بس عشق ہو — کشاف اقبال (دوسرا اور آخری حصّہ)

’’پر ور کچھ نہیں،مجھے پتا ہے تم سوچ رہی ہو کہ لوگ میرے اور عنایہ کے بارے میں کیا کہیں گے، پر اگر ہم نے لوگوں کی پروا کرنے میں اپنا سارا وقت برباد کر دیا، تو اپنی بیٹی کی خوشی کی پروا کرنے کے لیے کیسے وقت نکال پائیں گے؟رہی بات ہماری عزت کی،تو مجھے اور عنایہ کو اندھا یقین ہے،اس پر تم کبھی آنچ نہیں آنے دو گی۔‘‘حارث نے اپنی گلابو کا ماتھا چوما۔
’’کل لینے آجا نا ممتحنہ کو۔‘‘برہان کو اجاز ت دینے کے بعد حارث نے فون ممتحنہ کے حوالے کیا۔
’’تھینک یو ابو۔‘‘وہ حارث کے گلے لگ گئی اور ان دونوں کو شب بخیر کہنے کے بعد اپنے کمرے میں آگئی۔
’’کیا ضرورت ہے مجھے ساتھ لے جانے کی؟‘‘کمرے میں آتے ہی وہ برہان کے سر پر سوار ہو گئی۔
’’ضرورت تو ہے،پر ڈر بھی لگ رہا ہے۔‘‘وہ لیپ ٹاپ بند کر کے بستر پر لیٹنے لگا۔
’’کیسا ڈر؟‘‘ممتحنہ کو اچنبھا ہوا۔
’’یہ کہ تمہیں دیکھ کر اگر میں ڈائیلاگز بھول گیا تو؟‘‘وہ ماتھے پر اپنا بازو رکھ کر اس سے باتیں کرنے لگا۔
’’تو پھر مت لے جائیں مجھے۔‘‘وہ طنز کرنے لگی۔
’’تمہیں ساتھ لے کر گیا، تو ڈائیلاگز بھول جاؤں گا اور اگر تمہیں ساتھ نہ لے کر گیا، تو اپنے آپ ہی کو بھول جاؤں گا۔ تمہیں دیکھ کر ہی تو یقین آتا ہے کہ ہاں! میں موجود ہوں۔‘‘وہ اسے بتانے لگا کہ اس کا ہونا اس کے لیے کتنا ضروری ہے۔
’’اب تم ہی بتاؤ۔جاؤں تو جاؤں کہاں؟‘‘ وہ چاند کی روشنی جو کھڑکی سے صاف نظر آ رہی تھی،دیکھتے ہوئے بولا۔
’’آپ استخارہ کر لیں۔‘‘ ممتحنہ نے اسے مشورہ دیا۔
’’اگر استخارہ کرلیا، تو اس کے جواب میں جو آئے گا وہی کرنا پڑے گا اور اگر استخارے کے جواب میں وہ آگیا جو میں نہیں چاہتا پھر کیا ہو گا ؟‘‘وہ استخارہ کرنے سے ڈرنے لگا۔
’’استخارے میں وہی آتا ہے جو ہمارے حق میں بہتر ہوتا ہے،آپ استخارہ کر لیں۔ جواب جو بھی ملے اسے اپنے اور میرے حق میں بہتر سمجھ کر قبول کر لیجیے گا۔‘‘ وہ اسے استخارے کی اہمیت بتانے لگی۔
’’ہونہہ۔ تو بتاؤ پھر، کیسے کرتے ہیں استخارہ؟ میں ابھی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘وہ تیار تھا اپنے رب کی رضا جاننے کے لیے۔
’’دو رکعت نفل نماز ادا کریں اور جب نماز میں التحیات میں بیٹھیں، درود شریف اور َربّ اجعَلنِی والی دعا پڑھنے کے بعد استخارے کی دعا پڑھ لیں اور سلام پھیرنے کے بعد دعا مانگ لیں۔‘‘وہ استخارے کا طریقہ بتانے لگی۔
’’پر مجھے استخارے کی دعا یاد نہیں تو نماز میں کیسے پڑھوں گا یہ دعا؟‘‘
