نوریہ کے ساتھ بہت بڑے مسئلے تھے۔ صبح فجر میں اس کی آنکھ ضرور کھلتی اور وہ کانوں پر تکیہ رکھ کر دوبارہ سو جاتی۔ ماشاءاللہ، انشاءاللہ،الحمد للہ اور بسم اللہ جیسے الفاظ بے اختیاراس کی زبان پر آجاتے۔ ظہر کے وقت وہ بلاارادہ باتھ روم میں وضو کرنے کھڑی ہو جاتی، پھر آدھا وضو کرنے کے بعد اسے احساس ہوتا کہ اسے تو نماز نہیں پڑھنی تھی پھر وضو کیوں؟ اسے تو خدا کی بندگی نہیں کرنی تھی جس نے کبھی اس کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ اسے تو شمس اور اس کے مذہب دونوں سے نفرت تھی اور اس کا احساس ناسٹی نے دلایا تھا۔ جو اس سے کہیں زیادہ بہادر اور بے خوف تھا۔ برملا خدا کی ذات پر طنز کیا کرتا اور اس کے پیدا کردہ نظام میں نقص نکالا کرتا تھا۔ نوریہ تو بس آنکھیں بند کرکے اس کے پیچھے چل رہی تھی، مگر اب جب ناسٹی نے بھی وہی راستہ اختیار کرلیا جسے شمس نے اپنا رکھا تھا تو نوریہ بیچ راستے میں کنفیوز ہوکر رک گئی تھی، اب کیا کرنا ہے؟ اسے نہیں معلوم تھا، کس کے پیچھے جانا ہے وہ نہیںجانتی تھی۔ اس کے لیے دونوں راستے جیسے بند ہوچکے تھے، نہ مسلمان رہی تھی نہ ملحد۔

اُسے شمس سے تو نفرت تھی ہی، ناسٹی پر بھی بہت غصہ چڑھنے لگا تھا۔ اس کی تمام عنایتیں ایک طرف اور یہ کارنامہ بالکل ایک طرف ہوگیا تھا کہ اس نے نوریہ کا عقیدہ بدل کر بیچ منجدھار میں چھوڑ دیا تھا۔ پتہ نہیں وہ پہلے صحیح تھا یا اب درست راہ پر ہے؟ پہلے سچا تھا یا اب؟

وہ بھی نوریہ کی طرح مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے کے بعد بغاوت کرکے دہریہ ہوا تھا اور اس میں آخری حد تک گیا تھا تو پھر واپسی کیسے ممکن ہوئی؟ اور سب سے بڑا سوال،کیوں؟ وہ پلٹ کیوں گیا؟ دوبارہ سے مسلمان ہوکر قرآن پڑھنا، عبادت کرنا، رو رو کر دعائیں مانگنا ان سب عبادات کا قبول ہونے پر یقین رکھنا۔اگراس کے لیے اتنا آسان تھا تو نوریہ کو اتنی مشکل کیوں پیش آرہی تھی۔

”اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اور فرشتوں نے عالموں نے انصاف سے قائم ہوکر،اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں عزت والا حکمت والا۔“                (سورئہ ال عمران ،آیت ۸۱)

نوریہ دروازہ کھول کر وہیں ٹھہر گئی، بازل اپنی ماں کو قرآن پڑھ کر سنا رہا تھا۔ پوری آیت سن کر نوریہ نے آہستہ سے دروازہ بندکردیا اور واپس اپنے کمرے کی جانب چل پڑی۔ بازل کی آواز بہت خوب صورت تھی۔ اس کا معمول تھا وہ ہر روز صبح ہال میں آکر خوش الحانی سے قرآن مجید پڑھا کرتا تھا، پھر اس کے بعد ترجمہ بھی۔ اکثر فجر میں آنکھ کھلنے کے بعد دوبارہ نیند نہ آنے پر نوریہ کمرے سے باہر نکل آتی تو اسے بازل کی قرا ¿ت سنائی دیتی اور اس کے قدم جیسے کسی زنجیر میں جکڑے جاتے۔وہ پوری تلاوت سنے بغیر وہاں سے ہل بھی نہیں پائی تھی۔ اب بھی کمرے میں واپس آتے ہوئے اس کے کانوں میں وہ آواز گونج رہی تھی۔

”اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔“

بازل نے سعدیہ کے سوجانے کے بعد نوریہ کے کمرے کا دروازہ آکر کھٹکھٹایا۔ کچھ سیکنڈز انتظار کرنے کے بعد وہ مایوس ہوکر پلٹ گیا۔ابھی چند قدم ہی چلا تھا کہ دروازہ کھل گیا، اس نے مُڑ کر دیکھا تو نوریہ سرخ آنکھوں کو ملتی ہوئی کہنے لگی۔

”آجاﺅ۔“ اس نے بازل کے لیے پٹ کھول دیا، بازل کمرے میں چلا آیا۔ بستر پر نوریہ کا موبائل اور سم کارڈ کھلا پڑا تھا۔

”مجھے صحیح سے آپریٹ کرنا نہیں آرہا تھا اس لیے مددلینے آئی تھی،مگر تم بزی تھے۔“بازل مسکرا دیا۔

