بال روم کے ایک سرے پر ٹیبل سجی تھی جس پر وائن گلاسز بھرے رکھے تھے۔ فرحان جو مصری بادشاہ فرعون کا روپ دھارے ہوئے تھا۔ ہر گلاس میں ایک ایک ٹیبلٹ ڈالتا جارہا تھا۔ اُس نے یونہی مائیک اُٹھا کر ایک نظر ناچتے ہوئے ہجوم پر ڈالی اور چیخ اُٹھا۔

”ہم ہیں خدا آج کی رات!“ سب نے اُس کا کہا فقرہ دہرایا اور پھر سے ناچنے لگے۔ آج کی پارٹی کی تھیم ہی یہی تھی۔ زیادہ تر لڑکے ایسے گیٹ اپ میں تھے جو قدیم دور میں خدائی کا دعویٰ کرنے والوں کا ہوا کرتا تھا۔ باقیوں نے شیطان کے سینگ سر پر سجا رکھے تھے، ہیجانی راک میوزک اور نشے کی زیادتی ان سب کو پاگل کیے ہوئے تھی۔ فرحان نے تمام گلاسز میں ٹیبلٹ ڈالنے کے بعد باقی وہیں چھوڑ دیں اور ریڈ روم کے دروازے کی جانب دیکھا، وہ بے تابی سے مازن کا انتظار کررہا تھا۔

”ریڈ روم“ میں جابہ جا آئینے سجے تھے ۔دیواریں اور چھت سرخ رنگ سے پینٹ کی ہوئی تھیں۔ کمرے میں کوئی بلب نہیں تھا، یہاں روشنی کا انتظام خوشبو دار موم بتیوں کے ذریعے کیا گیا تھا۔ مازن کا لباس محض ایک گولڈن سکرٹ اور ٹاپ پر مشتمل تھا، جسے پہننے کے بعد وہ بقیہ تیاری کرنے آئینے کے سامنے آکھڑا ہوا۔ ڈریسنگ ٹیبل پر میک اپ کا تمام سامان موجود تھا۔ اُس نے کاجل اُٹھایا اور آنکھوں میں بھرنے لگا، اُسے قلوپطرا کی مانند نظر آنا چاہیے۔ ذہن میں اس فرعون ملکہ کی شبیہہ لاتے ہوئے وہ تیزی سے میک اپ مکمل کرنے لگا۔ اپنے کپڑوں کی طرح گولڈن آئی شیڈ پپوٹوں پر لگا کر اُس نے نقلی پلکیں چپکائیں،پھر اصلی پلکوں سے یک جان کرنے کے لیے مسکارے کی تہہ جمائی اور ہونٹوں پر سرخ انار رنگ لپ اسٹک لگاتے ہوئے گھڑی کی طرف دیکھا، گیارہ بج چکے تھے۔

”بال روم“ سے تیز میوزک کی آواز یہاں بھی پہنچ رہی تھی۔ مشہور سنگر جوڈتھ کا گیت ان کے احساسات کی بھرپور ترجمانی کررہا تھا۔ ہال میں جتنے لڑکے ناچ رہے تھے ان کا کوئی دین نہیں تھا اسی لیے اخلاقیات کا جنازہ نکال رہے تھے اور ہیجان جو مازن کے جسم میں برپا ہورہا تھا وہ صرف اور صرف اُس آزادی کے سبب تھا جو آج اُسے نصیب ہوئی تھی۔ اُس نے کبھی مڑ کر پیچھے نہ دیکھنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔

میوزک پر تھرکتے اُس نے انگڑائی لے کر عجب مستی کے ساتھ سیاہ ریشمی بالوں کی وِگ سر پر جماکر اُسے اچھی طرح سیٹ کرلیا اور آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر بھرپور مسکرایا۔ آدھے گھنٹے کی محنت کے بعد اب وہ مکمل مصری ملکہ قلوپطرا کے روپ میں ڈھل چکا تھا۔ پوائزن اپنی گردن اور بازوﺅں پر اچھی طرح سپرے کیا اور تیاری مکمل ہونے کا اطمینان کرکے سرعت سے مڑکر ’ریڈ روم‘ سے باہر نکل آیا۔

اُس کے برآمد ہوتے ہی تمام دوستوں نے بلند آواز میں نعرہ لگا کر اپنی خوشی کااظہار کیا۔ فرحان جو نہایت صبر سے اس کے باہر آنے کے انتظار میں کھڑا تھا،والہانہ انداز میں آگے بڑھا اور اُسے بازوﺅں میں بھرتے ہی وائن کا گلاس اُس کے ہونٹوں سے لگادیا۔ ایک ہی گھونٹ میں گلاس خالی کرنے کے بعد وہ فرحان کا ہاتھ تھام کر ناچتے کودتے ہجوم کا حصہ بن گیا۔ فرحان اُس کے ساتھ بے تکلف ہورہا تھا۔ مازن نے کوئی اعتراض نہیں کیا آخر کو اُس کا جوڑ فرحان کے ساتھ تھا اور مستقبل میں وہ اُسی کی شرائط پر عمل کرتا زندگی کی تمام سہولیات سے لطف اندوز ہوسکتا تھا۔ سو جیسے جیسے فرحان کہتا رہا وہ کرتا گیا۔

بارہ بجے کے قریب میوزک مدھم کردیا گیا، تیز روشنیاں بجھادی گئیں اور ہلکی لو دیتی موم بتیاں روشن ہوگئیں۔ بال روم میں موجود تمام لوگ آپس میں خوش گپیوں میں مصروف ہوگئے، مازن کو کافی دیر سے پیاس محسوس ہورہی تھی وہ سائڈ میں رکھی ٹیبل کے پاس جا پہنچا جہاں ڈرنکس رکھی تھیں۔ اُس کے سر میں ہلکا ہلکا درد ہورہا تھا۔ وائن گلاس اُٹھا کر سپ لیتے ہوئے اُس کی نظر ٹیبلٹس پر پڑی، یہ ہائی پوٹینسی کی پین کلرز تھیں۔ اُس نے پہلے ایک ٹیبلٹ نکالی پھر کچھ سوچ کر دو ٹیبلٹ وائن کے ساتھ نگل لیں، بارہ بج چکے تھے۔

بال روم کے تمام افراد اب اُس کام میں مصروف تھے جس کے لیے یہاں آئے تھے۔ فرحان سے بھی صبر نہیں ہورہا تھا، وہ مازن کے قریب آگیا اور اُس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ بٹھا لیا۔

٭….٭….٭

اُس بنگلے کے پاس پہنچی تو اُسے اپنے پیچھے پولیس کی دو گاڑیاں آتی دکھائی دیں، اُن کے پیچھے شرجیل کے والدین بھی ایک گاڑی میں آرہے تھے۔ پولیس وین بنگلے کے سامنے رکی اور سیکیورٹی گارڈز کوحکم دیا کہ اسلحہ پولیس اہلکاروں کے حوالے کر دیں۔ وہ ملازم تھے ،کوئی مزاحمت کیے بغیر اُنہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ یہ تسلی کرنے کے بعد کہ بنگلے میں کوئی اور سیکیورٹی گارڈ موجود نہیں،پورا گیٹ کھول کر پولیس وین اندر داخل ہوگئی۔ بازل، صلاح الدین اور سعدیہ سمیت شرجیل کے گھر والے گاڑی میں بیٹھے ساری کارروائی دیکھ رہے تھے۔ پولیس نے سب کو باہر نکلنے سے منع کیا تھا۔ اندر داخل ہونے کے لیے داخلی دروازہ توڑ دیا گیا لیکن ساﺅنڈ پروف بال روم میں کسی کو کچھ خبر نہ ہوئی۔ سب اپنے حال میں مست تھے۔ مازن، فرحان کی گود میں سر رکھے لیٹا تھا یک دم اُسے محسوس ہوا کہ رگوں میں شراٹے بھرتا خون آنکھ سے باہر گر رہا ہے، اُس کی بینائی ایک دم ختم ہوئی تھی۔ فرحان کو کچھ غیر معمولی احساس ہوا۔ اُس نے مازن کو جھنجھوڑا، ہلایا ، آواز دی لیکن اُس میں کوئی حرکت پیدا نہ ہوئی۔

اُسی وقت پولیس بال روم کا دروازہ کھول کر اندر آگئی۔ فرحان سمیت سب لوگ ہڑبڑا گئے لیکن بھاگ نہ سکے، نشے کی زیادتی نے جسموں کی طاقت کو خمار میں تبدیل کررکھا تھا، ہلتے تو لہرا جاتے۔ پولیس اہلکار سب کو گالیاں دیتے ڈنڈے برساتے بال روم سے باہر نکال رہے تھے جیسے بھیڑ بکریوں کو ہانکا جاتا ہے۔

