امربیل — قسط نمبر ۱۳

”مجھے ایک بار اس سے بات تو کرنے دو۔”
”فائدہ…مجھے عمر سے شادی نہیں کرنا…کسی طور بھی نہیں کرنا…میں اس کے ساتھ اپنی زندگی ضائع نہیں کر سکتی۔”
”مجھے یقین نہیں آتا علیزہ کہ ایک بار محبت کرنے کے بعد تم یہ اتنے دھڑلے سے کہہ سکتی ہو کہ تمہیں اس سے محبت نہیں ہے۔”
”میں اس سے بھی زیادہ دھڑلے سے آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ مجھے اب واقعی اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ دنیا صرف عمر سے شروع ہو کر عمر پر ختم نہیں ہو جاتی۔ میں اسے اپنی زندگی سے اٹھا کر باہر پھینک چکی ہوں۔ اس کا ہونا نہ ہونا میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔”
”کاش واقعی ایسا ہوتا۔”
”ایسا ہی ہے ممی…ایسا ہی ہے۔ میں واقعی ذہنی اور جذباتی طور پر عمر سے بہت دور جا چکی ہوں۔” اس نے ثمینہ کو یقین دلانے کی کوشش کی۔ ثمینہ کو اس کی بات کا یقین آیا یا نہیں۔ بہرحال انہوں نے اس سے کہا۔
”اگر عمر سے نہیں تو پھر تم جنید۔۔۔” علیزہ نے ان کی بات کاٹ دی۔
”نہیں۔ میں جنید سے بھی کسی طور شادی نہیں کروں گی…کسی بھی ایسے شخص سے نہیں جو عمر کو جانتا ہو… اس سے واقف ہو یا جو عمر کا چہیتا ہو۔”
”جنید بہت اچھا لڑکا ہے…تم اسے گنوا کر پچھتاؤ گی۔” ثمینہ نے اسے ڈرایا۔
”نہیں۔ میں نہیں پچھتاؤں گی…کم از کم اپنے اس فیصلے پر نہیں پچھتاؤں گی۔ پچھتانے کے لیے پہلے ہی ایک انبار جمع ہو چکا ہے میرے پاس۔ آپ تو اس میں اضافہ نہ کریں۔”
ثمینہ کچھ دیر کے بعد خاموشی سے اٹھ کر باہر آگئیں۔
٭٭٭




”بھائی! بابا بلا رہے ہیں تمہیں۔” فری نے اس کے کمرے کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے دروازہ کھول کر اسے پیغام دیا۔
”میں آرہا ہوں۔” وہ اٹھتے ہوئے بولا۔
”بھائی! یہ سب ہوا کیا ہے۔ ان لوگوں نے اس طرح اچانک شادی ملتوی کیوں کر دی ہے؟” فری نے پریشانی سے پوچھا۔
”فری! اب تم لمبے چوڑے سوال مت شروع کر دینا۔ مجھے کچھ پتا ہوتا تو میں پہلے بتا دیتا۔” جنید نے کچھ اکتائے ہوئے لہجے میں کہا اور ساتھ چل دیا۔
”بابا نے ابھی کچھ دیر پہلے علیزہ کی نانو سے بات کی ہے۔” فری نے اسے اطلاع دی۔ دونوں اب کمرے سے باہر نکل چکے تھے۔
”انہوں نے کیا کہا؟”
”یہ تو مجھے نہیں پتا…بابا اور امی نے اپنے کمرے کے فون پر ان سے بات کی ہے…مجھے بس یہ پتا ہے کہ انہوں نے خاصی لمبی چوڑی بات کی ہے۔” فری نے بتایا۔
”پھر امی نے مجھ سے کہا کہ میں آپ کو بلا کر لاؤں۔” جنید نے اس بار کچھ نہیں کہا۔ وہ چپ چاپ ان کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
کمرے کا دروازہ کھولتے ان کے چہروں کو دیکھ کر اسے اندازہ ہو گیا کہ سب کچھ ٹھیک نہیں تھا۔
”آؤ بیٹھو۔” ابراہیم نے اسے دیکھ کر عجیب سے لہجے میں کہا۔ وہ انہیں دیکھتا ہوا صوفے پر بیٹھ گیا۔
”مسز معاذ سے بات ہوئی ہے ابھی میری۔” انہوں نے بغیر کسی تمہید کے کہنا شروع کر دیا۔
”یہ نوٹس علیزہ نے شائع کروایا ہے۔” وہ رکے…جنید انہیں دیکھتا رہا۔
”انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ تمہارے اور علیزہ کے درمیان کوئی جھگڑا ہوا تھا اور علیزہ نے اس جھگڑے کی بنا پر یہ نوٹس شائع کروایا ہے…علیزہ نے انہیں جھگڑے کی وجہ نہیں بتائی۔ اب وہ میں تم سے جاننا چاہتا ہوں۔”
وہ ساکت ہو گیا۔ اسے اندازہ نہیں تھا جو بات وہ خود ان سے چھپا رہا تھا۔ وہ انہیں نانو سے پتا چل جائے گی…اس کا خیال تھا۔ نانو کوئی بہانہ بنائیں گی۔
”تم سے میں نے پوچھا تو تم نے صاف کہہ دیا کہ تمہارا کوئی جھگڑا نہیں ہوا…میں یہ توقع نہیں کر سکتی تھی کہ جنید! تم میرے اور اپنے بابا سے جھوٹ بولو گے۔” جنید کی امی نے تاسف سے کہا۔
”امی! میرا اس سے کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ تھوڑی سی غلط فہمی ضرور ہو گئی تھی مگر مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس چھوٹی سی غلط فہمی پر اتنا بڑا قدم اٹھا سکتی ہے۔”
”کوئی بھی لڑکی اتنی بے وقوف نہیں ہوتی کہ کسی چھوٹی سی غلط فہمی پر اتنا بڑا قدم اٹھا لے…اور پھر میں علیزہ سے یہ توقع نہیں کر سکتا کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اس طرح کے فیصلے کر سکتی ہے۔ بات یقیناً معمولی نہیں ہو گی۔” ابراہیم صاحب نے اس کی بات کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے کہا۔ ”بہرحال تم بات بتاؤ۔ اس کے بعد ہی میں یہ طے کر سکتا ہوں کہ یہ معمولی سی غلط فہمی ہے یا نہیں۔”
”بابا! وہ عمر کو بہت ناپسند کرتی ہے…یہ آپ بھی جانتے ہیں۔” جنید نے سوچ سوچ کر بولنا شروع کیا۔ ”دو تین دن پہلے میں اسے شاپنگ کے لیے ساتھ لے کر گیا تھا۔ وہاں اس نے مجھ سے عمر کے ساتھ دوستی ختم کر دینے کو کہا۔ میں نے عمر اور اس کے درمیان ناراضی دور کرنے کی کوشش کی…اور میں نے اسے بتایا کہ عمر اس کا بہت خیال رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ میری شادی کروانے میں بھی عمر کی خواہش کا دخل تھا۔”
”کیا مطلب؟” جنید کی امی یکدم حیران ہوئیں۔ ”عمر کا کیا دخل ہے تم دونوں کی شادی میں؟”
”امی ! عمر نے ہی مجھے علیزہ سے ملوایا تھا…اس کی خواہش تھی کہ میں اس کے خاندان میں شادی کروں…وہ چاہتا تھا کہ ہماری فیملیز اور قریب آ جائیں۔ علیزہ مجھے بھی اچھی لگی…اس لیے میں نے اس سے شادی کا فیصلہ کیا۔ اس دن میں نے علیزہ سے یہی کہا کہ میں عمر سے دوستی کسی صورت نہیں چھوڑ سکتا۔ اسے یہ بات بری لگی، مگر میں نے اسی وقت اس سے معذرت کر لی تھی…مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اسے یہ بات اس حد تک بری لگے گی۔” اس بار جنید کا رویہ معذرت خواہانہ تھا۔
”تمہیں اس سے اس طرح کی فضول باتیں کرنے کی ضرورت کیا تھی۔” بیگم ابراہیم نے اسے جھڑکتے ہوئے کہا۔ ”بلکہ عمر کے ساتھ اپنی دوستی یا تعلق کو زیر بحث لانے کی ہی کیا ضرورت تھی جب تم یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ یہ سب ناپسند کرے گی۔”
”کم از کم تمہیں یہ سب باتیں صبح ہی ہمیں بتا دینی چاہیے تھیں…جھوٹ کیوں بولا تم نے؟” ابراہیم صاحب کی پریشانی یکدم کچھ کم ہو گئی۔
معاملے کی نوعیت اتنی تشویش ناک نہیں تھی جتنی وہ سمجھ رہے تھے۔
