بازل اپنے کمرے میں عشا کی نماز ادا کررہا تھا۔ جاوید اس دوران دوبار آیااور جھانک کر چلا گیا۔ جب وہ تیسری بار آیا تو بازل جا نماز تہ کررہا تھا۔

 ”شکر ہے بھائی آپ کی نماز ختم ہوئی، میرے تو پیر سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے ٹوٹنے لگے تھے۔“ بازل دھیمے سے مسکرادیا۔

”کیا کام ہے؟“

”وہ جی،کوئی مہمان آئی ہیںآپ سے ملنے کے لیے۔ تیمور صاحب کی رشتہ دار بتا رہی ہیں خود کو۔“

”پاپا کی رشتہ دار؟“ بازل سوچتا ہوا جاوید کے پیچھے کمرے سے نکلا۔ جہاں تک اُسے یاد پڑتا تھا تیمور نے کبھی کسی رشتے دار سے تعلقات نہیں رکھے تھے۔ خاص طور پر سعدیہ سے علیحدگی کے بعد نہ وہ کسی کے گھر جاتا تھا اور نہ کوئی ان کے گھر آیا کرتا تھا۔ یہ تو سعدیہ کی عادت تھی کہ میلاد اور ختم شریف کی محفلیں منعقد کرکے عورتوں کو جمع کرلیا کرتی تھی۔ اس کے جانے کے بعد تو، بازل سوچتا ہوا ڈرائنگ روم تک پہنچ گیاجہاں ایک ادھیڑ عمر خاتون اپنی بیٹی کے ساتھ بیٹھی تھیں۔

”السلام علیکم۔“ بازل نے نہایت ادب سے سلام کیا وہ جواب دیتی اٹھ کھڑی ہوئیں۔

”وعلیکم السلام، تم بازل ہونا؟“ اس نے اثبات میں سرہلا کر ان کے درست اندازے کی تصدیق کی۔

”ماشاءاللہ اب تو کافی قد نکال لیا تم نے۔ جب آخری بار دیکھا تھا تمہیں تو اتنے چھوٹے سے تھے۔“ انہوں نے اس کی کمر تک ہاتھ اُٹھا کر دکھایا۔

”سوری آنٹی،مگر آپ کون؟ میں نے پہچانا نہیں آپ کو۔“

”ارے میں عارفہ ہوں بیٹا، تمہارے پاپا کی کزن ہوں۔ بھول گئے کیا؟ تمہاری ماما اتنی بار ہمارے گھر میلاد پر آئیں ہمیں بھی کتنی دفعہ یہاں بلایا تھا۔“ وہ خوامخواہ ہنسنے لگیں۔

”جی بیٹھےے پلیز۔“ بازل نے مسکرا کر اُنہیں بیٹھنے کے لیے کہا۔ اُسے تھوڑا تھوڑا یاد آرہا تھا ۔ یہ آنٹی واقعی آیا جایا کرتی تھیں میلاد وغیرہ میں۔ بازل نے جاوید کو چائے لانے کا اشارہ کیا۔

”دراصل میرا بیٹا شاہ ویر، شاید تمہیں یاد ہو؟“ اُن کے پوچھنے پر اس بار بازل نے انکار کی ہمت نہیں کی ورنہ وہ شاہ ویر کی پوری تفصیل سنانے بیٹھ جاتیں۔ عارفہ مسکرائیں۔

”وہ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لیے جارہا ہے تو ہم نے سوچا سب رشتہ داروں کو بلا کر اچھی سی دعوت کریں تاکہ سب اُسے اپنی دعاﺅں میں رخصت کریں۔ ویسے….“ عافیہ نے اِدھر اُدھر دیکھا۔

”تیمور کب تک آجاتے ہیں آفس سے واپس؟“

”جی وہ پاکستان میں موجود نہیں ہیں۔ کام کے سلسلے میں باہر گئے ہوئے ہیں۔“

”اوہ۔“ عارفہ آنٹی کا چمکتا دمکتا چہرہ ایک دم بجھ گیا۔

”کب تک آئیں گے؟“

”کچھ کہہ نہیں سکتا، مہینہ دو مہینے لگ جائےں شاید۔“

”اوہ۔“ وہ بہت مایوس ہوئیں اور طوبیٰ کی طرف دیکھاجس کا تعارف ابھی تک نہیں کروایا تھا انہوں نے۔ بازل نے خود ہی پوچھا۔

”یہ آپ کی بیٹی ہیں؟“ اور عارفہ چونکیں۔

”ہاں، ہاں یہ میری چھوٹی بیٹی ہے طوبیٰ۔ بڑی کی تو شادی ہوگئی وہ کینیڈا میں ہوتی ہے یہ ابھی پڑھ رہی ہے۔“

جاویدچائے لے کر آگیا جوبازل نے اُنہیں اصرار کرکے پلوائی۔ جانے سے پہلے انہوں نے بازل کو گلے لگا کر پیار کیا۔

”ماشاءاللہ، تم بالکل اپنی امی کی طرح ہو۔ وہ سب سے اسی طرح اخلاق برتتی تھیں۔ تیمور تو یہاں ہیں نہیں، اس لیے اب تم آﺅگے اپنے بھائی کو خدا حافظ کرنے،اچھا!“

 بازل نے وعدہ کرلیا کہ وہ ضرور آئے گا۔

٭….٭….٭

رات بھر بے چین نیند سو کر سعدیہ نے صبح فجر کی نماز کے بعد فیصلہ کرلیا کہ اسکول سے چھٹی لے کر گھر پر آرام کرے گی۔ پچھلا پورا ہفتہ بے حد پریشانی میں گزرا تھا اب اُسے آرام کی سخت ضرورت تھی۔ اس نے بڑی مشکل سے مازن کا ناشتہ اور لنچ تیار کرکے دیا اور گولی کھا کر لیٹ گئی۔مازن نے کالج جانے سے پہلے اس کے کمرے میں جھانکا تو وہ بے خبر سوتی نظر آئی۔ وہ چپ چاپ گھر سے باہر نکل آیا اور اپنے پاس موجود فاضل چابی سے دروازہ لاک کردیا۔ بس سٹاپ کی طرف جاتے ہوئے اس کے دل میں سو طرح کے خیالات آتے رہے۔ فرحان نے اُسے جاب آفر کی تھی اسی کے بارے میں سوچتا وہ بے دھیانی میں ایک موٹر سائیکل سے ٹکرا گیا۔