باہر موجود پولیس وین میں بیٹھے اہلکاروں کو وائر لیس پر اطلاع دے دی گئی کہ کسی بھی مزاحمت کا سامنا کیے بغیر سب کلیئر کرالیا گیا ہے۔ اُنہوں نے بازل کو اشارہ کیا تو وہ اپنی گاڑی سے باہر نکل آیا۔ سعدیہ بھی رُک نہ سکی اور صلاح الدین کے ساتھ وہ بھی بنگلے کے گیٹ سے اندر داخل ہوگئی۔ سب لڑکوں کو اُسی بے ہودہ حلیے میں لائن میں لگا کر کھڑا کردیا گیا۔ شرجیل کے والدنے اُسے پہچانتے ہی زور دار تھپڑ دے مارا۔ وہ اُن کے پیروں میں گرا ٹھوکروں کی زد میں تھا، معافیاں مانگ رہا تھا۔ سعدیہ غور سے ایک ایک لڑکے کا چہرہ دیکھتی اور آگے بڑھ جاتی۔بازل پولیس کے ساتھ اندر جاچکا تھا۔

صلاح الدین، سعدیہ کولے کر باہر کھڑے تھے۔

”میرے خیال میں مازن یہاں نہیں ہے۔“ صلاح الدین نے کہا تو سعدیہ نے اثبات میں سرہلا کر اُن کی تائید کی۔ درحقیقت وہ خوش ہوئی تھی کہ ’ایسے‘ لڑکوں کے ساتھ مازن نہیں تھا۔ ایک پولیس اہلکار نے بنگلے سے باہر آکر صلاح الدین کو بلایا۔

”آپ اند رجاسکتے ہیں،کچھ لڑکے ابھی تک اندر ہیں۔“ وہ جانے لگے تو سعدیہ بھی ساتھ ہولی لیکن اہلکار نے اُسے روک دیا۔

”بی بی آپ نہ جائیں، صاحب کو جانے دیں۔“ لیکن سعدیہ نے سنی ان سنی کردی اور صلاح الدین سے اصرار کرکے کہا۔

”میں بھی جاﺅں گی، بازل بھی تو اندر ہے نا۔“ جانے کیوں صلاح الدین کا دل کیا سعدیہ کو روک دیں اُسے منع کردیں ساتھ آنے سے لیکن وہ اُن کے کچھ کہنے سے قبل ہی اندر جاچکی تھی۔

بال روم کا دروازہ کھلا پڑا تھا۔ سعدیہ نے دیکھا بازل گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھا ہے اور اُس کے سامنے ایک لڑکی فرش پر پڑی ہوئی ہے، وہ جھنجھلا گئی۔

”یہ بھائی کو ڈھونڈنے کے بہ جائے یہاں کیوں بیٹھ گیا؟“ وہ اُسے چھوڑ کر آگے بڑھی ہی تھی کہ بازل اُسے سامنے دیکھ کر بجلی کی سی تیزی سے اُٹھ کر آیا۔

”ماما، ماما پلیز آپ باہر چلیں۔“ سعدیہ نے حیرت سے بازل کا چہرہ دیکھا۔

”تم رو کیوں رہے ہو؟ اور چھوڑو مجھے۔وہ باہر پولیس والا کہہ رہا ہے اندر اور بھی لڑکے ہیں مجھے مازن کو ڈھونڈنے تو دو، ہٹو پیچھے۔“ اُس نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑایا۔ صلاح الدین بھی پاس آچکے تھے۔

”چھوڑ دو بازل ماں کو۔“ بازل نے روتے ہوئے اپنے ہاتھ ہٹالیے صلاح الدین نے سعدیہ سے کہا۔

”مازن مل گیا ہے سعدیہ۔“

”کہاں، کہاں ہے وہ؟“ سعدیہ نے صلاح الدین کے عقب میں دیکھنے کی کوشش کی تو اُنہوں نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر زمین پہ پڑی اُس لڑکی کے سامنے کھڑا کیا اور انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے بولے۔

”یہ ہے تمہارا مازن۔“ صلاح الدین بھی خود پر قابو نہ رکھ سکے اور رو پڑے۔

”کیا ہوگیا ہے آپ لوگوں کو؟ یہ،یہ….“ وہ زمین پر پڑی لڑکی کے نزدیک آئی اور نہایت غصے میں بازل اور صلاح الدین کی طرف دیکھا۔

”آپ کو لگتا ہے یہ میرا….“ اپنا جملہ مکمل ہونے سے پہلے اس کی نظر بے سدھ پڑی لڑکی پر پڑی اور وہ آگے کچھ نہ کہہ سکی۔ کپکپاتے ہاتھوں سے اُس نے مازن کے چہرے پر ہاتھ پھیرا، وہ اسے لڑکی سمجھ رہی تھی، اُس نے سر سے پاﺅں تک نظر بھر کے اپنے مازن کو دیکھا۔

”یہ، یہ کیا کررہا تھا؟“ اُس نے جھنجھوڑ کر اُسے اُٹھانے کی کوشش کی، اُسے بہت غصہ آنے لگا۔ اُٹھ کر بیٹھے تو سہی مازن، ایسی پٹائی لگاﺅں گی کہ یاد کرے گا، بھلا یہ کوئی حرکتیں ہیں کرنے والی۔ بازل اور صلاح الدین دونوں سعدیہ کے دائیں بائیں بیٹھے بے آواز رو رہے تھے۔ پولیس اہلکار اردگرد سے نشہ آور چیزیں اکٹھی کررہے تھے۔ پولیس انسپکٹر نے میز پر رکھی ٹیبلٹ کا پتا اُٹھا کر اُلٹ پلٹ کر دیکھا۔ خالی ریپرز بھی وہاں موجود تھے۔ وہ بازل اور صلاح الدین کے نزدیک آکر بولا۔

”یہ ہائی پوٹینسی ادویات عام طور پر نشہ بڑھانے کے لیے ڈرنکس کے ساتھ ملائی جاتی ہیں، لیکن اوورڈوز ہونے کے سبب جان جانے کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان کی موت کی وجہ بھی یہی ہوگی۔ باقی حتمی بات تو پوسٹ مارٹم رپورٹ سے ہی پتا چلے گی۔“ صلاح الدین اُٹھ کھڑے ہوئے اور انسپکٹر سے کہا۔

”اس بچے کو لے جانے کے لیے ایمبولینس منگوانی پڑے گی؟“

”جی، لاش کو آپ اپنی گاڑی میں نہیں لے جاسکتے، مازن شاہ نام ہے نا بچے کا؟“

”جی۔“

”کس کی لاش؟ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ کون مرگیا؟“ سعدیہ نے بیٹھے بیٹھے پوچھا۔

”مازن مر گیا ہے ماما، مر گیا ہے مازن۔“ بازل چیخ پڑا تھا اور سعدیہ نے یہ سنتے ہی بازل کے منہ پر زور دار تھپڑ دے مارا اور پھر لگاتار مارتی چلی گئی۔

”جھوٹ بول رہے ہو تم۔“ وہ طیش میں آکر زور زور سے بازل کو پیٹنے لگی کہ صلاح الدین کو مداخلت کرنا پڑی۔

”چھوڑو اسے سعدیہ، اس کا کیا قصور ہے؟“ سعدیہ دانت پیستی بازل کے چہرے کو ناخنوں سے نوچ رہی تھی، صلاح الدین نے بڑی مشکل سے اُسے چھڑایا۔

”اسی کا قصور ہے، جلتا ہے یہ مازن سے۔ ہمیشہ اُسے برا کہتا رہتا ہے اور آج کہہ رہا ہے۔“اپنا فقرہ مکمل کیے بغیروہ پلٹی اور اُس کی لاش کو جگانے لگی۔

”اٹھو مازن، چلو میرے ساتھ۔ ورنہ پولیس تمہیں پکڑ کر لے جائے گی۔“ اس نے مازن کے کان کے پاس جاکر سرگوشی کی۔

”اُٹھ جا میرا بچہ، ماں کی بات مان لے، اب میں تجھے کسی چیز سے نہیں روکوں گی۔“ سعدیہ نے محبت سے اُس کے سینے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

”میں وعدہ کرتی ہوں تجھے کبھی نہیں ٹوکوں گی، جو دل کرے کرنا، بس چل اُٹھ میرے ساتھ۔“ اس نے مازن کا ہاتھ پکڑ کر اٹھانے کی کوشش کی مگر وہ بے جان ہاتھ واپس گر گیا۔

