بازل نے مازن کے ناراض ہوکر باہر نکلتے ہی ڈرائیور کو انٹر کام کیا تھا کہ اُسے گھر چھوڑ کر آئے لیکن اُسے پتا چلا کہ مازن اُسے منع کرکے جاچکا ہے۔ بازل نے اُس کا فون ملایا، بیل ہوتی رہی پھر کال کاٹ دی گئی۔ بازل نے ایک گہرا سانس لے کر اُسے میسج کیا۔
”گھر پہنچ کر میسج کردینا۔“ جواب بھی فوراً مل گیا تھا مازن کی طرف سے۔
”شٹ اپ!“
بازل نے لب بھینچ لیے۔ پتا نہیں کیوں اُسے بہت گھبراہٹ ہورہی تھی۔ وہ بے چینی سے کمرے میں ٹہلنے لگا۔ پھر خیال آیا ڈرائیور کو مازن کے پیچھے بھیجنا چاہیے۔ شاید ابھی زیادہ دور نہ گیا ہو، مگر رک گیا۔ مازن بہت غصے میں گیا تھا، عین ممکن تھا ڈرائیور غریب کی شامت آجاتی۔ بالآخر وہ تھک ہارکر بیٹھ گیا۔ گھڑی دیکھی تو چار بج رہے تھے۔ اگر وہ گھر کی جانب گیا ہے تو اُسے آدھ پون گھنٹے میں وہاں پہنچ جانا چاہیے۔ بازل نے اپنی دراز کھول کر اسکول کی فائل نکالی،پھر اسٹوڈنٹس ڈائریکٹری کا پیج تلاش کرکے اُس میں سے سعدیہ کے گھر کا لینڈ لائن نمبر نکالا۔ وہ موبائل سے نمبر ملانے ہی والا تھا کہ رک گیا۔ سعدیہ کا سلوک وہ بھولا نہیں تھا۔ اب بھی اگر وہ فون کرتا تو اس کے کچھ بھی پوچھنے سے پہلے سعدیہ اُسے کھری کھری سنا کر فون بند کردیتی۔ یہ سوچ کر اس کی ہمت ہی نہیں پڑی فون کرنے کی۔ وہ اپنا سر پکڑ کر بستر پر ڈھے گیا۔
آدھ گھنٹہ یونہی گزر گیا، پھر پورا ایک گھنٹہ گزر گیا۔ بازل عصر کی نماز پڑھنے کے لیے اُٹھا پہلی بار اس سے نماز بھی یکسوئی سے ادا نہیں کی جارہی تھی۔ نماز ختم کرنے کے بعد اس نے ہمت کی اور سعدیہ کے گھر کا فون ملالیا۔ اُس نے سوچ لیا تھا وہ مازن کا دوست بن کر بات کرے گا۔ پہلی دو کالز پر نمبر انگیج ملا تو اس نے فون ڈس کنکٹ کردیا یہ سوچ کر کہ تھوڑی دیر بعد کرے گا مگر وہ ایسا نہ کرسکا۔
٭….٭….٭
تیمور نے نیویارک پہنچ کر کچھ روز اپنے دوست کے گھر قیام کیا۔ اُس کے بعد اپر ایسٹ سائڈمین ہٹن میں ایک اسٹوڈیو اپارٹمنٹ کرائے پر لے لیا اور وہاں شفٹ ہوگیا۔ یہ اپارٹمنٹ مکمل طور پر فرنشڈاور تمام سہولیات سے مزین تھا جو تیمور جیسے تنہا انسان کی تمام ضروریات بہ خیر و خوبی پورا کرتا۔ اُس کا ارادہ یہاں ایک دو ماہ سے زیادہ ٹھہرنے کا نہیں تھا۔بس جب تک اُ س کے متعلق خبریں گردش کرتی رہتیں، وہ منظر عام پر آنا نہیں چاہتا تھا۔
یہاں اُس کی زندگی لگی بندھی روٹین میں گزرتی ۔کبھی کبھار فیکٹری منیجر یا آفس سے فون آجاتے و گرنہ سارے معاملات وہ بازل کے ذمے لگا آیا تھا۔ جنہیں وہ نہایت سمجھداری سے چلا رہا تھا۔ یہ دن اُس کی چھٹیوں کے تھے اور زوہ اس وقت کا بھرپو رفائدہ اٹھا رہا تھا۔ اس کی شامیں کسینو میں گزرتی تھیں اور راتیںشراب نوشی کرتے اور تلذذ حاصل کرتے، بس سب کچھ بہت اچھا جارہا تھا اور وہ خوش تھا۔
