امربیل — قسط نمبر ۱۳

اس سے پہلے کہ عباس مزید کچھ کہتا عباس کا پی اے اندر آ گیا تھا۔
”مدثر صاحب سے ملوایا ہے تمہیں میں نے؟” اس سے پہلے کہ اس کا پی اے کچھ کہتا عباس نے عمر سے پوچھا عمر نے نفی میں سر ہلایا۔ وہ اس دن پہلی بار عباس کے آفس گیا تھا۔
”مدثر صاحب ! یہ میرے کزن ہیں عمر جہانگیر اور عمر ! یہ مدثر صاحب ہیں، بہت ہی کمال کے آدمی ہیں، میں نے تو آفس کا سارا کام ان سے سیکھا ہے۔”
عباس نے بڑی خوش دلی کے ساتھ اس ادھیڑ عمر آدمی کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔
”ان چند لوگوں میں سے ایک ہیں یہ جنہیں رولز اور ریگولیشنز زبانی یاد ہیں۔” عمر نے کچھ حیرانی سے عباس کو دیکھا جو اپنے پی اے کی ایک فائل پر کچھ سائن کر رہا تھا اور پی اے کے چہرے پر کچھ فخریہ مسکراہٹ تھی، عمر نے دھیمے لہجے میں انگلش میں اس سے کچھ کہنا چاہا۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتا عباس نے برق رفتاری سے اس کی بات کاٹی اوربڑی بے تکلفی سے کہا۔ ”بھئی ! یہ ہیں ہی بڑے قابل آدمی، ایسے بندے کی تعریف تو کرنی ہی پڑتی ہے۔ میں نے بتایا نا تمہیں کہ میں نے تو سارا آفس ورک ان ہی سے سیکھا ہے۔”
اس بار عمر نے کچھ مسکرا کر اس شخص کو دیکھا۔
”سر ! ایسے ہی تعریف کر رہے ہیں۔ میں کس قابل ہوں …عباس صاحب تو خود بڑے ذہین آدمی ہیں۔”
اس بار اس کے پی اے نے کچھ عاجزانہ سے انداز میں کہا۔
”میں آپ کے آنے سے پہلے عمر سے آپ کے بارے میں بات کر رہا تھا۔ میں اس کو بتا رہا تھا کہ پی اے اچھا مل جائے تو آدھا کام آسان ہو جاتا ہے۔”
عمر حیرانی سے عباس کو دیکھتا رہا عباس اس کے تاثرات پر غور کئے بغیر اپنے پی اے سے بات کرتا رہا۔ وہ اب اسے کوئی اور ہدایت دے رہا تھا، کچھ دیر بعد جیسے ہی اس کے پی اے نے کمرے سے باہر قدم رکھا۔ عباس نے بڑے اطمینان سے عمر سے کہا۔




”اب تم دیکھو، اس حرامزادے نے میرے ساتھ کیا کیا تھا؟” عباس نے انگلی سے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ عمر اس کے جملے پر ہکا بکا رہ گیا ”اس کمینے نے میرے کمرے میں ایسا سسٹم لگایا تھا جس سے کمرے کی باتیں سنی جا سکیں …جب میں نے یہاں چارج لیا۔”
”مگر تم تو اس کی تعریف کر رہے تھے۔” عمر نے کچھ سنبھلتے ہوئے کہا۔
”تو تمہارا مطلب ہے، یہ گالیاں میں اس کے سامنے دوں اسے۔” عباس نے عجیب سے انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔
”اسی لئے تم اس کے سامنے انگلش میں مجھ سے ساری تفصیل پوچھنے لگے تھے۔ عقل کا استعمال کیا کرو عمر …! ان لوگوں کو بڑی اچھی طرح پتا ہوتا ہے کہ صاحب لوگ انگلش اس وقت بولتے ہیں جب وہ کوئی بات ان سے چھپانا چاہتے ہیں یا اس بات کے الٹ کوئی بات کہہ رہے ہوں جو ان کے سامنے کی جا رہی ہو۔ اس لئے انگلش ان کے سامنے کبھی مت بولو۔ بہتر ہے پنجابی میں بات کرو …دیکھو کس طرح کام آسان ہوتے ہیں۔” عباس خود ہی محظوظ ہوتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”تمہییں کیسے پتا چلا کہ اس نے کمرہ Bug کروایا ہوا ہے؟” عمر نے پوچھا۔