”اٹھ جا نا۔“ مگر وہ نہیں اُٹھا، اُسے اٹھایا گیااور اس دم سعدیہ کی دل خراش چیخیں آسمان تک سنائی دے رہی تھیں۔

جوان بیٹے کی موت تو پہاڑ سا سینہ چیر دے، یہ تو ماں تھی اور کچھ نہیں بس اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی۔ بازل خود غم سے نڈھال ہورہا تھا ایسے میں صلاح الدین اور عارفہ نے اسے سنبھالا۔

                                                ٭….٭….٭

نیویارک سے تیمور کے دوست کا فون آیا جس نے اُس ایکسیڈنٹ کی اطلاع دی۔ تیمور کا زخم کسی طرح ٹھیک نہیں ہورہا تھا پھر اُس کے ٹیسٹ کیے گئے اور انکشاف ہوا کہ وہ ایڈز کا مریض ہے۔ اسے مونٹی فائر میڈیکل سینٹر منتقل کردیاگیاجہاں اُس کی دیکھ بھال کی جارہی تھی۔ بیٹے کی موت کی اطلاع اُسے دو ہفتے بعد دی گئی۔ بازل تیمور سے ملنے نیویارک گیا لیکن اُسے چند دن بعد ہی واپس آنا پڑا تھا۔ سعدیہ کی ذہنی حالت دن بدن خراب ہوتی جارہی تھی۔ مازن کو دفنانے کے بعد وہ اُس کے پاس ہی رہا تھا مگر دوسرے ہی دن اُس نے چیخ چیخ کر اپنے آپ کو گالیاں دے دے کر پیٹنا شروع کردیا۔ ڈاکٹر کے مشورے پر بازل اُسے ذہنی امراض کے ہسپتال لے گیاجہاں اُس کی حالت دیکھتے ہوئے فوراً ایڈمٹ کرلیا گیا تھا۔

مازن پورے تین دن بعد ’قصر تیمور‘ واپس آیا تھا اور اپنے کمرے میں آتے ہی مازن کی ایک ایک یاد اُس پر حملہ آور ہوئی تھی۔ کتنے آنسو بہا ڈالے تھے اُس نے،مگروہ دکھ، وہ اذیت کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ اس نے ہر اُس چیز پر مازن کا لمس محسوس کیا جسے وہ چھوتا رہا تھا۔ اُس کی آوازیں، قہقہے، گنگناہٹ سب کچھ ویسے کا ویسے یہاں موجود تھا۔ وہ کیسے بھولتا؟ سعدیہ تو ہوش و خرد سے بے گانہ ہوکر ہر غم سے آزاد ہوگئی تھی پر بازل، وہ کیا کرتا؟ ایسے میں اُسے اپنی کوتاہیوں کا احساس اور زیادہ تنگ کرتا رہا۔ شاید اُس کی غلطی تھی کہ وہ مازن کو پیسے دیتا رہا، اُس کی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ اپنی دانست میں اُس سے محبت کا اظہار کررہا تھا۔یہ طریقہ غلط بھی تھااور مازن کو بگاڑنے کا سبب بھی۔

اُس کی موت جس طرح اور جس حال میں ہوئی تھی، اُسے وہاں تک پہنچانے کا ذمہ دار کسی نہ کسی طرح بازل خود کو قرار دے رہا تھا۔

اُس رات جب بازل نے مازن کا اکاﺅنٹ دیکھا اور نوریہ کا میسج پڑھا تو اُس پر انکشاف ہوا کے’ناسٹی ملا‘ کے نام سے وہ دوسرے انسانوں کو بھی گمراہی کے رستے پر لے آیا ہے۔ نوریہ کا دین سے منحرف ہوجانا مازن کے مرنے کے بعد بھی اُس کے لیے عذاب بنا رہتا کہ اس رستے پر چلنے کی دعوت دینے والا تو وہی تھا۔ بازل سے بہت غلطیاں ہوئیں تھیں پر اپنے بھائی کی یہ غلطی سدھار کر وہ اس کے نامہ اعمال میں سے کم از کم ایک گناہ تو کم کرسکتا تھا۔

اسی سوچ کے تحت وہ نوریہ کو حقیقت بتائے بغیر اس سے رابطے میں رہالیکن جب اُس نے محسوس کیا کہ شمس کی بے جا سختی نوریہ کو واپس لوٹنے نہیں دے رہی تو اُس نے نوریہ سے شادی کا فیصلہ کرلیا۔ وہ کم عمر تھا، ابھی اس کی تعلیم بھی اُدھوری تھی، لیکن وہ دیر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ جس طرح کی تاخیر اُس سے مازن کے معاملے میں ہوگئی تھی وہ دوبارہ کسی پچھتاوے کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔

ساری حقیقت جان لینے کے بعد نوریہ خامو ش بیٹھی تھی۔ اُس کے سارے سوالوں کے جواب اچانک ہی مل گئے تھے۔ ایسے میں اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کس بات پر غم کرے اور کس پر حیرت کا اظہار۔بازل اپنے آنسو پونچھ کر اُس کے پاس آیا اور بولا۔

”تمہیں اختیار ہے سب کچھ جاننے کے بعد بھی، اگر تم اسلام کو اپنا مذہب بنانا نہیں چاہتی تو میں تمہیں مجبور نہیں کروں گالیکن پلیز تم ایک بار، صرف ایک بار سچے دل سے اپنے لیے دعا ضرور کرنا کہ اللہ تمہیں سیدھا رستہ دکھائے، اس کے بعد جو تمہارا فیصلہ ہو مجھے آگاہ کردینا۔ میں سب کچھ تمہاری مرضی کے مطابق کردوں گا۔“ بازل اُسے ایک عجیب سی نصیحت کرکے کمرے سے نکل گیا۔ نوریہ اُسے جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔

٭….٭….٭

شمس نوریہ کو رخصت کرنے کے بعد جب خالی گھر میں آکر بیٹھا تو پہلی بار اُسے احساس ہوا کہ بیٹی کے دم سے یہ مکان گھر تھا۔ وہ نہیں تھی تو معلوم ہورہا تھا کہ جب تھی تو اسی کا وجود زندگی تھا۔ آگے آنے والے اور کئی دن شمس کی تنہائی میں بتدریج اضافہ کرتے چلے گئے۔ خاموشی اور تنہائی، خود شناسی کی جانب دھکیلتی ہے۔ انسان کے گرد جب انسانوں کا شور باقی نہ رہے، وجود باقی نہ رہے، تو صرف اور صرف اپنی کوتاہیاں رہ جاتی ہیں۔ اسی لیے ہر متکبر ہجوم چاہتا ہے، تنہائی تو غرور کو مٹاتی ہے، جان لیوا ہوتی ہے ہر ’تکبر‘ کرنے والے کے لیے۔

کئی بار کوشش کے باوجود بھی نوریہ نے شمس سے فون پر بات نہیں کی تھی۔ پہلے تو شمس کو اس کی ناراضی کی وجہ سمجھ نہ آئی۔ پھر جب گھر کا سناٹا بڑھتا چلا گیا تو اُسے آوازیں آنے لگیں۔ اپنے منہ سے نکالے تمام الفاظ جو اتنے سالوں سے وہ گھر کی دیواروں کے ساتھ نوریہ کے کانوں میں انڈیل رہا تھا، یکدم ہی باز گشت بن کر سنائی دینے لگے تھے۔ اُسے پہلی بار اپنی کرخت آواز سے نفرت محسوس ہوئی۔ کیسی بری آواز تھی اُس کی، اُس پر وہ بُرے القابات جن سے اپنی بیٹی کو نوازے چلا جاتا تھا۔ پہلی بار وہ کئی گھنٹے کے لیے ’چپ‘ ہی بیٹھا رہا کہ اُسے اپنی آواز نہیں سننی تھی۔ اُسے نہیں سننی تھی تو اُ س کی بیٹی کیسے سنتی ہوگی؟

وہ جو اُس کے دوست کے ظلم کا نشانہ کیا بنی، شمس نے اُسے ہمیشہ کے لیے اپنے تیروں کے کے نشانے پر رکھ لیا، طنز کے تیر، نفرت کے تیر اور پچھتاوے کے۔

”قصور تو شمس کا تھا نا۔“ یہ تسلیم کرنے میں کتنے سال لگادیے اُس نے۔ اور اب جب وہ مان گیا تھا تو اکیلا بیٹھا تھا۔ کوئی نہیں تھا اُس کے پاس جسے سمجھاتا کہ مجھ سے یہ غلطی ہوئی تو کیسے؟