دو ہفتے گزر چکے تھے ، دو تین ہفتے وہ مزید قیام کرتا پھر اس نے واپس چلے جانا تھا۔ کم از کم اس نے یہی پلان بنا رکھا تھالیکن اُس رات سب گڑ بڑ ہوگیا۔ تیمور کا بہت برا ایکسیڈنٹ ہوا۔ کسینو سے باہر آتے ہوئے وہ سڑک پار کرکے اپنی گاڑی کی طرف جارہا تھا کہ لڑکھڑا کر سڑک کے عین درمیان گر پڑا، اس کا پاﺅں مڑ گیاتھا۔ اس سے پہلے کہ وہ اُٹھنے کی کوشش کرتا ایک تیز رفتار گاڑی اس کا پاﺅں کچلتی ہوئی گزر گئی۔ اس کا ڈرائیور نشے میں تھا، اندھیری سڑک کے درمیان بلیک سوٹ میں ملبوس تیمور اُسے بالکل نظر نہیں آیا تھا۔ تکلیف سے کراہتے گھسٹ گھسٹ کر وہ بڑی مشکل سے کنارے تک آیا اور مدد کے لیے پولیس کو فون ملادیا۔ ان کے پہنچنے تک وہ ہوش وخرد سے بیگانہ ہوچکا تھا۔
٭….٭….٭
”نومیم، کالج میں کوئی فنکشن نہیں ہے، یہاں ٹیچرز کی ورکشاپ چل رہی ہے اس لیے ابھی تک ہم موجود ہیں، ورنہ تو آف ہوجاتا۔“ سعدیہ نے بے یقینی سے پوچھا۔
”آپ سچ کہہ رہی ہیں؟“
”یس میم، آف کورس، بائے دا وے آپ کس کی مدر بات کررہی ہیں، ہیلو ہیلو؟“ سعدیہ نے کوئی جواب دیے بغیر فون رکھ دیا تھا۔ اُسے یقین نہیں آرہا تھا شاید وہ یقین کرنا نہیں چاہتی تھی کہ مازن نے اُس سے جھوٹ بولا ہے، بلکہ بے وقوف بنایا ہے۔ لیکن کیوں؟ وہ بھاگی بھاگی اس کے کمرے میں آئی اور تلاشی لینے لگی، پہلے اس نے بستر کا گدا ہٹایا پھر چادر اُتار کر پھینک دی۔’دھپ‘ سے کوئی چیز زمین پر گری تھی۔ سعدیہ نے کانپتے ہاتھوں سے پلے بوائے کا میگزین اُٹھایا اور نہایت غصے میں دیوار پر دے مارا۔ اب وہ پاگلوں کی طرح مازن کی کتابیں، اُس کے کاغذ اور الماریاں دیکھ رہی تھی۔ ایک ایک کاغذ، ایک ایک چیز اس نے چیک کی اور زمین پر پھینک دی۔ پھر کپڑوں کی الماری کی باری آئی۔ اس نے شرٹس کی جیبوں کو کھنگالنا شروع کیا پھر ٹراﺅزرز، ایک جیب میں اسے کچھ ریپرز ملے۔کچھ خالی کچھ بھرے اور اب بھی اگر وہ مازن کی بے راہ روی پر یقین نہ کرتی تو اُسے ڈوب مرنا چاہیے تھامگر اس نے یقین کرلیا کہ اب اس سے زیادہ ثبوت اور کیا ملتے؟
وہ سر پکڑے بیٹھی تھی۔ مازن کہاں گیا تھا؟ کب واپس آئے گا؟آئے گا بھی یا نہیں؟ اُسے کچھ پتہ نہیں تھا۔ وہ کہاں جاتی ، کس سے معلوم کرتی؟ اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ مازن کے کسی دوست کو وہ نہیں جانتی تھی۔ سوائے بازل کے، ہاں میں اُس سے پوچھ سکتی ہوں مگر کس منہ سے مدد مانگوں، میں نے اس بے چارے کو ہمیشہ برا بھلا کہا اس کی بات کا یقین نہیں کیا، حالانکہ وہ سچ کہہ رہا تھا۔ میرے اللہ! اس نے تڑپ کر اللہ کو پکارا۔