”تم جب چاہو مجھے بلا سکتی ہو۔“ پھر اس نے بستر کی طرف اشارہ کیا۔

”بیٹھ جاﺅں؟“ نوریہ نے اثبات میں سر ہلایا۔ وہ اُس کی طرف دیکھنے سے مکمل احتراز برت رہی تھی اور بازل کو محسوس ہورہا تھا کہ وہ ابھی ابھی روئی ہے، مگر کیوں؟ اس نے سوچا شاید اس کی تلاوت سن کر، دل میں ہلکی سی امید کی کرن جاگی تھی۔ پھر بھی کچھ کہے بغیر اُس نے نوریہ کا موبائل کھول کر اُسے ساتھ ساتھ سب سمجھاتے ہوئے سم کارڈ ڈالا اور اس کا نمبر بتا دیا۔

”اچھا اب تمہاری کانٹیکٹ لسٹ بناتے ہیں، دیکھو۔“ اُس نے اپنا موبائل جیب سے نکالا اور اُس کے سامنے نوریہ کا نمبر اپنی لسٹ میں سیوکرنے لگا۔ نوریہ نے دیکھا کہ اس کا موبائل پرانے ماڈل کا تھا۔

”چلو میں نے تمہارا نمبر سیوکرلیا ہے۔“ اس نے اپنے فون کی چمکتی سکرین نوریہ کے سامنے کی۔ نوریہ نے دیکھا بازل نے اس کا نمبر ”سویٹ وائف“ کے نام سے سیو کیا تھا۔ اس کے ہونٹ بھینچ گئے۔ بازل نے اس کا فون اُس کے ہاتھ میں دے کر کہا۔

”چلو اب تم میرا نمبرسیوکرو، میں لکھواتا ہوں۔“ نوریہ خاموشی سے اس کا بتایا ہوا نمبر ٹائپ کرنے لگی۔ جب اس نے نمبر ڈال لیا تو بازل نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔

”اب تمہیں اپنے فون میں تو میرا نام لکھنا ہی پڑے گا۔ ویسے جب سے تم آئی ہو میرا نام نہیں لیا ہے تم نے، مگر یہاں بازل لکھ سکتی ہو۔ “ نوریہ نے غور سے اس کی طرف دیکھا اور کہا۔

”میں تمہیں ”ناسٹی“ کے نام سے جانتی ہوں، وہی لکھوں گی۔“

بازل کی مسکراہٹ یک دم غائب ہوئی اس کے چہرے پر تکلیف کے آثار نمودار ہوئے۔ نوریہ نے مذاق اڑایا۔ ”کیوں ؟بھول گئے تھے؟ مگر میں تمہیں بار بار یاد دلاﺅں گی کہ تم کیا کرچکے ہو۔“

”مجھے اذیت دے کر تمہیں کیا ملتا ہے نور؟ کب تک پرانی باتیں لے کر بیٹھی رہو گی۔“

”جب تک تم مجھے یہ نہیں بتا دیتے کہ تم نے آخر میرے ساتھ ایسا کیا کیوںہے؟“ وہ چیخی۔

”آہستہ بولو پلیز۔“ بازل نے اس سے التجا کی۔

”کوئی سن لے گا تو۔“

”تو کیا حرج ہے؟ جیسے ساری دنیا کے سامنے نمازیں پڑھ پڑھ کر دکھاتے ہو ویسے ہی انہیں یہ بھی سننے دو کہ تم ہی ”ناسٹی ملا“ ہو، جس نے خدا کی موجودگی سے انکار کیا تھا۔“

”پلیز نوریہ خاموش ہو جاﺅ۔“

”نہیں رہوں گی خاموش، تم اپنا اکاﺅنٹ ختم کرکے یہ سمجھتے ہو کہ تمہارے کرتوتوں کے سب ثبوت ختم ہو گئے ہیں۔ میں پوری دنیا کو دکھاﺅں گی تمہارے وہ میسجز، وہ پکچرز، تمہاری ساری گندی حرکتوں کے بارے میں بتاﺅں گی سب کو۔ تم آج یہاں بڑے پارسا بنے دن رات قرآن مجید پڑھتے ہو، جھوٹے انسان، کیا تم نے نہیں کہا تھا کہ ہر مذہب انسانی ذہن کی پیداوار ہے۔“ نوریہ اس پر تابڑ توڑ حملے کررہی تھی۔

”نہیں میں نے نہیں کہا تھا۔“

”جھوٹ مت بولو۔“ نوریہ نے آگے بڑھ کر چیختے ہوئے اسے زور سے جھنجھوڑا۔

”تم ہی نے کہا تھا قیامت کبھی نہیں آئے گی، تم ہی نے پیغمبروں کا نام لے کر ان کے اقوال کا مذاق اڑایا تھا،تم نے کہا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاکے بنانا جائز ہے۔“ بازل نے روتے ہوئے نور کے سامنے ہاتھ جوڑے۔

”بس کردو نور، میں نے کچھ نہیں کہا۔“ اس نے دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا لیا۔

”وہ میں نہیں تھا نور، میں نے ایسی گستاخی نہیں کی۔“

”تم ہی تھے۔“ نور بھی رو دی تھی۔

”تم ہی نے مجھے ایسے دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے جہاں میں کوئی فیصلہ کرنے کے قابل نہیں رہی۔ میں نے تمہاری وجہ سے اسلام چھوڑا اور تم نے۔“

