اپنا کمرہ سمیٹتے ہوئے بازل سخت کوفت کا شکار تھا۔ مازن جب بھی آتا پورے کمرے کا حشر نشر ہوجاتا تھا۔ چپس کے ریپرز، ڈرنکس کے خالی کین، فضول میگزین اور کتابیں جو وہ تیمور کی اسٹڈی سے اُٹھا کر لے آتا تھا اور بستر پر اوندھے لیٹ کر پڑھتا یا دیکھتا رہتا تھا۔ نہ ٹی وی کا ریموٹ جگہ پر ملتا نہ اے سی کا۔ بازل کو نوکروں سے صفائی کراتے وقت سخت شرمندگی ہوتی تھی۔ تنگ آکر اس نے سب کو منع کردیا تھا کہ میرے کمرے کو کوئی اور نہیں میں خود ہی صاف کیا کروں گا اور جب تک میں نہ کہوں کوئی یہاں نہ آیا کرے۔ سو روز مرّہ کی صفائی کے لیے بھی سارے ملازمین بازل کے حکم کا انتظار کیا کرتے، جب وہ کہتا آجاتے نہیں تو بھول جاتے کہ بازل کا کمرہ بھی موجود ہے۔ ساری چیزیں اُٹھا کر جگہ پر رکھتے ہوئے بازل کا ہاتھ تکیہ کے نیچے پڑے جیکی کالنز کے ناول پر جاپڑا، اس نے ایک سرد آہ بھری اور ناول ہاتھ میں لے کر تیمور کے کمرے سے متصل اسٹڈی میں جاکر شیلف میں رکھ دی۔ اُسے پتہ نہیں چلا تھا کہ تیمور بھی اُس کے پیچھے پیچھے آیا تھا۔ جب بازل مڑا تو تیمور سے ٹکراتے ٹکراتے بچا۔

”السلام علیکم!“بازل نے اُسے دیکھ کر فوراً سلام کیا تھا، تیمور نے فقط سرہلا دیا، بازل کوئی جواب نہ پاکر وہاں سے سرجھکائے نکل گیا۔ تیمور کو اس کا ری ایکشن کچھ عجیب سا لگا اُ س نے آگے بڑھ کر اُس شیلف کی طرف دیکھا جہاں کچھ دیر پہلے بازل نے کتاب رکھی تھی، وہ کتاب اُلٹی رکھی جانے کی وجہ سے پہچان میں آگئی۔ تیمور نے حیرانی سے کتاب کا ٹائٹل دیکھا اور مسکرا دیا ۔

٭….٭….٭



رات کا آخری پہر تھا۔مازن کمبل اوڑھے اپنے فون پر مصروف ہادیہ کے میسج کا جواب لکھ رہا تھا کہ اچانک زور دارتھرتھراہٹ کے ساتھ فون اُس کے ہاتھ میں لرز گیا۔ وہ حیران تو ہوا کہ اس وقت کال کرنے والا کون ہے؟ نمبر اجنبی تھا مگر ریسیو تو کرنا ہی تھا۔ کمبل ہٹا کر اس نے کمرے سے باہر اندھیرے کا اطمینان کیا اور فون ریسیو کرلیا۔ ہیلو کے جواب میں سرسراتی ہوئی نسوانی آواز نے چونکا دیا۔

”مجھے ڈر لگ رہا ہے۔“ اس لڑکی کی سرگوشی اتنی ہلکی تھی کہ اس نے فون کو کانوں سے بالکل چپکا لیا تاکہ اس کی آواز سن سکے۔ مازن نے اُٹھ کر اپنا کمرہ لاک کیااور بستر پر بیٹھ گیا۔

”ہیلو، کون؟“ اس کے استفسار پر اسی مدھم آواز میں جواب ملا۔

”میں، گڑیا۔“

”گڑیا؟ کون گڑیا؟“ اور جواب سن کر جو اس کے ساتھ ہوا وہ رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی تھا۔

”میں، کیا میں تمہارے کندھے پر ہاتھ رکھ سکتی ہوں؟“

 اس سوال کے ختم ہوتے ہی اس نے واضح طور پر اپنے کندھے پر کسی کا ہاتھ محسوس کیا۔ بدک کر پیچھے ہٹتے ہوئے اس نے کندھے کو جھٹکا تو فون زمین پر گر پڑا۔ وہ سخت خوفزدہ تھا، کانپتے ہاتھوں سے کمبل اُٹھا کر اُس نے خود کو مکمل ڈھانپ لیا اور آنکھیں بند کرلیں۔ اُسے سخت سردی محسوس ہورہی تھی۔ رات کو وقفے وقفے سے کمرے کے فرش پر پڑا فون تھر تھر اتا رہا۔

