امربیل — قسط نمبر ۱۳

”اگر تم اسے نہیں چھوڑو گے تو میں کسی اور کے ذریعے اسے چھڑوالوں گا …میں اپنے بیٹے کو پولیس اسٹیشن میں رات گزارنے نہیں دوں گا۔” کرنل حمید نے اسے دھمکایا۔
”میں دیکھوں گا کہ تمہارا بیٹا پولیس اسٹیشن کے لاک اپ سے کسی وکیل کی مدد کے بغیر کیسے باہر آتا ہے۔”
عمر جہانگیر نے دوسری طرف سے لائن کو ڈس کنکٹ ہوتے سنا۔
کچھ دیر ریسیور ہاتھ میں پکڑے وہ اس مصیبت کے بارے میں سوچتا رہا جو اس نے مول لی تھی۔ اسے کرنل حمید کے اگلے اقدام کے بارے میں کچھ اندازہ نہیں تھا …وہ آرمی مانیٹرنگ ٹیم سے رابطہ کرے گا یا پھر کوئی اور دروازہ کھٹکھٹائے گا، اس کو اس کے بارے میں یقین نہیں تھا مگر اسے اس بارے میں پورا یقین تھا کہ اسے عنقریب ہیڈ کوارٹر میں ایک اور پیشی کے لئے حاضر ہونا تھا اور وہ اس پیشی کے لئے ذہنی طور پر تیار تھا۔ اگر کرنل حمید اس کے ساتھ اس لہجے میں بات نہ کرتا جس لہجے میں اس نے کی تھی تو عمر یقیناً اس معاملے کو دوسرے طریقے سے ہی ہینڈل کرتا۔ وہ پوری کوشش کر تا کہ اس کا بیٹا اس معاملے سے بری ہو جائے …مگر یہ کرنل حمید کا تحکمانہ انداز تھا جس نے اسے مشتعل کر دیا تھا۔
کرنل حمید سے گفتگو کرنے کے بعد وہ اپنے کام میں مصروف ہو گیا تھا۔ شام کے قریب وہ آفس سے نکلنے والا تھا جب انسپکٹر عاطف کی کال اسے موصول ہوئی تھی۔
”ہاں عاطف کیا بات ہے؟” اسے اندازہ تھا کہ اس نے عمر کو فون کرنل حمید کے بیٹے کے لئے ہی کیا ہو گا۔
” میں نے کرنل حمید کے بیٹے کو چھوڑ دیا ہے۔” دوسری طرف سے عاطف کے جملے پر عمر ایک دم بھڑک اٹھا۔
”کس کے کہنے پر چھوڑا ہے تم نے اسے جب میں نے تم سے کہا تھا کہ اسے اپنی کسٹڈی میں رکھو تو پھر تم نے اسے کیوں چھوڑا۔” عمر نے تیز آواز میں اسے جھڑکتے ہوئے کہا۔
”سر ! میں مجبور تھا کرنل حمید یہاں آئے تھے اور ۔۔۔” عمر نے اس کی بات کاٹ دی۔




”وہ آیا تھا تو پھر …تم اس کے ما تحت ہو یا میرے۔ اس کے انڈر کام کرتے ہو یامیرے؟” اس جملے پر عمر کے اشتعال میں اور اضافہ ہوا۔
”سر ! آئی جی صاحب نے فون کیا تھا اور مجھے اسے چھوڑنے کے لئے کہا تھا۔” عمر نے بے اختیار اپنے ہونٹ بھینچ لئے۔
”سر ! یہاں پولیس اسٹیشن پر بڑا ہنگامہ ہوا۔” عاطف نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ” اس آدمی کے رشتہ داروں کے سامنے ہی کرنل حمید آئے اور پھر آئی جی صاحب کا فون آیا اور ہمیں ان کے بیٹے کو چھوڑنا پڑا …ان لوگوں نے ہنگامہ شروع کر دیا۔ انہوں نے کرنل حمید کی سرکاری گاڑی پر بہت زیادہ پتھراؤ کیا۔ میں نے بمشکل انہیں یہاں سے بحفاظت نکالا ان لوگوں نے پولیس اسٹیشن پر بھی حملہ کیا۔ ان کے ساتھ بہت زیادہ لوگ تھے وہ آدمی در اصل ہاسپٹل میں مر گیا ہے اور اس کے رشتہ دار کہہ رہے ہیں کہ وہ اس کی لاش تب تک دفن نہیں کریں گے جب تک ہم کرنل حمید کے بیٹے کو پکڑ کر اس پر کیس نہیں چلاتے۔”
”یہ سب تم مجھے بتانے کے بجائے آئی جی کو فون کر کے بتاؤ، وہ تمہیں اس معاملے میں بہتر گائیڈ کر سکتے ہیں۔”
عمر نے سرد مہری سے کہتے ہوئے فون بند کر دیا۔ فون بند کر کے وہ کچھ دیر غصے سے کھولتا رہا پھر سر جھٹک کر اٹھا اپنے آفس سے نکل گیا۔
