امربیل — قسط نمبر ۱۳

علیزہ جنید کے ساتھ اس وقت ہوٹل میں بیٹھی تھی، وہ دونوں وہاں کھانا کھانے کے لیے آئے تھے۔ جنید نے اسے کچھ شاپنگ بھی کروائی تھی شاپنگ سے واپسی پر وہ اس ہوٹل میں چلے آئے۔
”یہ شادی سے پہلے ہمارا آخری کھانا ہے۔” ویٹر کو آرڈر دینے کے بعد جنید نے علیزہ سے کہا۔
”اگلی بار تو ہم ایسی کسی جگہ پر شادی کے بعد ہی بیٹھے ہوں گے۔”
”کوئی آخری خواہش ہے تمہاری…کوئی ایسا کام جو تم آج کرنا چاہو۔۔۔” جنید نے گہرا سانس لیا۔
علیزہ کو اس کی سنجیدگی پر ہنسی آگئی۔ ”آپ کس طرح کی باتیں کر رہے ہیں جنید…آخری خواہش سے کیا مطلب ہے آپ کا؟”
”کوئی ایس چیز جو ہم یا تم آج کر سکتی ہو مگر تین ہفتے بعد نہ کر سکو، میرا مطلب ہے شادی کے بعد۔”
”میرے ذہن میں تو ایسی کوئی چیز نہیں آ رہی جو میں اب کر سکتی ہوں اور شادی کے بعد نہیں کر سکتی۔” علیزہ نے لاپروائی سے کہا۔
”یار سوچو…ذہن پر زور ڈالو۔ کچھ نہ کچھ تو ایسا ہوگا جو ہم آج کر سکتے ہیں مگر شادی کے بعد نہیں کر سکیں گے۔ اب تین ہفتے تک تو میں تم سے مل نہیں سکوں گا اس لیے اگر تمہاری کوئی خواہش ادھوری رہ گئی تو پھر مجھے مت کہنا۔”
”میں نے ذہن پر بہت زور دیا ہے مگر میری سمجھ میں نہیں آ رہا بس یہ ہے کہ شادی تک آپ سے دوبارہ ملاقات نہیں ہو گی اور تو کچھ بھی ایسا نہیں ہے جو چھٹ جائے اور جہاں تک آپ سے ملاقات کی بات ہے تو شادی کے بعد آپ سے ملاقات تو روز ہی ہوتی رہے گی۔ پھر اور کیا ہے۔” علیزہ نے کہا
”ہاں واقعی اور ایسا ہے ہی کیا جو چھٹ جائے گا یعنی تمہاری کوئی ایسی خواہش نہیں ہے جو ادھوری رہ جائے گی؟”




”نہیں میری ایسی کوئی خواہش نہیں ہے جو ادھوری رہ جائے گی۔”
”پھر بھی یار! اگر کچھ منوانا ہو تو آج منوا لو، میں بہت اچھے موڈ میں ہوں، شاید بعد میں تمہاری فرمائش اس طرح نہ پوری کروں جس طرح اب کرنے پر تیار ہوں۔” جنید نے فراخ دلی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
”میں نے آپ سے کبھی بھی کوئی فرمائش نہیں کی یہ آپ کو یاد رکھنا چاہیے۔” علیزہ نے اسے جتایا۔
”یعنی میں خود ہی تمہارا اتنا خیال رکھتا ہوں کہ تمہیں فرمائش کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ تم یہی کہنا چاہ رہی ہو نا؟” جنید نے مصنوعی سنجیدگی سے کہا۔
”نہیں میں یہ کہنا چاہ رہی ہوں کہ میں فرمائشوں پر کچھ زیادہ یقین نہیں رکھتی، خاصی قناعت پسندی ہے مجھ میں۔”
”اسی لیے تو تمہیں میں نے آفر کی ہے۔”
علیزہ نے اس کے مسکراتے چہرے کو غور سے دیکھا۔
”اگر آپ اتنا اصرار کر رہے ہیں کسی فرمائش کے لیے تو آپ میری ایک خواہش پوری کر دیں۔” اس نے چند لمحے کچھ سوچتے رہنے کے بعد یکدم سنجیدگی سے کہا۔
”بالکل ضرور کیوں نہیں۔” جنید نے کچھ دلچسپی کے ساتھ ٹیبل پر اپنی کہنیاں ٹکاتے ہوئے کہا۔
”عمر سے دوبارہ کبھی مت ملیں۔”
جنید کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ وہ ایک بار پھر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ ”یہ کیا بات ہوئی؟”