”میں کیا کروں؟ کہاں ڈھونڈوں اس لڑکے کو، میری مدد کر، میرے مالک میری مدد کر۔“ وہ سجدے میں گر پڑی اور دیر تک آہ وزاری کرتی رہی۔
٭….٭….٭
بازل خبریں سن رہا تھا، شہر کے حالات ٹھیک نہیں تھے۔ فساد کرنے والے مارکیٹیںزبردستی بند کروا کر بینک میں لوٹ مار کرتے، سڑکوں پر سگنلز اور دیگر سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ کرتے آگے بڑھ رہے تھے۔ کئی علاقوں میں بدترین ٹریفک جام تھا۔ شام کے سات بج رہے تھے۔ بازل نے گھڑی دیکھی اور ایک بار پھر مازن کی خیریت معلوم کرنے کی غرض سے سعدیہ کے گھر کا نمبر ملایا۔ بیل جارہی تھی مگر کسی نے فون نہیں اُٹھایا۔ اُس نے ڈس کنکٹ کردیا۔ پھر مازن کا نمبر ملانے لگامگر اس کا فون پاورڈ آف تھا۔ اُس نے مایوس ہوکر اپنا سیل فون بستر پر پھینک دیا۔ اُسی وقت ایک کال آئی، بازل نے تیزی سے بڑھ کر اپنا فون دیکھا تو وہ نمبر سعدیہ کے گھر کا تھا اُس نے تھوڑی حیرانی کے ساتھ فوراً کال ریسیو کرلی۔
”السلام علیکم۔“ اس نے کہا۔
جواب میں کچھ دیر خاموشی چھائی رہی پھر بھرائی ہوئی آواز میں سعدیہ نے وعلیکم السلام کہا اور سسکیاں لے کر رونے لگی، بازل گھبرا گیا۔
”کیا ہوا ماما سب خیریت تو ہے نا، مازن کہاں ہے؟“
”وہ مجھ سے جھوٹ بول کر پتا نہیں کہاں غائب ہوگیا ہے، کہہ رہا تھا کالج میں ’بون فائر‘ ہے وہاں جاﺅں گا۔ میں نے کالج فون کیا تو وہ کہہ رہے ہیں ایسا کوئی فنکشن نہیں ہے، میرا تو دل بیٹھا جارہا ہے، یہ لڑکا کہاں چلا گیا؟“ اتنا کہہ کر سعدیہ پھر سے رونے لگی۔
بازل بھی فکر مند ہوگیا تھا۔ مازن اس کے پاس سے ناراض ہوکر پہلے گھر گیا لیکن وہاں سے کہاں چلا گیا تھا؟ یہ سمجھ نہیں آرہی تھی۔ ضرور دوستوں کے ساتھ ہوگا مگر بازل کس سے پوچھے؟ عاصم؟ ہاں وہ اپنے کزن شرجیل سے ثاقب وغیرہ کا نمبر اور ایڈریس پوچھ کر بتادے تو شاید کچھ معلوم ہو۔ مگر ابھی سعدیہ کو تسلی دینا ضروری تھا وہ گھر پہ اکیلی تھی اور جس علاقے میں رہتی تھی وہاں کے حالات سب سے زیادہ خراب تھے، اس نے سعدیہ کو ہمت دلائی۔
”آپ فکر مت کریں ماما، میں اس کے دوستوں کا ایڈریس معلوم کرتا ہوں۔ ویسے تو ہوسکتا ہے وہ تھوڑی دیر بعد خود ہی گھر واپس آجائے،ابھی حالات خراب ہیں شاید اس لیے وہ پہنچ نہ سکا ہو۔“
”حالات خراب ہیں؟ کیوں کیا ہوا؟“ بازل نے مختصراً اسے شہر میں ہونے والے ہنگاموں کی بابت مطلع کیا، سعدیہ اور پریشان ہوئی۔
”ہائے اللہ، اب کیا ہوگا؟“