***
”کیوا ہوا جنید؟” جنید کی امی نے کچھ چونک کر اسے دیکھا۔ اس کا رنگ فق تھا، وہ اخبار کے نچلے حصے میں موجود ایک نوٹس پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔
”کیا ہوا؟” انہوں نے دوبارہ قدرے تشویش سے اس سے پوچھا، جنید نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا اور مسکرانے کی کوشش کی۔
”کچھ نہیں۔”
”کوئی خاص خبر ہے اخبار میں …جسے دیکھ کر پریشان ہو گئے ہو؟” اس کی امی نے کہا۔
”نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔” اس نے اخبار کو تہ کرنے کی کوشش کی مگر اس کی امی نے ہاتھ بڑھا کر اس سے اخبار لے لیا۔ جنید نے مزاحمت نہیں کی۔ وہ اب سامنے ٹیبل پر پڑے چائے کے کپ کو گھور رہا تھا۔
جنید کی امی نے اخبار کو اپنے سامنے پھیلا کر اسی پیج پر ایک نظر دوڑائی جسے جنید دیکھ رہا تھا۔ انہیں اس کی پریشانی کی وجہ جاننے میں دقت نہیں ہوئی، اخبار کے نچلے حصے میں ایک کونے میں جلی حروف کا ایک نوٹس موجود تھا۔
”میری نواسی علیزہ سکندر کی شادی جو مورخہ ٢٥ مارچ کو طے تھی کچھ نا گزیر وجوہات کی وجہ سے ملتوی کر دی گئی ہے۔ میں التوا کے لئے ان تمام لوگوں سے بہت زیادہ معذرت خواہ ہوں جنہیں دعوتی کارڈ ارسال کیے جا چکے ہیں۔”
مسز معاذ حیدر
نیچے علیزہ کے گھر کا پتہ درج تھا جنید کی امی کو جیسے کرنٹ لگا۔ بے یقینی کے عالم میں انہوں نے جنید کو دیکھا۔
”مسز معاذ نے شادی کینسل کر دی ہے؟ کیوں؟”
وہ اخبار ہاتھ میں لئے شاک کے عالم میں تھیں۔
”امی ! میں نہیں جانتا۔” جنید نے کہا۔
”مگر وہ یہ کیسے کر سکتی ہیں …بلکہ کیوں کریں گی اور وہ بھی ہم سے پوچھے بغیر۔” جنید کی امی کو یقین نہیں آ رہا تھا اگر وہ علیزہ کے گھر کا ایڈریس نہ جانتی ہوتیں تو شاید علیزہ اور نانو کا نام دیکھنے کے با وجود انہیں اس نوٹس کی صداقت پر یقین نہیں آتا۔
”ابھی کل تو میری بات ہوئی ہے ان سے اور انہوں نے ایسا کوئی ذکر نہیں کیا پھر ایسی کون سی ایمر جنسی ہو گئی کہ انہیں یہ قدم اٹھانا پڑا” وہ پریشان ہو گئی تھیں۔
”تمہاری علیزہ سے کب بات ہوئی ہے۔”
”کل۔” جنید نے کہا۔
”کوئی اس طرح کی بات کی اس نے؟”
”نہیں امی ! میں نے آپ کو بتایا ہے اس کی ممی رات کو باہر سے آئی ہیں اور وہ اس شادی کے لئے ہی آئیں ہیں علیزہ نے مجھ سے ایسی کوئی بات نہیں کی۔”
جنید نے قدرے وضاحتی انداز میں کہا۔ مگر یہ بات کہتے ہوئے بھی اس کے ذہن میں دو دن پہلے علیزہ کے ساتھ ہونے والی گفتگو اور پھر علیزہ کی خاموشی تھی …اس کی چھٹی حس …پکار پکار کر کہہ رہی تھی کہ اس نوٹس کی وجہ علیزہ کے سامنے اس کا وہ انکشاف ہی تھا جسے اس نے بہت معمولی سمجھا تھا …مگر جو اس کی اب تک کی سب سے فاش غلطی ثابت ہوا تھا اور جب اس کے اپنے گھر والے اس وجہ تک پہنچیں گے تو پھر خود وہ بھی زیر عتاب آ جائے گا۔
”میں فون کرتی ہوں مسز معاذ کو …آخر ہوا کیا ہے؟”
”لائن بزی ہے۔” کچھ دیر بعد انہوں نے ریسیور کان سے ہٹاتے ہوئے کہا۔
”آخر ہوا کیا ہے …جو انہوں نے اس طرح ہمیں بتائے، ہم سے پوچھے بغیر شادی ملتوی کر دی ہے۔” وہ بڑ بڑا رہی تھیں۔ ”اب تو کارڈز تک تقسیم ہو چکے ہیں اور ابھی تھوڑی دیر میں ہر طرف سے کالز آنا شروع ہو جائیں گی۔ ہم لوگ کیا جواب دیں گے۔” انہوں نے جنید کو دیکھا۔ ”یہ کہ ہمیں پتا نہیں کہ کیوں شادی ملتوی ہو گئی ہے۔”