’’کوئی بات نہیں، یہ دعا نماز کے بعد بھی پڑھی جا سکتی ہے،میں دعا بھیج دوں گی آپ کے موبائل پر۔استخارے کا جواب کسی خواب کی شکل میں آ سکتا ہے۔بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ خواب میں لال جھنڈی ہری جھنڈی دکھائی دیتی ہے،لال جھنڈی کا مطلب ’ناں‘اور سبز جھنڈی کا مطلب ’ہاں‘۔پر ایسا کچھ بھی نہیں،یہ دقیانوسی باتیں ہیں،آپ کو خواب سے خود پتا لگ جائے گا کہ ’ہاں‘یا’ناں‘۔استخارے کا جواب کسی بات کی شکل میں بھی آ سکتا ہے کہ آپ کا دل گوارا کرے کہ یہ چیز کرلو۔ابھی تو آپ کا دل بہت چاہ رہا ہے کہ مجھے ساتھ لے جائیں، پرہو سکتا ہے کہ استخارہ کرنے کے بعد معاملہ کچھ اور ہو جائے۔‘‘وہ اسے حقیقت سے آشنا کرنے لگی۔
’’اللہ نہ کرے۔‘‘ برہان نے بے ساختہ کہا۔
’’اور ہاں! جواب حالات کی شکل میں بھی آ سکتا ہے ۔مثلاً حالات سے پتا چل سکتا ہے کہ ایسا ہو رہا ہے یا ایسا نہیں ہو رہا۔‘‘وہ اسے استخارے کے بارے میں تمام ضروری تفصیلات سے آگاہ کر چکی تھی۔
’’ٹھیک ہے پھر، میں نماز ادا کرلوں، تم دعا بھیج کر سو جانا،تھک گئی ہو گی۔‘‘ اسے خدا حافظ کہنے کے بعد اس نے وضو کیا اور جائے نماز بچھا کر نماز ادا کرنے لگا۔
د و رکعت نفل نماز مکمل کرنے میں اسے پانچ منٹ لگے۔سلام پھیرنے کے بعد اس نے اپنا موبائل چیک کیا تو دس منٹ پہلے ہی ممتحنہ کا پیغام آ چکا تھا،دعائے استخارہ برہان تک پہنچ چکی تھی۔
کچھ دیر کے لیے تو وہ اس دعا کو دیکھتا ہی گیا۔پھر کچھ سوچ وبچار کے بعد وہ جائے نماز تہ کر کے اپنے بستر پر سونے کے لیے لیٹ گیا۔وہ جیسے ہی کمر سیدھی کر نے لگا، اس کے موبائل پر ممتحنہ کی کال آگئی۔
’’تم اب تک جاگ رہی ہو؟‘‘ممتحنہ کی کال دیکھ کر اسے حیرت ہوئی۔
’’جب میرا منگیتر پریشان ہو،تو اس کی پریشانی حل کیے بنا میں سو سکتی ہوں بھلا؟میں بھی یہاں آپ کے لیے دعا کر رہی تھی،تو بتائیں،استخارہ کر لیا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘وہ بس اتنا کہہ سکا۔
’’کیوں؟‘‘ممتحنہ کو حیرت ہوئی۔
’’میں تیار تھا۔ نماز کے بعد تمہارے بھیجے گئے پیغام کو دیر تک دیکھتا بھی گیا۔ پھر مجھے ڈر لگنے لگا کہ اگر استخارے میں وہ نہ آیا جو میں چاہتا ہوں پھر بے شک جو ہوتا ہمارے حق میں بہتر ہوتا پر میرے دل کے حق میں وہ بہتر نہ ہوتا۔‘‘
وہ دل کے ہاتھوں مجبور تھا۔محبت میں جب بھی ڈر لگتا ہے،بجا لگتا ہے۔محبت میں ڈر اور خوف کا لگنا ہرگز بے وجہ نہیں ہوتا۔
’’جیسے آپ کی مرضی۔‘‘وہ مسکرانے لگی۔
’’اب تم سو جاؤ۔کل چلنا بھی ہے میرے ساتھ۔نرسری کی چھٹی کر لینا کل،شب بخیر۔آئی لو یو۔‘‘
آئی لو یو کا جواب ’ٹو‘ کے ساتھ دیتی وہ سو گئی۔
٭…٭…٭