”آپ پلیز گھبرائیں نہیں، دعا کریں سب خیریت ہو۔ میںکچھ دیر میں معلوم کرکے آپ کو بتاتا ہوں۔ “ بازل نے سعدیہ کو تسلی دے کر فون بند کیا۔ پھر عاصم کو کال کی،اُس نے فوراً ہی شرجیل کا نمبر بھیج دیا۔ اب وہ شرجیل کو کال کررہا تھا یہ دعا کرتے ہوئے کہ مازن کا جلد پتا مل جائے۔
ایسا پہلی بار ہورہا تھا کہ بازل کو اپنی دعا کے قبول ہونے کا شبہ تھا، وہ اسی لیے زیادہ گھبرایا ہوا تھا۔ معلوم نہیں کیوں اُسے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے کچھ غلط ہونے والا ہے اور اس ڈر میں گھرا وہ اپنے گھر میں تنہا تھا اور سعدیہ اپنے گھر میں۔
٭….٭….٭
رات کے ساڑھے نو بج رہے تھے۔ نہ تو مازن واپس آیا تھا اور نہ بازل نے ہی فون کیا تھا۔ سعدیہ کے دل میں بدگمانی پھر سے جگہ لینے لگی۔کیاپتابازل جان بوجھ کر مجھ سے چھپارہا ہو؟ مگر اس خیال کو اگلے ہی پل مسترد کرنا پڑا۔ اُسے وہ ثبوت یاد آئے جو مازن کے کمرے سے ملے تھے۔ کہیں نہ کہیں تو مازن قصوروار تھا، اب اس کے بستر کے نیچے وہ میگزین بازل نے تو نہیں پہنچایا تھا اور نہ وہ سعدیہ سے جھوٹ بول کر مازن کو گھر سے زبردستی لے کر ہی گیا تھا۔ یہ کام تو مازن نے کیے تھے۔ خود کو سمجھاتے ہوئے اس نے بازل کا نمبر ملایامگر وہ انگیج جارہا تھا۔ اس نے کال کاٹی پھر ملائی، انگیج ٹون سن کر دوبارہ کاٹی، پھر ملائی، وہ بالکل پاگل ہوگئی تھی، اس سے صبر نہیں ہورہا تھا۔ آٹھویں بار اس نے کال ملا کر بالآخر فون رکھ دیا۔ گھڑی دیکھی پونے دس بج رہے تھے۔ پورے پانچ منٹ بعد فون کی گھنٹی بجی۔ وہ جو قریب ہی ٹہل ٹہل کر آیت الکرسی کا ورد کررہی تھی لپک کر فون اُٹھانے پہنچی، یہ عارفہ تھیں۔ان کے سلام اور تعارف کرانے تک سعدیہ سوچ چکی تھی ان سے معذرت کرے فون رکھ دے گی مگر ان کے منہ سے مازن کا نام سن کر وہ پوری بات سننے پر مجبور ہوگئی، عارفہ کہہ رہی تھیں۔
”مازن کو ڈھونڈنے صلاح الدین ساتھ گئے ہیں بازل کے، تم فکر مت کرو۔ صلاح الدین کی پولیس میں اچھی جان پہچان ہے۔ یہ لوگ کوشش کررہے ہیں کہ مازن کا نمبر ٹریس کرسکیں، فی الحال تو اس کا فون بند ہے بس تم دعا کرو انشاءاللہ خیر ہوگی۔“
”مازن“ کا فون؟ یعنی اس نے پھر سے، اُف۔ عارفہ نے بات ختم کرکے فون بند کردیا تھا اور سعدیہ ایک ایک لمحہ یاد کرکے اپنا سر پیٹ رہی تھی۔ زور زور سے اپنے ہاتھ منہ پر مار رہی تھی، رو رہی تھی، بلک رہی تھی۔ اُسے افسوس تھا ہر اس لمحے پر جب اس نے مازن پر بھروسا کیا۔ اس کی باتوں کو سچ جانا اس کے جھوٹ کا یقین کیا۔ وہ سر پہ ہتڑ مار مار کے رو رہی تھی اور کیوں نہ روتی، ’مازن‘ جو اس کا غرور تھا اسی غرور نے آج سعدیہ کو منہ کے بل زمین پر گرایا تھا۔
٭….٭….٭