”آپ نے خود ہی کوئی فرمائش کرنے کے لیے کہا تھا۔” علیزہ نے اسے یاد دلایا۔
”مگر یہ تو خاصی نامناسب سی فرمائش ہے۔” جنید یکدم سنجیدہ ہو گیا۔
”نہیں کوئی اتنی نامناسب نہیں ہے۔” علیزہ نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ”میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ آپ پہلے کی طرح اب بھی عمر سے کوئی رابطہ نہ رکھیں۔ اس سے ملنے سے احتراز کریں اس میں نامناسب بات کیا ہے؟”
”میں اس سے بہت زیادہ تو نہیں ملتا ہوں۔”
”میں چاہتی ہوں آپ اس سے نہ ملیں نہ کم نہ زیادہ۔ سرے سے ہی نہ ملیں۔”
”کیوں؟”
”کیونکہ میں اسے پسند نہیں کرتی۔” اس نے بڑی صاف گوئی سے کہا۔
”تم اسے پسند کیوں نہیں کرتیں؟”
”آپ جانتے ہیں۔”
جنید نے اس کی بات پر قدرے ناگواری سے سر جھٹکا ”صرف ایک واقعہ کی بنا پر کسی کے بارے میں اس طرح کی حتمی رائے بنا لینا اور کسی کو ناپسند کرنے لگنا کچھ سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے…بہت illogical (غیر منطقی) اور Unreasonable (نامناسب) قسم کی بات ہے۔”
”ایک یا دو واقعات کی بات نہیں ہے۔ بہت ساری وجوہات ہیں اس کے لیے میری ناپسندیدگی کی۔” علیزہ نے سنجیدگی سے کہا۔
”تم ذرا روشنی ڈالنا پسند کرو گی، ان بہت ساری وجوہات میں سے چند ایک پر۔”
”اگر میں نے یہ کام شروع کیا تو ہم لوگ خاصا وقت ضائع کریں گے۔” علیزہ نے بات کو گول کرتے ہوئے کہا۔
”کیا یہ مناسب نہیں ہے کہ تم عمر کو اس کے پروفیشن سے ہٹ کر صرف ایک فیملی ممبر کے طور پر دیکھو۔ اس کے پروفیشن کے حوالے سے اسے جج نہ کرو۔” جنید نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
”اس کے باوجود اس کے لیے میری ناپسندیدگی اسی طرح قائم رہے گی۔” علیزہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔ ”اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ میں اسے اس کے پروفیشن کے حوالے سے جج کروں یا نہ کروں۔”
”مجھے حیرت ہوتی ہے اس نے ہمیشہ تمہاری تعریف کی ہے اور تم اس کے بارے میں اتنی نیگیٹو سوچ رکھتی ہو۔”
”وہ بھی مجھے ناپسند کرتا ہے۔” علیزہ نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”نہیں کم از کم میں تمہاری اس بات پر یقین نہیں کر سکتا۔” جنید نے قطعیت سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”اتنے سالوں میں میں نے ایک بار بھی عمر کے منہ سے تمہارے خلاف کبھی کچھ نہیں سنا۔ وہ ہمیشہ تمہارے بارے میں بہت فکر مند رہا ہے۔ اس نے ہمیشہ تمہاری تعریف کی ہے۔”
جنید روانی سے کہتا جا رہا تھا، علیزہ بے حس و حرکت پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھ رہی تھی۔
”ہو سکتا ہے تم دونوں کے درمیان کچھ غلط فہمی ہو جسے دور ہو جانا چاہیے اور مجھے غلط فہمی کے سوا یہ کچھ اور لگتا بھی نہیں، جب تم اپنے کسی اور کزن پر اس کے کیریئر یا پروفیشن کے حوالے سے تنقید نہیں کرتیں یا اسے ناپسند نہیں کرتیں تو پھر آخر عمر ہی کیوں، کیا یہ اس کے ساتھ زیادتی نہیں ہے۔”