٭….٭….٭



رات بھربے چین رہنے اور پیاس کے سبب بار بار اُٹھنے کے باوجود صبح فجر میں وہ اذان کی آواز سنتے ہی دوبارہ اُٹھ بیٹھی تھی۔ کچھ دیر خالی الذہن وہ دیوار پر کھڑکی سے آتی روشنی کو دیکھتی رہی۔ پھر آہستگی سے چادر اُتاری اور باتھ روم میں چلی گئی۔ دانت برش کرنے کے بعد یونہی بے دھیانی میں وضو بھی شروع کردیا،پھر بازو دھوتے دھوتے یک دم ٹھہر گئی۔

”نہیں، میں نماز پڑھنے تو نہیں اُٹھی تھی۔ میں کیوں پڑھوں نماز، میں تو….“ اس نے نل بند کیااور باہر نکل آئی، خود سے یہ کہتی ہوئی کہ دراصل مجھے بھوک لگ رہی ہے اس لیے میں جاگ گئی۔ وہ چلتی ہوئی ہال تک آئی اور ہمیشہ کی طرح اُس نے ایک بار پھر خود کو جی بھر کے کوسا۔سامنے ہی بازل قرآن مجید کھولے بیٹھا تھا، اُس کی آواز نے ہمیشہ کی طرح اُس کے پاﺅں جکڑ لیے تھے۔

” جس دن تم پیٹھ پھیر کر لوٹو گے ،تمہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہو گا اور جسے اللہ گمراہ کر دے اس کا ہادی کوئی نہیں۔“                                                            (سورة المومن،آیت ۳۳)

اس بار وہ پلٹ نہیں سکی، حتیٰ کہ بازل نے قرآن مجید بند کیا، جزدان میں لپیٹا اور اُسے چوم کر اُٹھ کھڑا ہوا۔ تب ہی اُس کی نظر نوریہ پر پڑی جو زمین پہ نظریں گاڑے کھڑی تھی۔ بازل قرآن مجید رحل پہ رکھ کر نور کے نزدیک آیا اور حیران رہ گیا، وہ رو رہی تھی۔

”نور!“ اس نے کندھے پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے اُسے پکارا، وہ چونک گئی ۔

”تم رو کیوں رہی ہو؟“ نور نے اس کے پوچھنے پر حیران ہوکر اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا جیسے وہ خود بھی اپنے آنسوﺅں سے بے خبر کھڑی ہو۔

”کچھ نہیں۔“ وہ کوئی وجہ بتائے بغیر وہاں سے چلی گئی۔

٭….٭….٭

تیمور نے اپنے پاﺅں کی طرف دیکھا۔ دونوں پیروں کی ہڈی فریکچرہوئی تھی اور ان کا گوشت ٹائر تلے کچلا گیا تھا۔ کتنے ماہ گزرنے کے بعد بھی وہ زخم بھرے نہیں تھے اور یہ زخم کبھی بھرنے والے نہیں تھے۔ ہاںخون رُک گیا تھا لیکن کچلے گئے پیروں پر کھال واپس نہیں آئی تھی۔ روز ان میں سے پیپ نکلتی،زرد مائل سفید رنگ مائع، ”اور دوزخیوں کو ان کی پیپ پلائی جائے گی تیمور، تھوہڑ کاپیڑ غذا ہوگا جس کے کانٹے حلق چیر دیں گے، انہیں پیاس لگے گی تو وہ پیپ….“ سعدیہ کی آواز کانوں میں گونج رہی تھی اور وہ قطرہ قطرہ اُس پیپ کو بہتے دیکھ رہا تھا۔ ہر روز نرس آکر اس کا زخم صاف کرتی تھی اور کہیں وہ کسی دن یہ پیپ اُسے پلادے تو۔

”نہیں۔“ وہ تڑپ گیا۔”خاموش ہوجاﺅذلیل عورت،دفع ہوجاﺅ یہاں سے۔“وہ اپنے لاشعور میں اُبھرتی سعدیہ کی آواز سے لڑنے لگا۔ نرس بھاگی بھاگی آئی۔

”Calm down, tamy“ اُس نے بستر پر پڑے تیمور کو کندھوں سے پکڑ کر خاموش کروایا۔

”اس طرح اچھلنے کی ضرورت نہیں۔ تم کیا چاہتے ہو تمہاری ہڈیوں پر جو تھوڑا بہت گوشت چپکا ہواہے ،وہ بھی جھڑ جائے؟“ تیمور نے سختی سے دانت بھینچے تھے، پھر نرس سے التجا کی۔

”ڈاکٹر سے کہو مجھے مار دے، مجھ سے یہ تکلیف برداشت نہیں ہوتی۔“ نرس نے ہمدردی سے اُس کا بازو سہلایا۔

”میں ڈاکٹر سے بات کروں گی وہ تمہاری پین کلرز چینج کریں۔ میرے خیال میں انفیکشن بڑھ رہا ہے۔“ اس نے تیمور کے دونوں پاﺅں پر توجہ دی اور کہا۔

”ہم بینڈیج نہیں کرسکتے، مجبوراً ادویات بڑھانی پڑیں گی۔“ تیمور نے تڑپ کر اپنی درخواست دہرائی۔

”مجھے مار کیوں نہیں دیتے، اس بیماری نے ٹھیک تو ہونا نہیں ہے۔“

”پلیز ڈپریس مت ہو، میں ایسا کرتی ہوں تمہارے لیے ٹی وی لگا دیتی ہوں، بہت اچھی مووی لگی ہے تم انجوائے کروگے۔“ نرس نے فوراً ٹی وی کاریموٹ لے کر اُسے آن کردیا اور تیمور یہ سوچ کر خاموش ہوگیا کہ اگلی بار ڈاکٹر سے وہ خود بات کرے گا۔

٭….٭….٭

سعدیہ اب پہلے کی طرح چیخ چیخ کر روتی نہیں تھی۔ بازل آفس جانے سے پہلے اور واپس آنے کے بعد سارا وقت اپنی ماں کے ساتھ گزارا کرتا تھا۔ وہ اُس سے ڈھیر ساری باتیں بھی کیا کرتا۔ موسموں کی، پھولوں کی، پرندوں کی، نوریہ دور دور سے دیکھتی اور حیران ہوتی۔ سعدیہ پہلے چپ چاپ بازل کو سنا کرتی،جیسے ہی وہ خاموش ہوتا سعدیہ مازن کی باتیں کرنے لگتی ۔بازل برا مانے بغیر پوری دل چسپی سے ماں کی گفت گو سنا کرتا تھا۔ ایک دن اُس نے بازل سے پوچھ لیا۔

”تمہیں اپنی ماں پر اتنا پیار کیوں آتا ہے بازل؟ وہ تو تمہیں ”کافر “ کہہ کر چھوڑ گئیں تھیںنا۔“ بازل نے چونک کر نوریہ کو دیکھا لیکن فوراً ہی جان گیا، یہ طنز نہیں تھا، سوال تھا۔ وہ مسکرایا اور اُ س کی تصحیح کی۔

”کافر نہیں، جہنمی کہا تھا۔“

”ایک ہی بات ہے، جہنم میں سارے کافر ہی جائیں گے۔“

”ضروری نہیں، مسلمان بھی جائیں گے اگر اعمال ایسے ہوں گے تو۔“

”لیکن میں نے تو ہمیشہ یہی سنا کہ صرف مسلمان ہی جنت میں جاسکتے ہیں۔“

”ہاںیہ درست ہے کہ جنت میں جانے والے صرف مسلمان ہی ہوں گے۔“

”تم مجھے کنفیوز کیوں کررہے ہو؟“ وہ چڑ گئی تو بازل ہنس پڑا۔

”نہیں میں تو صرف تمہارے سوالوں کا جواب دے رہا ہوں۔ یہ درست ہے کہ اللہ کے یہاں اسلام ہی دین ہے لیکن ہر مسلمان، اسلام پر عمل کرنے والا تو نہیں ہوتا نا، اس لیے کچھ مسلمان جو اللہ کا حکم نہیں مانتے اور ہر حجت ختم کردیتے ہیں، وہ دوزخ میں جائیں گے۔“

”حجت ختم کرنے کا کیا مطلب؟“

”دیکھو، ہر انسان کو زندگی میں کبھی نہ کبھی ہدایت ضرور ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سے بہت محبت کرتا ہے اس لیے وہ اپنے تمام بندوں کو موقع دیتا ہے کہ حق کا راستہ اختیار کرلیں۔ اُنہیں چوائس دی جاتی ہے، ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ایک شخص کو صرف گناہ کرنے کے مواقع ملیں۔ نہیں، اُسے اچھا کام کرنے کا بھی اُتنا ہی موقع ملتا ہے۔ اب یہ اُس پر منحصرہے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتا ہے یا نہیں۔“ بازل نوریہ کے سامنے بیٹھا، نہایت آرام سے ٹھہر ٹھہر کے سمجھا رہا تھا۔