”وہ میرا بیج میٹ نہیں تھا اسجد خاکوانی …اس نے مجھے اس آدمی کے بارے میں خاصا بریف کیا تھا۔ پہلے وہی تھا میری پوسٹ پر …میں نے پہلے دن آتے ہی کمرہ چیک کروایا اور پتا ہے کس سے کروایا۔ پرائیویٹ طور پر ایک آدمی کو بلوا کر۔”
عباس بات کرتے کرتے ہنسا۔
”ورنہ اپنے محکمے کے کسی آدمی کو بلوا کر یہ کام کرواتا تو اس نے کہنا تھا کہ کمرہ Bugged نہیں ہے۔ پھر میں نے ”مدثر صاحب” کو بلوایا اور انہیں صاف صاف بتایا کہ مجھ پر یہ ہتھکنڈے استعمال نہ کریں …میرے کمرے میں دوبارہ کوئی چیز آئی تو میں آپ کے علاوہ کسی اور کو نہیں پکڑوں گا۔ ان حضرت نے بڑی قسمیں کھائیں کہ انہیں کچھ پتا نہیں ہے وغیرہ وغیرہ مگر اس کے بعد دوبارہ میرا کمرہ Bug نہیں کیا گیا۔ کئی دفعہ میں اچانک چیکنگ کرواتا رہتا ہوں۔”
عباس کہتے کہتے ایش ٹرے میں سگریٹ پھینکتے ہوئے بولا۔
”اور تمہیں پتا ہے خود میں نے ان لوگوں کے ساتھ کیا کیا ہے۔ میں نے ان سب کے کمرے Bug کروائے ہوئے ہیں۔” عمر نے اس کی بات پر بے اختیار قہقہہ لگایا۔
”تو بھی بڑا چلتا پرزہ ہے عباس۔”
”ضروری تھا یار …! تم گھر آنا میں تمہیں ان لوگوں کی گفتگو سناؤں گا۔ جو گالیاں یہ مجھے دیتے ہیں انہیں سن کر تمہاری طبیعت صاف ہو جائے گی۔” عباس نے ہنس کر کہا۔
”تم تو کہہ رہے تھے بڑا قابل آدمی ہے۔”
”اس کی قابلیت میں کوئی شبہ نہیں ہے مجھے، بیس سال کی سروس ہے اس کی …کسی رول کے بارے میں بات کر لو …اسے سب پتا ہے۔ کسی دفعہ کی بات کر لو …خود تم حیران ہو جاؤ گے یوں لگے گا جیسے کسی وکیل سے بات کر رہے ہو …حسن ترمذی کا نام سنا ہے؟” اس نے بات کرتے کرتے اس سے پوچھا۔
”ہاں بالکل سنا ہے۔ بڑا ایماندار قسم کا آفیسر ہے۔” عمر کو یاد آیا۔
”ہاں بے حد آؤٹ اسٹینڈنگ قسم کا آدمی تھا۔ ایک سال میری اس پوسٹ پر بھی کام کیا ہے۔ روتے ہوئے نکلا تھا اس آفس سے …اس بندے نے یہاں ما تحت لوگوں کے ساتھ مل کر تگنی کا ناچ نچا دیا تھا اسے، حالانکہ دیکھنے میں تمہیں کتنا مسکین اور مودب لگا ہو گا۔ مگر ترمذی یہاں سے اپنا سروس ریکارڈ خراب کروا کر نکلا تھا ان اسکینڈلز میں پھنسا وہ جن کا اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہو گا اور میں بہر حال حسن ترمذی تو نہیں ہوں کہ اس جیسے دو کوڑی کے پی اے کے ہاتھوں خوار ہوتا۔” عباس اب اسے تفصیل بتا رہا تھا۔
