امربیل — قسط نمبر ۱۳

کھردرے لہجے میں کہے گئے اس جملے نے چند لمحوں کے لیے عمر کو خاموش کر دیا، وہ جانتا تھا اس وقت اس کے چہرے پر کئی رنگ آ کر گزرے ہوں گے۔
”اس لیے یہ غلط فہمی دور ہو جانی چاہیے کہ میری ٹیم یہاں آپ کی مدد کے لیے بھیجی گئی ہے آپ کی مدد کے لیے آپ کا اپنا عملہ کافی ہے آپ ان ہی پر اس معاملے میں انحصار کریں تو بہتر ہے۔”
اس میجر کے ترکش میں ابھی خاصے تیر باقی تھے۔
”ہم لوگ صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ لوگوں کی ورکنگ فیئر اور بہتر ہو اور یہ اس شہر کے پولیس کے سربراہ کے طور پر آپ کی ذمہ داری ہے۔ ہم صرف یہ دیکھیں گے کہ آپ اور آپ کا عملہ اس ذمہ داری کو کس طریقے سے پورا کر رہا ہے۔”
وہ میجر شاید محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دینے کے مقولے پر عمل کرنے میں یقین رکھتا تھا یا پھر گربہ کشتن روز اول پر عمل پیرا تھا۔ کمرے میں موجود اپنے ماتحت پولیس آفیسرز کے سامنے عمر جہانگیر نے اپنی ہتک محسوس کی کچھ دیر پہلے کا دوستانہ رویہ اختیار کرنے کا فیصلہ اس نے چند سیکنڈز میں بدل دیا تھا۔
”میں جس طرح کام کر رہا ہوں اسی طرح کرتا رہوں گا، آرمی مانیٹرنگ ٹیم کی مانیٹرنگ سے اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی کیونکہ میں بہت اچھے طریقے سے کام کر رہا ہوں اتنے ہی اچھے طریقے سے جتنے اچھے طریقے سے ممکن ہے کیونکہ میں اپنا کام سیکھ کر یہاں آیا ہوں اور اس سارے نظام کو آپ سے بہتر جانتا ہوں اور جہاں تک عملے کی کارکردگی کا تعلق ہے تو وہ بھی بہتر ہے مگر اس سے زیادہ بہتری بھی ہو سکتی ہے کیونکہ بہتری کی گنجائش تو ہر جگہ ہوتی ہے بالکل اسی طرح جس طرح آرمی میں۔”
اس میجر کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گزر گیا۔