٭….٭….٭

صبح فجرمیں اُ س کی آنکھ نہیں کھلی تھی۔ اتوار کے دن سعدیہ فجر پڑھ کر سوجایا کرتی تھی۔ پورے ہفتے کی تھکن وہ اس دن سو کر اُتار لیا کرتی، یہی چھوٹ مازن کو بھی تھی سو بچت ہوگئی تھی۔ ساڑھے آٹھ بجے کے قریب وہ سو کر اُٹھا تو رات والا واقعہ جوں کا توں ذہن پر سوار تھا۔ خواب میں اس نے خود کو ایک اندھیری حویلی میں بھٹکتے دیکھا تھا۔ ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک روشنی کی تلاش میں بھاگتے بھاگتے اس نے کئی ٹھوکریں کھائیں۔ نہایت مشکل سے جب اُسے باہر نکلنے کا راستہ ملا تو دہلیز کے پار قدم رکھتے ہی وہ سیاہ کیچڑ میں دھنس گیا۔ اُس کیچڑ میں لمحہ بہ لمحہ ڈوبتے ہوئے اس نے آگ کی تپش اپنے جسم پر محسوس کی تھی، جب آنکھ کھلی تو اس کا پورا جسم پسینے میں نہایا ہوا تھا۔ ساری رات یونہی سوتے جاگتے گزری تھی۔ اپنے کندھے پر ہاتھ کا دباﺅ اس کا وہم ہر گز نہیں تھا۔ دن کی روشنی میں اتنا خوف زائل ضرور ہوا کہ وہ یکسوئی سے معاملے کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کررہا تھا۔ کون تھی وہ لڑکی؟ اس نے فون اٹھا کر دیکھا اسی نمبر سے پندرہ مزید کالیں کی گئی تھیں۔ نہ جانے کون تھی اور اس طرح کیوں بات کررہی تھی سرگوشی میں۔ کیا واقعی ڈری ہوئی تھی یا پھر مجھے ڈرانے کے لیے یہ سب؟ وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔

یک بارگی اُسے خود سے شرم آئی۔ یہ بھی بھلا کوئی ڈرنے کی بات ہے؟ ایک لڑکی نے فون کیا،ایسی کیا آفت آگئی جو میں سر لپیٹ کر لیٹ گیا، لعنت ہے۔ خیر اب فون آیا تو پورے کانفیڈنس سے بات کروں گا، پوچھ لوں گا صاف صاف کہ آخر تم ہو کون؟ہمت باندھتے ہوئے اس نے دل ہی دل خود کو ڈپٹا اور آئندہ ہونے والی گفت گو کے امکانات پر غور کرنے لگا۔ ہوسکتا ہے دوبارہ کال کرے یا پھر نہ کرے۔ اس کی پندرہ کالوں کا جواب نہیں دیا شاید مایوس ہوگئی ہو۔

پھر اُس نے فیصلہ کیا کہ اگر اگلے کچھ دن تک اس نے دوبارہ کال نہیں کیا تو میں خود فون کرکے پوچھوں گا کہ مسئلہ کیا ہے؟ یہ طے کرکے اس کے دل پر رکھا بوجھ کچھ کم ہوا اور سخت بھوک محسوس ہونے لگی۔ اس نے گھڑی کی طرف دیکھا، نو بج کر پندرہ منٹ ہورہے تھے۔ کتنا وقت گزر گیا سوچتے ہوئے، وہ بستر سے کود کر اترا اور دانت برش کرنے باتھ روم میں گھس گیا۔

سعدیہ بھی اُٹھ چکی تھی۔ مازن کے کمرے کا دروازہ ناک کیا اور اُسے لاکڈ پاکر ناشتہ بنانے کچن میں چلی گئی۔ مازن باتھ روم سے منہ ہاتھ دھوکر باہر نکلا تو اپنا فون چارجر پر لگا کر بستے کے نیچے چھپا دیا۔ اس کا ارادہ تھا کہ ناشتہ کرنے کے بعد واپس آکر فون کو چھپا کر بیگ میں رکھ لے گا مگر ایسا نہ ہوسکا۔

اُس سے پہلے سعدیہ اس کا کمرہ سمیٹنے آگئی تھی۔ زمین پر پڑے بیگ کوہٹاتے ہی اس کی نظر آئی فون پر پڑی جو اُس نے اپنے بیٹے کو ہر گز نہیں دلایا تھا۔