جنید بات کرتے کرتے رک گیا۔ علیزہ کے چہرے کے تاثرات بہت عجیب تھے۔
”کیا ہوا؟ کیا میں نے کچھ غلط کہا؟” جنید نے اس سے پوچھا۔
”کتنے سالوں سے جانتے ہیں آپ عمر کو؟” اس نے سرد آواز میں جنید سے کہا وہ اسے دیکھنے لگا۔
”کتنے سالوں سے؟”
”ہاں کتنے سالوں سے؟ آپ نے کہا…آپ نے ”اتنے سالوں” سے کبھی عمر کے منہ سے میرے بارے میں کچھ برا نہیں سنا، تو آپ اور عمر ایک دوسرے کو کب سے جانتے ہیں؟”
جنید نے مسکرانے کی کوشش کی ”نہیں میں نے تو یہ نہیں کہا۔”
”آپ نے یہی کہا ہے۔” اس نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔
اس سے پہلے کہ جنید کچھ کہتا ویٹر ٹیبل پر کھانا سرو کرنے لگا۔ علیزہ کی بھوک ختم ہو چکی تھی۔ کیا آج پھر کوئی اینٹی کلائمکس ہونے والا تھا، چند منٹ کے بعد ویٹر کھانا لگا کر چلا گیا۔
”چند دن پہلے بھی آپ نے فون پر مجھ سے یہی کہا تھا کہ سات آٹھ سال پہلے تو مجھے غصہ نہیں آتا تھا، میں نے سوچا کہ آپ نے بے دھیانی میں ایسا کہا ہے مگر ایسا تو نہیں ہے۔ آپ مجھے کب سے اور کتنا جانتے ہیں۔”
”علیزہ چھوڑو یار! ہم دونوں کیا فضول باتیں لے کر بیٹھے ہیں۔ کھانا کھاتے ہیں۔” جنید نے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔
”میں یہاں سے اٹھ کر چلی جاؤں گی، اگر آپ نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔ عمر کو آپ کب سے جانتے ہیں؟” اس بار اس کی آواز میں واضح طور پر ناراضی تھی۔
جنید یکدم سنجیدہ ہو گیا، کچھ دیر وہ ایک دوسرے کے چہرے دیکھتے رہے پھر جنید نے ایک گہرا سانس لے کر جیسے ہتھیار ڈال دیئے۔
”پندرہ سال سے۔۔۔” وہ دم بخود رہ گئی۔
اس وسیع عریض ڈائننگ ہال میں اسے اپنا سانس گھٹتا ہوا محسوس ہونے لگا۔ اپنے ہاتھ کی کپکپاہٹ کو چھپانے اور خود کو جیسے سہارا دینے کے لیے اس نے اپنے ہاتھوں کو ٹیبل پر رکھ دیا۔ وہ اس کے بالمقابل اپنی کرسی پر بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا، وہ آدمی جس کے بارے میں اسے یقین تھا کہ وہ عمر کے برعکس اس سے ہمیشہ مخلص رہا ہے وہ آدمی جس کے بارے میں اسے خوش فہمی تھی کہ وہ کبھی اسے کسی چیز کے بارے میں دھوکے میں نہیں رکھے گا۔
جنید اب بات کرتے کرتے کچھ دیر کے لیے رک گیا تھا، شاید وہ بات جاری رکھنے کے لیے کچھ مناسب لفظوں کی تلاش میں تھا۔
علیزہ فق رنگت کے ساتھ اس کے چہرے پر نظریں جمائے بیٹھی تھی۔ دم بخود اور ساکت۔
”ہم لوگ فلیٹ میٹس تھے۔ ہمارے ڈیپارٹمنٹس الگ تھے مگر ہم لوگوں کی دوستی پر اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ یونیورسٹی کے بعد بھی کچھ عرصہ ہم اکٹھے ہی رہے پھر عمر لندن چلا گیا۔ میں واپس پاکستان آ گیا۔ میں نے اپنے بابا کی فرم کو جوائن کر لیا مگر ہم دونوں ہمیشہ رابطے میں تھے۔” جنید نے رک کر اپنے گلاس میں پانی ڈالا۔ وہ کہہ رہا تھا۔
