امربیل — قسط نمبر ۱۳

”اس کا مطلب ہے نانو بھی آپ کو بہت عرصہ سے جانتی ہوں گی؟”
”ہاں تب ہی سے، جب میں عمر کے ساتھ دوچار بار ان کے ہاں آیا۔ بعد میں بھی ان سے بات وغیرہ تو ہوتی تھی مگر ملاقات کا سلسلہ قدرے محدود ہی رہا کیونکہ میں کچھ اور تعلیم کے لیے ایک بار پھر باہر چلا گیا تھا۔” جنید بڑے آرام سے بتاتا گیا۔
”عمر سے میں نے تمہارا بہت ذکر سنا تھا۔ تم ان چند لوگوں میں سے ہو…جن کا نام ہمیشہ اس کی زبان پر رہا ہے۔ تمہارے لیے کسی زمانے میں بہت پریشان بھی رہتا تھا اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم دونوں کی کسی زمانے میں آپس میں بہت اچھی دوستی تھی۔”
وہ گم صم اس کی باتیں سن رہی تھی۔
”پھر عمر کے کیریئر کی وجہ سے تمہارے اور اس کے درمیان کچھ غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں اور تم اسے برا سمجھنے لگیں۔ مگر عمر کی رائے تمہارے بارے میں ہمیشہ اچھی رہی، میں نے اسے کبھی تمہارے بارے میں کچھ بھی برا کہتے ہوئے نہیں سنا۔ کبھی بھی نہیں…تمہاری ہمیشہ تعریف کرتا ہے وہ۔” جنید دھیمے لہجے میں کہتا جا رہا تھا۔
”مجھ سے شادی کرنے کے لیے کس نے کہا تھا آپ کو؟عمر نے؟”
اپنے ہونٹ بھنچتے ہوئے اس نے جنید کی بات کو ان سنی کرکے پوچھا۔ جنید اس کی بات کے جواب میں خاموشی سے اسے دیکھتا رہا وہ کچھ نہ کہتا، تب بھی وہ اس سوال کا جواب جان چکی تھی۔ شکست خوردہ انداز میں اس نے اپنے سامنے پڑا ہوا پانی کا گلاس اٹھا لیا۔




”کئی سال پہلے اس نے مجھ سے ایک بار ایسی بات کی تھی۔” جنید کا لہجہ اب پہلے سے بھی زیادہ دھیما تھا، شاید وہ علیزہ کے تاثرات سے اس کی دلی کیفیت جان رہا تھا۔
”اس وقت میں شادی کے بارے میں سیریس نہیں تھا بلکہ اس وقت میں نے اس بارے میں کچھ سوچا ہی نہیں تھا کیونکہ میں اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہ رہا تھا اور یہ بات میں نے اس کو بتا دی تھی مگر وہ بضد تھا کہ جب بھی شادی کروں اس کے خاندان میں کروں، تم سے کروں…وہ چاہتاتھا کہ میں اس کے خاندان کا ایک حصہ بن جاؤں، مجھے اس وقت اس کی بات پر ہنسی آتی تھی کیونکہ میرا خیال تھا کہ وہ جتنا تمہارا ذکر کرتا تھا شاید وہ خود تم میں انٹرسٹڈ تھا مگر بعد میں میرا یہ خیال غلط ثابت ہوا۔”
ہاتھ میں پکڑے ہوئے گلاس پر علیزہ کی گرفت کچھ اور سخت ہو گئی۔
”میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے دوبارہ باہر چلا گیا مگر عمر بار بار مجھے یہ یاد دلاتا رہا کہ واپس آکر مجھے تم سے شادی کرنی ہے۔” جنید نے ایک بار پھر کہنا شروع کیا۔ ”واپس آ کر بھی وہ مجھ سے یہی کہتا رہا کہ میں اپنی شادی کے بارے میں بالکل پریشان نہ ہوں کیونکہ وہ بہت عرصہ پہلے ہی یہ طے کر چکا ہے کہ مجھے کس کے ساتھ شادی کرنی ہے۔ پھر آخر کار جب کچھ سیٹ ہو جانے کے بعد میں نے شادی کا فیصلہ کیا تو اس نے مجھ سے کہا کہ میں تم سے ایک بار مل لوں، اس نے یہ بھی کہا کہ میں یہ ظاہر نہ کروں کہ میں عمر کا دوست ہوں کیونکہ اس کا خیال تھا کہ اس صورت میں تم کبھی مجھ سے شادی پر تیار نہیں ہوگی۔ اس لیے عباس کے گھر والوں کی مدد لینی پڑی۔” وہ ایک بار پھر بات کرتے کرتے رکا۔
”بھوربن میں عباس کی ممی تمہیں مجھ سے ملوانے کے لیے ہی لے کر آئی تھیں۔ وہ خود ذاتی طور پر مجھ سے صرف ایک بار ہی ملی تھیں اور میری فیملی کو بھی نہیں جانتی تھیں مگر عمر نے ان سے کہا کہ وہ تمہیں لے کر بھوربن جائیں اور مجھ سے ملوا دیں۔”
وہ خالی الذہنی کے عالم میں اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”میری اور عمر کی دوستی اس نوعیت کی ہے کہ میں اس کی بات نہیں ٹال سکتا۔ وہ تمہارے بجائے مجھے کسی اور لڑکی سے بھی شادی کا کہتا تو میں تب بھی تیار ہو جاتا۔ تمہاری تو خیر بات ہی دوسری تھی۔ تمہارے بارے میں تو وہ کئی سالوں سے میری برین واشنگ کرتا آرہا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ بھوربن میں تم سے اتنے سالوں بعد دوبارہ ملنے پر مجھے تمہارے لیے کوئی اجنبیت محسوس نہیں ہوئی۔ مجھے یونہی لگا جیسے میں بہت سالوں سے تم سے ملتا رہا ہوں۔”
جنید رکا۔
”تم نے مجھے پہچانا نہیں، حالانکہ مجھے اس کا خدشہ تھا مگر عمر کو یقین تھا کہ تم مجھے نہیں پہچان سکو گی۔ تمہارے بارے میں اس کے اندازے ہمیشہ صحیح ثابت ہوتے ہیں۔ میرے گھر والوں نے بھی میرے کہنے پر تم پر یہ ظاہر نہیں کیا کہ وہ عمر کو جانتے ہیں یا عمر ہمارے ہاں آتا جاتا ہے۔ میں نے تمہاری اور عمر کی آپس میں غلط فہمی کے بارے میں انہیں بھی بتا دیا ہے مگر یہ سب ہمیشہ ایسا نہیں رہ سکتا تھا۔ کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی طرح تمہیں یہ بات ضرور پتا چل جاتی کہ میں اور عمر آپس میں دوست رہے تھے اور پھر تم۔۔۔” جنید بات کرتے کرتے رک گیا۔
”شناسائی، پسندیدگی، محبت…ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ میرے لیے عمر کا ایک اور احسان…بس اور کیا تھا جنید ابراہیم۔۔۔” علیزہ نے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے شخص کو دیکھتے ہوئے بے یقینی سے سوچا ”اور میں پچھلے ایک سال سے اس گمان اور خوش فہمی میں مبتلا تھی کہ یہ شخص مجھ کو دیکھ کر…مجھ سے مل کر میری محبت میں گرفتار ہو گیا ہے اور میں نے اپنے وجود کو خوش فہمیوں اور سرابوں کی کتنی لمبی زنجیر میں جکڑ لیا تھا۔ کیا دنیا میں واقعی محبت نام کی کوئی چیز ہوتی ہے اور یہ شخص عمر کا یار غار جنید ابراہیم …جو مجھے یہ بتا رہا ہے کہ یہ عمر کے کہنے پر کسی سے بھی شادی کر سکتا تھا۔ یہ میری محبت میں اپنے دل کے کہنے پر کہاں مبتلا ہو سکتا تھا۔” وہ ماؤف ذہن کے ساتھ اسے دیکھے جا رہی تھی ۔ تھکن کا ایک عجیب احساس اس کے اندر سرایت کرتا جا رہا تھا ، کچھ دیر پہلے کی خوشی اور طمانیت جیسے بھک سے اڑ گئی تھی۔ جنید اس سے پھر کچھ کہہ رہا تھا۔
”میں جانتا ہوں ، یہ سب کچھ سن کر تمہیں بہت غصہ آ رہا ہوگا۔ مگر۔۔۔” جنید کہہ رہا تھا۔
”غصہ…؟” علیزہ نے اپنی کیفیات کو جانچا نہیں اسے غصہ نہیں آرہا تھا۔ شاید آج پہلی بار اس طرح کے انکشافات سن کر اسے غصہ نہیں آیا تھا۔ نہ عمر جہانگیر پر، نہ جنید ابراہیم پر، نہ اپنے آپ پر اور وہ یہ بات جنید ابراہیم کو بتانا چاہ رہی تھی کہ اسے جنید پر غصہ نہیں آرہا تھا۔ مگر یکدم ہی اسے احساس ہو رہا تھا کہ لفظوں کو چننا اور جوڑ کر ادا کرنا اس کے لیے بہت مشکل ہو گیا تھا ۔ لفظ اپنی وقعت اور اپنی آواز بھی کھو گئے تھے۔
”میں تمہیں اس سب کے بارے میں کبھی بھی دھوکے میں نہ رکھتا، جلد یا بدیر میں تمہیں یہ سب کچھ بتا دیتا۔” وہ کہہ رہا تھا۔
”جلد یا بدیر؟” وہ پھر سوچنے لگی۔ ”کتنی جلدی اور کتنی دیر سے۔ اگر آج میں اصرار نہ کرتی تو کیا یہ مجھے سب کچھ بتا دیتا۔” اس نے جنید کو دیکھتے ہوئے سوچا۔ ”اور اگر مجھے یہ سب کچھ شادی کے بعد پتا چلتا تو…تو میں کیا کر سکتی تھی؟”
”حالانکہ عمر یہ چاہتا تھا کہ تمہیں یہ سب کچھ کبھی نہ بتایا جائے لیکن میں یہ نہیں کر سکتا۔ تمہیں نہ بتانے کا مطلب ہے کہ عمر میرے گھر نہ آ سکے گا۔ نہ ہی میں اس سے اس طرح کھلے عام مل سکوں گا جس طرح اب ملتا ہوں اور میں اس سے اپنی دوستی کسی طرح ختم نہیں کر سکتا۔ کسی قیمت پر نہیں۔” وہ قطعیت سے کہہ رہا تھا۔ ”اسی لیے یہ چاہتا ہوں کہ تم اس کے بارے میں ہر غلط فہمی دور کر لو۔ عمر ایک بہت اچھا انسان ہے اور وہ ہمیشہ میرا بہترین دوست رہے گا۔ میں تمہارے کہنے پر یا کسی کے بھی کہنے پر اسے نہیں چھوڑوں گا۔”
علیزہ نے دوسری کرسی پر پڑا اپنا بیگ اٹھا لیا اور وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ جنید حیران رہ گیا۔ ”تم کہاں جا رہی ہو؟”
علیزہ نے جواب دینے کے بجائے قدم بڑھا دیئے۔
”علیزہ…علیزہ! جنید کچھ پریشان ہوتے ہوئے خود بھی اٹھ کھڑا ہوا مگر علیزہ نے مڑ کر اسے نہیں دیکھا۔ جنید نے اپنے والٹ میں سے کچھ نوٹ نکال کر میز پر رکھ دیئے اور خود بھی علیزہ کے پیچھے آ گیا۔ وہ اب دروازہ کھول کر سیڑھیاں اتر رہی تھی۔
”علیزہ! علیزہ…!جنید ایک بار پھر سے آوازیں دینے لگا۔ اس نے مڑے بغیر سیڑھیاں اترنا جاری رکھا وہ تیزی سے سیڑھیاں اترتے ہوئے اس کے سامنے آگیا۔