جلال خان کا چہرہ سرخ ہورہا تھا۔ اپنے اندر اُبلتے لاوے کو روکنا بہت مشکل تھا مگر اُسے صبرکرنا تھا۔ ولایت خان نے چند ہفتوں کے لیے اُسے اپنی جگہ ڈرائیور رکھوایا تھا، ورنہ جلال خان کبھی ایسے بے غیرت انسان کا ڈرائیور نہ بنتا۔ ابھی بہ مشکل ایک ہفتہ ہوا تھا اور اس نے ثاقب کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر اس کے متعلق یہی رائے قائم کی تھی کہ وہ ایک نمبر کا بے غیرت ہے۔
لیکن آج وہ اس وجہ سے غصے میں نہیں تھا کہ اُسے ثاقب کی سرگرمیاں ناپسند تھیں آج تو کچھ اور ہی وجہ تھی۔ اپنی دانست میں جلال خان حق پر تھا، جب ساڑھے نو بجے ثاقب اپنے دوست مازن کے ساتھ گھر سے باہر آیا اور اُسے گاڑی نکالنے کا کہا تو جلال خان نے پوچھا۔
”صاب کتنی دیر کا کام ہے؟“ جس پر ثاقب نے تیوریاں چڑھا کر اُسے جھڑکا۔
”تمہیں اس سے کیا مطلب؟“
”وہ صاب ام نے کھانا نہیں کھایا، اگر دیر کا کام اے تو ام کھانا ساتھ لے چلتا ہے۔“
”سیدھے گاڑی میں بیٹھو، ایک دن کھانا نہیں کھاﺅگے تو مر نہیں جاﺅگے۔“ ثاقب کو اس اجڈ پر پہلے دن سے غصہ آیا ہوا تھا۔ جلال خان بھی دبنے والا نہیں تھا اُس نے دوبدو ہوکر کہا۔
”مرے گا تو تم بھی نہیں صاب، اگر ام پانچ منٹ میں کھانا کھا کر آگیا تو کیا حرج اے۔“ اور ثاقب نے اس کے منہ پر زور سے تھپڑ دے مارا۔ جلال خان نے بڑی مشکل سے اپنا ہاتھ پکڑ کر خود کو جواب دینے سے روکا، ثاقب اُسے گندی گندی گالیاں نکالتا رہا اور وہ چپ کھڑا سنتا رہا۔ اُسی طرح چپ چاپ وہ ثاقب کے حکم پر گاڑی میں آبیٹھا۔ مازن اور ثاقب بھی سوار ہوگئے اور گاڑی چل پڑی۔
ثاقب مسلسل کسی سے فون پر بات کررہا تھا جب کہ مازن نے اپنا فون شام سے بند کررکھا تھا اور نکلنے سے پہلے اُسے ثاقب کے روم میں چھوڑ آیا تھا۔ ویسے بھی وہ دونوں جہاں جارہے تھے وہاں موبائل کے سگنلز کام کرنا بند کردیتے تھے۔ ٹریفک کی وجہ سے انہیں اس بنگلے تک پہنچنے میں پینتالیس منٹ لگ گئے۔ گیٹ پر اچھی طرح سے چیکنگ کی گئی اور انہیں اندر جانے کا راستہ دے دیا گیا۔ پورچ میں گاڑی سے اترنے کے بعد ثاقب نے جلال خان سے کہا۔
”تم گاڑی گھر لے جاﺅ اور صبح آٹھ بجے آجانا، جاﺅ دفع ہوجاﺅ۔“ جلال خان کوئی جواب دیے بغیر گاڑی میں بیٹھا اور اُسے نکال لے گیا۔ واپسی میں اُ س کا رخ ایک ہوٹل کی جانب تھا۔ اُس کے پاس پانچ سو روپے تھے اور وہ کباب تکے کھانے کی غرض سے سی ویو پر بنے اوپن ائیر ریسٹورنٹس کی لمبی قطار میں سے ایک کے سامنے جاکر ٹھہر گیا تھا۔ اُسے گھر جانے کی کوئی جلدی نہیں تھی کہ ابھی تو ساڑھے دس بجے تھے۔