”اگر ایک انسان نیکیوں کے تمام موقع چھوڑ کر گناہ کا رستہ ہمیشہ منتخب کرتا رہے گا تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے ہر حجت ختم کردی۔ اُس کے پاس کوئی عذر نہیں رہا جسے اللہ کے سامنے پیش کرکے وہ آخرت میں عذات سے بچ جائے۔“

”تمہیں یہ باتیں کس نے سکھائی ہیں؟“ نوریہ نے پوچھا تو بازل ہنس پڑا، نوریہ نے کہا۔

”تم مولوی ہو کیا؟“

”نہیں، میں تو ایک عام سا مسلمان ہوں اور بس۔“ بازل جھینپ کر مسکرانے لگا۔

”تو پھر تمہاری باتوں میں اتنا اثرکیوں ہے بازل۔“ نوریہ نے جیسے ہتھیار ڈالے۔بازل کچھ کہہ نہیں سکا بس اُسے دیکھتا رہ گیا۔ وہ مزید کہتی گئی۔

”تم اتنے سادہ مزاج کیسے ہو؟ تمہیں غصہ نہیں آتا اپنے ماں باپ پر؟ انہوں نے تمہارے ساتھ ٹھیک نہیں کیا، پھر بھی تم….“

”میں بھی انسان ہوں نوریہ، فرشتہ نہیں۔ مجھے اپنے ماں باپ کی زیادتیاں یاد ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ مہربانیاں اور محبت بھی یاد ہے جو انہوں نے میرے بچپن میں بے حساب لٹائی ہیں مجھ پر، بغیر کسی وجہ کے۔ میں اُن کی محبت کا بدلہ کبھی نہیں دے سکتا اس لیے ان کا احترام فرض ہے مجھ پر، مجھے ان کی زیادتیوں پر غصہ نہیں، ’دکھ‘ ہے۔ میں اسے محسوس کرتا ہوں لیکن ہتھیار بناکر اپنے ماں باپ کو زخمی نہیں کرسکتا، وہ بھی انسان ہیں، میرے جیسے خطا کے پتلے، کوتاہیاں کی ہیں اُنہوں نے، تو یہ اُن کا اور اللہ کا معاملہ ہے۔“

”تمہارا دل بہت بڑا ہے، میں تو اپنے باپ کو کبھی معاف نہیں کرسکتی۔“

”تم اس لیے معاف نہیں کرسکتیں کیوں کہ تمہیں لگتا ہے کہ جو کچھ اُنہوں نے تمہارے ساتھ کیا وہ تم ڈیزرو نہیں کرتی تھیں،ہے نا؟“

”ہوں۔“ نور نے اثبات میں سرہلایا اور منتظر رہی کہ بازل اپنی بات مکمل کرے۔

”اچھا تو مجھے یاد کرکے بتاﺅ نوریہ کہ جو سال تم نے اپنے ماں باپ کی شفقت اور محبت کے سائے تلے گزارے تھے اور اُنہوں نے تمہارے اردگرد آسائشوں کا ڈھیر لگادیا تھا اُن میں سے کون سی چیز کو تم واقعی ڈیزروکرتی تھیں؟“

”مطلب؟“

”مطلب ایسی کون سی خدمت کی تھی تم نے اپنے ماں باپ کی جو وہ دن رات تمہیں پیار کرتے اور تمہاری ساری خواہشیں پوری کرتے رہتے تھے۔“ بازل کے سوال نے نوریہ کو سوچ میں ڈال دیا۔

”تم ساری زندگی بھی ڈھونڈتی رہو تو اس سوال کا جواب نہیں پاسکو گی نوریہ۔ اس لیے کہ ہمارے ماں باپ اپنا وقت،اپنی طاقت،اپنی ساری محبت صرف ایک وجہ سے ہم پر لٹاتے ہیں اور وہ یہ کہ ہم اُن کی اولاد ہیں۔ ماں ہمیں اپنے خون سے سینچتی ہے، باپ ہمیں آسائشیں فراہم کرنے کے لیے زمانے کے سردوگرم سہتا ہے۔ اگر وہ ہمیں چاہتے ہیں تو اس میں ’ہمارا‘ کوئی کمال نہیں ہے۔“ بازل نے آخری جملے کے ہر ہر حرف پر زور دے کر کہا، نوریہ پر اثر ہورہا تھا اور نظر بھی آرہا تھا۔

”تم سات سال اپنے والد کے عتاب کا نشانہ بنیں تو وہ بارہ سال بھول گئیں جب انہوں نے تمہیں پھولوں کی طرح رکھا تھا، تمہیں ’بلاوجہ‘ پیار کیا تھا۔ تمہارے ایک اشارے پر اپنی محنت کی کمائی لٹا دیا کرتے تھے،تمہیں وہ سب یاد نہیں رہا، تمہیں یاد رکھنا چاہیے تھا نور۔ اگر وہ تم سے ناراض ہوئے تو تمہیں ’منانا‘ چاہیے تھا، اگر انہیں تم پر اعتبار نہیں تھا تو تمہیں ’دلانا‘ چاہیے تھا۔ اگر وہ تم سے دور ہوگئے تھے تو تمہیں قریب ’جانا‘ چاہیے تھا نوریہ، صرف وہ قصور وار نہیں ہیں غلطی تمہاری بھی اتنی ہی ہے۔“ بازل کو خاموش ہونا پڑا کیوں کہ نوریہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔ بازل نے کچھ دیر اُسے کھل کر رونے دیا پھر خاموشی سے اُٹھا اور اُس کے پاس بیٹھ کر اپنے شانے پر اُس کا سر رکھ لیا۔

٭….٭….٭

تیمور کے حادثے کی اطلاع ملنے کے باوجود وہ فوراً اُس کے پاس نہیں آیا تھا۔ اُس کے دوست نے خیال رکھا مگر اُس وقت تک جب تک تیمور کے ایڈز کامریض ہونے کے بارے میں معلوم نہیں ہوا تھا۔ رپورٹس آتے ہی وہ اس سے دور بھاگ گیا تھا۔ بازل کا ہاسپٹل والوں سے رابطہ تھا۔ اُس نے تمام بلز ادا کرنے کے بعد ہاسپٹل والوں سے کہہ کر مونٹی فائر میڈیکل سینٹر میں تیمور کے لیے کمرے کا انتظام کروایا۔وہاں شفٹ کروانے کے بعد بازل نے خود تیمور سے فون پر بات بھی کی۔ تیمور نے فوراً اُسے طنز کا نشانہ بنایا تھا۔

”مجھے نہیں معلوم تھا کہ تم باپ سے اتنی نفرت کرتے ہو کہ ایک بار ملنے آنا بھی پسند نہیں کیا۔“

”میں ضرور آﺅں گا آپ کے پاس، بس یہاں کچھ ایسے۔ “ وہ مازن کی موت کے بارے میں اچانک بتاکر باپ کو مزید پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اُس نے تیمور کا بے اختیار مازن کو گلے لگانا دیکھا تھا۔ وہ لاکھ چھپاتا بازل جانتا تھا کہ تیمور نے محض اپنی انا کی تسکین کے لیے مازن کی دوری برداشت کی ورنہ وہ دونوں بیٹوں کے لیے دل میں بے پناہ محبت رکھتا تھا۔ وہ حیلے بہانوں سے اُسے ٹالتا رہا پھر خود نیویارک پہنچ کر اُس نے یہ خبر تیمور کو دی تھی۔ تیمور کے لیے اس بری خبر کو سن کر خودپرکنٹرول کرنا مشکل ہوگیا تھا۔ ڈاکٹرز نے اُسے سکون آور ادویات دے کر سلادیا تھا۔ تین دن تک بازل اُس کے پاس ہر روز جاتارہا۔ جوا سٹوڈیو اپارٹمنٹ اُس نے کرائے پر لیا تھا اُس کی کچھ رقم ابھی باقی تھی۔ تیمور کے بتانے پر بازل نے وہیں قیام کیا اور پھر اُسے خالی کردیااورتیمور کا سارا سامان سوٹ کیس میں پیک کرکے لے آیا۔ تیمور کے پوچھنے پر اس نے وہ سوٹ کیس اُس کے سامنے کھول دیا۔ سب سے پہلے تیمور نے اپنے جوتے نکلوا کر ہاتھوں میں پکڑ لیے ،کچھ پل انہیں دیکھتا رہا پھر بازل سے کہا۔