”ابے اندھا ہے کیا؟“ موٹر سائیکل سوار نے اُسے دیکھ کر نہ چلنے پر اچھی خاصی سنا ڈالیں۔ مازن اپنا گھٹنا سہلاتے ہوئے کوئی جواب دیے بغیر آگے چل پڑا۔ بس جلد ہی آگئی اور وہ اس پر سوار ہوگیا۔ فرحان بھی اس کے ذہن پر سوار رہا اور اس کی پیش کش بھی۔ فرحان کے والد کی ایڈورٹائزمنٹ ایجنسی تھی۔ فرحان نے مازن کو ماڈلنگ کی آفر دی تھی لیکن اس کا اصل کام کچھ اور ہوتا جس کے لیے اُسے پہلے ہی دن رہنے کے لیے شاندار گھر اور گاڑی دونوں مل جاتی۔ اب مازن کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کرے۔ اُس نے فرحان سے سوچنے کا وقت مانگا تھا۔

٭….٭….٭

”کیا سوچ رہے ہو؟“ بازل اُسے اکیلے بیٹھے دیکھ کر نزدیک چلا آیااور وہ جو بالکل گم صم تھا چونک گیا۔

”تم کب آئے؟“ بازل نے اُسے غور سے دیکھا۔

”یہ تمہاری آنکھوں کے گرد حلقے کیوں پڑ گئے ہیں؟ سوتے نہیں ہو رات کو؟“ مازن کنفیوز ہوکر تیزی سے پلکیں جھپکانے لگا۔

”یہ تم مجھے اتنا غور سے مت دیکھا کرو یار، مجھے تمہاری نیت پر شک ہونے لگتا ہے۔“

”بکواس بند کرو، کہاں سے سوچتے ہو ایسی فضول باتیں،ایڈیٹ۔“ بازل کو فوراً غصہ آگیا تھا۔ مازن نے برا سا منہ بنایا۔

”مذاق کیا تھا۔“

”جی ہاں اور بہت بے ہودہ مذاق کیا تھا آپ نے، لیکن جس طرح کے دوست ہیں تمہارے، تم سے اور توقع بھی کیا کی جاسکتی ہے؟“ بازل نے اُسے آڑے ہاتھوں لیا۔

”اچھا چلوغصہ تھوک دو یار، یہ بتاﺅ کوئی نئی مووی لائے ہو گھر پر؟“

”پہلے جو تم نے میرے کمرے میں انبار لگا رکھا ہے اُسے ہٹاﺅ، ورنہ میں پھینک دوں گا۔“

”تو پھینک دو۔“ مازن نے بے پروائی سے کہا۔”میں کوئی بار بار تھوڑی دیکھوں گا انہیں۔“

”پہلے نہیں بتاسکتے تھے؟“

”اچھا چھوڑو، یہ بتاﺅ گھر کب جاﺅگے؟ میں نے ساتھ جانا ہے تمہارے؟“

”آج تو میں دو بجے سے پہلے فارغ نہیں ہوسکتا،انتظارکرلوگے؟“

”نہیں! تم مجھے بھجوا دو ابھی، پھر دو بجے میں ڈرائیور کے ساتھ واپس آجاﺅں گا،آج ماما گھر پر ہیں تو مجھے جلدی جانا ہے۔“ مازن کے بتانے پر بازل نے سعدیہ سے اُسی دن ملنے کا ارادہ کرلیا۔

”ٹھیک ہے تم گھر ڈراپ ہوجاﺅ، لیکن ڈرائیور کو فوراً ہی واپس بھیجنا مجھے کچھ کام ہے۔“ مازن اوکے کہہ کر وہاں سے روانہ ہوگیا اور بازل اپنی کلاس اٹینڈ کرنے چل پڑا۔ دل ہی دل میں یہ سوچتا ہوا کہ جانے سعدیہ اس کا یقین کرے گی یا نہیں۔ کیا معلوم اُسے اپنے سامنے دیکھ کر سعدیہ سب کچھ بھول کر اُسے گلے لگالے، کاش ایسا ہوجائے۔

٭….٭….٭

سعدیہ کو دروازے کی بیل نے نیند سے جگایا۔اس نے وقت دیکھا تو دن کے ساڑھے بارہ بج رہے تھے، وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی ۔ جلدی سے پاس پڑا دوپٹہ اٹھایا اور دروازہ کھولنے بھاگی۔ اُسے لگا مازن اس کی طبیعت کی وجہ سے جلدی گھر آگیا ہے، چابی لے جانا بھول گیا ہوگا اسی لیے بیل بجارہا ہے۔

”آرہی ہوں۔“ اس نے دروازے کے قریب پہنچ کر اُسے کھولتے ہوئے کہا۔

”آگیا میرا بچہ۔“ یہ کہتے ہی دروازہ کھلا تو سامنے مازن کے بہ جائے بازل کھڑا نظر آیا۔ پہلے تو اُسے یقین ہی نہیں آیا پھر جب بازل نے سلام کیا تو وہ ہوش میں آئی۔

”تم؟ تم یہاں کیا لینے آئے ہو؟“

”مجھے اندر تو آنے دیں ماما میں۔“

”میں تمہاری ماں نہیں ہوں۔“ سعدیہ اتنا زور سے چیخی کہ بازل کے پیچھے گلی سے گزرتا سبزی والا ٹھہر کر ان کی شکلیں دیکھنے لگا۔ بازل نے لجاجت سے کہا۔

”پلیز مجھے اندر آنے دیں ایک دفعہ میری بات تو سن لیں۔“ سعدیہ نے کچھ پل سوچا اور پھر اُسے اندر آنے کا راستہ دے دیا پر اس کی تیوریاں چڑھی رہیں جسے کسی نہایت ہی ناپسندیدہ شخص کی بات مجبوراً ماننی پڑ رہی ہو۔

بازل نے گھر کے اندر داخل ہوکر ماں کی طرف دیکھااور بجھ سا گیا۔ سعدیہ کی نظروں میں اس کے لیے محبت نہیں تھی۔

”جلدی بات ختم کرواور جاﺅ یہاں سے۔“

”آپ مجھ سے اتنا ناراض کیوں ہورہی ہیں؟“

”اس لیے کہ میں جانتی ہوں تمہارے باپ نے بھیجا ہے تمہیں۔“

”ہرگز نہیں، میں خود آیا ہوں۔“ بازل سعدیہ کے رویے کو سمجھ نہیں پارہا تھا۔ ناراض تو وہ تھا ماں سے، سعدیہ کو کیا مسئلہ تھا؟ وہ سمجھ نہیں پایا۔ بہر حال اس کے پاس وقت کم تھا اس لیے اپنی بات چھوڑ کر وہ اصل مقصد کی طرف آگیا۔