مازن کا استقبال بڑے پرتپاک انداز میں کیا گیاتھا۔ پہلے تو اس کے لیے ”ہیپی برتھ ڈے“ کا گیت گایا گیا پھر اُسے قدیم مصری رقاصہ کا لباس فراہم کیا گیا تاکہ وہ اسے تبدیل کرکے پارٹی کی تھیم کے مطابق خود کو تیار کرلے۔ فرحان اُس کا ہاتھ پکڑ کر ”ریڈ روم“ میں لے گیا جہاں تیاری کے تمام لوازمات پہلے سے موجود تھے۔ مازن سیٹی بجاتے ہوئے لباس تبدیل کرنے لگا۔
٭….٭….٭
بازل کی شرجیل سے بات نہیں ہوسکی تھی کیوں کہ وہ بھی اپنے گھر موجود نہیں تھا۔ اُس کے والد نے البتہ بازل سے اچھی طرح بات کی لیکن ثاقب کے ایڈریس کے بارے میں وہ بھی کچھ نہیں جانتے تھے۔ بازل نے دوبارہ عاصم کو کال کیا اور پوچھا۔
”کیا کسی ایسے دوست کا نمبر ہے تمہارے پاس جو ثاقب کا پتا بتاسکے؟“ لیکن اس کا جواب نہایت مایوس کن تھا۔
”نہیں یار، کچھ نہیں معلوم ،سوائے اس کے ڈیفنس میں رہتا ہے۔“ بازل اب اتنے بڑے ڈیفنس ایریا میں کہاں کہاں پھرتا؟ اس نے تھینکس کہہ کر فون بند کردیا۔
بہت سوچ کر اس نے صلاح الدین انکل کو فون کیا اور ساری کہانی سنائی۔ ان کے پولیس میں بہت جاننے والے تھے اور بازل کو ان سے مدد ملنے کی پوری اُمید تھی۔ صلاح الدین نے بازل سے کہا کہ وہ ان کے گھر آجائے یہاں سے متعلقہ تھانہ قریب پڑتا تھا۔ بازل اپنے گارڈ کو لے کر فوراً اُن کے گھر کی طرف روانہ ہوگیا تھا۔ رستے میں اُسے اچانک گڑیا کا خیال آیا بجلی کی سی تیزی سے اُس نے اپنی گاڑی سائڈ میں روکی اور فون چیک کرنے لگا۔ اگر وہ نمبر سم میں محفوظ تھا تو ابھی اُسے مل سکتا تھا۔ وہ پیچھے جاتا گیا اور بالآخر وہ نمبر اُسے مل گیا۔
لیکن وہ جانتا تھا کہ گڑیا اتنی آسانی سے اُسے ثاقب کا ایڈریس نہیں دے گی۔
”کوئی مسئلہ نہیں ہے یہ کام تو اب پولیس ہی کروائے گی۔“ اُس نے گاڑی دوبارہ سٹارٹ کی اور صلاح الدین انکل کے گھر پہنچ گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ اُن کے ساتھ تھانے میںتھا۔ صلاح الدین کے ساتھ ہونے کے باعث پولیس نے اُس کی بات بہت توجہ سے سنی۔ مازن کا نمبر انہیں دیا گیامگر وہ اُسے ٹریس نہیں کرسکتے تھے کیوں کہ وہ بند پڑا تھا۔ بازل نے تھوڑی بہت تفصیل بتاکر انہیں گڑیا کا نمبر دیا۔ اُنہوں نے کافی پھرتی دکھائی اور پندرہ منٹ بعد اہلکار گڑیا کا ایڈریس لے کر آگیا۔ پہلے گڑیا کو کال کرکے تصدیق کی کہ وہ گھرپر ہی موجود ہے۔ ایک اہلکار نے بازل کے نمبر سے اُس سے بات کی تھی۔ پولیس والوں کو علم تھا کہ سونیا عرف گڑیا کس طرح کے کاموں میں ملوث ہے۔ ڈرگ ایڈکٹ ہونے اور کئی بار پکڑے جانے کے باعث وہ پہلے سے اُن کی نظروں میں تھی۔ بازل ایک پولیس اہلکار کے ہمراہ اُس کے گھر گیا اور اُسے گیٹ پر ہی بلا کر ثاقب کا ایڈریس پوچھا۔ وہ ہرگز نہ بتاتی اگر پولیس بازل کے ساتھ نہ ہوتی۔ ثاقب کا ایڈریس ملنے کے بعد وہ لوگ فوراً ہی اُس کے گھر کی جانب روانہ ہوگئے تھے۔ اس دوران سعدیہ کی مسلسل کالز پہ کالز آرہی تھیںجو وہ مس کرتا رہا تھا۔ اُس نے عارفہ آنٹی کو کال کی اور سعدیہ سے بات کرنے کے لیے کہا تھاکہ وہ انہیں تسلی دے دیں۔