”جانتے ہو یہ جوتے کتنے کے ہیں؟400ڈالرز کے۔ انہیں پہن کر میں خود کو چاند پر محسوس کرتا تھااور اب….“ اس نے بے چارگی سے اپنے پاﺅںکی جانب دیکھا۔

”یہ پیر زمین پر رکھنے کو ترس رہا ہوں۔“ بازل نے آگے بڑھ کر باپ کو گلے لگالیا۔ تیمو ررویا نہیں پر منہ بسور کر بازل کے کندھے پر اپنا سر ٹکالیا۔

بازل اُسے اکیلا چھوڑ کر آنا نہیں چاہتا تھا پر کیا کرتا؟ یہاں ماں اکیلی رہ جاتی۔ ڈاکٹرز نے کہا تھا بازل سے مازن کی باتیں کرنے کے بعد سعدیہ کی حالت میں بہتری آجاتی ہے۔ وہ روز ہاسپٹل میں اُس کے ساتھ جاکر بیٹھ جاتا تھا۔ وہ کہتی رہتی اور بازل سنتا رہتا۔ وہ چاہتا تھا سعدیہ اپنے اندر کا سارا ڈپریشن باہر نکال دے۔ اسی لیے صبر سے بیٹھا رہتا۔ کئی بار سعدیہ کسی تلخ یاد کو لے کر ایک دم غصہ میں آجاتی تھی اور اُسے مار بیٹھتی تھی۔ وہ چپ چاپ مار کھا کر وہاں سے جاتا اور اگلے دن پھر آجاتا تھا۔

کوشش کرکے وہ اسکائپ پر تیمور سے بھی بات کرتا رہتا تھا۔ اُس سے بزنس اور فیکٹری کے معاملات پر رہنمائی لیتاجس سے تیمو رکو اپنی زندگی کی بے مقصدیت یاد نہیں رہتی تھی۔وہ خود کو مثبت سوچ پر رکھتے ہوئے تمام ادویات وقت پر لیتا اپنے پیروں کے ٹھیک ہوجانے کا منتظر تھالیکن کچھ دن کے لیے زخم کی حالت بہتر ہوتی اور پھر اُس سے کہیں زیادہ خراب ہوجاتی ۔ اب وہ آہستہ آہستہ مایوس ہونے لگا تھا۔

٭….٭….٭

وہ ہر شام اُس کے آنے کا انتظار کرنے لگی تھی۔ صبح فجر میں وہ اُسے اپنے ساتھ نماز پڑھواتا، پھر قرآن مجید پڑھ کر سناتا اور ڈھیر ساری دعائیں دم کرنے کے بعد اُس کی پیشانی پر پیار کرتا تھا۔ ناشتے سے پہلے وہ اُسے باہر لان میں تھوڑی سی واک کرواتا۔ مختلف پرندوں سے متعلق دلچسپ معلومات دیتے ہوئے وہ اُسے بالکل چھوٹے بچے کی طرح بہلاتا رہتا تھا۔

ناشتے پر بھی وہ اُس سے مختلف قسم کے کھانوں کی بابت گفت گو کرتا۔ دوسرے ملکوں کے لذیذ کھانوں کا تذکرہ چھیڑتا۔وہ اس سے ہلکے پھلکے مذاق بھی کیا کرتا تھا۔ سعدیہ کو اس سے بات کرنے کے لیے موضوع سوچنا نہیں پڑتا تھا کیوں کہ وہ ہمیشہ مازن کی یادیں دہراتی تھی جسے وہ بے حد توجہ سے سنتا لیکن پھر آہستہ آہستہ سعدیہ نے مازن کا تذکرہ کم کرنا شروع کردیا۔

شام میں وہ بازل کو اپنے سارے دن کی روداد سنایا کرتی،کبھی کبھی سارہ کی شکایت بھی کردیتی جس کا سارہ بالکل برا نہیں مناتی تھی۔ اُس کے خیال میں یہ سعدیہ کی طبیعت بہتر ہونے کی علامات تھیں۔ خودکو کو سنااور بیٹے کی موت کے اسباب یاد کرکے روتے رہنا کم ہوتے ہوتے بالکل ختم ہوتا جارہا تھا۔

پھر ایک دن سعدیہ نے شام کو لان میںبازل کے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک پودے کی جانب اشارہ کیا اور کہا ۔

”تمہیں یاد ہے یہ پودا ہم دونوں نے مل کر لگایا تھا۔“ بازل نے حیرت سے ماں کو دیکھا پھر اُس کی آنکھیں بھر آئیں۔

”جی ماما۔“ کتنے سالوں بعد، کتنے انتظار کے بعد سعدیہ کو اس کے حوالے سے کوئی خوبصورت بات یاد آئی تھی۔ وہ فوراً اُٹھ کر سعدیہ کے پیروں کے پاس آبیٹھا۔

”آپ کو یاد ہے؟“ سعدیہ نے برا سا منہ بنایا اور کہا۔

”ہاں یاد کیسے نہیں ہوگا۔ تم چھوٹے ہوتے بھی اسی طرح میرا گھٹنا پکڑ کر بیٹھ جاتے تھے اور چھوڑتے ہی نہیں تھے جب تک میں تمہارا ماتھا چوم نہیں لیتی تھی۔“ بازل روتے روتے ہنس پڑا پھر اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا۔

”اگر میں آج بھی آپ سے یہی ضد کروں تو کیا آپ مانیں گی؟“ اُسے یقین نہیں تھا کہ ماں کا جواب ہاں میں ہو گا یا نہیں میں۔ سعدیہ نے غور سے اُس کے چہرے کو دیکھا، وہ آج بھی نو دس سال کا چھوٹا بچہ لگ رہا تھا۔ وہی معصومیت،آنکھوں میں وہی شفافیت، وہ ذرا نہیں بدلا تھا۔ سعدیہ نے آہستگی سے دونوں ہاتھوں کے پیالے میں اُس کا چہرہ لیا اور آگے بڑھ کر اپنے ہونٹ اس کی پیشانی پر رکھ دیے۔ کہیں اندر، بہت گہرائی میں سالوں سے جلتا الاﺅ اچانک ٹھنڈا پڑ گیاا ور بازل کی پیاس بجھ گئی تھی۔

٭….٭….٭

”یہ اس کا بدلہ ہے جو تیرے ہاتھوں نے آگے بھیجا اور اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔“

                                                                                  (سورة الحج،آیت۰۱)

اس ایک آیت میں شمس کو سارے سوالوں کا جواب مل گیا تھا۔ حنا اُسے چھوڑ کر کیوں گئی؟ وہ دنیا کے سامنے رُسوا کیوں ہوا؟ اُس کے بیٹی کے ساتھ زیادتی کی گئی تو اس کا ذمہ دار کون تھا؟

یہ سب مصائب اُسی کا بدلہ تھا جو عمل اُس نے سرانجام دیے تھے۔ حنا کو اس نے بگاڑا تھا، فرید سے دوستی اُس نے کی، گھر میں بلا روک ٹوک آنے کی اجازت دینے والا بھی وہی تھااور آج اگر اُس کی بیٹی اس کی شکل نہیں دیکھنا چاہتی تو یہ بھی اُس کی اپنی وجہ سے ہے۔ جو بھی کیا، خود اُس نے اپنے ساتھ کیا۔ وہ نماز کے بعد مولوی صاحب کی پڑھی ہوئی قرآنی آیت اور اس کے ترجمے کو سن کر اپنی زندگی کا جائزہ لے رہاتھا۔ خود احتسابی کا یہ عمل اسے کئی دنوں سے کشمکش میں مبتلا کیے ہوئے تھا ، سو آج جواب مل گیا تھا۔ وہ خود پر سخت افسوس کرتا اُٹھا، اپنے اعمال کا تجزیہ کرنے میں وہ اس قدر مگن تھا کہ اُس نے صلاح الدین کا پکارنا سنا ہی نہیں۔ وہ اپنا سر دُھنتا مسجد کے دروازے کی جانب بڑھتا جارہا تھا۔ صلاح الدین کئی دنوں سے نوٹ کررہے تھے کہ شمس خاموشی سے مسجد آتا، نماز ادا کرتا اور چپ چاپ واپس چلا جاتا تھا۔ لوگوں پر لعن طعن، جہنم کے ڈراوے، دھمکیاں، اُس نے سب کچھ اچانک چھوڑ دیا تھا، مگرنہیں یہ تبدیلی تو بیٹی کو رخصت کرنے کے بعد سے نظر آنے لگی ہے۔ صلاح الدین نے اپنی یادداشت کھنگالتے ہوئے اصل وجہ ڈھونڈ نکالی۔

