سا پھول سب سے زیادہ پسند ہے؟بھئی مجھے تو گلاب ہی پسند ہے۔اس کی بات ہی کچھ اور ہے۔‘‘ڈاکٹر فاخرہ کا رویہ ممتحنہ کے ساتھ پوری طرح دوستانہ ہوگیا۔
’’پھول تو سارے اچھے ہوتے ہیں۔میں ایک پھول پر کسی دوسرے پھول کو فوقیت دے کر خدا کی قدرت کا دل نہیں دکھا سکتی،ہر پھول اپنے اندر کوئی نہ کوئی ایسی خوبی ضرور رکھتا ہے جو اسے دوسرے پھولوں سے جداکرے۔‘‘وہ ٹھہری پھولوں کی دل دادہ،اب اس کی ٹرین کہاں رکنے والی تھی۔
’’تو چلو ایک کھیل کھیلتے ہیں،میں کسی بھی پھول پر ہاتھ رکھوں گی ،تمہیں مجھے اس کا نام اور اس کی علامت بتانا ہوگی،ٹھیک؟‘‘ڈاکٹر فاخرہ کا ٹریٹمنٹ شروع ہو چکا تھا، پر اس کی نظریں ابھی تک اس جامنی گل لہمی پر تھیں۔
’’تو بتاؤ یہ کون سا پھول ہے؟وہ جس پھول کو جی بھر کر دیکھ رہی تھی،محسوس کر رہی تھی،ڈاکٹر فاخرہ نے ٹریٹمنٹ کی ابتدا اسی پھول سے کی۔
’’گل لہمی!اسے میں کیسے بھول سکتی ہوں،میں اُسے شاید بھو ل جاؤں پر اِسے کبھی نہیں بھلا پاؤں گی۔‘‘ وہ گل لہمی کی پنکھڑیوں کو چھو کر انہیں محسوس کرنے لگی۔




Loading

Read Previous

بس عشق ہو — کشاف اقبال (حصّہ اوّل)

Read Next

آدھی روٹی — محمد طاہر رفیق

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!