”نہیں! “ بازل زور سے چیخا۔

”وہ میں نہیں مازن تھا، میرا بھائی تھا وہ۔“ اور نوریہ کو اپنی سماعت پر یقین نہیں آیا۔

٭….٭….٭

اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اُس کی توبہ قبول کرلی تھی بلکہ اس پر عنایتوں کی بارش بھی کردی تھی۔ وہ جڑواں بچوں کی ماں بننے والی تھی۔ اس خوش خبری نے سعدیہ کو اندر تک سرشار کردیا۔ خوش تو تیمور بھی ہوا تھا لیکن اس کی یہ خوشی وقتی ثابت ہوئی تھی۔ پہلے ہلکی پھلکی نصیحتوں کو دہراتی سعدیہ اب تحکمانہ انداز میں ”توبہ“ کا درس دیتی۔ اپنی مثال اس کے سامنے رکھنے لگی۔

”مجھے دیکھو تیمور! میں نے سچے دل سے معافی مانگی اور دین کے احکامات پر بلاچون وچرا عمل کرنا شروع کیا تو کیسا پیارا انعام دیااللہ تعالیٰ نے۔ اب تم بھی ہر برائی سے توبہ کرلو۔ اللہ تعالیٰ گناہوں پر شرم ساری کو پسند فرما کر اپنے بندے پر رحمتوں کی بارش کردیتا ہے تمہیں بھی بہت نوازے گا۔“مگر تیمور جھنجھلا جاتا۔

”میں ایسا کیا کررہا ہوں؟ چوری کرتا ہوں؟ ڈاکے ڈالے ہیں؟ یا کسی کا خون کردیا ہے؟ معافی کس چیز کی مانگتا پھروں؟“

”تم شراب پیتے ہو تیمور، اُم الخبائث ہے یہ، توبہ کرو آئندہ اسے ہاتھ نہیں لگاﺅ گے۔“ وہ بیوی نہیں استانی بن کر اسے ڈپٹ رہی تھی۔

”میں نے توبہ کرلی اب تمہاری باری ہے۔ تمہارے جیسا گناہ گار نہیں ہوں میں۔ آدھے کپڑے پہن کر ناچتا نہیں تھا سب کے سامنے۔“

”تیمور!“ سعدیہ کو یقین نہیں آرہا تھا۔ تیمور اس کی یوں توہین کرے گا مگر اب اس سے روز روز کی چخ چخ برداشت نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے سعدیہ کو سخت جواب دینا ضروری سمجھا،مگر سعدیہ بھی کچھ بھولی نہیں تھی۔

”میرا لباس آدھا اُترا یا پورا، تمہارے کہنے پہ کیا تھا میں نے سب کچھ۔ تمہیں خوش کرنے کے لیے، اپنا دین ایمان خراب کیا تمہارے لیے۔“

”اور اب میرا دماغ خراب کررہی ہو۔ جب دیکھو توبہ، توبہ، کی گردان لگی رہتی ہے۔“

وہ غصے میں اُٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔

”پاگل کرکے رکھ دیا ہے اس عورت نے۔“ تیمور شاید پیار محبت سے کچھ عرصے میں مائل ہونے لگتا اگر سعدیہ صبر کرلیتی مگر اپنے سخت رویے سے اس نے تیمور کے دل میں جاگزیں اپنی محبت کا خود ہی گلا گھونٹ ڈالا اور اسے احساس بھی نہیں ہوا۔ وہ تیمور سے الگ تھلگ رہنے لگی تاکہ اس کی دوری محسوس کرکے وہ اس کی بات ماننے پر مجبور ہو جائے مگر تیمور پر الٹا اثر ہوا۔ اس نے سعدیہ کی کمی محسوس تو کی مگر اظہار نہیں کیا اور پھر جب اسے محسوس ہوا کہ سعدیہ جان بوجھ کر اسے ستا رہی ہے تو اس نے سعدیہ کو سبق سکھانے کے لیے دوسری عورتوں سے راہ رسم بڑھانا شروع کردیے۔ بچوں کی پیدائش پر ”قصر تیمور“ میں بہت بڑا جشن منایا گیا۔ سعدیہ نے گھر کے اندر میلاد کی محفل سجائی اور قرآن پاک کا ختم دلایا لیکن جب اپنے مہمانوںکو لے کر وہ باہر لان میں ڈنر کرانے لائی تو تیمور کی تمام دوست لڑکیاں نیم عریاں لباس میں ادھر ادھر چلتی پھرتی نظر آئیں۔ جیسے تیسے کرکے دعوت کا اختتام ہوا، سعدیہ کو اس کی دین داری کے حوالے سے جاننے والے لوگ اس کے شوہر کی بے راہ روی کی داستانیں ہونٹوں پر لیے وہاں سے روانہ ہوئے تھے۔