”بہت یاد کرتے ہیں نوریہ کو، ہاں بھئی بیٹی کے معاملے میں ہر باپ کا دل موم ہوتا ہے۔“ صلاح الدین نے اپنی ٹوپی سر سے اُتار کر جیب میں ڈالی اور شمس کے ساتھ باتیں کرتے گھر کی جانب جانے کا پلان بناتے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ یکدم لوگوں کا شور سنائی دیا، صلاح الدین نے دیکھا مسجد کے دروازے کے عین سامنے لوگوں کی بھیڑ جمع ہونے لگی، وہ بھی تیزی سے دیکھنے کے لیے آگے بڑھے اور دروازے سے نکل کر لوگوں کو ایک طرف ہٹاتے ہوئے سڑک پر گرے شخص کے پاس جا پہنچے۔

”حاجی صاحب، حاجی صاحب۔“ لوگ آوازیں دے رہے تھے مگر شمس بے ہوش پڑا تھا۔ صلاح الدین نے چند لوگوں کی مدد سے اُسے اٹھایا اور اپنی گاڑی میں بٹھا کر ہاسپٹل لے گئے ۔

٭….٭….٭



آدھی رات کو بازل نے نوریہ کے کمرے کا دروازہ بجایا تھا۔ اُس نے فوراً اُٹھ کر کھولا تو سامنے وہ بے حد پریشان حالت میں سیل فون پکڑے کھڑا تھا۔

”شمس انکل کی طبیعت بہت خراب ہے، تم جلدی آﺅ میں گاڑی نکالتا ہوں۔“ اس نے نوریہ سے پوچھا نہیں تھا کہ وہ چلنا چاہتی بھی ہے یا نہیں۔ یہ بتا کر وہ تیزی سے چل پڑا تھا جیسے اُسے یقین ہو کہ وہ انکار نہیں کرے گی۔

اس کا یقین درست تھا۔ جب تک اُس نے گیٹ کھلوا کر گاڑی ریورس کی، نوریہ چادر اوڑھ کر باہر نکل آئی تھی۔ رستہ خاموشی سے کٹا۔ تھوڑی دیر بعد وہ دونوں ہاسپٹل میں داخل ہوگئے۔

”داہنے حصے پر فالج کا اٹیک ہوا ہے۔“ صلاح الدین نے بازل کو بتایا۔

”دعا کرو بس۔“ انہوں نے نوریہ کے سر پر ہاتھ رکھ کے اُسے بیٹھ جانے کے لیے کہا۔وہ گم صم،چپ چاپ سی ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔

قریباً ایک گھنٹے بعد اُنہیں شمس سے ملنے کی اجازت دے دی گئی۔ بازل نے پہلے نوریہ کو اندر بھیجا۔ وہ من من کے بھاری قدم اُٹھاتی بڑی مشکل سے شمس کے پاس پہنچی۔ سفید چادر اوڑھے وہ کمرے کی چھت کو تک رہا تھا۔ نوریہ نے دیکھا وہ بہت کمزور ہوگیا تھا، آہٹ پر اس نے نظریں گھما کر اُسے دیکھنے کی کوشش کی پر گردن موڑ نہ سکنے کے سبب وہ اُسے پوری طرح نظر نہیں آرہی تھی۔

”آں، آں۔“ یہ شمس کے حلق سے آواز نکلی تھی۔ بے چارگی اور درد کا اعلان کرتی، وہ اُسے بلارہا تھا۔ پھر اپنی بات کا مفہوم سمجھا نہ سکنے پر رونے لگا۔ وہ بھدّی آواز میں آں آں کرکے رو رہا تھا۔ بائیں ہاتھ سے اُسے پاس آنے کے لیے کہہ رہا تھا۔ نوریہ سے رہا نہ گیا،وہ بھی روتی ہوئی دوڑ کر باپ کے سینے سے لگ گئی۔

٭….٭….٭

تین دن بعد اُسے ڈسچارج کردیا گیا۔ نوریہ اُسے گھر لے آئی تھی۔ اُسے لانے سے پہلے اپنے گھر آکر اس نے عارفہ آنٹی کو فون کیا اور اُن کی کام والی کو مدد کے لیے بلوا کر پورے گھر کی اچھی طرح صفائی کی۔ کچن میں کھانے پینے کا سامان گل سڑ رہا تھا۔ وہ سب پھینک کر تازہ راشن لاکر رکھا۔ شمس کو گھر میں لاکر اُس نے دل و جان سے اس کی دیکھ بھال شروع کی۔ وقت پر دواکھلانا، ہاتھ پاﺅں کی مالش کرنا اور اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلانا نوریہ کا معمول تھا۔ اس دوران بازل بھی آتا رہا۔ ہسپتال سے شمس کے لیے وہیل چیئر لی گئی تھی، وہ اکثر اُسے وہیل چیئر پر بٹھا کر سیر کے لیے لے جاتا، کبھی پارک تو کبھی مسجد۔

آتے جاتے رستے میں واقف کار شمس کو ’حاجی صاحب‘ کہہ کر سلام کرتے اور اس کا حال پوچھتے تو وہ شکر گزاری سے بایاں ہاتھ اُٹھا کر جواب دیا کرتا۔ نوریہ کی جدائی نے اگر اُس کا غرور توڑا تھا تو بیماری نے اُسے شکر گزاری سکھادی تھی۔

نوریہ اور بازل کی محنت سے وہ دن بدن بہتر ہوتا جارہا تھا۔ نوریہ نے بازل کے ساتھ رہتے ہوئے جو دیکھا تھا وہی دہرانے لگی۔ وہ شمس کے ساتھ اچھے دنوں کی یادیں بانٹنے لگی،جب شمس اُس پر اپنی محبت نچھاور کرتا تھا۔ وہ اُس کی احسان مند ہوتی شکریہ ادا کرتی رہتی تھی۔ ایک بار بھی اُس نے باپ کو یہ نہیں جتایا تھا کہ بنا قصور کے آپ نے میری زندگی کیسے اجیرن کررکھی تھی۔ وہ اچھی باتیں کرتی اُس کا دل بہلایا کرتی تھی۔ شمس یہ دیکھ کر اور زیادہ شرمندہ ہوتا اور رو پڑتا تھا۔ نوریہ نہایت پیار سے اُس کے آنسو پونچھتی اور اُسے برے دن بھول جانے کے لیے کہتی۔ شمس اپنے کیے پر شرمندہ تھا اور نوریہ اُسے معاف کرچکی تھی۔

٭….٭….٭

بازل کو تیمور نے بلوایا تھا۔ ڈاکٹرز اس کی زندگی سے مایوس ہوچکے تھے۔ بازل نوریہ اور شمس کو ’قصر تیمور ‘ لے آیا اور اپنے جانے کی تیاری کرنے لگا۔ نوریہ شمس کو اس کے کمرے میں پہنچا کر بازل کے پاس آئی۔

” پیکنگ میں تمہاری ہیلپ کروادوں؟“ بازل مسکرایا ۔

”نہیں، میں سب کچھ رکھ چکا ہوں، تھینکس۔“ نوریہ کنفیوز سی ہوکر اپنی انگلیاں چٹخانے لگی۔

”میں، میں کچھ اور کرسکتی ہوں تمہارے لیے؟“

بازل نے سوٹ کیس بند کرتے اپنے ہاتھ روک لیے اور نوریہ کی طرف دیکھا۔ پھر اُس کے نزدیک آکر نرمی سے اپنے دونوں ہاتھ ا س کے کندھے پر رکھ لیے اور کہا۔

”اگر تم میرے لیے کچھ کرنا ہی چاہتی ہو تو پلیز ایک درخواست ہے میری۔“ نور نے سر اُٹھا کر سوالیہ نظرں سے اُسے دیکھا۔ بازل نے کہا۔

”میں نہیں جانتا تم نے اپنے دین کے بارے میں کیا فیصلہ کیا ہے؟ لیکن اگر کرسکو تو پلیز میری ماما کو ہر روز تھوڑا سا قرآن پڑھ کر سنادیا کرنا، ان کی طبیعت سنبھلی رہتی ہے۔“

نوریہ نم آنکھوں سے مسکرائی اور اثبات میں سرہلایا۔

”ہاں، میں ضرور سناﺅں گی۔“ بازل نے تشکر سے اس کاہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔

”شکریہ۔“

رات نو بجے اُس کی فلائٹ تھی اس لیے وہ شام میں ہی گھر سے نکل گیا تھا۔ نوریہ کا دل ہول رہا تھا۔ بے اختیار اُس کے لبوں پر آیت الکرسی کا ورد جاری ہوا۔ تین بار مکمل پڑھ لینے کے بعد اُسے قرار نصیب ہوا تو وہ ٹھٹکی، یہ اُس نے کیا کیا تھا؟