وہ فجر میں اُٹھی اور نماز کے بعد دوبارہ سو گئی۔پر سونے سے پہلے اسے ایک بار پھر وہی ڈر ستانے لگا جو ایک روز پہلے گزری فجر اسے ستا رہا تھا،محبت کا فرض سے قضا ہوجانے کا ڈر۔
’’یا اللہ یہ ڈر مجھے کیوں ستاتا ہے؟کیا وجہ ہے اس ڈر کے پیچھے؟‘‘وہ سہم گئی۔
’’کیا جب محبت ہوتی ہے تو ڈر بھی لگتا ہے؟اس طرف برہان کو بھی ڈر ہے اور اس طرف مجھے بھی۔‘‘ وہ مخاطب اپنے رب سے تھی پر جواب اسے اس کے ضمیر سے ملا۔
’’جہاں سے محبت شروع ہوتی ہے وہیں سے محبت کو کھو دینے کا ڈر بھی شروع ہو جاتا ہے۔ڈرو مت ممتحنہ! یہ ڈر سچی محبت کی علامت ہے ۔‘‘اسے اپنے ضمیر کے ذریعے موصول ہونے والے جواب پر تھوڑا بہت اطمینان ہوا اور وہ سو گئی۔
ممتحنہ کی آنکھ صبح نو بجے کھلی۔آج اس نے نرسری سے چھٹی کی تھی اور زارا کو گزشتہ رات ہی پیغام بھیج دیا تھا کہ آج وہ برہان کے ساتھ فلم کے سیٹ پر جائے گی اس لیے روز کے نرسری کے کام خود ہینڈل کر لے۔
وہ برہان کے ساتھ جانے کے لیے کپڑے نکالنے لگی۔لباس کا انتخاب کرتے ہوئے اسے ایک خیال آیا۔
’’اوہ… میں نے تو اب تک ان سے یہ بھی نہیں پوچھا کہ انہیں کون سا رنگ پسند ہے۔‘‘وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔وہ اس روز برہان کا پسندیدہ رنگ پہننا چاہتی تھی۔
وہ لباس کا انتخاب کرنے میں مصروف ہی تھی کہ برہان کا فون آگیا۔
’’ صبح بخیر۔ مجھے یاد کر رہی تھی؟‘‘ اس نے فون کرتے ہی ممتحنہ کی حالت کا اندازہ لگا لیا۔
’’وہ تو ہر وقت ہی کرتی ہوں۔اب تو آپ کی یادیں نمازوں میں آ کر میر ی عبادت میں بھی خلل ڈالنے لگی ہیں۔‘‘وہ ابھی تک کپڑوں میں الجھی ہوئی تھی۔
’’ہونہہ۔ یہ تو غلط ہے،پر مجھے یہ بتائیے کہ میری یادوں کا آپ کی نمازوں میں آنا میرا قصور ہے یا پھر آپ کا؟‘‘اس نے مزاحیہ اندا ز میں ایک سنجیدہ سوال پوچھا۔
’’محبت میں قصور کبھی یک طرفہ نہیں ہوتا،قصور وار آپ بھی اتنے ہی ہیں جتنی کہ میں۔‘‘کوئی رنگ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا، وہ تنگ آ کر بیٹھ گئی۔
’’چلیں مان لیتے ہیں آپ کی بات۔مرغوب کبھی مرعوب نہیں ہوتا۔‘‘وہ محبت میں تھا، محبوب کے ہر الزام پر سر تسلیم خم کرنے والا۔
’’چھوڑیں یہ سب باتیں،مجھے بتائیے کہ آپ کو کون سا رنگ پسندہے،جو آپ کو لگتا ہے کہ مجھ پر اچھا لگے گا؟‘‘ممتحنہ نے ساری باتیں پس پشت ڈال کر اپنا مسئلہ بیان کیا۔
’’تم کوئی بھی رنگ اوڑھ لو ممتحنہ، تم مجھے ہمیشہ ویسی ہی لگو گی جیسی پہلی نظر میں لگی تھی۔پرفیکٹ۔‘‘ وہ صبح صبح اپنی منگیتر کی تعریف کرنے لگا۔
