بازل مازن کا فیس بک اکاﺅنٹ دیکھ رہاتھا جب اُس کی نظر اس پوسٹ پر پڑی جو ملحدانہ سوچ کے حامل شخص کے پیج سے شیئر کی گئی تھی۔اس نظم کا لُب لباب یہی تھا کہ کافر ہونا کوئی بُری بات نہیںہے۔بازل یہ نظم پڑھ کرپریشان ہوا اور مازن سے کہا۔

”یہ کیا فضول اسٹیٹس لکھا ہے مازن؟“ مازن بڑے مزے سے لیٹا جیکی کالنز کا ناول پڑھ رہا تھا جسے اُس نے تیمور کے کمرے سے لیا تھا۔ کوئی جواب نہ ملنے پر بازل نے پاس پڑا کشن اُٹھا کر اس پر دے مارا۔

”اوہو یار، کیا مصیبت ہے؟ کیوں ڈسٹرب کررہے ہو؟ دیکھ نہیں رہے کتاب پڑھ رہا ہوں۔“

”تم نے کتاب پڑھنی تھی تو مجھ سے کہتے۔ یہ فضول خرافات کیوں اُٹھا کر لائے ہو پاپا کے کمرے سے۔“

”کیوں کہ وہ میرا بھی باپ ہے، صرف تمہارا حق نہیں ہے اس کی چیزوں پر۔“ اس کی بدتمیزی نے بازل کو حیران کیا۔

”یہ کس طرح بات کررہے ہو؟تمیز سے بولو۔“

”مجھے ڈانٹنے کے بہ جائے تم خود تھوڑے سے مینرز سیکھ لو تو بہتر ہوگا۔“ مازن نے دوبارہ کتاب کھول لی۔

”پہلے یہ بتاﺅ، یہ تم نے کس قسم کااسٹیٹس دیا ہے۔“ بازل اتنی آسانی سے ٹلنے والا نہیں تھا۔ مازن نے تنگ آکر سیدھا بیٹھتے ہوئے کہا۔

”او بھائی یہ پوسٹ مزاحیہ لگ رہی تھی، اس لیے اسٹیٹس دے دیا۔“

”اور یہ تم نے فیس بک اکاﺅنٹ پر اپنا نام ’ ناسٹی ملا‘ کیوں رکھ لیا ہے۔“

”کیوں کہ یہ فنی ہے اور مجھے اچھا لگتا ہے۔“

”یہ غلط ہے۔“ بازل نے نرمی سے کہا۔

”دین کا مذاق اُڑانا کوئی اچھی بات نہیں۔“

”یہ کیوں نہیں کہتے کہ کفر ہے۔“ مازن کو تپ چڑھی۔

”ہر وقت ہر بات پر بس یہی سننا پڑتا ہے کہ یہ کرو یہ نہ کرو ورنہ کافر ہوجاﺅگے ۔“

”خیر میں تمہیں کافر تو نہیں کہہ رہا۔“

”مگرسارے ملاﺅں کا تو یہی نعرہ ہے نا، سُنّی کے لیے شیعہ کافر، شیعہ کے لیے سُنّی، کرسچنز کے لیے مسلمان اور یہودی کافر، اسی نفرت کو بڑھاتے بڑھاتے سب مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کو واجب القتل قرار دیتے ہیں، بہتر ہوگا کہ مذہب کو مٹا دیا جائے۔“

”اب اگر مرسیڈیز کو چلانے والا کوئی اناڑی ڈرائیور ہو اور اس کا ایکسیڈنٹ ہوجائے تو قصور ڈرائیور کا ہوگا یا مرسیڈیز بنانے والے کا؟“ بازل نے بڑے تحمل سے اس کی جذباتی تقریر سننے کے بعد آرام سے پوچھا۔ مازن نے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں آنکھیں سکیڑیں۔

”یہ کیا سوال ہے؟“

”بس سوال ہے، جواب دو۔“

”ظاہر ہے قصور اُس پاگل ڈرائیور کا ہوگا جسے مرسیڈیز چلانی نہیں آئی۔“

”تو یہ بتاﺅ میرے بھائی کہ اگر دین کا نام لے کر شر پھیلانے والے غلطی پر ہیں تو اس میں دین کا کیا قصور ہے؟“ مازن کچھ دیر کے لیے چپ سا ہوا، اُسے کوئی جواب سمجھ نہیں آیا تھا ، پھر اس نے تاریخ کا حوالہ دیا ۔

”لیکن اگر سب کو پتا ہے کہ دین کے نام پر انسانوں کو آپس میں لڑوایا جارہا ہے تو وہ عقل استعمال کیوں نہیں کرتے؟ سب سے زیادہ تو اسلام کے نام پر قتل کیا جاتا ہے لوگوں کو۔“

