امربیل — قسط نمبر ۱۳

اخبار دیکھتے ہوئے عمر کے ماتھے پر بل پڑ گئے، اخبار کے صفحے پر نظریں جمائے ہوئے اس نے انٹر کام کا ریسیور اٹھایا۔
”لاہور اس نمبر پر کال ملاؤ۔”
اس نے اپنے آپریٹر کو نانو کا نمبر دیتے ہوئے کہا۔ ریسیور وہیں رکھتے ہوئے اس کے چہرے پر الجھن تھی۔
”آخر گرینی نے اس شادی کو ملتوی کیوں کیا ہے؟ کیا پرابلم ہے۔” وہ ایک بار پھر اخبار دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا۔ وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی آفس پہنچا تھا اور اخبارات پر سر سری سی نظر ڈالتے ہوئے اس نوٹس پر اس کی نظر پڑ گئی۔ یکے بعد دیگرے اس نے چاروں اخبارات کو دیکھ لیا۔ چاروں میں ہی وہ نوٹس موجود تھا۔ اس کا پچھلے کئی دنوں سے نانو کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا۔ خود جنید کے ساتھ بھی اس کا رابطہ ہوئے کچھ دن گزر گئے تھے۔
فون کی بیل بجی، عمر نے فون اٹھا لیا۔
”سر ! بات کریں” آپریٹر نے کال ملاتے ہوئے کہا۔
چند لمحوں کے بعد دوسری طرف سے نانو کی آواز سنائی دی تھی۔ ”ہیلو ۔۔۔”
”ہیلو گرینی …میں عمر بول رہا ہوں۔” عمر نے کہا۔
”ہاں عمر …کیسے ہو تم؟” نانو کی آواز میں کچھ حیرت تھی۔
”میں بھی ٹھیک ہوں …تم لاہور میں ہو؟”
”نہیں لاہور میں نہیں ہوں۔”
”تو پھر اتنی صبح صبح کیسے کال کر لیا؟” نانو نے بالآخر اپنی حیرت کا اظہار کر ہی دیا۔
”میں ابھی ابھی آفس آیا تھا اور اخبار دیکھ رہا تھا۔ اخبار میں آپ کا نوٹس دیکھ کر آپ کو فون کیا ہے۔”
”اخبار میں آپ کا نوٹس پڑھا ہے۔”
”میرا نوٹس ۔۔۔” وہ ششدر رہ گئیں۔ “کیسا نوٹس؟”
”آپ نے اخبار میں کوئی نوٹس نہیں دیا؟” اب حیران ہونے کی باری عمر کی تھی۔
”نہیں میں نے تو کوئی نوٹس نہیں دیا۔ تم کس نوٹس کی بات کر رہے ہو؟”
عمر ان کے جواب پر الجھ گیا۔ گرینی سارے بڑے نیوز پیپرز میں آپ کے نام سے ایک نوٹس ہے۔ علیزہ کی شادی کے التوا کے بارے میں ۔۔۔”
”تم کیسی فضول باتیں کر رہے ہو۔”
”گرینی ! میں کوئی فضول بات نہیں کر رہا۔ نوٹس دیکھ کر آپ سے بات کر رہا ہوں۔ اس میں لکھا ہوا ہے کہ علیزہ کی 25 مارچ کو ہونے والی شادی آپ نے کچھ نا گزیر وجوہات کی بنا پر ملتوی کر دی ہے ۔۔۔” عمر نے نوٹس پر ایک نظر ڈال کر اخبار ٹیبل پر پھینک دیا۔
”میرے خدا …تم کیا کہہ رہے ہو …میں کیوں اس کی شادی کینسل کروں گی۔” نانو کی آواز سے ان کی پریشانی کا اندازہ ہو رہا تھا۔ ”کون سے اخبار میں ہے یہ نوٹس؟”
”چاروں بڑے نیوز پیپرز میں …میں نے چاروں نیوز پیپرز منگوا کر دیکھے ہیں۔ آپ نے اب تک اخبار نہیں دیکھا؟”
”نہیں میں نے اخبار نہیں دیکھا …میں تو ابھی تمہارے فون پر ہی اٹھی ہوں۔” نانو نے کہا۔
”ثمینہ امریکہ سے آئی تھی رات کو …ہم لوگ دیر سے سوئے۔ اسی لئے صبح جلدی نہیں اٹھی۔”