’’تمہیں پتا ہے ممتحنہ! رنگوں کا کوئی دین ایمان،کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ پر جب وہ تمہاری جاگیر بن جاتے ہیں تو انہیں مذہب مل جاتا ہے،اک ایسا مذہب جسے میں سادگی کے نام سے جانتا ہوں۔‘‘ برہان نے اسے یقین دلایا کہ وہ جو بھی پہنے گی،اسے ہمیشہ اچھی لگے گی۔
’’ہونہہ۔ٹھیک ہے پھر میں تیار ہونے جا رہی ہوں۔‘‘
’’گیارہ بجے تک تیار رہنا، میں ٹھیک وقت پر پہنچ جاؤں گا۔‘‘
٭…٭…٭
برہان کے ساتھ ممتحنہ کو سیٹ پر دیکھ کر تو سب حیران ہی رہ گئے پر حیال کو تو جیسے پہلے سے اس بات کا علم تھا کہ ممتحنہ وہاں ضرور آئے گی۔ وہ ذرا بھی حیران نہ ہوئی پر ممتحنہ کو برہان کے اتنا قریب دیکھ کر جل رہی تھی، اندر ہی اندر راکھ ہو رہی تھی۔
’’ارے واہ! بھابی جی بھی آئی ہیں،خوش آمدید ۔آج تو برہان ندیم اپنے کیرئیر کی سب سے عمدہ پرفارمنس کا مظاہرہ کرنے والے ہیں،ان کی محبت جو ان کے ساتھ ہے۔‘‘ محمود علی ممتحنہ کو برہان کے ساتھ دیکھتے ہی اس کا استقبال دل و جان سے کرنے لگا۔
’’بہت شکریہ۔‘‘ممتحنہ، محمود علی سے ملنے کے بعد حیال کے پاس سلام دعا کے لیے چلی آئی۔
’’السلا و علیکم! کیسی ہیں آپ؟‘‘ حیال کے دل میں آیا کہ وہ اس کا گلا دبا دے پر اس نے ضبط کیا۔ اسے ضبط کرنا ہی تھا ورنہ اس کا منصوبہ کام یاب نہیں ہو سکتا تھا۔
’’وعلیکم السلام! ممتحنہ نام ہے نا تمہارا؟ بہت مبارک ہو ، میں نے حال ہی میں تمہاری اور برہان کی منگنی کی خبر سنی۔‘‘وہ ممتحنہ کے گلے لگ کر اسے رسمی مبارک باد دینے لگی۔
’’بہت شکریہ۔‘‘اور اب وہ نمیر علی سے سلام کرنے لگی۔
’’وعلیکم السلام۔ بھئی ماننا پڑے گا! برہان،تمہاری پسند تو واقعی ستائش کے قابل ہے۔ Congratulations on your engagement.‘‘ممتحنہ کی قدرتی خوب صورتی نمیر علی کو بھی متاثر کرنے سے نہ روک سکی۔
’’تھینکس۔‘‘اس نے بے دلی سے نمیر کو شکریہ کہا اور ممتحنہ کو اس سے تھوڑا دو ر لے جا کر بیٹھ گیا۔
’’اسکرپٹ ٹھیک طرح سے پڑھ لیں،پہلا سین رومانی ہوگا۔‘‘محمود علی میک اپ مین کو بلاتے ہوئے کاسٹ کو سین کے بارے میں آ گاہ کرنے لگا۔
’’شوٹنگ شروع ہونے سے پہلے ہی تم سے قسم کھا کر کہتا ہوں کہ شوٹنگ کے دوران جس طرز کا بھی سین ہوگا وہ محض اداکاری ہو گی۔تم پوزیسسو ہو جاتی ہو اسی لیے میں نے پہلے ہی قسم کھا لی۔‘‘وہ قسم کھا کر اس کو اپنی وفاؤں کا یقین دلانے لگا۔
’’یہ اچھا کام کیا آپ نے کہ خود ہی قسم کھا لی ورنہ میں قسم کھا کر خود کہنے لگی تھی کہ شوٹنگ پر جیسی طرز کا بھی سین ہو ،میں پوزیسسو ضرور ہوں گی پر دل پر کبھی نہیں لوں گی۔‘‘وہ بھی برہان کی طرح اپنی وفاؤں سے اسے روشناس کرنے لگی۔