٭….٭….٭

لاکر برہمنوں کو سیاست کے بیچ میں

زناریوں کو دیر کہن سے نکال دو

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا

روح محمدﷺ اس کے بدن سے نکال دو

بازل نے رک کر ان اشعار پر غور کیا، وہ اپنی اُردو کی اسائنمنٹ مکمل کرتے ہوئے علامہ اقبالؒ کی کتاب ”کلیات ِ اقبال“ میں ضرب کلیم کی نظموں کا مطالعہ کررہا تھا کہ شوق میں آگے پڑھتا چلا گیا، پھر اس نظم پر آکر ٹھہرا جس کا عنوان ”ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام“تھا۔نظم پڑھتے پڑھتے اس کے ذہن میں سوشل میڈیا پر دیکھی گئی وہ تمام پوسٹس نگاہوں کے سامنے پھرنے لگیں جن میں ہر مذہب کو تضحیک کا نشانہ بناکر اُسے رد کیا گیا تھا۔

فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات

اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو

بازل نے سرجھٹکا، شیطان نے جو کام اپنے پیروکار انسانوں کے ذمے لگایا اُسے وہ پوری تن دہی سے انجام دینے میں لگے ہوئے تھے۔

افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج

مُلّا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو

اہل حرم سے اُن کی روایات چھین لو

آہو کو مرغزارِ ختن سے نکال دو

”واہ!“ بازل بے اختیار سردھننے لگا۔ اُس نے اداسی کے ساتھ آخری شعر پڑھا۔

اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز

ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو

٭….٭….٭

”کہاں سے آیا یہ فون تمہارے پاس؟“ سعدیہ فون ہاتھ میں پکڑے اُس کے سر پر آکھڑی ہوئی اور منہ میں نوالہ لے جاتے مازن کا ہاتھ وہیں رُک گیا۔

”جواب دو میری بات کا؟ کب سے ہے یہ تمہارے پاس اور کس نے دیا؟“

”یہ فون میرا نہیں ہے ماما۔“ سعدیہ نے اُسے زوردار تھپڑ مارا۔

”جھوٹ مت بولو، اتنے سارے میسجز ہیں اس میں۔ کتنی لڑکیوں سے دوستی ہے تمہاری، بولو؟“

”اوہو ماما۔“مازن کرسی دھکیل کر اُٹھ کھڑا ہوا۔ ”یہ فون میرا نہیں ہے، کیسے سمجھاﺅں آپ کو۔“ تھپڑ کھا کر اُسے بھی غصہ آگیا تھا۔

”بازل کا ہے یہ فون۔“

”بازل کا ؟“ سعدیہ کنفیوژ ہوئی۔

”تم نے اس کا فون کیوں لیا؟“

”میں نے نہیں لیا ماما، کلاس میں ٹیچر نے بیپ کی آواز سنی تو ناراض ہونے لگیں۔ بازل نے خود کو بچانے کے لیے فون میرے بیگ میں پھینک دیا۔ کل واپس کردوں گا آپ دے دیں مجھے۔“ اُس نے ہاتھ آگے بڑھایا تو سعدیہ نے فون دینے سے انکار کردیا۔

”کب کی بات ہے یہ؟“

”جمعے والے دن۔“ سعدیہ نے اس کے منہ پر ایک اور تھپڑ دے مارا۔

”میں نے تمہیں منع کیا تھا بازل سے دور رہنا۔ اب پتاچلا کیوں کہتی تھی وہ اپنے ساتھ تمہیں بھی بگاڑ رہا ہے۔ فون دیا ہے اُس نے، پیسے بھی دیتا ہوگا وہ، عیش کراتا ہوگا جو میں نہیں کرواسکتی، ہے نا؟“

مازن اپنے گال پر ہاتھ رکھے اُسے سن رہا تھا، سعدیہ نے تاسف میں سرہلاتے ہوئے کہا۔

”اس کی وجہ سے تم ماں سے جھوٹ بول رہے ہو۔ اگر یہ فون تمہاری ملکیت نہیں تو اس کا چارجر کیوں ہے تمہارے پاس؟“ مازن کا دل کیا اپنا سرپیٹ لے، کیا بے وقوفی ہوگئی تھی اس سے۔

”آئی ایم سور ی ماما۔“ مازن شرمندہ ہوکر سعدیہ کے قدموں میں بیٹھ گیا۔ سعدیہ نے غصے میں فون زمین پر دے مارا اور خود رونے بیٹھ گئی۔