”کیا ہوا؟ تم اس طرح باہر کیوں نکل آئی ہو؟”
علیزہ رک گئی ۔ وہ اس کے بالکل سامنے کھڑا تھا، وہ آگے نہیں جا سکتی تھی۔
”کیا ہوا ہے تمہیں؟” اس نے پریشانی سے پوچھا۔
”اس طرح کھانا چھوڑ کر کیوں آگئی ہو؟”
”میں گھر جانا چاہتی ہوں…ابھی…اسی وقت۔۔۔” اس نے سُتے ہوئے لہجے میں کہا۔
”ہمیں گھر ہی جانا تھا مگر اس طرح کھانا چھوڑ کر۔۔۔”
”آپ کھانا کھائیں…آپ کیوں کھانا چھوڑ کر آگئے ہیں؟ میں چلی جاؤں گی۔” اس نے جنید کے دائیں طرف سے نکلنے کی کوشش کی۔
”میں خود یہاں کھانا کھانے نہیں آیا تھا علیزہ! تمہارے ساتھ کھانا کھانے آیا تھا۔”
جنید نے افسوس سے کہا۔ وہ اب اس کے ساتھ چل رہا تھا۔ علیزہ خاموشی سے چلتی رہی۔
”ٹھیک ہے میں تمہیں گھر ڈراپ کر دیتا ہوں۔” جنید نے بالآخر ہتھیار ڈال دیئے۔
علیزہ نے اپنے قدم روک دیئے۔ جنید اب پارکنگ کی طرف جا رہا تھا وہ وہیں کھڑی رہی۔ کچھ دیر کے بعد وہ گاڑی اس کے قریب لے آیا۔ اس نے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول دیا، وہ خاموشی سے اندر بیٹھ گئی۔
”میں جانتا ہوں تم مجھ سے ناراض ہو مگر میں نے ہر بات کی وضاحت کی ہے۔”
جنید یقیناً اب پریشان تھا اسی لیے اس نے گاڑی کو مین روڈ پر لاتے ہی ایک بار پھر اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی۔ وہ اس کی طرف دیکھے بغیر ونڈ سکرین سے باہر دیکھتی رہی۔
”علیزہ…! میری طرف سے کسی غلط فہمی کو دل میں جگہ مت دو۔”
علیزہ کی خاموشی جنید کی پریشانی میں اضافہ کر رہی تھی۔
”میں نے کچھ ہفتے پہلے بھی ایک دن تم سے یہ کہا تھا کہ میں تمہیں کچھ بتانا چاہتا ہوں۔ میں یہی بات ہیں بتانا چاہتا تھا۔” وہ کہہ رہا تھا ”بلکہ میں عمر سے اپنی دوستی کو سرے سے چھپانا چاہتا ہی نہیں تھا۔ یہ اس کا اصرار تھا جس پر مجھے ایسا کرنا پڑا مگر اس میں تمہیں تو کوئی نقصان نہیں پہنچا نہ میری طرف سے نہ عمر کی طرف سے اور ہمیں ایسا کیوں کرنا پڑا…میں تمہیں بتا چکا ہوں۔”
جنید کا لہجہ قدرے بے ربط ہو رہا تھا۔ علیزہ اب بھی ونڈ سکرین سے باہر دیکھتی رہی۔
جنید قدرے بے چارگی کے عالم میں خاموش ہو گیا۔ ”میں پھر بھی ایکسکیوز کرتا ہوں۔ ہو سکتا ہے تمہیں یہ سب کچھ بہت برا لگا ہو یا اس سے کوئی تکلیف پہنچی ہو تو۔۔۔” وہ چپ ہو گیا۔ شاید اس کے پاس کرنے کے لیے کوئی اور بات باقی نہیں رہی تھی۔
علیزہ کے گھر کے گیٹ پر اس نے ہارن بجا کر چوکیدار کو متوجہ کیا مگر گاڑی گیٹ پر رکتے ہی علیزہ دروازہ کھولنے لگی۔




Loading

Read Previous

مکمل آسمان — سیدہ فرحین جعفری

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۴ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!