’’میں نے تم سے کہا تھا نا کہ تمہیں میرا ایک کام کرنا ہوگا؟‘‘ حیال نمیر علی کو اس کے کام کے بارے میں بتانے لگی۔
’’جی جی بالکل۔ میں تو کب سے اسی انتظار میں ہوں کہ کب آپ مجھے حکم دیں اور کب میں اس کی تکمیل کروں۔‘‘وہ حیال کے منصوبے کو عمل میں لانے کے لیے پوری طرح مستعد تھا۔
’’برہان کی منگیتر دیکھ رہے ہو؟‘‘وہ دیکھ نمیر کو رہی تھی پر بات ممتحنہ کی کر رہی تھی۔
’’جی ۔ بہت ہی خوب صورت ہے۔‘‘وہ تعریف کیے بنا رہ نہ سکا۔
’’تم میرا کام کرو گے یا اس کی تعریف؟‘‘اب غور سے سنو۔ تمہیں برہان کی منگیتر کے ساتھ چکر چلانا ہے۔ہر وقت ،ہر لمحہ اس کے قریب رہنا ہے،اس سے باتیں کرنی ہیں۔‘‘وہ اس کی باتیں بڑے غور سے سننے لگا۔
’’جب بھی تمہارا کوئی سین نہ ہو، تم اس کے پاس رہو گے،اس سے خوب باتیں کرو گے،اس کی تعریفیں کرو گے ۔پر اسے یہ نہ لگے کہ تم ناٹک کر رہے ہو۔اچھے اداکار ہو تو ادکاری بھی اچھی ہونی چاہیے۔تمہاری اداکاری اچھی ہوئی تو ایوارڈ میں تمہیں بڑے بڑے پراجیکٹس بھی ملیں گے۔ سمجھے؟‘‘حیال کی آفر کردہ لالچ نے نمیر کو آسکر وننگ پرفارمنس دینے پر مجبو ر کر دیا۔
’’مجھے یقین ہے کہ اگر یہ آج آئی ہے تو روز آیا کرے گی۔آج میں اسے وہم میں جو مبتلا کر دوں گی۔‘‘ وہ اپنے ذہن میں سازشیں بننے لگی۔
٭…٭…٭
وہ سیٹ ڈیفنس کا ایک عالی شان بنگلہ تھا۔ماحول ایسا بنا دیا گیا تھا جیسے بہت رات ہو رہی ہو۔وہ سین بنگلے کے لان میں شوٹ ہو رہا تھا۔مصنوعی بارش کی آواز تھی اور اس کے ساتھ گرج چمک کی بھی۔اس دن کے بعد سے اسے گرج چمک کی آواز سے ڈر نہیں لگتاتھا جس دن سے برہان نے گرج چمک کے متعلق اس کا وہم دور کیا تھا۔
و ہ سین صرف برہان اور حیال کا تھا،لہٰذا نمیر کو موقع مل گیا منصوبے پر عمل کرنے کا۔سین کی ڈیمانڈ کے مطابق دونوں کو پوری طرح بھگو دیا گیا۔
’’آپ کیا کرتی ہیں مس ممتحنہ؟‘‘وہ ممتحنہ کے برابر آ بیٹھا۔ممتحنہ کو کچھ عجیب لگا۔
’’میں فلورسٹ ہوں۔‘‘وہ بس اتنا کہہ سکی۔
’’زبردست! فلورسٹ ہونا تو ہنر کا حصہ ہوتا ہے۔‘‘وہ اس کی تعریفیں کرنے لگا۔
’’جی اور ایکٹر ہونا بھی۔‘‘وہ اسے دیکھ کر اس انداز میں دیکھنے لگی جیسے اسے سمجھنے لگی ہو۔
’’ہونہہ۔ وہ تو ہے۔ویسے مجھے آپ کی سادگی نے بہت متاثر کیا۔آپ نے تو قدرتی حسن میں بڑی بڑی اداکاراؤں کو پیچھے چھوڑ دیا۔‘‘وہ حیال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا جو سین کے لیے تیار ہو رہی تھی۔
’’یہ بات آپ حیال صاحبہ کے سامنے کہہ سکتے ہیں؟‘‘وہ جانتی تھی کہ وہ ایک بڑے اداکار سے بات کر رہی ہے پر وہ یہ بھی جانتی تھی کہ وہ برہان ندیم کی منگیتر ہے۔