”میری ساری محنت پرپانی پھیر دیا اس نے۔ اللہ اُسے غارت کرے۔“ مازن سرجھکائے ماں کے منہ سے بھائی کے لیے کوسنے بددعائیں اور گالیاں سنتا رہا، اس کے ہاتھ پیر ماں کے سامنے جڑے ہوئے تھے اور آنکھیں ٹوٹے ہوئے فون پر جمی تھیں۔ اچھے بھلے فون کا بیڑہ غرق ہوگیا تھا۔

روتی دھوتی ماں کو منا کر، بہلا پھسلا کر وہ کمرے میں لے گیا اور کچھ دیر بعد موقع دیکھ کر باہر زمین پر گرے فون میں سے سم نکال لی،باقی پرزے وہیں رہنے دیے۔ ”خیر ہے،بازل سے کہہ کر نیا فون لے لوں گا اور آئندہ گھر نہیں لاﺅں گا، کبھی نہیں۔“ دل ہی دل میں پکا ارادہ کرکے اس نے باقی دن ماں کی چاپلوسی میں گزارا تھا۔ اُسے ڈر تھا اگر سعدیہ کا غصہ ابھی ٹھنڈا نہ کیا تو وہ بازل کے پاس بھی جاسکتی ہے۔

٭….٭….٭

اتوار کی رات بازل نے فیس بک کھول کر مازن کے اکاﺅنٹ پر جانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ اُسے لگا شاید انٹر نیٹ کنکشن ٹھیک سے کام نہیں کررہا مگر چیک کرنے پر معلوم ہوا ایسا نہیں تھا۔ پھر اس نے مازن کا ری ایکشن یاد کرتے ہوئے خود کو بلاک کیے جانے کے امکان پر غور کرتے ہوئے اُسی وقت ایک نیا اکاﺅنٹ بنایا اور اُس کے ذریعے مازن کے اکاﺅنٹ پر جاکر دیکھا۔ اُس کا اندازہ صحیح تھا، مازن نے بھائی کی نصیحتوں سے گھبرا کر اُسے بلاک کردیا تھا۔ ”یہ باز نہیں آئے گا۔“ بازل نے بے زاری سے سرجھٹکا اور لیپ ٹاپ بند کردیا۔

٭….٭….٭

اگلی صبح کالج میں بازل کو دیکھتے ہی مازن نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا۔

”پلیز یار، پلیز پلیز، مجھے نیا فون لادو۔“ بازل نے پوچھا۔

”کیوں تمہارے فون کو کیا ہوا؟“

”پرانا ہوگیا تھا، گر کے ٹوٹ گیا۔“

بازل کچھ دیر بے یقینی سے اُس کی طرف دیکھتا رہا پھر جیسے اصل بات جان گیا اور مسکراکر کہا۔

”ماما کو پتا چل گیا ہوگا، توڑ دیا انہوں نے؟“ یہ کہہ کر وہ ہنسنے لگا۔

”یار تجھے ہنسی آرہی ہے؟ میرا پورا سنڈے خراب ہوگیا۔“

”تم فون مت لو۔ ماما کو پتا چل گیا تو پھر سے توڑ دیں گی۔“ بازل اس کی حالت کا مزہ لے رہا تھا۔

”نہیں، اب میں احتیاط کروں گا نا۔ تم بس نیا والا ماڈل خریدنا، اوکے؟“

اُسے جیسے پکا یقین تھا کہ بازل اُسے انکار نہیں کرے گا۔بازل نے سنجیدگی سے کہا۔

”تم ایسے چھپ کر فون استعمال کرنے کے بہ جائے ماما سے کہتے کیوں نہیں کہ تمہیں طریقے سے استعمال کرنے کی اجازت دے دیں۔“ مازن نے فوراً گردن نفی میں ہلائی۔

”وہ کبھی نہیں مانیں گی۔“

”تو پھر چھپ کر بھی استعمال مت کرو۔ اُنہیں مناسکتے ہو تو ٹھیک ہے ورنہ رہنے دو۔“

”پھر ہوگیا شروع تمہارا لیکچر؟“ اس نے ہاتھ جوڑ دیے۔

”نہیں سننا، معاف کرو۔“

”تم ماما کو ایک بار صاف صاف بتادو کہ ان کے رولز اور ریگولیشنز کے مطابق زندگی نہیں گزار سکتے۔“ بازل نے سمجھایا، مازن کو غصہ چڑھ گیا۔

”اور تمہیں کیا لگتا ہے میرے بتانے کے بعد کیا ہوگا، وہ مجھے میری خوشی کے مطابق جینے کی اجازت دے دیں گی؟“