٭….٭….٭

”اور وہ جو بتوں کی پوجا سے بچے اور اللہ کی طرف رجوع ہوئے انہی کے لیے خوش خبری ہے تو خوشی سناﺅ میرے ان بندوں کو جو کان لگا کر بات سنیں۔“

نوریہ رک گئی،کیا اللہ تعالیٰ اس سے کہہ رہا ہے؟

”رک کیوں گئیں،پڑھتی رہو نوریہ۔“ سعدیہ نے کہا تو وہ دوبارہ پڑھنے لگی۔

”پھر اس کے بہتر رستے پر چلیں ۔ یہ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت فرمائی اور یہ ہیں جن کو عقل ہے۔تو کیا وہ جس پر عذاب کی بات ثابت ہو چکی،نجات والوں کے برابر ہو جائے گا؟تو کیا تم ہدایت دے کر آ گ کے مستحق کو بچا لو گے؟“                                                (سورة الزمر،آیت ۸۱۔۶۱)

سعدیہ کی ہچکی نے نوریہ کو رکنے پر مجبور کردیا، وہ رو رہی تھی۔ نور نے جلدی سے قرآن مجید اُٹھا کررحل پہ رکھ دیا اور سعدیہ کا ہاتھ پکڑ کر سہلانے لگی۔

”میں ٹھیک ہوں، پریشان مت ہو نور۔ اب میں مازن کے لیے نہیں، اپنے لیے روتی ہوں۔ میں نے تکبر کیا تھا، اُسی گھمنڈ کی سزا ملی ہے۔ دعویٰ کیا تھا میں نے اپنی اولاد کو نیک بنانے کا، حد سے تجاوز کرتے ہوئے میں بھول گئی تھی کہ نیکی کی توفیق اللہ کی طرف سے ہے، وہ جسے چاہے ہدایت دے۔“ سعدیہ نے ہاتھ کی پشت سے اپنے آنسو پونچھے۔

”میرے بیٹے کو سزا مل گئی، وہ اسی لائق تھا، آگ کا مستحق۔“ سعدیہ پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ نوریہ کا وجود پتے کی طرح لرز رہا تھا۔ اُس نے رحل پر رکھا قرآن اُٹھایا اور سعدیہ کو چھوڑ کر اپنے کمرے میں آگئی۔ ’مازن‘،وہ ناسٹی مازن، جو اس کا رہنما بن کر اسے رستے سے بھٹکاگیا، اُس کی ماں اُسے آگ کا مستحق قرار دے رہی ہے، تو میں؟ اُس کا کہا ماننے والی، بغیر سوچے سمجھے اس کے پیچھے چلنے والی، میں کہاں پہنچوں گی۔

اُس نے تھرتھراتے ہوئے اپنے ہاتھوں میں پکڑے قرآن کی طرف دیکھا، ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو وہ پڑھ رہی تھی، کان لگا کر بات سننے والے،ہاںیہ وہی تو تھی، ہر صبح کان لگا کربازل کی قرئات سننے والی،توکیا میں اللہ سے معافی مانگ لوں؟

توبہ کرلوں؟ وہ بخش دے گا مجھے؟ پر میں نے ایسا کون سا نیک کام کیا ہے، جو وہ مجھے بخشے، میری دعا قبول کرے۔

بازل کہتا ہے ہمارے ماں باپ ہم سے بلاجواز محبت کرتے ہیں۔

”اے اللہ تو نے مجھے پیدا کیا، میں تیری ہی تخلیق ہوں نا، تو تو مجھ سے نفرت کیسے کرسکتا ہے؟ نہیں اللہ مجھ سے محبت ہی کرتا ہوگا، کرتا ہے۔“ اُس نے خود کو یقین دلایا۔

”وہ تو ستر ماﺅں سے زیادہ محبت کرتا ہے تو بلاجواز ہی کرتا ہے نا۔“

”یا اللہ۔“ اُس نے قرآن سینے سے لگا کر اُسے پکارا۔ ”مجھے بتادے تو نے مجھے معاف کردیا؟“ پھر اُسے کچھ خیال آیا اور بے تابی سے قرآن مجید کھول کر اُس نے پڑھنا شروع کیا۔

” جنہوں نے اپنی نمازیں گنوائیں اور اپنی خواہشوں کے پیچھے ہوئے تو عن قریب ان کو گم راہی (کی سزا) ملے گی مگر جو تائب ہوئے اور ایمان لائے اور اچھے کام کیے تو یہ لوگ جنت میں جائیں گے اور انہیں کچھ نقصان نہ دیا جائے گا۔“                 (سورئہ مریم،آیت ۰۶۔۹۵)

نوریہ کو جواب مل گیا تھا ۔اس نے خوشی اور دکھ کے ملے جلے جذبات کے ساتھ قرآن مجید چوم کر میز پر رکھا اور روتی ہوئی سجدے میں گر گئی۔

”میں نے توبہ کی یا اللہ، میں نے توبہ کی۔“ زمین اس کے آنسوﺅں سے بھیگنے لگی۔

٭….٭….٭

بازل تیمور کے سرہانے بیٹھ کر سورة یٰسین پڑھ رہا تھااور بس ایک رکوع تک ہی سننے کی تاب تھی اُس میں کہ ہاتھ اُٹھا کر اُسے خاموش کرادیا۔

”بس کردو، میرا درد بڑھ رہا ہے۔“ بازل نے ایک نظر اُسے دیکھا پھر دوبارہ سر نیچے کرکے خاموشی سے تلاوت کرنے لگا۔ تیمور کو غصہ آگیا۔

”کہانا بند کردو، مت پڑھو۔“ بازل نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی۔

”میں ماما کو بھی سناتا ہوں، آپ سن لیجیے بہت سکون ملے گا۔“

”ہونہہ، ہاں تمہاری ماں؟وہ جو پاگل ہوگئی، دیکھ لو کیا ملا اُسے؟ میں نے کم از کم زندگی اپنی مرضی سے جی لی۔ عیش کرلیے اور وہ ترستی رہی، بیٹا بھی مرگیا۔“ تیمور کی فضول گفت گوبازل کے لیے ناقابل برداشت تھی مگراُس کی حالت کے پیش نظر وہ کچھ بھی کہنے سے رُک گیا مگر تیمور چپ نہیں رہا۔

”انجام تو ہم دونوں کا ایک ہی رہا نا، وہ بھی مرجائے گی اور میں بھی مرجاﺅں گا۔“ بازل بے یقینی سے اپنے باپ کو دیکھ رہا تھا جو گو ر کنارے آلگا تھا مگر باز نہیں آیا تھا۔

”نہیں پاپا، آپ دونوں کا انجام ایک نہیں ہے۔“

”بازل! وہ تیری ماں صوم و صلوٰة کی پابند پرہیز گار عورت اور میں عیاش،زانی اوربے راہ رو۔ ہم دونوں کی منزل ایک ہے، موت۔“ تیمور نے خوف ناک انداز میں کہا اور بازل نے نفی میں سرہلا کر اُس کی تائید سے دوبارہ انکار کیا۔

”نہیں، پاپا آپ کی اور ان کی منزل ایک نہیں ہے۔“ وہ اُٹھ کر تیمورکے پاس کھڑا ہو کر بولا۔

”میں مانتا ہوں وہ مازن کو راہ راست پر نہ لاسکیں، لیکن اُنہوں نے کوشش توکی۔ اپنی اولاد کو، آپ کو اور خود کو اللہ کے کہے رستے پر چلانے کی۔“

”اور اللہ کی راہ میں کوشش کرنے والوں کی موت درد ناک تو ہوسکتی ہے لیکن عبرت ناک نہیں۔“ تیمور کو چپ لگ گئی۔ بازل کو اپنے تلخ لہجے پر تھوڑا افسوس ہوا، وہ سرجھکا کر تھوڑی دیر کے لیے کمرے سے باہر نکل گیا۔

پندرہ منٹ بعد جب وہ کمرے میں واپس آیا توتیمور اس دنیا سے جاچکا تھا۔

بازل نے روتے ہوئے اپنے باپ کی مغفرت کی دعا مانگی اور پھر سے قرآن مجید اُٹھا کر پڑھنا شروع کردیا۔

                ”اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اسے اپنے تک پہنچنے کا رستہ دکھاتا ہے۔وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کے دلوں کو اللہ کی یاد سے تسکین ہوتی ہے، خبردار! اللہ کی یاد سے ہی دل تسکین پاتے ہیں۔“                              (سورة الرعد، آیت ۷۲۔۶۲)

٭….٭….٭

ختم شد

Loading

Read Previous

چکلے – ساحر لدھیانوی

Read Next

تو ہی تو کا عالم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!