’’اگر کر دوں گا، تو شاید اس فلم سے نکالا جاؤں گا۔ان کے بارے میں اس انڈسٹری میں کوئی کچھ بھی کہنے کی ہمت نہیں رکھتا۔‘‘برہان جو سین کے لیے ریڈی ہو رہا تھا ،ترچھی نظروں سے نمیر کو ممتحنہ سے باتیں کرتے ہوئے دیکھنے لگا۔
’’برہان صاحب کے ساتھ آپ کا انٹریکشن کیسے ہوا؟میں بڑا ایکسائیٹڈ ہوں یہ جاننے کے لیے۔‘‘وہ برہان اور اس کے تعلقات کے بارے میں پوچھنے لگا۔
’’یہ معاملہ تو پبلک ہو گیا ہے،آپ اتنا پرجوش کیوں ہو رہے ہیں؟‘‘ وہ چڑ چڑا گئی۔
’’آئی ایم سوری اگر آپ کو برا لگا تو۔‘‘نمیر کے حساب سے حیال کا تیار کردہ منصوبہ بالکل بھی کام کرنے والا نہیں تھا۔ کیوں کہ اس کے خیال میں ممتحنہ کو نہ اپنی تعریف سننا پسند تھی نہ اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں بتانا،تو بات آگے کیسے بڑھتی۔
سین شروع ہو چکا تھا،ممتحنہ کو نمیر کے ساتھ بیٹھا دیکھنے کے بعد برہان نے بے دلی سے سین شروع کیا۔
’’بس ایک مہینے کی ہی تو بات ہے ثمرین،میٹنگ ختم کرتے ہی واپس آ جاؤں گا۔‘‘بارش بہت زور سے ہو رہی تھی۔
’’بات ایک مہینے کی نہیں،محبت کی ہے ارزان اور محبت میں محبوب کے بغیر ایک مہینہ رہنے کا مطلب جانتے ہیں؟‘‘ثمرین اور ارزان وہ دو کردار تھے جو حیال اور برہان نبھا رہے تھے۔
’’ میں محبت میں محبوب کے بغیر ایک مہینہ کیا ایک لمحہ بھی رہنے کا تصور نہیں کر سکتا پر یہ سب میں تمہارے لیے ہی تو کر رہا ہوں۔‘‘بارش کی ٹپ ٹپ کی آواز رومانیت میں اضافہ کر رہی تھی۔برہان کو براہ راست اداکاری کرتے دیکھنا اسے بہت اچھا لگ رہا تھا۔
’’ہمار ی محبت کے لیے بھی کچھ کر دیں ارزان۔مت جائیں، میں مر جاؤں گی۔‘‘ثمرین ارزان کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے آنسو بہا رہی تھی۔ان آنسوؤں اور بارش میں ایک چیز مشترک تھی کہ دونوں مصنوعی تھے۔
’’مت روکومجھے اس طرح،میں واقعی ارادہ بدل لوں گا۔‘‘وہ اس کے آنسوؤں کے آگے مجبور ہونے لگا۔
’’تو بدل لیں ارادہ،آپ کے بغیر جینا مرنے سے بدتر ہوگا۔موت بھی آ جائے گی اور جنازہ بھی نصیب نہ ہوگا۔‘‘وہ روتے روتے ارزان کے گھٹنوں پر جھک گئی۔
’’میرے برہان کو نظر نہ لگے کسی کی۔‘‘ممتحنہ کے دل سے اپنے منگیتر کے لیے دعائیں نکلنے لگیں۔
’’مت کیا کرو مرنے کی باتیں،محبت تو دلوں کو زندہ کرنے کا نام ہے ثمرین۔’’وہ اسے اپنے قدموں سے اٹھانے لگا۔
’’نہیں کروں گی مرنے کی باتیں،بس آپ نہ جا کر مجھے جینے کی ایک وجہ دے دیں۔‘‘اور وہ اس کے سینے سے جا لگی۔
’’کٹ۔‘‘محمود علی کے منہ سے ’کٹ‘ کے الفاظ بولے جا چکے تھے پر وہ برہان کے سینے سے لگی رہی۔یوں لگا کہ ’کٹ ‘ کے الفاظ صرف برہان نے ہی سنے ہوں۔