”نہیں، لیکن تمہیںفورس تو نہیں کریں گی نا۔“

”وہ مجھے جان سے مار دےں گی، کل اُنہوں نے اتنی سی بات پر مجھے دو دفعہ تھپڑ مارا۔اگر میں نے اُنہیں بتادیا کہ میں اٹھارہ سال کی عمر میں نمازی پرہیزی بڈھے جیسی زندگی نہیں جینا چاہتا، میں نفلی روزے رکھ رکھ کے تنگ آگیا ہوں، مجھے نہیں سمجھ آتا کہ امریکا اوریورپ کے لوگ اللہ کے عتاب کا شکار نہیں ہوتے، لیکن میرا چھوٹا سا گناہ ایک عذاب بن کر ان کی پوری نسل کیسے خراب کردے گا۔ میں بے زار ہوں ان کے عقیدے سے، اُن کی پابندیوں سے، اُن کے ڈراوے اور عذاب قبر کی داستانوں سے، تو وہ مجھے اُسی وقت اپنے ہاتھوں سے قتل کرکے زمین میں گاڑ دیں گی اور کہیں گی میں نے ایک گمراہ کافر کے گندے وجود سے پاک کردیا اپنا گھر۔“

بازل اُسے یوں زہر اگلتے دیکھ کر پریشان ہوگیا تھا، اس نے ہمدردی سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

”تم اس ایکسٹریم پر مت جاﺅ مازن، پلیز۔“

”یار تمہیں نہیں پتا۔ میں دو غلی زندگی جیتے جیتے تنگ آگیا ہوں۔ دل کرتا ہے سب کچھ چھوڑ کر بھاگ جاﺅں۔“ مازن روہانسا ہوگیا۔

”اور بھاگ کر کہاں جاﺅگے؟“ بازل نے اُ س کی بات کو ہنسی میں اڑایا۔

”ماما تمہیں کہیں نہیں جانے دیں گی۔ کوشش کرو انہیں سمجھانے کی، پاپا کی بات اور تھی مگر تمہاری محبت میں شاید ماما اپنی مذہبی شدت پسندی کی آنچ ہلکی کردیں۔“ مازن نے اُسے خوب غور سے دیکھا ۔

”بازل، تم اُس وقت دس سال کے ہوگے جب پاپا کے پاس رہنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا،ہے نا؟“ بازل نے اس کی تائید کی۔

”ہاں،مگر۔“ مازن طنزیہ ہنسی ہنسا۔

”انہوں نے تمہاری وہ غلطی ابھی تک معاف نہیں کی اور تم سمجھتے ہو وہ میرے لیے خود کو بدلیں گی؟“ بازل کچھ کہہ نہیں سکا، اس کے پاس کہنے کو کچھ تھا بھی نہیں۔

٭….٭….٭

”کیا کہیں گے سب لوگ؟ کہ یہ ہمیں درس دیتی پھرتی ہے کہ اپنے بچوں کو فون اور کمپیوٹر جیسی خرافات سے دور رکھیں اور اپنے بیٹے کو خود خرید خرید کردیتی ہے۔“ سعدیہ نے اسما کے ساتھ مازن کے فون والی بات شیئر کی تو اسما نے اُسے مازن کو سیل فون خرید کردینے کا مشورہ دیا تھا جس پر وہ ایک دم ہتھے سے اُکھڑ گئی تھی۔ ”کیا اُلٹی سیدھی باتیں کررہی ہو تم بھی۔“

”غصہ مت کرو، بات سمجھنے کی کوشش کرو۔ تم اُس پر اتنی پابندیاں لگاتی ہو، جوان بچہ ہے اپنے اردگرد دوستوں کے ہاتھ میں فون دیکھ کر اُس کا بھی دل کرتا ہوگا کہ وہ بھی استعمال کرے۔ اب تم نہیں دلاﺅگی توکہیں اور سے لینے کی کوشش کرے گا۔ بازل نے اُس کی اسی کمزوری کا فائدہ اُٹھا کر اُسے فون دیا اور اس کی نظروں میں اچھا بن گیالیکن تم اس کی ماں ہوکر بھی، ساری قربانیاں دینے کے بعد بھی، بُری بن بیٹھیں۔“

”تو کیا کروں؟ فون دلادوں، انٹرنیٹ لگادوں، بگاڑوں بچے کو اور اچھی بن جاﺅں۔“

”بگاڑنے کے لیے نہیں، دوستی پیدا کرنے کے لیے دو، اور چیک رکھو بس۔“

”نہیں، مجھ سے نہیں ہوگا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”اور وہ بات کیوں کہتے ہو جس پر عمل نہیں کرتے۔“ میں ہمیشہ دوسروں سے یہی کہتی رہی کہ جوان بچوں کو اس موئے فون کی ضرورت نہیں ہوتی تو بس میں بھی نہیں لوں گی۔“