”مجھے مازن کے متعلق کچھ بتانا ہے آپ کو۔“

”کیا؟ یہی نا کہ وہ کلاسز چھوڑکر دوستوں کے ساتھ پھرتا ہے، کئی لڑکیوں سے دوستی کررکھی ہے اُس نے، تم تو یہ بھی بتانا چاہتے ہو گے کہ مازن کیمپنگ پر نہیں بلکہ اپنے دوست کے فارم ہاﺅس پر عیاشی کرنے گیا تھا۔“

”تو آپ حقیقت جانتی ہیں؟“ بازل کو بے انتہا حیرت ہوئی۔

”ہاں کیوں کہ مازن مجھ سے کچھ نہیں چھپاتا۔“ سعدیہ نے زہر خند لہجے میں کہا۔

”اس نے مجھے تمہاری ایک ایک حرکت کے بارے میں بتا رکھا ہے، لیکن مجھے تم سے یہ اُمید نہیں تھی کہ اتنی ڈھٹائی سے تم اپنے سارے گناہ میرے بیٹے کے سر پر تھوپ دوگے۔“

”میں بھی تو آپ کا بیٹا ہوں۔“ بازل خود پر قابو نہ رکھ سکا اور رو پڑا۔

”نہیں ہو تم میرے بیٹے۔“ سعدیہ حلق پھاڑ کے چلائی۔

”تیمور کا گندا خون دوڑ رہا ہے تمہاری رگوں میں۔“ اس نے آگے بڑھ کر بازل کا گریبان پکڑ لیا۔

”تم کیا سمجھتے رہے کہ روپے پیسے کا لالچ دے کر تم اُسے مجھ سے دور کردوگے، نہیں! مازن میرا بچہ ہے میرا سرمایہ ہے وہ،میری زندگی بھر کی پونجی ہے وہ، میں اُسے لٹنے نہیں دوں گی۔ اتنی آسانی سے برباد نہیں ہونے دوں گی۔ “ اس نے بازل کو دھکا دے کر دروازے سے باہر نکالا۔

”اپنے باپ سے کہہ دینا مجھے طلاق دے دے اور آئندہ میرے بیٹے کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے، اب دفع ہوجاﺅ یہاں سے۔“ سعدیہ نے زور سے دروازہ بند کردیا۔

٭….٭….٭

وہ مکان ڈیفنس کے فیز ایٹ میں انتہائی غیر آباد علاقے میں واقع تھا۔ سی ویو کی سڑک پر گاڑی میں بیٹھے اس کی نظریں ساحل سمندر کی ریت پر دوڑتے گھوڑوں اور اونٹوں پر جارکیں۔دل یک بارگی مچلا تھا گھڑ سواری کرنے کو، لیکن وہ صبر سے بیٹھا رہا۔ آج اس کے ساتھ سونیا نہیں تھی بلکہ کسی بھی لڑکے کے ساتھ اس کی کوئی گرل فرینڈ نہیں تھی۔ جہاں وہ لوگ جارہے تھے وہاں لڑکیوں کا داخلہ یک سرممنوع تھا۔

”مازن آج تیرا فیوز کیوں اُڑا ہوا ہے؟“ فرحان نے اُسے گدگدی کی تو مازن پھیکی سی ہنسی ہنس دیا، وہ کیا کہتا کس بات پر دل پریشان ہے؟ سب نے مل کر اس کا خوب مذاق اڑانا تھا۔ اس نے آج فیس بک پر یونہی ایک کوئز لیاجس میں پیش گوئی کی جاتی تھی کہ آپ کی موت کب اور کیسے واقع ہوگی؟ مازن نے بڑے مزے سے اپنانام ٹائپ کیااور جواب آنے تک وہ مسکراتا رہا تھا۔ چند سیکنڈز بعد اسکرین پر ایک قبر کے کتبے پر اُس کا نام لکھا نظر آیا اور وہ مسکرانا بھول گیا۔ کوئز کا جواب تھا۔

”ناسٹی مُلّا کی موت خودکشی کے سبب ہوگی، اُنیس سال کی عمر میں۔“ خو دکو لاکھ بار سمجھانے پر بھی کہ یہ محض کھیل تفریح کے لیے ہوتا ہے سچ پر مبنی نہیں، وہ اسے اپنے ذہن سے نکال نہیں پارہا تھا۔ فرحان نے اُسے دو تین دفعہ متوجہ کرنے کی کوشش کی لیکن جب اُس نے ہوں ہاں سے زیادہ نہ کہا تو وہ ثاقب سے آنے والے فنکشن کی بابت معاملات طے کرنے لگا۔

کچھ دیر بعد گاڑی اس بنگلے کے سامنے جارکی۔ گیٹ پر کھڑے گارڈز ڈگی کھول کر چیک کرنے لگے۔ مازن نے گاڑی کا شیشہ نیچے کرنا چاہا تو فرحان نے سختی سے روک دیا۔ آج وہ اسی کی پجیرو میں آئے تھے جس کے شیشے کالے تھے۔ آخر اتنی رازداری برتنے کی کیا ضرورت پیش آئی تھی،اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا۔ایسا محسوس ہورہا تھا وہ کسی انگلش مووی کے جاسوس کا کردار نبھا رہے ہیں۔ گارڈز نے تسلی کرنے کے بعد اُنہیں اندر جانے دیا۔

گاڑی رینگتی ہوئی پورچ کی جانب بڑھنے لگی جو گیٹ سے کم از کم سو گز کے فاصلے پر تھا۔ پورچ میں پہلے سے تین گاڑیاں موجود تھیں۔ مناسب فاصلے پر ڈرائیور نے ان کی گاڑی بھی کھڑی کردی اور تینوں باہر نکل آئے۔ مازن نے سب سے پہلے جس چیز کو نوٹس کیا وہ خاموشی تھی۔ ایک عجیب سناٹا سا چھایا ہوا تھا۔ اس بنگلے کے گرد چاروں طرف ریتلا میدان تھا، نہ کوئی سبزہ نہ درخت۔ باﺅنڈری وال کم از کم پندرہ فٹ اونچی تھی جس کے اوپر تین فٹ مزید خاردار تاریں لگائی گئی تھیں، مازن کہے بغیر نہ رہ سکا۔

”یہاں فنکشن کیسے ہوگا؟ یہ جگہ تو قبرستان سے زیادہ ویران لگتی ہے۔“ وہ اپنی بات پر خود ہی محظوظ ہوا تھا کیوں کہ فرحان اور ثاقب سنی ان سنی کرکے داخلی دروازے کی جانب بڑھ گئے تھے۔