”اس لئے تمہیں کہہ رہا ہوں کہ ان لوگوں کے ساتھ بنا کر رکھو۔ یہ نہیں کہہ رہا کہ اعتبار کرو یا آستین کا سانپ بنا لو مگر انہیں اسی طرح استعمال کرو جس طرح یہ لوگ ہمارے نام کو استعمال کرتے ہیں۔” عباس اسے سمجھا رہا تھا ”میں کتنا بھی اچھا کیوں نہ ہوں اگر یہ لوگ دوسروں سے کہیں گے کہ میں اچھا نہیں ہوں تو سب مجھے برا ہی سمجھیں گے اور میں کتنا ہی برا کیوں نہ ہوں اگر یہ لوگ سب سے کہیں گے کہ میں اچھا ہوں تو سب مجھے اچھا ہی سمجھیں گے۔ اس آدمی کے ذریعے اس سال میں نے دو کروڑ روپے کمائے ہیں۔ اس نے خود کتنا کمایا ہے مجھے نہیں پتا مگر بہر حال مجھے دو کروڑ روپے کا منافع ہوا ہے اور ریپوٹیشن میری یہی ہے کہ میں بڑا اچھا آفیسر ہوں۔” وہ مزے سے کہتا جا رہا تھا۔ عباس نے واقعی عمر کو اپنے ما تحت عملے کے ساتھ نپٹنے کے سارے گر سکھا دئیے تھے۔ اپنی پہلی پوسٹنگ پر باقی کے ڈھائی سال عمر نے بڑے اطمینان کے ساتھ گزارے تھے اور دوسری پوسٹنگ تک وہ اپنے فن میں کچھ اور طاق ہو گیا تھا۔ اسی فن کو وہ یہاں بھی استعمال کر رہا تھا خود کرپشن پر براہ راست عملے کو ڈانٹ ڈپٹ کے بجائے وہ موقع ملنے پر بابر جاوید کو استعمال کر رہا تھا اپنے ضلع میں اس کا نام واقعی اس کے ما تحت عملے کے لئے ایک ہوا بن گیا تھا مگر عباس کی ہدایات کے مطابق اس کے اپنے ڈرائیور، پی اے، گارڈز اور شہر کے دو سب سے بد نام زمانہ ایس ایچ اوز کے ساتھ تعلقات بہت اچھے تھے۔ اس نے جسٹس نیاز کے بیٹے اور اس کے دوستوں کے قتل کے سلسلے میں عباس کے عملے کی مہارت اور وفاداری دیکھی تھی۔ اوپر سے لے کر نیچے تک ہر ایک نے عباس کو ہر طرح سے بچایا تھا اور اسے پہلی بار ما تحت عملے کی وفاداری کی اہمیت کا احساس ہوا تھا۔
٭٭٭
اگلے دن صبح وہ کچھ دیر سے ناشتے کے لئے آئی تھی۔
”جنید نے صبح دو تین بار فون کیا تھا۔” نانو نے اسے دیکھتے ہی اطلاع دی۔
وہ کوئی رد عمل ظاہر کئے بغیر ناشتہ کے لئے ڈائننگ ٹیبل پر جا بیٹھی۔ مرید بابا اسے دیکھ کر ناشتہ لگانے لگے۔
”تمہیں یاد ہے نا آج رات ثمینہ آ رہی ہے؟” نانو نے ایک بار پھر اسے مخاطب کیا۔
”جی ۔۔۔” اس نے مختصر جواب دیا۔
”تم میرے ساتھ ائیر پورٹ اسے ریسیو کرنے چلو گی؟” نانو نے اس سے کہا وہ لاؤنج کے ایک صوفہ پر بیٹھی ہوئی تھیں، جب کہ علیزہ ان سے قدرے فاصلے پر ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھی ہوئی تھی اس لئے نانو کو قدرے بلند آواز میں بات کرنی پڑ رہی تھی۔
”چلی جاؤں گی۔” علیزہ نے پھر اسی انداز میں جواب دیا۔ علیزہ نے ناشتہ شروع کر دیا نانو کچھ دیر دور بیٹھے ہوئی اسے دیکھتی رہیں پھر اٹھ کر اس کے قریب چلی آئیں، ایک کرسی کھینچ کر اس کے قریب بیٹھتے ہوئے انہوں نے پوچھا۔
”کیا ہوا تھا رات کو تمہارے اور جنید کے درمیان؟”
سلائس کھاتے ہوئے ایک لمحے کے لئے علیزہ کا ہاتھ رکا مگر پھر اس نے سنی ان سنی کرتے ہوئے سلائس کھانا جاری رکھا۔
”تم لوگوں کا جھگڑا ہوا تھا؟” نانو کچھ دیر اس کے جواب کا انتظار کرتی رہیں پھر پوچھا۔