”تو پھر کیا کروگی؟“

”میں، میں بازل کے پاس جاﺅںگی اور اُسے منع کروں گی کہ میرے بیٹے کو نہ بگاڑے۔“ اسما نے کندھے اُچکا کر سامنے پڑی بچوں کی کاپیاں چیک کرنے کے لیے ہاتھ میں پکڑلیں ۔ اُسے پتاچل گیا تھا سعدیہ کو سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

٭….٭….٭

تیمور نے آفس کے لیے نکلنے سے پہلے جاوید کو بلوا کر اپنی کچھ کتابیں اور میگزین بازل کے کمرے میں رکھنے کو کہا۔ جاوید نے دونوں بازوﺅں کے بیچ میں اُس انبار کو دبایا اور اپنی ٹھوڑی اوپر ٹکا کر آہستہ آہستہ کیٹ واک کرتا بازل کے کمرے تک آیا اور رُک گیا، مشکل یہ تھی کہ لاک کیسے کھولے۔ ہاتھ ہٹاتا تو کتابیں گرتیں، پیر اُٹھاتا تو خود گرجاتا۔ اس نے ٹھوڑی اُٹھا کر ادھر ادھر دیکھا تو پاس پڑی کنسول ٹیبل نظر آئی۔ ذرا ساگھوم کر اُس نے کتابیں میز پر رکھنا چاہیں مگر یہ کیا، دھڑ دھڑا دھڑ، ساری کتابیں اور میگزین زمین پر گرتے چلے گئے۔ اُس کا اندازہ غلط پڑگیا تھا۔ بُرا سا منہ بناکر وہ زمین پر گری کتابیں اُٹھانے کے لیے جھکا تو برا والا منہ بری طرح کھل گیا۔ میگزین اور کتابوں کے سرورق پر انتہائی قابلِ اعتراض تصاویر تھیں۔ لاحول پڑھتے ہوئے ا س نے تڑ تڑ کتابوں کو ایک دوسرے پر رکھا اور تیزی سے بازل کے کمرے میں پہنچا آیا۔

”جانے یہ تیمور صاحب کس قسم کے ابا ہیں؟ میرا ابا تو پان کی دکان پر لگے ہیروئن کے پوسٹر پر دوسری نظر ڈالنے کی اجازت نہیں دیتا اور ایک یہ ہیں۔“

”جاوید!“ تیمور نے ڈائننگ روم سے اُسے آواز دی۔

”جی آیا صاحب۔“ جاوید نے بھاگ بھاگ کر سیڑھیاں اُتریں اور ڈائننگ روم میں پہنچ گیا۔ تیمور کو ناشتہ سرو کرتے وقت بھی اُس کا دماغ اُن کتابوں اور میگزین کی تصویروں میں اٹکا رہا، بازل کالج گیا ہوا تھا۔ اُس کے گھر آنے میں ابھی کافی ٹائم تھا۔ جاوید نے سوچا وہ تیمور کے جانے کے بعد ایک چکر بازل کے کمرے کا ضرور لگائے گا۔

٭….٭….٭

سعدیہ نے گیٹ پر کھڑے چوکیدار سے پوری تحقیقات کرلی تھیں۔ تیمور آفس میں مصروف تھا اور بازل گھر کے اندر موجودتھا۔ اب وہ گیٹ پر غیروں کی طرح گھر کے اندر جانے کی اجازت مانگ رہی تھی۔ سیکیورٹی گارڈ نے اندر سے زرینہ کو بلوایا کچھ منٹ بعد وہ برآمد ہوئی اور اس کے نزدیک چلی آئی۔

”جی فرمایئے۔“ اس کے استفسارپر سعدیہ نے اپنا تعارف کروایا۔

”میرا بیٹا، بازل کی کلاس میں پڑھتا ہے، کچھ معلوم کرنا تھا مجھے، تو میں اسی سلسلے میں اُس سے ملنے آئی ہوں۔“ زرینہ کو یہ تاثر ملا کہ وہ کالج کے کسی کام کی بات کررہی ہیں۔