’’کتنی چھچھوری ہے یہ عورت۔ہٹو میرے برہان کے پاس سے۔‘‘ممتحنہ حیال کی اس حرکت کو دیکھ کر آگ بگولا ہو گئی۔وہ دل ہی دل میں اسے برہان سے دور ہونے کا کہنے لگی۔
’’حیال سین ختم ہوچکاہے۔‘‘برہان نے حیال کو بغیر ہاتھ لگائے کہا۔
’’اونہہ۔ آئی …آئی ایم سوری۔‘‘برہان کے کہنے پر اس کے حواس بحال ہوئے اور وہ اس سے دور ہو گئی۔
’’اٹس اوکے۔‘‘اٹس اوکے کہنے والا برہان نہیں،محمود علی تھا۔
’’واہ۔مزا آگیاتمہاری شکل دیکھ کر ممتحنہ ۔ابھی تو صرف ابتدا ہے ،جب معمول بن جائے گا تب برہان تمہارے لیے معمولی بن جائے گا۔‘‘وہ ممتحنہ کا جلا ہوا چہرہ دیکھ دیکھ کر محظوظ ہونے لگی۔
’’ویسے برہان اور حیال ایک ساتھ بہت اچھے لگتے ہیں۔کیوں؟اور یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی دونوں کو ایک ساتھ دیکھنا چاہتا ہے،پہلے ڈراموں میں اور اب فلموں میں بھی۔‘‘ممتحنہ کے اندر جلتی آگ پر تیل چھڑکنے والا نمیر علی تھا۔وہ اُس کی باتوں پر بہت مشکل سے ضبط کر گئی۔
’’اگلا سین رومانی گیت کا ہے،لنچ بریک کے بعد شوٹ ہوگا،سمندر کنارے۔‘‘ محمود علی ان لوگوں کو سین کے بارے میں آگاہ کرنے لگا۔
’’اچھا ہوا میں نے قسم نہیں کھائی،ٹوٹ جاتی تو؟‘‘ وہ اپنے آپ میں سوال کرنے لگی۔
’’کیسی رہی میری پرفارمنس؟‘‘برہان سین ختم کرتے ہی اپنی منگیتر کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ برہان کے پاس آتے ہی نمیر ممتحنہ سے دور جانے لگا۔
’’آپ کی رئیل(Real) لائف پرفارمنس کمال تھی پر حیال طاہر کی رئیل(Real)لائف پرفارمنس لاجواب رہی۔‘‘وہ دونوں باتیں کرتے کرتے لان کے دوسرے حصے کی طرف آ گئے۔باقی لوگوں سے تھوڑا دور۔
’’کیا مطلب؟‘‘ برہان کو کچھ سمجھ نہیں آیا۔
’’وہ آپ کو پانا چاہتی ہے برہان۔‘‘ممتحنہ نے دائیں بائیں دیکھتے ہوئے اپنے دل کی بات کہہ دی۔
’’تمہیں کیسے پتا؟‘‘برہان کو پہلے لوگوں کی باتوں پر یقین نہیں آتا تھا پر جب ممتحنہ نے اس سے یہ کہا کہ حیال اس میں دل چسپی لیتی ہے تو وہ اس معاملے پر غور و فکر کرنے پر مجبور ہو گیا ۔
’’اگر تم وہ سین والی بات کر رہی ہو تو تم غلط ہو،اس نے ‘کٹ‘ کی آواز نہیں سنی تھی۔‘‘وہ ممتحنہ کے ساتھ اندر ہی اندر خود کو بھی یقین دلانے لگا پر اسے اب بھی یقین نہیں آیا تھا کہ حیال اسے پسند کرتی ہے، ممتحنہ کی طرح۔
’’میں سین کی بات نہیں کر رہی۔جب وہ آپ کی آنکھوں میں دیکھتی ہے تب اس کی آنکھوں کی چمک بتاتی ہے کہ وہ آپ کو پانا چاہتی ہے۔‘‘وہ دونوں لان میں بچھی کرسیوں پر بیٹھ چکے تھے۔لنچ انہیں پیش کیا جا چکا تھا۔