”اور اس بہتری کے لیے میں خاصی کوشش کر رہا ہوں کیونکہ ہم لوگوں کو سرو کرنے کے لیے اس شعبے میں آئے ہیں بلکہ اسی طرح جس طرح آپ لوگ سرو کررہے ہیں۔”
اس بار اس میجر نے اپنی کرسی پر ایک بار پھر پہلو بدلا۔
”اب دیکھتے ہیں اس معاملے میں ہم اور آپ ”مل” کر کیا کر سکتے ہیں۔”
عمر نے ”مل” پر زور دیتے ہوئے کہا۔ سامنے بیٹھے ہوئے میجر نے ایک بار پھر پہلو بدلا، یقیناً اس نے عمر کے بارے میں اپنی رائے بدلنی شروع کردی تھی۔
”آپ سے اب آئندہ ملاقات تو رہا ہی کرے گی تو تفصیل سے باقی معاملات پر گفتگو ہو گی۔ آج کے لیے تو میرا خیال ہے اتنا ہی کافی ہے، آپ میرے پولیس سٹیشن کا راؤنڈ لینا چاہیں تو میں اے ایس پی او کو ہدایات دے دیتا ہوں وہ آپ کو ریکارڈ سمیت باقی چیزوں سے آگاہ کر دے گا اور آپ گھوم پھر کر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ پھر اس کے بعد اگلی ملاقات میں تفصیل سے بات کریں گے۔”
عمر جہانگیر نے اپنے انداز سے انہیں یہ جتا دیا تھا کہ اب انہیں وہاں سے چلے جانا چاہیے کیونکہ میٹنگ بہت لمبی ہو گئی تھی جملے کو یہیں ختم کرنے پر اس نے اکتفا نہیں کیا بلکہ انٹر کام کا ریسیور اٹھا کر پولیس سٹیشن کے وزٹ کے بارے میں ہدایات بھی دینے لگا۔
میجر لطیف اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا اسے کھڑا ہوتے دیکھ کر اس کے ساتھ موجود دوسرے فوجی بھی کھڑے ہو گئے عمر نے انٹرکام کا ریسیور رکھ دیا اور خود بھی کھڑا ہو گیا۔ اس نے ایک مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ اپنی جگہ پر کھڑے کھڑے ٹیبل کے دوسری طرف موجود میجر کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔ میجر لطیف نے تکلفاً یا شاید رسماً اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو تھامتے ہوئے مصافحہ کیا۔ ”آپ سے آئندہ آنے والے دنوں میں خاصی ملاقاتیں ہوتی رہیں گی۔”
عمر جہانگیر نے اس کے لہجے سے اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ صرف رسمی جملہ نہیں تھا، وہ یقیناً اسے وارننگ دے رہا تھا۔
”ضرور کیوں نہیں اگر ان ملاقاتوں سے اس سسٹم میں کوئی بہتری ہو سکتی ہے تو ہم ضرور ملا کریں گے۔”
عمر نے اسی مصنوعی مسکراہٹ کو کچھ مزید گہرا کرتے ہوئے کہا۔ میجر لطیف نے اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا اس نے صرف میز پر پڑی ہوئی فائلز اٹھائیں اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ آفس سے نکل گیا۔
عمر نے کمرے میں موجود ڈی ایس پی بدر جاوید کو اس کے نکلتے ہی درشتی سے کہا۔
”مجھے اس میجر اور اس کمیٹی کے تمام لوگوں کے بارے میں مکمل انفارمیشن چاہیے۔ ہر قسم کی انفارمیشن ، فیملی بیک گراؤنڈ سے لے کر ہر پوسٹنگ تک مکمل تفصیلات کے ساتھ۔”
بدر جاوید نے اس کی بات پر سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”او کے سر…!”
”سارے پولیس سٹیشنز سے کہو اپنا ریکارڈ اپ ڈیٹ کریں۔ کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے نہ ہی میں برداشت کروں گا۔”
”This man is going to give us a very tough time”
اس نے میجر لطیف کے بارے میں تبصرہ کیا۔
”یہ گڑے مردے اکھاڑنے اور بال کی کھال اتارنے والا آدمی ہے اور خاصا بغض پالنے والی ٹائپ میں سے ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ تم لوگوں کی وجہ سے میں اس کے سامنے شرمندگی کا شکار ہوں۔”
عمر جہانگیر نے اسے تنبیہ کرتے ہوئے کہا۔
”کوئی کوتاہی نہیں ہو گی سر۔” بدر جاوید نے ایک بار پھر یقین دلایا۔
”ٹھیک ہے تم جاؤ۔” اس نے انٹرکام اٹھاتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے اسے جانے کا اشارہ کیا۔
”ظفر تم اندر آؤ۔”