”پھر آپ اخبار منگوائیں۔” عمر نے انہیں ہدایت کی۔
”تم ہولڈ کرو ذرا ۔۔۔” انہوں نے کہتے ہوئے فون رکھ دیا۔ اپنے کمرے سے نکل کر وہ باہر لاؤنج میں گئیں۔ ملازم صفائی کرنے میں مصروف تھا نانو نے متلاشی نظروں سے لاؤنج میں ادھر ادھر دیکھا اور پھر سینٹر ٹیبل پر پڑے ہوئے اخبار کو اٹھا لیا۔ اضطراب کے عالم میں پہلا صفحہ پلٹتے ہی وہ نوٹس ان کی نظروں کے سامنے آ گیا تھا۔ وہ جیسے دھک سے رہ گئی تھیں۔ تیز قدموں کے ساتھ چلتی ہوئی وہ واپس اپنے کمرے میں آئیں اور انہوں نے ریسیور اٹھا لیا۔
”ہاں عمر میں نے وہ نوٹس دیکھ لیا ہے مگر میں نے وہ نوٹس نہیں دیا۔” انہوں نے پریشانی کے عالم میں کہا۔
”تو پھر کس نے دیا ہے؟”
”میں کیا کہہ سکتی ہوں۔ علیزہ کی شادی کے لئے تو ثمینہ بھی کل پاکستان آ گئی ہے تو کیا اب ہم اس طرح کے نوٹس دیں گے۔” انہوں نے تیزی سے کہا۔ ”کسی نے ہمارے ساتھ شرارت کی ہے۔” انہوں نے ایک نظر اس نوٹس پر ڈالتے ہوئے غصے اور پریشانی سے کہا۔
عمر سنجیدگی سے ان کی بات سنتا رہا۔ ”نہیں گرینی ! یہ شرارت نہیں ہو سکتی …کوئی اخبار بھی اتنا غیر ذمہ دار نہیں ہو سکتا کہ کسی تصدیق کے بغیر نوٹس شائع کر دے۔ کہیں یہ نوٹس علیزہ نے تو شائع نہیں کروایا۔” اسے اچانک خیال آیا۔
”علیزہ نے …؟ نہیں، علیزہ کیوں کروائے گی۔” نانو نے کہا۔
”وہ اس وقت کہاں ہے؟” عمر نے پوچھا۔ ”وہ سو رہی ہے۔ میں نے تمہیں بتایا تھا نا کہ رات کو ہم سب لوگ دیر سے سوئے ہیں میں اسے جگا کر اس نوٹس کے بارے میں پوچھتی ہوں۔” انہوں نے کہا۔
”نہیں آپ فی الحال اسے مت جگائیں۔ میں چند منٹوں میں آپ کو دوبارہ فون کر کے بتاتا ہوں کہ یہ نوٹس کس نے شائع کروایا ہے۔”
عمر نے ان سے کہا اور پھر فون بند کر دیا۔ فون بند کرتے ہی اس نے اپنے پی اے کو اندر بلایا۔
”خالد ! یہ ایک نوٹس شائع ہوا ہے ان تینوں چاروں اخباروں میں …تم ان میں سے کسی اخبار کے آفس میں فون کر کے پتا کرو کہ یہ نوٹس کس نے شائع کرنے کے لئے دیا تھا۔ ان لوگوں نے یقیناً اس کے شناختی کارڈ کا نمبر یا اس کی فوٹو کاپی بھی لی ہو گی۔ تم ذرا مجھے یہ پتا کروا دو …اور دس منٹ کے اندر اندر۔” اس نے اپنے پی اے کو یہ ہدایات دیں، وہ اخبار لے کر باہر نکل گیا۔
عمر کچھ الجھن کے عالم میں اپنی کرسی کو گھماتا رہا۔ ٹھیک دس منٹ کے بعد پی اے دوبارہ اندر داخل ہوا۔
”سر ! یہ ایک خاتون نے دیا تھا۔ ان کا نام علیزہ سکندر ہے۔”
عمر نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”بس ٹھیک ہے اب تم جاؤ۔” وہ اب دوبارہ فون اٹھا رہا تھا اور اس بار اس کے چہرے پر پہلے سے زیادہ تشویش تھی، آپریٹر نے چند منٹوں میں ایک بار پھر کال ملا دی۔ نانو اس کی کال کی منتظر تھیں۔
”ہاں عمر !” انہوں نے اس کی آواز سنتے ہی کہا۔
”کچھ پتا چلا؟”
”گرینی ! یہ علیزہ سکندر کی طرف سے دیا گیا ہے۔”
نانو کچھ نہیں بول سکیں۔ ”علیزہ کی طرف سے؟” چند لمحوں کے بعد انہوں نے بے یقینی سے کہا۔
”اس نے آپ سے ایسی کوئی بات کی تھی؟”