”جی جی، آئیے۔“ اُس نے گیٹ کھلوا کر اُسے بلوالیا۔

”اندر آجائیں بیگم صاحبہ، بازل بابا شاور لے رہے ہیں، تھوڑی دیر بعد نیچے آجائیں گے۔“ اُسے ڈرائنگ روم میں بٹھا کر زرینہ نے بتایا اور اُس کے لیے چائے بنانے کچن میں چلی گئی۔ سعدیہ کے لیے بہترین موقع تھا وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھتی بازل کے کمرے میں جاپہنچی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ نوکروں کے سامنے کوئی تماشا بنے۔ اسی لیے اس نے اکیلے میں بات کرنے کو ترجیح دی۔

بازل کے کمرے میں پہنچ کر اُس نے دروازہ بند کرلیا۔ باتھ روم سے پانی گرنے کی آواز آرہی تھی۔ تیز بوچھاڑ کے شور کو سن کر سعدیہ نے بند دروازے کی جانب دیکھا۔

”اونہہ! جانے کتنا پانی یونہی نالی میں بہا کر ضائع کردیتا ہوگا ہر روز، اللہ کی نعمت کا نہ احساس ہے نہ قدر۔“ یہ سوچتے ہوئے اس نے ادھر اُدھر نظر دوڑائی، ایک کمرے میں آسائشوں کا اتنا ڈھیر تھا جو کسی چھوٹے موٹے گھر کو بآسانی بھر دیتا۔ ایک دیوار پر65 انچ کا ایل ای ڈی فکس تھا، جس کے نیچے ریکس میں موجود فلم سی ڈیز کی تعداد کسی ویڈیو فلم والے کی دکان جتنی تھیں۔ سامنے کی دیوار پر میوزک سسٹم کے ساتھ کتابوں کی شیلف تھی اور سٹڈی ٹیبل پر لیپ ٹاپ اور اسمارٹ فون رکھا تھا۔

”ہونہہ، بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تیمور نے۔“ بڑبڑاتی ہوئی وہ میز کے نزدیک آئی تو کچھ کتابوں اور میگزینز کا ڈھیر نظر آیا۔ ایک ایک کرکے اس نے تمام کتابوں اور میگزینز کے نام پڑھے۔ لب بھینچ کر وہ اپنے آنسوﺅں کو روکتی ہوئی اُلٹے قدموں واپس مڑی اور نہایت تیزی کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گئی۔

جاوید اور زرینہ جو لاﺅنج میں اس کی اچانک گمشدگی پر ورطہ حیرت میں تھے اسے بازل کے کمرے سے برآمد ہوتا دیکھ کر دنگ رہ گئے، زرینہ نے تیزی سے سیڑھیاں اُترتی سعدیہ کے نزدیک آکر کہا۔

”آپ اوپر تھیں؟ہم سمجھے….“اُس کی بات مکمل ہونے سے قبل ہی وہ دوڑتی ہوئی گھر سے باہر نکل گئی۔

”انہیں کیا ہوا ؟“ زرینہ نے کہا۔

”ایسے بھاگ رہی ہیں جیسے بھوت دیکھ لیا ہو۔“ جاوید کندھے اُچکا کر اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔

سعدیہ سڑک پر تیز قدموں سے چلتی چلی جارہی تھی۔ اس کی آنکھیں آنسوﺅں سے لبریز تھیں۔

”اس چھوٹی سی عمر میں وہ اتنی بے ہودہ کتابیں پڑھتا ہے۔ جیسا باپ ویسا بیٹا، کوئی شرم لحاظ نہیں دونوں کو۔“ سعدیہ کو جتنا دکھ وہاں جاکر ہوا تھا واپسی میں اسی قدر غصہ آرہا تھا اسے۔

”ہونہہ،بے دین بے حیا لوگ۔“

٭….٭….٭



ثاقب نے اُسے کالج سے پک کرنے کے لیے گاڑی بھیجی تھی۔ اُس کا ڈرائیور زمزمہ کی تنگ گلیوں میں موجود ایک کیفے کے پاس جاکر رُکا جو بالکل آخری کنارے پر تھا۔ مازن اندر پہنچا تو ایک ٹیبل پر ثاقب اور اُس کے باقی دوست شیشہ پینے میں مصروف تھے۔ سب سے ہاتھ ملا کر وہ صوفے میں پھنس کر بیٹھ گیا۔ ثاقب نے سب سے پہلے اُسے جھاڑ پلائی۔

”ابے کہاں غائب تھا پرسوں سے؟ فون بھی نہیں اُٹھاتا، آف کرکے رکھا ہے ، کیا آفت آگئی؟“

”یار وہ ماما نے چھین لیا۔“

”اوہ بے بی۔“ سارے دوستوں نے مل کر چھیڑنا شروع کردیا، ایک کے بعد ایک فقرہ چست کرتے رہے۔