دروازے پر موجود ملازم کا حلیہ بے حد عجیب تھا۔ مازن حیران ہوا۔وہ ایک لمبے قد کانوجوان لڑکا تھاجس نے اپنا آدھاسر مونڈ کر بقیہ آدھے سر کے بال سرخ رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ اُس کی بھنویں نہیں تھیں اور آئی میک اپ اتنا شوخ اور چمکیلا تھا کہ مازن نے اس سے پہلے کسی عورت کو بھی ایسا میک اپ کرتے نہیں دیکھا تھا۔ اس نے جھک کر فرحان کو ”ویلکم سر“ نہ کہا ہوتا تو مازن اُسے ملازم کے بہ جائے کلب کا ممبر سمجھتا۔ اُس کا چست لباس تو اور بھی مضحکہ خیز تھا۔ سیاہ چمڑے کا بنا ہوا اور اتنا تنگ کہ لگ رہ تھا بدن پر رکھنے کے بعد کپڑا سیا گیا ہے۔ جب اُس نے’بال روم‘ کھولنے کے لیے اس کے بڑے سے ہینڈل پر ہاتھ رکھا تو مازن نے دیکھا اُس کے ناخنوں پر سیاہ نیل پالش لگی تھی اور وہ سینگوں والی لوہے کی انگوٹھیاں پہنے ہوئے تھا۔ جیسے ہی بال روم کا دروازہ کھلا، تیز موسیقی ان کے کانوں کے پردے پھاڑنے لگی۔ وہ تینوں سرعت سے اندر داخل ہوئے اور دروازہ پھر سے بند کردیا گیا۔ مازن اس کے لیے تیار نہیں تھا،اس نے کانوں پر ہاتھ رکھ لیا اور فرحان اور ثاقب کے پیچھے چلتا ہوا بال روم عبور کرکے تین دروازوں میں سے آخری دروازے کو کھول کر اندر داخل ہوگیا۔ یہاں بالکل خاموشی تھی،تب مازن کو سمجھ آیا کہ بال روم کو ساﺅنڈ پروف کیا گیا ہے۔

جس چیمبرمیں وہ داخل ہوئے تھے وہ خاصاطویل تھا۔ یہاں بیٹھنے کے لیے دو دیواروں کے آخری کنارے تک آرام دہ صوفے لگائے گئے تھے جن پر پہلے سے کچھ ممبرز موجود تھے۔ مازن نے دیکھا وہ بیس کے قریب نوجوان تھے اور ان سب کا حلیہ کم و بیش اس ملازم جیسا تھا جس نے انہیں بال روم تک پہنچایا تھا۔

مازن کے صرف اتنا پوچھنے پر کہ اگر وہ فرحان کی دی گئی آفر قبول کرتا ہے تو ماڈلنگ کے علاوہ اُسے تمام مراعات حاصل کرنے کے لیے مزید کیا کرنا ہوگا، ثاقب اور فرحان اُسے یہاں لے کر آئے تھے۔ یہ کمرہ ہلکے دھوئیں سے دھندلا ہورہا تھا کیوں کہ ہر تیسرا شخص یا تو شیشہ پی رہا تھا یا چرس کا سگریٹ ۔ مازن نے غور کیا تو معلوم ہوا وہ سب جوڑوں کی شکل میں ساتھ بیٹھے تھے، ہر جوڑا گردو مافیہا سے بے خبر آپس میں باتیں کررہا تھا یا پھروہ، جو وہ کرنے کے لیے یہاں آئے تھے۔ ایک جھماکے کے ساتھ مازن کو یہاں پر موجود تمام ممبران کی حیثیت سمجھ میں آئی تھی۔وہ سب ہم جنس پرست تھے۔

٭….٭….٭

”ارے بیٹا تم بور تو نہیں ہورہے؟“ صلاح الدین نے یکایک پاس بیٹھے بازل سے پوچھا۔

”جی نہیں انکل، میںبالکل بور نہیں ہورہا۔“

”تم جھوٹ بول رہے ہو۔“ صلاح الدین نے ہنستے ہوئے کہا۔

”نہیں انکل میں جھوٹ نہیں بولتا۔“ بازل نے اعتماد سے جواب دیا۔

”تم جھوٹ نہیں بولتے اور بور بھی نہیں ہوتے، لگتا نہیں کہ تمہارا تعلق ہماری نئی نسل سے ہے۔“ صلاح الدین نے کہا تو ان کے ساتھ بیٹھے ہم عمروں نے واشگاف قہقہہ لگایا۔ بازل بھی مسکرا دیا۔ صلاح الدین نے محبت سے اُس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور کہا۔

”جیتے رہو، ماشاءاللہ سے بہت با ادب اور سلجھے ہوئے انسان ہو۔“

”اور بیٹا ہمارے بڑے کہا کرتے تھے باادب با نصیب بے ادب بے نصیب۔“ شبیر انکل نے لقمہ دیا۔ باقی سب نے سرہلاکر ان کی تائید کی۔

”بے شک، بے شک۔“صلاح الدین بھی سردھنتے رہے۔ بازل عارفہ آنٹی کی دعوت پر ان کے گھر آیا ہوا تھا۔ یہاں اس کی ملاقات صلاح الدین سے ہوئی جنہوں نے اس کے سلام کرنے کے بعد اپنے ساتھ ہی بٹھا لیا تھا۔

”اچھا صلاح الدین اب دوبارہ اس موضوع پر واپس آجاﺅ، وقت تنگ ہے۔“ شبیر انکل نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا تو صلاح الدین گلا کھنکھارتے ہوئے کہنے لگے۔

”ہاں، تو ہم بات کررہے تھے سوشل میڈیا کے فوائد اور نقصانات کی۔ فوائد تو ہم گنو اچکے کہ جدید دور کی اہم ضرورت ہونے کے ساتھ اس کی افادیت سے انکار ممکن نہیں۔بلاشبہ اس سے ہماری زندگیوں میں بہت آسانیاں پیدا ہوئی ہیں، مگر نقصانات کی شرح کہیں بڑھ کر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اور ہمارا معاشرہ اس سہولت کو استعمال کرتے ہوئے کسی قسم کے ضابطہ اخلاق کا خیال نہیں رکھتے۔ ہمارے بچے تربیت یافتہ نہیں ہیں۔ ہم اپنے گھروں میں اپنے بچوں کویہ تو سکھا دیتے ہیں کہ ماں سے کیسے بات کرنی ہے، بہن بھائی سے کس طرح پیش آنا ہے مگر یہ نہیں سکھاتے کہ سوشل میڈیا پر،جہاں ان کا رابطہ ہر نسل و مذہب کے افراد سے ہوگا انہیں کیسی زبان استعمال کرنی ہے اور اختلافِ رائے پر کیسا رد عمل دینا ہے۔“ صلاح الدین نے اپنی ناک پر کھسک آئے چشمے کو اُتارا اور رومال سے صاف کرنے لگے، شبیر انکل نے کہا۔