اس رات سعدیہ اور تیمور میں بہت جھگڑا ہوا۔ جانے تیمور کس مٹی کا بنا ہوا تھا اسے اپنی کوئی غلطی نظر نہیں آرہی تھی۔ اس کا جواز بس یہی تھا کہ ہر ایک کا خوشی منانے کا طریقہ الگ ہوتا ہے، اگر اس نے سعدیہ کی خوشی کی خاطر محفل میلاد منعقد کرنے سے نہیں روکا تو اسے بھی تیمور کی پسند کا احترام کرنا چاہیے۔ سعدیہ کوئی عذر سننے کے لیے تیار نہیں تھی۔ سخت ناراضی میں وہ بچوں کو لے کر علیحدہ کمرے میں شفٹ ہوگئی۔ نہ صرف اتنا بلکہ اس نے نوکروں سے کہہ کر تیمور کے سامنے اپنے اور اس کے برتن علیحدہ کروا کر رکھ لیے۔ اس پر تیمور کا خون کھول اُٹھا وہ مسلسل اس کی تذلیل کیے جارہی تھی۔ اس کی خامیوں کو ”گناہ“ بنا کر سارے شہر میں اعلان کرتی پھر رہی تھی۔ اس کے اپنے ہی گھر میں رہتی، اس کے روپے پیسے پر عیش کرتی اسی کو جہنمی قرار دے رہی تھی۔ یہ تیمور کے لیے قابل برداشت نہیں تھا۔

اس نے بھی سعدیہ کو جلانے کے لیے دوبارہ سے گھر میں بار بنوایا۔ پہلے کی طرح شراب کی بوتلیں سجائی گئیں اور ویسی ہی محفلیں دوبارہ منعقد کرائی جانے لگیں جو شروع سے اس گھر میں ہورہی تھیں۔ پہلے کی طرح سعدیہ نے اسے روکنے کی کوشش کی تو تیمور نے اسے سب کے سامنے خوب بے عزت کیا۔ اس دن کے بعد سعدیہ تیمور کی جانب سے بالکل مایوس ہوگئی۔ وہ بھی ضد پر آیا تھا کہ جتنا سعدیہ اسے برا سمجھتی ہے وہ اس سے کہیں زیادہ برا بن کر دکھائے گا۔

٭….٭….٭

سعدیہ نے مازن اور بازل کی تربیت اسلامی روایات کے عین مطابق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی مگر ایک مشکل ہمیشہ آڑے آتی رہی اور وہ تھی تیمور کی مداخلت۔

تیمور اپنے بیٹوں کی محبت سے دست بردار نہیں ہوا تھا۔ وہ ایک بہت بُرا شوہر تھا اور بہت غلط انسان بھی، مگر باپ کی حیثیت سے اس نے اپنی طرف سے ہر ذمہ داری نبھانے کی پوری کوشش کی تھی۔ ان دونوں کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے وہ اکثر آفس سے جلدی گھر آجاتا اور ملازم کی مدد سے ان دونوں کو سعدیہ کے کمرے سے نکال کر اپنے کمرے میں لے جاتا۔ سعدیہ کو تیمور کی اس حرکت پر اتنا اعتراض نہیں ہوا تھا۔ پر جیسے ہی بازل اور مازن نے چلنا سیکھا وہ تیمور کے بلانے سے پہلے ہی اس کے کمرے میں پہنچ جاتے اور سعدیہ کے لاکھ بلانے پر بھی وہاں سے نکلتے نہیں تھے۔

مصیبت تب شروع ہوئی جب انہوں نے بولنا سیکھا۔سعدیہ ان کے سامنے کلمہ پڑھتی تو تیمور پوئمز گایا کرتا۔ معصوم بچے پوئمز اور کلمے کو گڈ مڈ کردیتے اور ماں کے غصے کا نشانہ بنتے۔ سعدیہ کو سمجھ نہیں آتا تھا کہ وہ بچوں کو تیمور کے پاس جانے سے کیسے روکے جو انہیں دین سے دور کرنے کا سبب بن رہا تھا۔

بہت سوچ کر اس نے تین سال کی عمر میں ہی ان کے لیے قاری صاحب کا بندوبست کردیا اور ان کے پڑھانے کا وقت طے کیا جب تیمور آفس میں ہوتا تھا۔ قاری صاحب پہلے تو پیار محبت سے بچوں کو نورانی قاعدہ پڑھانے کی کوشش کرتے رہے پھر ایک دن انہوں نے بھی ہاتھ اٹھا لیے۔

”بیگم صاحبہ آپ کے بچے ابھی بہت چھوٹے اور ناسمجھ ہیں۔ میں پڑھاتا ہوں تو قاعدے کی بے ادبی کرتے ہیں۔ اکثر زمین پر پھینک کر بھاگ جاتے ہیں، گناہ انہیں نہیں ہوگا مجھے ہوگا۔ آپ کچھ عرصہ انتظار کر لیجیے، جب یہ قاعدہ کی حرمت سمجھنے کے قابل ہو جائیں گے میں آکر پڑھا دیا کروں گا۔“ اتفاق سے تیمور اس دن جلدی گھر آیا اور مولوی صاحب کا عذر اپنے کانوں سے سن لیا، اس نے سعدیہ کے کچھ کہنے سے پہلے ہی ان کی ہاں میں ہاں ملا کر انہیں رخصت کردیا اور سعدیہ پر برس پڑا۔