انہوں نے کہتے ہوئے ایک بار پھر ریسیور اٹھا لیا۔ پھر پہلے کی طرح وہ کچھ دیر فون کان سے لگائے بیٹھی رہیں پھر ان کے چہرے پر مایوسی جھلکنے لگی۔ انہوں نے فون کا ریسیور نیچے رکھ دیا۔
”لائن ابھی تک بزی ہے …جنید تم مجھے ان کے گھر لے چلو۔” انہوں نے اچانک جنید سے کہا۔
”فون پر بات کرنے کے بجائے بہتر ہے کہ میں ان سے آمنے سامنے بات کروں۔”
”امی اس وقت اتنی صبح صبح …کچھ دیر بعد ۔۔۔”
امی نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”کچھ دیر بعد …؟ مجھ سے صبر نہیں ہو رہا …میں یہاں بیٹھ کر وقت گزرنے کا انتظار نہیں کر سکتی …ابھی تھوڑی دیر میں جب خاندان اور جاننے والوں کی کالز آنا شروع ہوں گی تو میں انہیں کیا بتاؤں گی۔ بہتر ہے میں تب تک ان سے مل آؤں۔ کسی کو کچھ بتانے کے لئے میرے پاس کچھ ہو تو …ہو سکتا ہے ان لوگوں کو واقعی کوئی مسئلہ ہو۔ کوئی سیریس مسئلہ۔ اس وجہ سے وہ ہمیں انفارم نہیں کر سکے۔ اس شادی کے التوا کے بارے میں۔” وہ اب کسی موہوم سی امید کے تحت کہہ رہی تھیں یا شاید خود کو بہلا رہی تھیں۔
”تم …تم علیزہ کے موبائل پر رنگ کرو ۔۔۔” انہیں اچانک خیال آیا۔ جنید نے کچھ کہنے کے بجائے ٹیبل پر پڑا ہوا اپنا موبائل اٹھا کر علیزہ کا نمبر ڈائل کرنا شروع کر دیا، موبائل آف تھا۔
”امی ! موبائل آف ہے۔” اس نے موبائل کان سے ہٹاتے ہوئے بتایا۔
وہ کچھ دیر اس کا چہرہ دیکھتی رہیں۔ ”تمہارے اور علیزہ کے درمیان کوئی جھگڑا تو نہیں ہوا؟” انہوں نے اچانک جنید سے پوچھا۔
”امی جھگڑا کیوں ہو گا؟” جنید اس سوال کے لئے تیار نہیں تھا۔
”دیکھو جنید …! اگر تمہارے اور اس کے درمیان ایسی کوئی بات ہوئی ہے تو مجھے بتا دو ۔۔۔” اس کی امی نے اس کے سول کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
”امی پلیز ! آپ مجھ پر یقین کریں میرا اور اس کا کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔” جنید نے بے چارگی سے کہا۔ وہ اس وقت دو دن پہلے اس کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بارے میں اپنی امی کو بتانے کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔
”پھر تم مجھے ان کے گھر لے چلو …یہاں بیٹھ کر وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ ہم وہاں چلیں” وہ ایک دم اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
”امی پلیز، آپ پہلے بابا کو جگا کر ان سے بات کریں۔ پھر ان کے گھر جانے کے بارے میں سوچیں۔”
”ہاں …مجھے پہلے تمہارے بابا سے بات کرنی چاہیے۔ میری غیر موجودگی میں وہ اٹھ گئے تو یہاں اخبار میں اس نوٹس کو دیکھ کر پریشان ہوں گے۔ میں ان کو جگاتی ہوں۔”
وہ عجلت میں وہاں سے چلی گئیں۔ جنید نے ایک بار پھر موبائل اٹھا کر نانو کا نمبر ڈائل کیا۔ لائن ابھی بھی بزی تھی۔ اس نے علیزہ کا نمبر ڈائل کیا موبائل آف تھا۔ موبائل رکھ کر وہ ایک بار پھر اخبار اٹھا کر اس نوٹس کو دیکھنے لگا۔ اسے پورا یقین تھا کہ اس نوٹس کے پیچھے علیزہ کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا …نانو کا اگر اس طرح کا کوئی ارادہ ہوتا تو وہ کل اس سے ذکر کرتیں یا کم ازکم اس سے اکھڑے ہوئے لہجے میں بات کرتیں۔ مگر انہوں نے ہمیشہ کی طرح بڑی خوش دلی کے ساتھ اس سے بات کی تھی۔ البتہ علیزہ …اس کا عجیب گم صم سا لہجہ اس وقت اسے نہیں کھٹکا تھا مگر اب کھٹک رہا تھا وہ پچھتا رہا تھا کہ اس نے علیزہ سے کل دوبارہ ملنے کی کوشش نہیں کی صرف فون کرنا کیوں کافی سمجھا۔ ہو سکتا تھا کہ وہ اس کے پاس چلا جاتا تو دونوں کے درمیان اس موضوع پر دوبارہ گفتگو ہوتی اور علیزہ اس طرح کا قدم نہ اٹھاتی جس طرح کا اس نے اب اٹھایا تھا …مگر اب یہ سب پچھتاوے کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔
تقریباً دس منٹ کے بعد اس کے بابا اور امی دوبارہ وہاں آئے وہ اس دوران تین چار بار نانو کا نمبر ملا چکا تھا مگر رابطہ کرنے میں نا کام رہا تھا۔ بابا کے چہرے سے پریشانی واضح تھی۔
”دکھاؤمجھے، کون سا نوٹس ہے؟” انہوں نے اندر آتے ہی جنید سے کہا۔
”تم نے دوبارہ فون ملایا؟” اس کی امی نے ایک بار پھر پوچھا۔
”لائن بزی ہے۔” اس نے اخبار اپنے بابا کو دیتے ہوئے کہا۔ اس کے بابا نے کھڑے کھڑے ایک نظر اس نوٹس پر ڈالی اور ان کے چہرے کی سنجیدگی اور پریشانی میں اضافہ ہو گیا۔
”ہاں فون پر بات کرنے سے بہتر ہے کہ ہم ان کے گھر چلیں …آخر اتنا بڑا قدم انہوں نے اس طرح کیسے اٹھا لیا۔” انہوں نے اپنی بیوی کی طرف مڑتے ہوئے کہا۔
”تمہاری مسز معاذ سے کب بات ہوئی تھی؟” انہوں نے اپنی بیوی سے پوچھا۔
”کل رات ہوئی تھی، انہوں نے قطعاً کوئی ایسا اشارہ نہیں دیا کہ وہ اس طرح کا کوئی قدم اٹھانے کا سوچ رہی ہیں۔” جنید کی امی نے کہا۔
”مگر وہ ایسا کیوں کریں گی …اس رشتہ میں ان کی پسند شامل تھی …وہ تو وقتاً فوقتاً تم سے فون پر بات بھی کرتی رہی ہیں۔ پھر وہ اس طرح کیوں کریں گے؟”
جنید کے بابا نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”اور بالفرض وہ ایسا کرنا چاہتیں بھی تو بھی وہ اتنی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کرتیں کہ خود ہی ایسا کوئی نوٹس دے دیتیں۔ وہ یقیناً پہلے ہم لوگوں کو مطلع کرتیں اور وہ نہ کرتیں تو مسز معاذ تو ضرور کرتیں۔۔۔”
”جنید ! تم گاڑی نکالو …میں کپڑے بدل کر آتا ہوں۔ تم بھی ہمارے ساتھ ہی ان کے گھر چلو ۔۔۔” انہوں نے جنید کو ہدایت دی۔
”بابا ! میرا جانا مناسب ہو گا …؟” جنید کے بابا نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
”کیوں مناسب نہیں ہو گا۔ بہتر یہی ہے کہ تمام بات تمہارے سامنے ہو۔”
”جی بابا! ” جنید نے جی کڑا کر کے کہا۔
”تم گاڑی نکالو …ہم لوگ آتے ہیں۔” انہوں نے جنید کی امی کے ساتھ کمرے سے نکلتے ہوئے کہا۔
وہ کچھ کہے بغیر خود بھی ان کے پیچھے ہی باہر گیراج کی طرف نکل گیا مگر اس وقت وہ بے حد پریشان تھا۔ اسے اندازہ تھا کہ اگلے چند گھنٹوں میں علیزہ کے گھر پر اس کے والدین کی موجودگی میں کیا گفتگو ہونے والی تھی اور اسے اب اور بہت سی دوسری باتوں کی طرح، اپنے اس جھوٹ پر بھی پچھتاوا ہو رہا تھا۔ جو کچھ دیر پہلے اس نے امی سے بولا تھا۔
”بہتر ہے کہ وہاں جانے سے پہلے میں اپنے پیرنٹس کو سچ بتا دوں۔” اس نے گاڑی نکالتے ہوئے فیصلہ کیا۔
***




Loading

Read Previous

مکمل آسمان — سیدہ فرحین جعفری

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۴ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!