”افسوس کی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر بھی کوئی ایڈیٹوریل چیک نہیں ہے۔ میرا ایک صحافی دوست اگر اپنا کالم آن لائن شیئر کرتا ہے تو اس کے نیچے کمنٹ کرنے والوں میں مثبت اور منفی رائے رکھنے والے دونوں ہی موجود ہوتے ہیں۔ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب متضاد رائے رکھنے والے دو افراد یا گروہ آپس میں جھگڑا شروع کردیتے ہیں۔ وہ کالم یا اُس کاموضوع کہیں بہت پیچھے رہ جاتا ہے اور شروع ہوجاتی ہے الفاظ کی جنگ، ماں بہن کی گالیاں اور جانے کیاکیا۔“

”حالاں کہ سوشل میڈیا ایک بہت بڑی طاقت ہے جس سے معاشرے میں مثبت تبدیلی لائی جانی چاہیے۔“ نعیم انکل نے بھی اپنی رائے دی۔

”ہونا تو بہت کچھ چاہیے پر بھائیو کرے گا کون؟ یہاں تو بات نہ بڑھے اس نیت سے فقرہ مٹا بھی دو تب تک کوئی دل جلااس کی تصویر لے کر اسے پوری دنیا میں عام کردیتا ہے۔“

”ابھی پچھلے دنوں بنگلہ دیش میں جانتے ہو کتنا بڑا فساد ہوا۔“ نعیم انکل نے کہا تو صلاح الدین بولے۔

”وہاں تو 2013ءسے یہی قصہ چل رہا ہے۔پتہ نہیں کب ٹھوس اقدامات کرے گی ان کی حکومت۔“

 شبیر انکل اس قصے سے لاعلم تھے۔ ”مجھے بھی تو بتاﺅ آخر معاملہ کیا ہے؟“ صلاح الدین نے انہیں تفصیل سے آگاہ کیا۔

”ارے بھائی نہ پوچھو، سوشل میڈیا کا سب سے گھناﺅنا روپ بنگلہ دیش میں دیکھنے کو ملا ہے۔ وہاں آزادی پسند بلاگرزاور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کے خلاف پرتشدد مزاحمت کے نتیجے میں درجنوں لوگ ہلاک ہوگئے۔ آزادی رائے کے علم بردار، ملحد سوچ رکھنے والوں نے اسلام کے خلاف ایسی زہر افشانی کی کہ مسلمان شدت پسندوں نے اُن کی لسٹ بناکر ایک ایک کو قتل کرنے کا اعلان کردیا ہے۔“

”اب پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایسی خرافات کو کنٹرول نہ کیا گیا تو یہاں بھی ایسے حالات پیدا ہوجائیں گے۔“ نعیم انکل نے برا سا منہ بناکر پیش گوئی کی جس کی شبیر انکل نے تردید کی۔

”ارے نہیں بھائی، اسلامی ملک ہے پاکستان اور یہاں دہریت پنپ نہیں سکتی۔“

”غلط فہمی ہے آپ کی۔ ذرا فیس بک کا دورہ کریں تو معلوم ہوگا کتنے ہی پڑھے لکھے لوگ مذہب کا مذاق اڑاتے، انسانیت کا پرچار کرتے ہیں۔ کتنی ہی ویب سائٹس ہیں جہاں پاکستانی،ہندو، مسلم، عیسائی سب مل کر آسمانی کتابوں کے فرمان اور انبیا کرام کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں۔“ صلاح الدین انکل نے طنزیہ انداز میں انہیں حقیقت حال سے آگاہ کیا۔

”کتنے افسوس کی بات ہے۔“ شبیر انکل نے تاسف سے سرہلایا۔

”دنیا میں ہر کسی کا کوئی ایسا پیارا ضرور ہوتا ہے جس کے خلاف وہ کچھ برا نہیں سن سکتا۔ بھئی ایمان نہیں لاتے کسی دین پر نہ لاﺅ، کسی پیغمبر کو تسلیم نہیں کرتے مت کرو،پرتوہین کرنے کا حق انہیں کس نے دیا؟“

”بھئی آج کل جس کے پاس اسمارٹ فون ہے اُسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ دوسروں کی ماں بہن ایک کردے۔“ نعیم انکل نے بات کو ہنسی میں اڑایا مگر صلاح الدین بے حد سنجیدہ تھے۔

” قدیم دور میں الحاد کے معانی یہ لیے جاتے تھے کہ کوئی بادشاہ اٹھ کر خدائی کا دعویٰ کردے مگر موجودہ دور کا الحاد سرے سے اللہ کے وجود کا انکار کرتاہے۔ وہ ان عجائبات پر غور نہیں کرتے جنہیں اس خالق نے پیدا کیا اور عقل استعمال کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے غور و فکر کی دعوت دی۔ سوال کرتے ہیں اللہ سبحان و تعالیٰ کی ذاتِ اقدس پر، اعتراض کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر۔ ہم درحقیقت بارود پر بیٹھے ہیں ذرا سی چنگاری بس پھر ایک لمحہ نہیں لگے گا آگ بھڑکنے میں۔“ بازل ان سب کی باتیں نہایت توجہ سے سن رہا تھا اورحرف بہ حرف متفق تھا۔

”یوں معلوم ہوتا ہے جیسے جان بوجھ کر سوشل میڈیا پر سیکولرازم کی آڑ میں الحاد کی تحریک چلائی جارہی ہے، تاکہ اس نقطہ ¿ نظر کو عام کیا جاسکے اور افسوس ہے ہماری نوجوان نسل پہ جو مائل ہورہی ہے، بغیر سوچے سمجھے استعمال ہورہی ہے۔“ اُسی وقت عارفہ آنٹی نے آکر مداخلت کی۔

”اب اس بے چارے کا کیا قصور ہے صلاح الدین اگر یہ نوجوان نسل کا واحد نمائندہ آپ کے ہاتھ لگ گیا ہے۔“ انہوں نے پیار سے بازل کے کندھوں پر ہاتھ رکھا تو بازل نے مسکرا کر کہا۔

”نہیں آنٹی، بہت انٹرسٹنگ موضوع پر بات کی جارہی ہے۔ میں بہت کچھ سیکھ رہا ہوں ان سب سے۔“

”چلو اب اٹھو، بہت سیکھ لیا۔ کھانا لگ گیا ہے، آئیں آپ سب بھی۔“ عارفہ نے ہلکے پھلکے لہجے میں بازل اور صلاح الدین اور ان کے دوستوں کو کھانے کے لیے بلالیا۔

اُس دن بازل کی صلاح الدین سے بہت دوستی ہوگئی اور اس کے بعد وہ بے تکلفی سے ان کے گھر آنے جانے لگا۔