علیزہ نے اس بار بھی کچھ نہیں کہا وہ اسی طرح سر جھکائے سلائس کھاتی رہی۔
”جھگڑا تم کرتی ہو اور تمہاری وجہ سے پریشانی مجھے اٹھانی پڑتی ہے۔” اس بار نانو نے بے صبری سے کہا۔ ”اب کس بات پر جھگڑا ہوا تھا؟” علیزہ نے اس بار بھی کوئی جواب نہیں دیا۔
”علیزہ ! اب یہ بچپنا چھوڑ دو …بیس دن رہ گئے ہیں تمہاری شادی میں اور تم اب بھی بچوں کی طرح اس سے لڑنے میں مصروف ہو۔ وہ کیا سوچتا ہو گا تمہارے بارے میں اور ہماری فیملی کے بارے میں؟” نانو نے اسے جھڑکتے ہوئے کہا۔
سلائس پر اس کی گرفت کچھ سخت ہوئی مگر اس نے سر پھر بھی نہیں اٹھایا۔ وہ بد ستور سلائس کھاتی رہی۔
”تم میری بات سن رہی ہو؟” اس بار نانو کی خفگی میں کچھ اضافہ ہوا۔ ”میں تم سے مخاطب ہوں۔”
”میں سب سن رہی ہوں نانو!” اس نے بالآخر سر اٹھا کر کہا۔
نانو کو اس کے چہرے کے تاثرات بہت عجیب سے لگے۔
”تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟” انہوں نے تشویش سے پوچھا۔
”جی ۔۔۔” وہ ایک بار پھر سلائس کھانے لگی۔
”جنید کا فون ریسیو کر لینا …بلکہ بہتر ہے کہ تم خود اس کو کال کر لو …اس نے کہا تو نہیں مگر تم کال کرو گی تو اسے اچھا لگے گا۔” انہیں اچانک پھر جنید کا خیال آیا۔
”جی ! ” اس نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے کہا۔
”شہلا کب آ رہی ہے۔ آج کچھ کپڑے لینے کے لئے مارکیٹ جانا تھا تم لوگوں کو۔” نانو نے کچھ مطمئن ہو کر اٹھتے ہوئے کہا۔
”وہ آج نہیں آ رہی۔”
”کیوں؟”
”وہ کچھ مصروف ہے اس لئے۔”
”تم اکیلی چلی جاتیں۔”
”نہیں میں اکیلے نہیں جانا چاہتی۔”
”چلو ٹھیک ہے، آج ثمینہ آ جائے گی تو کل وہ بھی تمہارے ساتھ چلی جائے گی۔” نانو کو اچانک خیال آیا۔
علیزہ نے اس بار کچھ نہیں کہا۔ اس نے چائے کا کپ اٹھایا ہی تھا جب فون کی گھنٹی بجنے لگی۔
”جنید کا فون ہو گا۔ تم اٹھا لو۔” نانو نے لاؤنج سے نکلتے ہوئے کہا۔
چائے کا کپ وہیں رکھ کر وہ فون کی طرف بڑھ آئی۔ دوسری طرف جنید ہی تھا۔ رسمی سلام دعا کے بعد جنید نے اس سے کہا۔
”میں صبح سے تین بار فون کر چکا ہوں۔”
”ہاں نانو نے مجھے بتایا تھا” علیزہ نے سر سری سے انداز میں کہا، وہ کچھ دیر تک خاموش رہا۔
”تمہارا موڈ اب کیسا ہے؟”
”ٹھیک ہے۔”
”ناراضی ختم ہو گئی ہے؟”
”ہاں۔”
”مجھے توقع تھی کہ تمہارا غصہ جلد ختم ہو جائے گا اور تم میرا پوائنٹ آف ویو سمجھ جاؤ گی۔” جنید نے بے اختیار اطمینان بھرا سانس لیتے ہوئے کہا۔
وہ خاموش رہی۔
”میں تو ساری رات بہت ٹینس رہا ہوں، تمہاری ناراضی کی وجہ سے۔”
وہ پھر خاموش رہی۔
”تم کچھ بات نہیں کر رہیں؟” جنید کو اچانک محسوس ہوا۔
”کیا بات کروں؟”




Loading

Read Previous

مکمل آسمان — سیدہ فرحین جعفری

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۴ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!