”بے چارے کی ماما نے فون چھین لیا۔ ہاہ، اب کیا کرے گا؟“

”بکواس بند کرو یار۔“ مازن کو غصہ آگیا تھا۔

”اچھا پریشان نہ ہو۔“ ثاقب بولا۔

”یہ لے ۔“اس نے فوراً جیب سے کریڈٹ کارڈ نکالا اور اُسے پکڑایا۔

”لے یہ پکڑ اسے اور میرے ڈرائیور کے ساتھ جاکر یہ پیچھے موبائل کی دکان سے نیا فون خرید لے جاکر۔“ مازن نہیں نہیں کرتا رہا۔

”یار میں نہیں لے سکتا، بازل سے کہوں گا وہ دے دے گا، رکھو اپنا کارڈ۔“ اس نے زبردستی ثاقب کی جیب میں وہ کارڈ واپس ڈالا۔

”اچھا بتاﺅ تم لوگ فون کیوں کررہے تھے۔“ثاقب نے ایک گہرا سانس لیا پھر کہا۔

”میری برتھ ڈے آرہی ہے نیکسٹ ویک اور تجھے آنا پڑے گا۔“ مازن نے برا سا منہ بنایا۔

”یار رات کی پارٹی ہوگی تو میرا آنا مشکل ہے۔“ ثاقب نے زور دیتے ہوئے کہا۔

 ”رات ہی کی پارٹی ہے اور تجھے آنا ہی پڑے گا ورنہ تیری میری دوستی ختم۔ بڑی دھانسو چیز بلارہے ہیں اس بار۔ساری رات کا پروگرام ہے، تو نے مس کردیا تو بہت پچھتائے گا۔“شجاع نے اُسے لالچ دیا۔ مازن مایوسی سے گردن ہلاتا رہا۔

”یار ابھی یہ موبائل کی وجہ سے بڑا ایشو ہوا تھا، ماما کو منانا بہت مشکل ہوگا۔“

”چل نا یار، لڑکیوں کی طرح باتیں مت کر۔ دوڈھائی سال تو نے ماں کو ہوا بھی نہیں لگنے دی کہ جیب میں موبائل رکھے گھومتا ہے، ہماری دوستی کا پتا نہیں لگنے دیا۔ تو ہمت کر، پہلے فیصلہ کرلے کہ تو آنا چاہتا ہے۔ میں جانتا ہوں پھر تو کوئی نہ کوئی صورت نکال ہی لے گا۔“ ثاقب نے اُس کی ہمت بندھائی ۔

”اچھا ٹھیک ہے، سوچتا ہوں کچھ۔“

”یہ ہوئی نا بات۔“ سب دوستوں نے اُسے چیئرکیا، پھر جیسے فرحان کو کچھ یاد آیا۔

”اچھا سن پارٹی کا تھیم ’ہیلووین‘ ہے۔ تیرا سارا کاسٹیوم میک اپ وغیرہ ہمارے ذمے۔“ مازن کو برا سا منہ بناتے دیکھ کر اس نے ساری ذمہ داری اپنے سر لے لی۔ سب دوست کچھ دیر بعد نکلتے گئے۔ ثاقب اور مازن اکیلے رہ گئے ۔ پھر جیسے مازن کو کچھ یاد آیا۔

”اچھا سن ثاقب، یہ سم ذرا اپنے فون میں ڈال کر چیک کر۔“ مازن نے فوراً جیب سے اپنا سم کارڈ نکالا اور ثاقب کے فون میں ڈالنے کے لیے اُسے پکڑا دیا۔

”چکر کیا ہے؟“ ثاقب نے سم ڈالتے ہوئے پوچھا۔

”یار وہ پرسوں رات کسی ’گڑیا‘ کا فون آیا تھامجھے۔“ مازن نے اُسے اپنے راز میں شریک کیا۔

”پتا نہیں اُس کے پاس میرا نمبر کہاں سے آیا تھا، عجیب سی باتیں کی اُس نے۔ خیر اُسی کا نمبر چیک کرنا تھا۔ سوچا خود کال کرکے بات کرتا ہوں، پوچھوں تو سہی آخر چاہتی کیا ہے؟“

ثاقب نے فون آن کیا، کچھ سیکنڈز بعد مازن کا لاگ نظر آنے لگا۔ اس نے نمبر ثاقب کو دکھایا تو وہ بے اختیار کہہ اُٹھا۔

”یہ تو سونیا کا نمبر ہے۔“

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

چکلے – ساحر لدھیانوی

Read Next

تو ہی تو کا عالم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!