”تم تو بالکل ہی پاگل ہوگئی ہو۔ ذرا دم تو لے لو، اتنے چھوٹے بچوں کو کیا بنانا چاہتی ہو تم؟“

”میں انہیں ایک اچھا مسلمان بنانا چاہتی ہوں، تم جیسا نہیں۔“ یہ کہہ کر وہ بچوں کو لے کر کمرے میں بند ہوگئی۔

اسی طرح کی لڑائی ان دونوں میں تب بھی ہوئی جب بچوں کو اسکول میں داخل کروانے کا موقع آیا۔

”میں انہیں کسی مدرسے میں تعلیم دلواﺅں گی تاکہ یہ حافظِ قرآن بنےں۔“ سعدیہ کا مو ¿قف سن کر تیمور نے طنزیہ کہا۔

”ہاں اور پھر بڑے ہوکر قاری مازن اور قاری بازل بن کر بچوں کو قرآن پڑھانے کے لیے جوتیاں چٹخاتے ان کے گھروں میں جائیں۔“سعدیہ کو حقیقتاً افسوس ہوا۔

”تیمور تم کبھی نہیں سمجھو گے کہ میں دراصل کیا چاہتی ہوں۔“ تیمور نے فی الفور جواب دیا۔

”تم صرف مجھے گناہ گاراوربھٹکا ہوا انسان ثابت کرنا چاہتی ہو۔ تم چاہتی ہو تمہارے بچے دنیا میں بھکاری بن کر جئیں۔ ان کے سر پر ٹوپی اور ہاتھ میں تسبیح ہو اور ساری دنیا انہیں پیروں تلے روند کر آگے نکل جائے۔“ وہ سخت تلملایا تھا۔

”کان کھول کر سن لو، میرے بچے اس شہر کی بہترین مونٹیسری میں جائیں گے اور اس کے بعد اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں ان کا داخلہ ہوگا۔ میں ان کا باپ ہوں، ان کی تعلیم و تربیت کیسے ہونی چاہیے اس کا فیصلہ میں کروں گا۔“

سعدیہ نے تیمور کو سمجھانے کے لیے اپنی ماں سے مدد مانگی تو وہ الٹا اسے ہی سمجھانے بیٹھ گئیں۔

”تم بہت شدت پسند ہو سعدیہ، ذرا میانہ روی سیکھو۔ تیمور ٹھیک کہہ رہا ہے۔ بچوں کو مونٹیسری بھیجو۔ آج کل صرف کرسچین مونٹیسریز ہی تو موجود نہیں۔ اکثر پرائیویٹ اسکولزمیںبھی اسلامی تعلیمات کے مطابق بچوں کو پڑھایا جاتا ہے۔ صبح قرآنی سورت اور دعائیں بھی پڑھائی جاتی ہیں اسمبلی میں۔“

”لیکن وہاں دینی تعلیمات کا وہ معیار نہیں ہوگا امی جو کسی مدرسے میں مل سکتا ہے۔“

”تو مدرسوں میں کون سا جامعة الازہر کا معیاری نصاب پڑھایا جارہا ہے۔بچوں کو ان کے دین کے بارے میں اہم معلومات تم گھر پر دے لیا کرنامگر انہیں بہترین دنیاوی تعلیم حاصل کرنے سے مت روکو، علم والے ہی اللہ کو پہچانتے ہیں اس لیے اسے حاصل کرنا فرض ہے۔“

”یہ کہاں لکھا ہے کہ اپنے بچوں کو صرف قرآن پاک پڑھاﺅ اور کچھ نہیں؟“ سعدیہ ماں کے سمجھانے پر مان گئی۔ وہ نہ بھی مانتی تو تیمور نے وہی کرنا تھا جو سوچ لیا تھا۔

٭….٭….٭

بازل اور مازن، مزاجاً ایک دوسرے سے بہت مختلف بچے ثابت ہورہے تھے۔ کم سنی سے ہی دونوں ہر کام مل کر کرتے مگر شکل مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی عادات بھی ایک دوسرے سے کافی الگ تھیں۔ سعدیہ نے محسوس کیا تھا کہ مازن قرآن پاک اور دیگر دعائیں بازل کے مقابلے میں زیادہ شوق سے پڑھتا اور یاد کرتا ہے جب کہ بازل ہر موقع پر پہلے سوال کرتا تھا کہ یہ پڑھنے سے کیا ہوگا؟ دعامانگوں گا تو اللہ تعالیٰ کیسے پوری کریں گے؟ جب سعدیہ اس سے کہتی اللہ ایک ہے، ایسے کہا کرو کہ وہ میری دعا سنے گا، بازل نے چند لمحے سوچا اور پھر اعتراض کیا تھا کہ”اللہ تعالیٰ مجھ سے بڑے ہیں ،میں ان سے اس طرح بات کروں گا تو وہ ناراض ہو جائیں گے۔“ غرض بازل کو کسی بھی کام پر آمادہ کرنے کے لیے سعدیہ کو بہت دماغ لڑانا پڑتا اور کافی بحث کرنی پڑتی تھی، جب کہ مازن کو جب کہو جیسا کہو وہ مان لیتا تھا۔ ایک اور بات جس سے سعدیہ بہت الجھتی تھی وہ بازل کا تیمور سے حد درجہ مانوس اور قریب ہونا تھا۔ وہ تیمور سے بہت پیار کرتا اور ہمیشہ اس کی آمد کا منتظر رہا کرتا تھا۔ مازن ماں سے زیادہ قریب تھا۔ شاید اس لیے بھی کہ قرآنی سبق جلد یاد کرلینے پر اسے ماں سے بہت شاباش ملا کرتی تھی جب کہ بازل زیادہ تر جھڑکیاں کھاتا رہتا تھا۔