اس نے اپنے پی اے کو انٹرکام پر اندر آنے کی ہدایت دی اور پھر انٹرکام کا ریسیور رکھ کر اس رپورٹ کے بارے میں سوچنے لگا جو میجر لطیف سے ہونے والی اس پہلی ملاقات کے بارے میں تیار کروانے والا تھا، وہ جانتا تھا اپنے آفس میں پہنچ کر میجر لطیف بھی اسی جوش و خروش سے اس میٹنگ کے بارے میں رپورٹ تیار کرنے کا سوچ رہا ہوگا۔
٭٭٭
”جنید کے گھر والے کل کھانے پر آرہے ہیں۔ ” شام کی چائے پر نانو نے علیزہ کو بتایا۔
علیزہ نے معمول کے انداز میں انہیں دیکھا، جنید کے گھر والوں کا ان کے یہاں کھانے پر آنا کوئی نئی بات نہیں تھی۔ نانو اکثر انہیں اپنے یہاں مدعو کرتی رہتی تھیں اور خود جنید کی امی بھی ان دونوں کو اپنے یہاں کھانے پر بلاتی رہتی تھیں اس لیے علیزہ نے کسی خاص ردعمل کا اظہار کیے بغیر چائے پیتے ہوئے سر ہلا دیا۔
”شادی کی تاریخ طے کرنا چاہ رہی ہیں وہ…اسی سلسلے میں آرہے ہیں۔” نانو نے اپنی بات مکمل کی۔
وہ چائے پیتے پیتے رک گئی۔ ”شادی کی تاریخ؟” اس نے تعجب سے کہا۔
نانو کو اس کی حیرت پر حیرت ہوئی۔ ”ایک سال گزر چکا ہے علیزہ! وہ لوگ منگنی کے ایک سال بعد ہی شادی کرنا چاہتے تھے۔”
نانو نے جیسے اسے کچھ یاد دلایا۔ علیزہ نے ہاتھ میں پکڑا ہوا کپ میز پر رکھ دیا۔
”مگر جنید نے تو مجھ سے اس سلسلے میں کوئی بات نہیں کی۔”
”اس نے ضروری نہیں سمجھا ہوگا یہ کوئی غیر معمولی بات تو نہیں ہے۔” نانو نے قدرے بے نیازی سے چائے کا ایک کپ بناتے ہوئے کہا۔
”پھر بھی اسے مجھ سے بات تو کرنا چاہیے تھی یا پھر فری ہی کچھ بتا دیتی۔ میں پچھلے ہفتے ہی تو ان کے گھر پر تھی اور پھر ابھی پرسوں میری اس سے بات ہوئی ہے۔” علیزہ نے جیسے خود کلامی کی۔
”اب کل کھانے پر آرہے ہیں تو تم خود ہی اس سے پوچھ لینا کہ کیوں اس نے تمہیں نہیں بتایا لیکن مارچ میں وہ شادی کرنا چاہ رہے ہیں، اس کے بارے میں تو میں نے تمہیں چند ماہ پہلے بتایا تھا۔” نانو کو اچانک یاد آیا۔
علیزہ نے کچھ کہے بغیر چائے کا کپ اٹھا لیا۔ ”اچھا ہی ہے، جتنی جلدی میں اس ذمہ داری سے بھی فارغ ہو جاؤں اتنا ہی اچھا ہے۔” نانو نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔
”کیا شادی چند ماہ آگے نہیں ہو سکتی؟” علیزہ نے اچانک کہا۔
”چند ماہ آگے مگر کیوں؟” نانو نے کچھ چونک کر پوچھا۔ وہ کچھ جواب نہیں دے سکی۔
”چند ماہ آگے کس لیے؟” نانو نے ایک بار پھر اپنی بات دہرائی۔
”بس ایسے ہی۔۔۔”اس سے کوئی جواب نہیں بن پایا۔
”کوئی مناسب بات تو نہیں ہو گی یہ۔ وہ لوگ شادی آگے کرنے کی وجہ جاننا چاہیں گے۔”
”آپ کہہ دیں کہ ابھی ہم تیاری کر رہے ہیں۔” علیزہ کی بات پر نانو مسکرائیں۔
”جنید کی امی جانتی ہیں کہ ہماری تیاری مکمل ہو چکی ہے۔”
”وہ کیسے جانتی ہیں؟”
”مجھ سے ہر دوسرے تیسرے دن رابطہ ہوتا رہتا ہے ان کا، میں خود انہیں بتاتی رہتی ہوں۔” نانو نے کہا۔
”آپ بھی نانو…بس۔۔۔” علیزہ سے کوئی جواب نہیں بن پڑا۔
”کوئی دوسرا بہانا بھی تو کر سکتی ہیں۔” علیزہ نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد کہا۔
”ابھی مجھے ثمینہ اور سکندر سے بات کرنی ہے۔ دیکھنا ہے کہ ثمینہ کب باہر سے آ سکتی ہے پھر سکندر کی مصروفیات کا دیکھنا ہے۔ ڈیٹ تو اس کے بعد ہی طے کی جائے گی، نانو نے کہا۔
”اور اگر ممی نہیں آ سکیں یا انہوں نے ڈیٹ آگے کرنے کو کہا تو…؟” علیزہ کو اچانک خیال آیا۔
”نہیں ثمینہ ایسا کچھ نہیں کہے گی۔ میں اس سے پوچھ کر ہی اس کی سہولت کے مطابق تاریخ طے کروں گی اور اس کے نہ آنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیا وہ اپنی بیٹی کی شادی پر نہیں آئے گی۔” نانو نے اس کے قیاس کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے کہا۔




Loading

Read Previous

مکمل آسمان — سیدہ فرحین جعفری

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۴ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!