٭….٭….٭

مازن سنک کے پاس کھڑا اپنے چکراتے سر کو شیشے پر ٹکائے وقفے وقفے سے اُلٹیاں کررہا تھا۔ سعد یہ اس کی عجیب و غریب آوازیں سن کر بھاگی بھاگی آئی۔

”کیا ہوا مازن؟“ سعدیہ نے آگے بڑھ کر اُسے سہارا دیا۔

”میرے اللہ، اتنی طبیعت خراب ہوگئی تمہاری، مجھے بلایا کیوں نہیں ہاں؟“ مازن نے کوئی جواب دیے بغیر نل کھولا اور منہ دھونے لگا۔ سعدیہ نے تولیے سے اس کا منہ پونچھ دیااور نلکا بند کرکے اُسے سہارا دیتی بستر تک لے آئی۔ ”ضرور کچھ اُلٹا سیدھا کھا لیا ہوگا بازار سے، تم لیٹو یہاں۔“ اس نے اصرار کرکے مازن کو بستر پر لٹادیا۔

”میں رکشہ لے کر آتی ہوں پھر تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے جاﺅں گی۔“ اُسے بتاکر سعدیہ کمرے سے نکلی اور چادر اوڑھ کر گھر سے باہر چلی گئی۔ مازن آنکھیں بند کیے پڑا رہا، اُسے بہت زور سے چکر آرہے تھے۔

تھوڑی دیر بعد وہ سرکاری اسپتال کی ایمرجنسی میں بیڈ پر پڑا تھا۔ ڈاکٹر اُسے دیکھنے کے لیے آئے تو اچھی طرح سے معائنہ کرنے کے بعد پوچھا۔

”کیا لیا ہے تم نے؟“

مازن نے ادھ کھلی آنکھوں سے انہیں دیکھا، سعدیہ نے پیار سے اُس کا سرسہلایا۔

”بیٹا بتاﺅ ڈاکٹر صاحب کو، کیا کھایا تھا تم نے کالج میں؟“

”چکن رول۔“ بڑی مشکل سے مازن جواب دے پایا۔ ڈاکٹر نے بے زاری سے گردن جھٹکی اور ذرا سختی سے پوچھا۔

”اصل بات بولو، چرس شیشے میں ڈال کر لی تھی یا سگریٹ پیا تھا؟“

مازن مسکرانے لگا پر سعدیہ ڈاکٹر پر چڑھ دوڑی۔

”کیا مطلب ہے آپ کا؟ میرا بیٹا ایسا نہیں ہے۔“

”او بی بی، یہ نشہ کرکے بیٹھا ہے تمہارے سامنے، پوچھو اس سے۔“ مازن نے کوئی جواب نہیں دیا اور سعدیہ کے سامنے مازن کے لیے کچھ اُلٹا سیدھا کہہ کر زندہ بچ جانا اتنا آسان نہیں تھا۔ سعدیہ نے شور مچا کر مازن کو وہاں سے اُٹھایا اور گھرلے آئی۔ پورے رستے وہ اُس ڈاکٹر کی شان میں قصیدے پڑھتی آئی تھی۔

”بڑا آیا سفید کوٹ پہن کر اپنے آپ کو ڈاکٹر سمجھنے والا۔ کچھ آتا جاتا نہیں ہے اور بس بولنے کا شوق ہے۔ لو دیکھو ذرا، بیٹھے بٹھائے میرے بیٹے کو نشئی بنادیا،استغفراللہ۔“ سعدیہ نے اپنی طرف سے گھریلو علاج کے طور پر مازن کو گرین ٹی پلائی اور رات میں ہلکی پھلکی غذا دے کر سلادیا۔ اگلی صبح جب وہ جاگا تو اس کی طبیعت بالکل ٹھیک تھی۔ سعدیہ نے اُس کا صدقہ اُتارا اور پیشانی چومتے ہوئے سالگرہ کی مبارکباد دی، آج وہ پورے اُنیس سال کا ہوگیا تھا۔

”آج ہم کسی اچھے سے ہوٹل میں ڈنر کریں گے، بتاﺅ کہاں جانا چاہتے ہو؟“

”آپ میرا گفٹ نہیں دیں گی؟“ مازن نے مزے سے سینے پر ہاتھ باندھ کر پوچھا۔ سعدیہ ہنس پڑی۔

”یہ ڈنر میری طرف سے گفٹ ہی تو ہے، خیر اگر تمہیں کچھ اور چاہیے تو وہ بھی بتادو۔“

”مجھے بون فائر پہ جانا ہے ماما۔“ مازن نے کہا تو سعدیہ کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوگئی۔

”پلیز ماما، آپ نے مجھے کبھی اس فنکشن پر جانے کی اجازت نہیں دی، آج دے دیں۔“

”مازن! تمہارے اسکول کا یہ فنکشن مجھے بالکل پسند نہیں، اونچی آواز میں گانے لگا کر سب لڑکے لڑکیاں مل کر ناچ رہے ہوتے ہیں،بھلا بتاﺅ کوئی مانے گا یہ اسلامی ملک ہے؟“

”ماما پرامس، میں ڈانس نہیں کروں گا۔“ سعدیہ نے اسے ایسے دیکھا جیسے التجا کررہی ہو کہ پلیز ضد مت کرو، مگر مازن اصرار کرتا رہا۔

”اچھا ٹھیک ہے۔“ تنگ آکر سعدیہ بالآخر مان گئی۔

”مگر یہ پہلی اور آخری بار ہے سمجھے۔“

”جی سمجھ گیا، تھینکس ماما۔“ مازن بہت خوش تھا، سعدیہ اُس کے لیے ناشتہ بنانے چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد مازن نے ایک طائرانہ نظر اپنے کمرے پہ ڈالی۔ یہاں کچھ ایسا نہیں تھا جو وہ ساتھ لے کر جاتا۔ آخر کار اس کی اس قید خانہ سے جان چھوٹ رہی تھی جہاں اُسے اپنی زندگی کے بہترین سال ترستے ہوئے گزارنے پڑے تھے۔ آگے سب کچھ اچھا ہونے والا ہے۔ اُس نے خود کو یقین دلایا اور پکا ارادہ کرلیا کہ واپس نہیں آﺅں گا، کبھی نہیں۔

وہ سیٹی بجاتے ہوئے باتھ روم میں شاور لینے چلا گیا۔ پانی کی بوچھاڑ کے نیچے مزے سے انگریزی گانا گانے لگا۔