ثاقب بھی شرجیل کی طرح گھر پر موجود نہیں تھالیکن اس کا موبائل ا س کے پاس تھا۔ صلاح الدین نے پولیس کو کال کی تاکہ ثاقب کا نمبر دے کر معلوم کروایا جاسکے وہ کہاں ہے؟ لیکن اُن کے کچھ کہنے سے قبل ہی انسپکٹر نے انہیں ایک اہم اطلاع دی۔ جلال خان نامی ایک شخص نے تھانے میں آکر رپورٹ دی تھی کہ ڈیفنس فیز ایٹ میں واقع بنگلے میں نوجوان لڑکے غیر قانونی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ شبہ تھا کہ مازن اور ثاقب بھی وہیں موجود ہیں۔ اطلاع دینے والا ثاقب کا ڈرائیور ہے اس لیے شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ خبر درست ہے۔
صلاح الدین نے جیسے ہی بات مکمل کرکے فون بند کیا اُن کا فون دوبارہ بج اُٹھا، یہ عارفہ تھیں۔
”کہاں ہیں آپ دونوں؟ کچھ پتا چلا مازن کا؟“
”ہاںپتاچل گیا ہے ،پولیس نے معلوم تو کرلیا ہے وہ کہاں ہے مگر….“ عارفہ نے حسب عادت اُن کی بات کاٹ دی۔
”یہ آپ سعدیہ سے بات کریں وہ یہاں گھر پر آگئی ہے اور کب سے روئے جارہی ہے۔“عارفہ نے اپنا فون سعدیہ کے کان سے لگادیا۔ صلاح الدین نے اُسے صرف اتنا ہی بتایا کہ مازن کا پتا مل چکا ہے۔ جس پر وہ خوب رونے اور اصرار کرنے لگی کہ مازن کو لینے وہ خود ان کے ساتھ جائے گی۔ صلاح الدین نے اُسے سمجھانا چاہا حتیٰ کہ بازل نے بھی کوشش کی پر وہ نہیں مانی۔ عارفہ نے فون لے کر صلاح الدین سے دوبارہ بات کی۔
”آپ لوگ اتنے دور تو نہیں گھر سے قریب ہی ہیں، لے جائیں اسے آکر۔ ماں ہے نا، تڑپتی رہے گی، ساتھ لے جائیں اسے۔“ صلاح الدین مزید کچھ نہ کہہ سکے۔ بازل نے گاڑی صلاح الدین کے گھر کی طرف موڑلی۔
تھوڑی دیر بعد وہ تینوں پولیس کے دیے گئے ایڈریس کے مطابق اُس بنگلے کی جانب جارہے تھے۔ گاڑی گارڈ چلا رہا تھا۔ صلاح الدین آگے اُس کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر تھے اور بازل ماں کے ساتھ پچھلی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ سعدیہ مسلسل قرآنی آیتوں کا ورد کررہی تھی، اُس کے آنسو بہے چلے جارہے تھے اور لب پر صرف دعائیںتھیں۔ اُسے بہت ڈر لگ رہا تھا معلوم نہیں کیا ہونے والا تھا۔ اُس نے گاڑی کے شیشے سے باہر سیاہ آسمان کی طرف دیکھا۔اماوس کی رات تھی، گھپ اندھیرا، کہیں کوئی تارا، کوئی ہلکی سی روشنی کا شائبہ تک نہ تھا۔ اُسے کچھ خبر نہیں تھی کہ بیٹے کا نامہ ¿ اعمال بھی سیاہی میں ڈوب چکا ہے۔
٭….٭….٭