”نہیں …اس نے مجھ سے ایسا کچھ بھی نہیں کہا۔ وہ تو شادی کی تیاریوں میں مصروف تھی۔”
”جنید کے ساتھ اس کا کوئی جھگڑا تو نہیں ہوا؟”
”ہاں …دونوں کے درمیان کوئی جھگڑا تو ہوا ہے۔”
وہ چونک گیا۔ ”کب؟”
”پرسوں۔”
”پرسوں …وہ اس کے ساتھ شاپنگ کے لئے گئی ہوئی تھی۔ پھر رات کو واپس آئی تو بہت چپ چپ تھی۔ جنید سے مجھے پتا چلا کہ وہ اس سے ناراض تھی۔” نانو نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
”مگر کل تو وہ جھگڑا ختم ہو گیا تھا۔ اس نے جنید کو فون کیا تھا۔ دونوں کے درمیان بات ہوئی تھی،” نانو اب الجھ رہی تھیں۔
”آپ نے جنید سے یا علیزہ سے جھگڑے کی وجہ پوچھی؟”
”میں نے جنید سے تو نہیں پوچھی مگر علیزہ سے پوچھی تھی لیکن اس نے مجھے کچھ نہیں بتایا۔” نانو نے کہا۔
”میں اسے جگا کر پوچھتی ہوں کہ یہ کیا حرکت ہے آخر اس نے یہ کیوں طے کر لیا ہے کہ اس نے ہمیشہ مجھے پریشان ہی کرتے رہنا ہے۔” نانو کو اب اس پر غصہ آنے لگا تھا۔
”گرینی ! آپ اسے اٹھائیں ضرور مگر جھڑکنے کے بجائے اسے سمجھانے کی کوشش کریں، بلکہ پھوپھو سے کہیں کہ وہ اسے سمجھائیں …زیادہ برا بھلا مت کہیں۔” عمر نے ان سے کہا۔
”جتنا مجھے اس لڑکی نے پریشان کیا ہے، کسی نے نہیں کیا۔ اسے اندازہ ہی نہیں کہ اس کی اس بچگانہ حرکت کے کتنے برے نتائج نکل سکتے ہیں۔ جنید کی فیملی کیا سوچے گی ہمارے بارے میں …اور خود علیزہ کے بارے میں۔” نانو کو تشویش ہو رہی تھی۔
”اب تک یقیناً وہ بھی اس نوٹس کو دیکھ چکے ہوں گے۔ تم خود سوچو کہ میں ان کا سامنا کیسے کروں گی۔”
”آپ جنید کی فیملی کے بارے میں پریشان نہ ہوں …میں انہیں ابھی فون کرتا ہوں،میں انہیں سمجھا لوں گا۔ ان کی طرف سے آپ کو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ وہ بہت اچھے لوگ ہیں۔” عمر نے نانو کی پریشانی کم کرنے کی کوشش کی۔
”لیکن ابھی جو کالوں کا تانتا بندھ جائے گا پورے خاندان کی طرف سے تو اس کا میں کیا کروں گی؟”
”آپ صرف یہ کہہ دیں کہ شادی ایک ماہ آگے کر دی گئی ہے۔ اگلی ڈیٹ کے بارے میں انہیں بعد میں بتا دیا جائے گا۔” عمر نے انہیں مشورہ دیتے ہوئے کہا۔
”اور وہ وجہ پوچھیں گے تو؟”
”گرینی ! کوئی بھی وجہ بتا دیں۔ لوگوں کے پاس اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ وہ تصدیق کرتے پھریں۔” عمر نے قدرے جھنجھلا کر کہا۔
”اور جو ایاز اور میرے دوسرے بیٹے فون کر کے پوچھیں گے ان سے میں کیا کہوں …ان سے تو میں جھوٹ نہیں بول سکتی۔”
”پہلے آپ علیزہ کو جگا کر اس سے بات کریں۔ پھر یہ سوچیں کہ آپ کو کس سے کیا کہنا ہے؟” عمر نے کہا۔
”میں اب جنید کو فون کر رہا ہوں …تا کہ اسے بھی کچھ تسلی دے سکوں اگر اس نے یا اس کے گھر والوں نے یہ خبر پڑھ لی ہے تو وہ بھی بہت پریشان ہوں گے اس وقت۔”
عمر نے بات ختم کرتے ہوئے خدا حافظ کہا اور پھر فون رکھ دیا۔
***




Loading

Read Previous

مکمل آسمان — سیدہ فرحین جعفری

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۴ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!