’’تمہیں میرے ساتھ ساتھ اس کی بھی آنکھوں کو پڑھنے کا تجربہ ہو گیا ہے؟‘‘وہ ایک ہی پلیٹ میں اپنے اور اس کے لیے بریانی نکالنے لگا۔
’’تجربہ آنکھیں پڑھنے کا نہیں،آپ سے محبت کرنے کا ہوا ہے،پر آپ کی محبت نے مجھے اتنا تجربہ ضرور دے دیا ہے کہ میں دوسروں کی آنکھوں میں آپ کے متعلق خیالات پڑھ سکوں۔‘‘وہ بریانی ڈالتے ڈالتے رک سا گیا۔
’’وہ تو جل کر راکھ ہو گئی تھی،میں برہان کے سینے سے ایسا لگی کہ اس کے سینے سے تیر کی طرح آر پار ہو گئی۔‘‘وہ تزین کو فون کر کے اپنی خوشی کا اظہار کرنے لگی۔
’’ایسا کرنے سے کیا وہ تمہارا ہو جائے گا؟‘‘تزین اس کی سہیلی ضرور تھی ،پر اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں تھا کہ وہ اس کی غلط باتوں پر بھی حمایت کرے۔
’’وہ میرا کبھی نہیں ہوگا یہ میں جانتی ہوں پر میں اسے اس کا ہونے نہیں دوں گی،اتنا میں بتا دوں۔‘‘اس کا منصوبہ برہان کو اپنا نا نہیں ،ممتحنہ سے علیحدہ کرنا تھاکیوں کہ وہ اتنا ضرور جان گئی تھی کہ برہان کو ممتحنہ سے علیحدہ کرنے کے بعد بھی وہ اس کا کبھی نہیں ہوسکے گا۔
’’ہونہہ، تو کیا تم نے اس کی آنکھوں میں میرے لیے محبت دیکھی؟‘‘اس نے پلیٹ میں بریانی نکال کر بیچ میں رکھ دی۔
’’غلط کہا آپ نے۔میں نے آپ سے کہا ہے کہ میں نے اس کی آنکھوں میں آپ کو پانے کی خواہش دیکھی۔‘‘وہ برہان کے جملوں کو درست کرنے لگی۔
’’ہونہہ۔تو وہ مجھ سے محبت کرتی تھی۔محبت مل نہ سکی اس لیے چھیننا چاہتی ہے۔ Right?‘‘ وہ اپنی منگیتر کے سا تھ کھیلنا شروع ہو گیا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا ممتحنہ کی باتوں پر۔
’’جی! اور یہ بات ہمارے حق میں بہت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے برہان صاحب۔‘‘وہ اسے اپنے ہاتھوں سے بریانی کھلانے لگی۔
’’اگر خطرناک ثابت ہونا ہی ہے، تو صرف میرے یا تمہارے نہیں،ہمارے حق میں ہو تو ٹھیک ہے۔ تم نے کہا تھا نا، ساتھ ڈوبیں گے بھی تو پار بھی جائیں گے۔‘‘وہ ممتحنہ کو اس کے محبت میں کیے گئے دعوے یاد دلانے لگا۔
’’ڈوبنے سے بچا بھی تو جا سکتا ہے۔‘‘اب برہان اس کے منہ میں نوالا ڈالنے لگا۔
’’عشق کیا ہے،ڈوبنا تو پڑے گا۔‘‘وہ دونوں مسکرانے لگے۔
’’میری زندگی میں چاہے کتنی ہی حیال کیوں نہ آئیں،میری زندگی تم ہی رہو گی۔‘‘محبتوں میں ساتھ رہنے کا یقین دلاتے رہنا پڑتا ہے،ایسا کرنے سے ہمیشہ ساتھ رہنے کے آثار بھی زیادہ ہوتے ہیں۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

بس عشق ہو — کشاف اقبال (حصّہ اوّل)

Read Next

آدھی روٹی — محمد طاہر رفیق

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!