”اونہوں، یہاں پر تم غلط ہو اور مجھے حیرت ہے ورلڈہسٹری کااسٹوڈنٹ اس قدر غلط بیان کیسے دے رہا ہے؟“ بازل نے اُسے چھیڑنے والے انداز میں کہا پھر نہایت سنجیدگی سے بولا۔

”ہٹلر، سٹالن اور ماﺅزے تنگ تو مسلمان نہیں تھے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے کرتا دھرتا بھی مسلمان نہیں تھے لیکن تم دیکھو کہ بے شمار بے گناہوں کا قتل عام کیا گیا، اس وقت اسلام کا نام استعمال ہوا تھا کیا؟ میرے بھائی، دنیا کا کوئی مذہب کسی انسان کے قتل کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ مذہب ہی تھا جس کی وجہ سے ہر دور میں انسان کا تعلق اپنے خالق سے جڑا رہا، جو روح کے لیے باعث تقویت تھا، ہے اور رہے گا۔ خالق اپنی مخلوق سے محبت کرتا ہے اور انہیں آپس میں محبت سے رہنے کا حکم بھی دیتا ہے۔“

”بات کو زمینی حقائق تک رکھو، میں تم سے فلاسفی ڈسکس کرنے نہیں بیٹھا۔“

”تم بتاﺅ مجھے، کیا سارے فساد مذہب کا نام لے کر نہیں کیے جارہے؟ یہ طالبان جنہوں نے ہزاروں پاکستانیوں کو بم سے اُڑانے کے بعد پشاور کے اسکول میں بچوں کو ذبح کیا، کیا ملک میں اسلام نافذ کرنے کا مطالبہ نہیں کررہے تھے؟“

”تم کرنٹ ایشوز پڑھتے ہو، ان پر بحث بھی کرتے ہو، اچھی بات ہے کیوں کہ وہ تم اپنی معلومات کی بنیاد پر کرتے ہو مگر دین پر بحث تب کرو جب اس کا پورا علم حاصل کرلو۔“

”یعنی میں اسلام کے نام پر قتل کرنے والوں کو برا بھلا کہنے سے پہلے مفتی ہوجاﺅں۔“

”نہیں، لیکن احادیث کا مطالعہ تو کرسکتے ہو۔ جانتے ہو نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان خوارج طالبان کے حلیے تک ارشاد فرمادیے اور انہیں ’کلاب النّار‘ یعنی جہنم کے کتے کہا۔ یہ خوارج نماز اور قرآن کے ایسے پڑھنے والے ہوں گے کہ مسلمان بھی نہ پڑھ سکیں گے، یہ بھی کہا کہ یہ مسلمانوں کو قتل کریں گے۔ان کی مذمت تو ڈیڑھ ہزار سال پہلے کی جاچکی ، تم کیسے انہیں اسلام کا علمبردار کہتے ہو؟“ مازن خاموش رہا۔

”اور ہم عیسائی اور یہودیوں کو کافر نہیں ، اہل کتاب کہتے ہیں جیسے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔ رہی فرقوں کی بات،توہاں اس تفرقے میں پڑنے سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے، تم مت پڑو۔ میں بھی اس پر یقین نہیں رکھتا، ہمیں بھی خود کو سُنّی نہیں صرف مسلمان کہنا چاہیے۔“ بازل کے پاس ٹھوس دلائل کی کمی نہیں تھی پر مازن میں مزید سننے کا حوصلہ نہیں تھا۔ اُس نے گھڑی دیکھی اور دیر ہوجانے کا بہا نہ کرکے اُٹھ گیا۔

گھر آکر اس نے سب سے پہلا کام بازل کو اپنے فیس بک اکاﺅنٹ پر بلاک کرنے کا کیا تھا۔ اس کے دوسرے بہت سے دوست تھے جو اس کی ہاں میں ہاں ملاتے اور سر آنکھوں پر بٹھاتے تھے۔ بازل سے دوبارہ لیکچر سننے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اس لیے بہتر تھا کہ وہ مازن کی سرگرمیوں سے بے خبر رہے۔

” اور لوگوں کے پاس جب ہدایت آ گئی تو انہیں کس چیز نے منع کیا کہ ایمان لائیں اور اپنے پروردگار سے بخشش مانگیں۔باخبر اس کے کہ انہیں بھی پہلوں کا سا معاملہ پیش آئے یا ان پر عذاب سامنے موجود ہو۔“                                                                           (سورة الکہف،آیت۵۵)

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

چکلے – ساحر لدھیانوی

Read Next

تو ہی تو کا عالم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!