”بہت گہری قسم کی دوستی ہے ہماری…عمر جب بھی پاکستان آتا تھا میرے یہاں بھی آتا تھا۔ بعد میں سول سروس میں آنے کے بعد یہ تعلق کچھ اور گہرا ہو گیا۔ جتنا عرصہ وہ پاکستان میں رہا بڑی باقاعدگی سے ہمارے یہاں آتا رہا۔ بعض دفعہ وہ ہمارے گھر ٹھہرتا بھی رہا ہے۔ پندرہ سال بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے، یہ کوئی پندرہ دن نہیں ہوتے کہ انسان ایک دوسرے کو جان نہ سکے۔ میں عمر کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں، بہت ہی اچھی طرح اسی لیے جب تم اس پر تنقید کرتی تھیں تو میں۔۔۔” جنید نے پانی کا گھونٹ بھرا۔
”میں کبھی یقین نہیں کر سکتا کہ عمر اس طرح کا ہے جس طرح کا تم اسے بتاتی ہو۔ اگر ساری دنیا بھی میرے سامنے جمع ہو کر ایک وقت میں وہی باتیں کہے جو تم کہتی ہو، تب بھی میں یقین نہیں کروں گا۔” اس کے لہجے اور انداز میں قطعیت تھی۔
”وہ میرا بہترین دوست ہے اور میں اسے کسی بھی دوسرے شخص سے زیادہ اچھی طرح جانتا ہوں۔” وہ خالی خالی نظروں سے اس کا چہرہ دیکھے گئی۔
جنید ابراہیم کا چہرہ، اپنے منگیتر کا چہرہ، عمر جہانگیر کے بہترین دوست کا چہرہ۔
جنید نے اپنی بات جاری رکھی۔ ”صرف میں ہی نہیں میرے گھر والوں کے لیے بھی وہ کوئی اجنبی شخص نہیں ہے۔ وہ ہماری فیملی کا ایک فرد ہے، یہ سمجھ لو کہ میری امی کا تیسرا بیٹا ہے وہ۔ اگر وہ آئے نہ تب بھی فون پر میرے گھر والوں سے اس کا رابطہ رہتا ہے۔ میرے پیرنٹس سے خاص طور پر میری چھوٹی بہن سے…فری سے۔۔۔”
”تو آپ عباس کے دوست نہیں ہیں؟” اس نے ایک لمبی خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا۔
”نہیں۔۔۔” جنید نے نفی میں سر ہلایا۔ ”عمر کے توسط سے میں تمہیں اور تمہاری فیملی کے اور بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں اور ان میں عباس بھی شامل ہے مگر عبا س سے میری کوئی دوستی نہیں ہے۔ صرف جان پہچان ہے۔” جنید نے کہا۔
”اور مجھے…مجھے آپ کب سے جانتے ہیں؟” اس نے کھوئے ہوئے انداز میں کہا۔
جنید کے چہرے پر ایک مسکراہٹ ابھری۔” بہت سال ہو گئے ہیں۔ یہ کہنا بہتر ہے کہ بہت سالوں سے …پہلی بار میں تب تم سے ملا تھا جب عمر سول سروس کے امتحان کے لیے پاکستان میں تھا۔ عمر کے ساتھ میں تمہارے گھر آیا تھا۔ تم اس وقت کہیں جا رہی تھیں اور ہم لوگ لاؤنج میں بیٹھے ہوئے تھے۔ عمر نے ہم دونوں کا تعارف کروایا تھا پھر دو تین بار میں نے فون کیا تھا عمر کے لیے اور تم نے فون ریسیو کیا تھا۔
علیزہ کو یاد آیا کہ جنید سے پہلی بار بھوربن میں ملاقات کے دوران اسے بار بار یوں لگتا تھا جیسے وہ اسے پہلے بھی کہیں دیکھ چکی ہے مگر کوشش کے باوجود وہ یہ یاد کرنے میں ناکام رہی تھی کہ اس نے اسے کہاں دیکھا تھا، بعد میں اس نے اپنے اس خیال کو جھٹک دیا تھا۔




Loading

Read Previous

مکمل آسمان — سیدہ فرحین جعفری

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۴ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!