٭….٭….٭



اتنے سال کوشش کرنے کے باوجود تیمور کے مزاج میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ سعدیہ کی کوشش ہوتی تھی کہ جب تیمور گھر پر ہو تو مے نوشی سے پرہیز کرے لیکن تیمور اس کی اجازت کا محتاج نہیں تھا۔ وہ جب چاہتا جہاں چاہتا اپنا شوق پورا کیا کرتا تھا۔

ایک رات سعدیہ بچوں کو سلا کر اپنے لیے پانی کا جگ لینے کمرے سے باہر نکلی تو سامنے لاﺅنج کی میز پر دھری شراب کی بوتلیں دیکھ کر اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ بجلی سی تیزی کے ساتھ وہ عین تیمور کے سر پر آکھڑی ہوئی جو مزے سے ٹی وی دیکھ رہا تھا۔

”اگر اپنا خیال نہیں ہے تو کم از کم اولاد کے بارے میں ہی سوچ لیا کرو، کیا اثر پڑے گا ان پر؟“

آدھی رات کو اگر سعدیہ نے اولاد کی تربیت پر لیکچر دینا ضروری سمجھاتو وہ بھی ہمیشہ کی طرح اپنی ڈھٹائی پر قائم سنی ان سنی کرتا پینے میں مصروف رہا۔ اس پر اثر نہ ہوتا دیکھ کر سعدیہ نے تلملا کر اس کے سامنے رکھی بوتل ہاتھ میں اٹھا لی۔

”کیا چاہتے ہو آخر تم کہ تمہارے بیٹے دودھ کے بہ جائے اسے پینا شروع کردیں؟“

تیمور کو ہنسی آگئی۔ آگے جھک کر اس نے اپنا گلاس میز پر رکھا اور کہا۔

”ویسے کوئی حرج بھی نہیں، چھے سال کے ہوچکے ہیں اب،دودھ کی ایسی خاص ضرورت تو نہیں انہیں۔“

”تو کیا اس کی ضرورت ہے؟“ سعدیہ نے اس کی بوتل آنکھوں کے سامنے لہرائی۔

”اوفوہ! کیا جاہل عورتوں کی طرح اس کی، اس کی بولے جارہی ہو؟ پڑھی لکھی ہو نام لیا کرو نا۔“ تیمور کافی دیر سے ڈھیلا ڈھالا ہوکر صوفے پر پیر پھیلا کر لیٹا تھا۔ پیار سے سعدیہ کی جانب ہاتھ بڑھا کر بولا۔

”اچھا آﺅ میرے پاس بیٹھو، کبھی تو پیار سے بات کیا کرو یار، یاد کرو ہم نے محبت کی شادی کی تھی۔“ وہ نشے میں تھا،سعدیہ نے دیکھا اور نفرت سے منہ پھیر لیا۔

”مجھے تمہارے پاس بیٹھنے کا کوئی شوق نہیں کیوں کہ تم اپنے علاوہ کسی سے محبت نہیں کرتے۔ اگر مجھ سے محبت ہوتی تو میری بات مانتے اور شراب پینا چھوڑ دیتے۔“

”تم بھی تو پیاکرتی تھیں میرے ساتھ، کیا بھول گئی ہو؟“ تیمور طنزیہ انداز میں بولا۔

سعدیہ تھرا اٹھی۔ ”میں توبہ کرچکی ہوں۔“

”ہونہہ! بڑی آئی مُلانی کہیں کی، توبہ کرچکی ہو تو ہاتھ بھی مت لگایا کرو، واپس دو میری بوتل۔“ وہ اُٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ سعدیہ نے فوراً بوتل اپنے پیچھے چھپائی۔

”نہیں دوں گی۔“

”کیسے نہیں دو گی، لاﺅ ادھر۔“ وہ غراتے ہوئے آگے بڑھا اور جھپٹ کر بوتل چھیننا چاہی۔ اسی دم سعدیہ نے ہاتھ میں پکڑی بوتل کو زور سے زمین پر دے مارا۔ کانچ کی بوتل چور چور ہوکر فرش پر بکھر گئی اور سیال مادہ ہلکے جھاگ کے ساتھ پھیلتا چلا گیا۔ تیمور نے گالیوں کی بوچھاڑ کرتے ہوئے سعدیہ کو مارنا پیٹنا شروع کردیا۔