٭….٭….٭

بازل نے کالج میں اُسے وش کیا اور مازن نے اُسے ۔ کلاسز ختم ہونے کے بعد وہ بازل کے ساتھ قصرِ تیمور چلا آیا۔ گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی اُسے پورچ میں ایک نئی گاڑی نظر آئی اُس نے حیرانی سے بازل کی طرف دیکھا، وہ مسکرایا اور کہا۔

”چلا کر دیکھو گے؟“

مازن نے ’ہاں‘ کہا تو بازل نے جاوید سے چابی منگوائی اور فوراً اُس کے ہاتھ میں تھمادی۔

”چلو۔“ دونوں اس بلیک فورچیونر میں سوار ہوگئے۔ مازن بہت ایکسائیٹڈ تھا۔ اپنے گارڈ کو پچھلی سیٹ پر بٹھا کر بازل ، مازن کے ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھا۔ وہ گاڑی چلاتا ہوا سی ویو پر لے آیا۔ مازن نے پہلے کئی بار ثاقب کے ساتھ ڈیولز پوائنٹ پر کار ریسنگ کی تھی لیکن اس وقت وہ بہت احتیاط سے چلا رہا تھا۔

”یار تمہارے تو عیش ہیں، گفٹ ملا بھی تو ایسا شاندار، واہ مزہ آگیا۔“مازن کے ایسا کہنے پر بازل نے محبت سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

”تمہیں پسند ہے تو تم رکھ لو۔“ مازن کو حیرت کا جھٹکا لگا۔

”آر یو سیریس؟ پر تم پاپا کو کیا جواب دوگے۔“

”وہ میرا مسئلہ ہے، اُسے رہنے دو۔ یہ گاڑی آج سے تمہاری ہے اگر تم میری چھوٹی سی بات مان لو، تو۔“

”ہاں کہو۔“ مازن گاڑی گھما کر گھر کے سامنے لے آیا تھا۔ گارڈ گیٹ کھولنے کے لیے اُتر گیا۔ بازل نے ایک لمبا سانس کھینچا اور کہا۔

”میں چاہتا ہوں تم ثاقب سے دوستی ختم کردو۔“ مازن نے آنکھیں سکیٹر کر مزاحیہ انداز میں کہا۔

”کیوں؟ وہ تمہیں کیا کہتا ہے؟“ گارڈنے گیٹ کھول دیا تھا۔ بازل نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

”گاڑی پورچ میں کھڑی کرلو پھر اندر چل کر بات کرتے ہیں۔“ مازن نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بازل بھی گاڑی پارک ہوتے ہی خاموشی سے اُتر گیا۔ جاوید کو کھانا کمرے میں لانے کا کہہ کر وہ مازن کے ساتھ اپنے بیڈروم میں آگیا۔ ہمیشہ کی طرح مازن نے تیز آواز میں گانے لگائے اور لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گیا۔ بازل کپڑے چینج کرنے کے بعد وضو کرکے ظہر کی نماز ادا کرنے کے لیے نیچے ہال میں چلا گیا جہاں گانوں کی آواز نہیں پہنچ رہی تھی۔ نماز ادا کرنے کے بعد وہ اور جاوید کھانا لے کر ساتھ ساتھ کمرے میں آئے۔ مازن کو بہت بھوک لگی تھی اس نے یونہی لیپ ٹاپ بند کیا اور زمین پر رکھے فلور کشن پر آبیٹھا، جاوید میز پر کھانا رکھ کے چلا گیا۔

”بسم اللہ تو پڑھ لو مازن۔“ بازل نے اُسے کھانا شروع کرتے دیکھ کر ٹوکا۔ مازن نے بڑا سا لقمہ منہ میں بھرا اور کہا۔

”پہلے یاد دلاتے، اب تو شروع کردیا۔“

بازل نے رسانیت سے کہا۔ ”اب بھی پڑھ لینے میں کوئی حرج تو نہیں۔“ لیکن مازن اپنا کھانا کھاتا رہا۔ بازل نے بھی سرجھٹک کے کھانا شروع کردیا۔ تھوڑی دیر بعد بازل نے اپنا کھانا کھا کر الحمدللہ پڑھا اور پلیٹ ایک طرف کرکے ہاتھ دھونے چلا گیا۔ مازن نے ریموٹ سے ٹی وی آن کیا اور میوزک چینل لگا کر بیٹھ گیا۔ اس کا کھانا ابھی تک چل رہا تھا۔ بازل باتھ روم سے نکلا تو ریموٹ مازن کے ہاتھ سے چھین کر ٹی وی آف کردیا۔

”ارے یار، تم ہمیشہ میرا کام خراب کرتے ہو۔“ بازل اُس کے سامنے آکر بیٹھ گیا۔

”مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تم پوری توجہ سے سنو۔“

”بولو۔“ مازن کے لہجے میں بے زاری سی بے زاری تھی۔ وہ جانتا تھا اُس کا لیکچر شروع ہونے جارہا ہے۔ بازل نے اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔

”کیا تم یہ مانتے ہو کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں؟“ مازن نے غیر جذباتی انداز میں جواب دیا۔

”اگر تم کہتے ہو تو ہوگے۔“ بازل کچھ دیر اُسے گھورتا رہا، پھر بولا۔

”دیکھو مازن، وہ اچھا لڑکا نہیں ہے۔ تم اُس سے دور رہا کرو،میں سیریسلی یہ گاڑی تمہیں دے دوں گا اگر تم….“

”ارے کیا ہے بھائی؟“ مازن نے غصے میں گلاس میز پر پٹخا۔”کیا مجھے گاڑی کا لالچ دیے جارہے ہو، خود سونے کے ڈھیر پر بیٹھے ہو اور میری طرف ایک سکہ اچھال کر بڑا کمال کروگے تم، جانہیں چاہیے تیری گاڑی۔“ مازن ایک جھٹکے سے اُٹھ کھڑا ہوا اور غصے میں میز پر لات رسید کی۔

”جارہا ہوں میں یہاں سے، پتا نہیں کیا سمجھتے ہواپنے آپ کو۔جب دیکھو بھاشن،سرکھالیا ہے میرا۔“ سیڑھیاں اترتے ہوئے بھی اس کی زبان مسلسل چلتی رہی۔ جاوید نے حیرت سے اس بدتمیز مہمان کو دیکھا، وہ ہال میں ڈسٹنگ کررہا تھا۔ بازل اپنے کمرے کے دروازے پر خاموش کھڑا مازن کو مغلظات بکتے جھکتے گھر سے جاتا دیکھتا رہا۔

سعدیہ نے اس کی بات نہیں سنی تھی، اعتبار نہیں کیا تھا۔ مازن کو سمجھانے میں بھی اُسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اپنے بھائی کو کیسے بچائے اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔

مازن نے تیزی سے باہر نکلنے کے بعد نہایت تنفر سے مڑ کر ”قصرِ تیمور“ کی طرف دیکھا۔

”ہونہہ، بڑا آیا گاڑی دینے والا۔ میرے حق پر قبضہ کرکے بیٹھے ہیں سارے۔ لعنت بھیجتا ہوں سب پر، میں خود کمالوں گا اپنے لیے۔ سب سے شاندار زندگی جیوں گا۔“ اس نے نئی فورچیونر کو ٹھڈا مارا اور باہر نکل گیا۔وہ ٹھیک سوچ رہا تھا،اب تو وہ کہیں زیادہ خود کما سکتا تھا، فرحان کی آفر قبول کرنے کے بعد۔

٭….٭….٭

عارفہ اس علاقے سے کبھی سبزی یا پھل خریدتی تو نہیں تھیں۔ یہ محض اتفاق تھا کہ ایک جاننے والے کے گھر کسی کام سے جانا ہوا اور واپسی میں انہیں یہاں سے گزرتے ہوئے ٹھیلے پر تازہ سبزیاں نظر آئیں تو انہوں نے گاڑی رکوالی۔ سبزی والے سے بھاﺅ تاﺅ کے بعد ادائیگی کرتے ہوئے ان کی نظر ٹھیلے کے پیچھے سٹور سے نکلتی سعدیہ پر پڑی۔ وہ پہلی نظر میں ہی پہچان گئی تھیں کیوں کہ سعدیہ میں کوئی بدلاﺅ نہیں آیا تھا۔ وہ زمین پر نظر گاڑے بس چلتی چلی جارہی تھی عارفہ خود آگے بڑھیں اور تپاک سے سلام کرتے ہوئے انہیں گلے لگالیا۔

”میرے خدا، یقین نہیں آتاسعدیہ، اتنے عرصے بعد۔“ سعدیہ پہلے تو بوکھلائی کہ اچانک سے ایک خاتون نے پکڑ کر گلے سے کیوں لگا لیا ہے مگر چند لمحوں بعد جب وہ بھی عارفہ کو پہچان گئی تو بہت خوش ہوکر ان کو سلام کیا اور حال چال پوچھا،عارفہ نے جھٹ سے شکوہ بھی کر ڈالا۔

”بھئی تم تو بڑی بے وفا نکلیں، ارے تیمور سے ناراضگی تھی پر ہم سے کیوںتعلق ختم کر لیا، کتنے سال گزر گئے تمہاری صورت دیکھے ہوئے، تو بہ ہے ویسے۔“

”نہیں عارفہ آپی، وہ بس حالات ہی کچھ ایسے ہوتے گئے کہ موقع ہی نہیں ملا کس سے ملتی کیا کہتی؟“

”ہاں یہ تو ہے۔ آفت اور آزمائش یونہی اچانک نازل ہوتی ہے، بس میں تو ہمیشہ تمہارے لیے دعا کرتی رہی۔سچی بات ہے تم نے ہمیشہ تیمور سے زیادہ ہمیں عزت دی، مان دیا، اب تمہارا بیٹا ماشاءاللہ سے، بھئی داد دیتی ہوں تمہاری اچھی تربیت کی۔ کبھی نماز نہیں چھوڑتا، اتنا خوش اخلاق اور با ادب لڑکا ہے۔بالکل تم پر گیا ہے، ایک دفعہ بلایا اور دوڑا چلا آیا ہمارے گھر، بہت پیار آتا ہے اس پر۔“ عارفہ اپنی عادت کے عین مطابق جب ایک بار شروع ہوئیں تو ساری تفصیل بنا پوچھے بتاتی چلی گئیں۔ ادھر سعدیہ کو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا وہ آخر کہہ کیا رہی ہیں؟ بالآخر اس نے ٹوک کر پوچھ ہی لیا۔

”کس کی بات کررہی ہیں آپ؟“

”بھئی تمہارے بیٹے کی اور کس کی؟ لو بھلا ساری رات زلیخا کی کہانی سنی اور صبح پوچھا زلیخا مرد تھی یا عورت۔“ عارفہ نے تلملا کر کہا۔ سعدیہ کو اس کے سوال کا جواب ابھی بھی نہیں ملا تھا۔

”مازن؟ اس سے کب ملاقات ہوئی آپ کی؟ ذکر نہیں کیا اُس نے۔“

”مازن؟ اوہ، وہ تمہارا دوسرا بیٹا، نہ نہ۔ وہ تھوڑی،میں تو بازل کی بات کررہی تھی۔ وہ آیا تھا ہمارے گھر، جب میں اُسے دعوت دینے….“ عارفہ آگے ساری کہانی کہتی رہیں مگر سعدیہ کو کچھ سمجھ نہیں آیا اس کا دماغ تو بس ایک ہی بات دہرائے جارہا تھا۔

”بازل بالکل تم پر گیا ہے۔“ مگر یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ عارفہ کو اپنا فون نمبر اور ایڈریس دینے کے بعد وہ پیدل گھر کی طرف جاتے ہوئے وہ مسلسل سوچے جارہی تھی۔ نماز کیوں پڑھتا ہے بازل، کون ہے اُسے ٹوکنے والا، تیمور تو یقینا نہیں، پھر کون؟ اور کیوں عارفہ اس کی تعریفوں کے پل باندھ رہی تھیں۔

”ہوسکتا ہے وہ جھوٹ بول رہی ہوں؟“ اپنے خیال کو سختی سے خود ہی رد کردیا اس نے۔ انہیں کیا ضرورت پڑی تھی جھوٹ بولنے کی، وہ جانتی ہیں بازل میرے ساتھ نہیں رہتا۔ سوچ سوچ کر اس کا دماغ ماﺅف ہونے لگا۔ سست رفتار ی سے چلتے ہوئے دس منٹ کا راستہ اس نے آدھے گھنٹے میں طے کیا۔ گھر پہنچ کر وہ صحن میں رکھی کرسی پر ڈھے سی گئی۔ مازن نے اپنی سالگرہ کا تحفہ یعنی ڈنر ماں کے ساتھ کرنے کے بہ جائے کالج کے فنکشن ’بون فائر‘ پہ جانے کی اجازت لی تھی۔ وہ سرشام ہی گھر سے نکل گیا تھا۔ سعدیہ کو مسلسل کچھ غلط ہونے کا احساس ستا رہا تھا۔ پھر کچھ سوچ کر اس نے کالج کا فون ملایا اور فنکشن کی بابت سوال کیا مگر ریسیپشنسٹ کے جواب نے اُس کے اوسان خطا کردیے۔

٭….٭….٭



Loading

Read Previous

چکلے – ساحر لدھیانوی

Read Next

تو ہی تو کا عالم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!