یہ پہلا موقع تھا جب تیمور نے سعدیہ کو زدوکوب کیا۔ اس سے پہلے لاکھ جھگڑے ہوتے پر اس نے کبھی سعدیہ پر ہاتھ نہیں اُٹھایا تھا۔ آج نشے کی حالت میں اس نے سعدیہ کو مارا پیٹا تھا اور اس کے بعد ہر جھگڑے کا اختتام اسی طرح ہونے لگا۔ ماں باپ کے انتقال کے بعد سعدیہ کا بھائی بیوی بچوں کے ساتھ کینیڈا شفٹ ہوگیا تھا۔ یوں اس کے پاس ”قصر تیمور“ کو چھوڑ کر اور کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ وہ کوشش تو کرتی تھی کہ بچوں کے سامنے کوئی جھگڑا نہ ہو اور دعا کرتی رہتی تھی کہ تیمور اپنی مے نوشی کا شوق بھی ان کی غیرموجودگی میں پورا کرے۔ دونوں معصوم بچوں کو ہرگز اندازہ نہیں تھا کہ ان کی ماں ایک اچھی ماں بننے کے لیے کس کڑے امتحان سے گزر رہی ہے۔

٭….٭….٭

”آپ سگریٹ کیوں پیتی ہیں؟“ بازل جو کافی دیر سے فردوس کو کش پہ کش لگاتا دیکھ رہا تھا پوچھے بغیر نہ رہ سکا۔ فردوس نے حیران ہوکر اس کمسن لڑکے کی جانب دیکھا اور کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

”یہ جسم کو سمارٹ رکھتے ہیں،سمجھے؟“ اس نے چٹکی میں بازل کی ناک پکڑ کر دباتے ہوئے کہا۔ بازل بالکل بھی نہیں سمجھا تھا اس لیے فوراً نفی میں گردن ہلا دی۔ فردوس کے دھواں اڑاتے سگریٹ کے پاس کھڑے ہونے سے اسے ایک دم کھانسی آئی تھی۔ ڈائننگ ٹیبل پر دوپہر کا کھانا رکھتے ہوئے سعدیہ نے بے حد ناگواری سے فردوس کی جانب دیکھا۔

”پلیز، بچوں کے سامنے تو سگریٹ بجھا دیجیے۔“ سعدیہ کا لہجہ تلخ تھا۔ فردوس نے ٹھٹھک کر اسے دیکھا۔ وہ جب سے آئی تھی سعدیہ کے بگڑے تیور اسے احساس دلا رہے تھے کہ فردوس کا یہاں آنا اسے سخت ناگوار گزرا ہے۔ نہایت بے دلی سے وہ اپنا سگریٹ ایش ٹرے میں رگڑ کر بجھانے ہی والی تھی کہ تیمور ہاتھ دھوکر واپس آگیا اور اسے روک دیا۔

”ارے پیتی رہو بھئی، میرے گھر میں تمہیں ہر طرح کی آزادی ہے۔“ وہ اس کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ کر کھانا نکالنے لگا۔ فردوس نے ایک ادا سے اپنا سگریٹ لہراتے ہوئے نہایت مظلومیت سے کہا۔

”نہیں یار، تمہاری بیگم بُرا منارہی ہے۔“ تیمور کو غصہ آگیا۔

”وہ کون ہوتی ہے تمہیں روکنے والی؟ جو چاہتی ہو کرو۔“ مازن اور بازل سہم کر کبھی ماں تو کبھی باپ کی طرف دیکھنے لگے۔ بات بگڑتی دیکھ کر سعدیہ نے سختی سے ہونٹ بھینچ کر خود کو مزید کچھ کہنے سے روکا اور چپ چاپ بچوں کی پلیٹ میں کھانا نکالنے لگی۔ فردوس نے ہلکے پھلکے لہجے میں کہا۔ ”تمہارا بیٹا بھی پریشان ہورہا تھا کہ میں سگریٹ کیوں پیتی ہوں۔“ اس نے بازل کی جانب اشارہ کیا تو تیمور ہنس پڑا۔

”اوہ بازل، ہاں اسے عادت ہے سوال کرنے کی، نالج کے لیے پوچھ رہا ہوگا۔“ پھر وہ براہ راست بازل سے مخاطب ہوا۔

”بیٹا یہ سگریٹ آنٹی اسمارٹ رہنے کے لیے پیتی ہیں تاکہ تمہاری ماں کی طرح موٹی بھینس نہ ہو جائیں۔“ یہ کہہ کر تیمور نے زوردار قہقہہ لگایا۔ فردوس نے بھی ہاتھ پہ ہاتھ مار کر اس کے اس مزاح کو سراہا۔ سعدیہ اس توہین کو ضبط کرتی اپنے آنسو روک کر کچن کی طرف چلی گئی۔

تیمور کے غیر عورتوں سے تعلقات اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی۔ وہ فخریہ ان کا ذکر کرتا اور اکثر گھر پر ملانے کے لیے لایا کرتا تھا۔ شاید سعدیہ کو جلانے کے لیے تاکہ اسے پرانے ڈھب پر واپس جانے کے لیے مجبور کرسکے۔ بہرحال وہ ہر روز اسے یہ جتانا نہیں بھولتا تھا کہ سعدیہ میں اسے اب کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی اور اگر سعدیہ اپنے شوہر کی محبت کے بغیر رہ سکتی ہے تو اسے بھی اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے عورتوں کی کمی نہیں ہے۔

اور سعدیہ نے دیکھا کہ واقعی ایسی عورتوں کی کوئی کمی نہیں تھی۔ نہ جانے اسے اس قسم کی عورتیں کہاں سے مل جاتی تھیں۔ بہ ظاہر پڑھی لکھی سمجھ دار، لیکن عقل سے اتنی پیدل کہ ایک اُدھیڑ عمر، شادی شدہ، دو بچوں کے باپ سے افیئرچلاتے انہیں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی تھی۔ وہ اس کے شوہر کے ساتھ اس کے گھر آتیں۔ اس کے ہاتھ کا پکا کھانا کھاتیں،اس کے دونوں بچوں سے بھی دوستی کرلیتیں۔ پھر بھی ان میں اتنی حیا نہیں تھی کہ تیمور کا پیچھا چھوڑ کر کسی کنوارے کا گھر آباد کریں۔

سعدیہ نے سوچا اور تیمور سے دوٹوک بات بھی کی۔ وہ اس کی سوچ پر دیوانوں کی طرح ہنسنے لگا ۔

”اگر تم ناشکری ہو تو کیا دنیا کی باقی عورتیں بھی اندھی ہو جائیں؟“

پھر سنجیدگی سے بولا۔

”سچ کہتاہوں سعدیہ، ان دس بازاری عورتوں پر بھی اتنا خرچہ نہیں کرتا، نہ پروا کرتا ہوں۔جتنا کھلا پیسہ تم پر لٹایا اور جتنا پیار تم سے کیا،لیکن تم….“

سعدیہ نے نظریں چرا لیں، تیمور بے دردی سے ہنسا جیسے اپنا مذاق اُڑا رہا ہو۔

”تم نے مجھے ہمیشہ ذلیل کیا، خود سے کم تر سمجھا، اگر تم آج بھی اور میں قسم کھا کر کہتا ہوں آج بھی اگر تم پیار سے کہو میں تمہاری ہر بات ماننے کو تیار ہوں۔ بس، میری پہلی والی سعدیہ بن جاﺅ۔“ اور سعدیہ جو اس کے محبت بھرے انداز پر پگھلنے لگی تھی اس کی بات مکمل ہوتے ہی بپھر اٹھی۔

”تم مجھے پھر سے اُسی گناہ کے رستے پر چلانا چاہتے ہو تیمور جس سے میں پلٹ چکی ہوں۔ توبہ کرچکی ہوں، نہیں۔“ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔

”میں تمہاری کوئی شرط نہیں مانوں گی۔“

یہ کہہ کر وہ کمرے سے چلی گئی اور تیمور اسے اپنے دل سے نکلتا دیکھتا رہا۔

٭….٭….٭

فردوس کے چلے جانے کے بعد سعدیہ کی فکروں میں اضافہ ہوگیا تھا۔ تیمور کے کھلے عام گناہوں کا اشتہار لگانے سے بچے براہِ راست متاثر ہوتے۔ وہ بڑے ہورہے تھے اور ان کے سامنے ماں اور باپ دو مخالف سمتوں میں کھڑے ہوکر صرف اپنی سمت کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش میں ہلکان ہوئے جارہے تھے۔ یقینا تیمور کی سمت غلط تھی اور اس کا رستہ بھی لیکن معصوم بازل اور مازن کو وہ اس کا اثر قبول کرنے سے کیسے روکتی۔ وہ ضرور اس کا انداز اپناتے یہ سوچ کر کہ جب باپ اس طرح کرتا ہے تو ٹھیک ہی کرتا ہوگا۔

اب بھلا تیمور کو پرائی عورتوں سے بے تکلف ہوتے اور اپنی بیوی کی تذلیل کرتے دیکھ کر انہوں نے کیا سیکھنا تھا۔ حرام حلال کی جو تشریح سعدیہ نے بتائی تھی، اپنے ہی گھر میں اس سے الٹ ہوتا دیکھ کر وہ کیا فیصلہ کرتے؟ ابھی تو وہ ماں کی خفگی یا سزا سے ڈر کر بُرے کام سے رُک جائیں گے لیکن جوان ہوکر کیا وہ تیمور جیسے نہیں بن جائیں گے؟ یہ خیال آتے ہی وہ لرز اٹھی۔

”نہیں۔ میں ایسا نہیں ہونے دوں گی، میں گھر چھوڑ دوں گی، چلی جاﺅں گی یہاں سے، تیمور کا سایہ بھی میرے بچوں پر نہیں پڑنا چاہیے، کبھی نہیں۔“ اُس نے مصمم ارادہ کرلیا۔

”وہ کبھی اپنے باپ جیسے نہیں بنیں گے۔ وہ میرے بچے ہیں، میں انہیں صالح اور نیک بناﺅں گی۔“ بیوی کی حیثیت سے اس کے پاﺅں میں ہزار خوف کی بیڑیاں پڑی تھیںجنہیں ایک ماں کے حوصلے نے پل بھر میں توڑ ڈالا تھا۔

وہ فیصلہ کرچکی تھی کہ بازل اور مازن کو لے کر یہاں سے چلی جائے گی۔ بالکل یہی چاہا تھا اس نے، مگرایسا نہیں ہوسکا۔ اور جو ہوا، وہ اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

چکلے – ساحر لدھیانوی

Read Next

تو ہی تو کا عالم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!