”فرحانہ! تم علیزہ کے ساتھ اس سارے معاملے پر خود بات کرو بلکہ جنید کو بھی ساتھ لے جاؤ۔ مجھے یقین ہے کہ اس کی ناراضی دور ہو جائے گی۔ ” انہوں نے اس بار جنید کی امی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔
”آپ ساتھ نہیں چلیں گے؟”
”میں ساتھ تو جاؤں گا مگر یہ اتنا بچکانہ معاملہ ہے تم خود اس کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھا سکتی ہو۔ میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ اس طرح غصے میں آکر اس طرح کی حماقت کرے گی۔ اسے غصہ یا ناراضی تھی بھی تو اسے ہم لوگوں سے اس معاملے پر بات کرنی چاہیے تھی یا مسز معاذ سے ڈسکس کرتی اور اس میں سارا قصور تمہارا ہے تمہیں آخر اس طرح کی بات اس سے کہنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ تم عمر کے کہنے پر اس سے شادی کر رہے ہو۔” وہ ایک بار پھر جنید سے بات کرنے لگے۔
”اگر اسے عمر ناپسند ہے تو تمہیں اس پر یہ جتانے کی کیا ضرورت ہے کہ وہ تمہارے لیے علیزہ سے زیادہ اہم ہے۔”
”بابا! میں نے یہ نہیں کہا تھا میں نے تو۔۔۔” ابراہیم نے جنید کی بات کاٹ دی۔
”تم نے کہا ہو یا نہیں مگر اس نے تمہاری بات کو اسی طرح لیا ہے۔”
”ہم سے تم یہ کہتے رہے کہ علیزہ کو یہ نہ بتائیں کہ ہم لوگ عمر سے واقف ہیں یا عمر کا اس گھر میں آنا جانا ہے اور خود تم نے اس سے یہ کہہ دیا کہ تم اس سے عمر کی خاطر شادی کررہے ہو۔”
”تو امی! آپ نے دیکھ لیا مجھے اس کو یہ بتانے کا نتیجہ بھی بھگتنا پڑ رہا ہے۔ مجھے اس سے اسی بات کا اندیشہ تھا کہ وہ بہت ناراض ہو گی اگر اسے عمر سے میری دوستی کا پتا چل جاتا تو۔”
”اب اس بات پر بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ختم کرو اسے۔” ابراہیم صاحب نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔ ”میں نے مسز معاذ سے کہا ہے کہ ہم شام کو ان کی طرف آئیں گے۔”
”پھر میں آفس جا رہا ہوں۔ بابا! کیا آپ چلیں گے؟” جنید نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
”ہاں میں بھی چلتا ہوں، آج واقعی بہت دیر ہو گئی ہے۔”
ابراہیم صاحب بھی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
”فرحانہ! تم کسی اور کا فون آنے پر بھی ان سے یہی کہتے رہنا کہ علیزہ کی امی کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے شادی کچھ آگے کر دی گئی ہے۔” انہوں نے اپنی بیوی کو ایک بار پھر ہدایت کی۔
٭٭٭
”علیزہ! سکندر کا فون آیا ہے، آکر اس سے بات کرو۔” نانو نے علیزہ کے کمرے کا دروازہ کھول کر اسے اطلاع دی۔
”میں ان سے بات نہیں کرنا چاہتی۔ آپ انہیں بتا دیں۔”
”میں تو کسی کو کوئی وضاحت نہیں دوں گی جو بھی کہنا ہے، تم خود آکر اس سے کہو۔ جب نوٹس دینے کی جرأت کر لی ہے تو پھر لوگوں سے بات کرنے کی بھی جرأت پیدا کرو۔” نانو نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔”میں تو ہر فون آنے پر تمہیں ہی بلاؤں گی۔ کیونکہ یہ نوٹس تمہارا دیا ہوا ہے۔ پھر میں تمہاری طرف سے وضاحتیں کیوں دوں۔ یہ کام بھی تم خود ہی کرو تاکہ تمہیں احساس تو ہو اس بے عزتی اور شرمندگی کا جس کا سامنا میں کر رہی ہوں۔”
علیزہ کچھ دیر انہیں دیکھتی رہی پھر ایک جھٹکے سے اٹھ کر باہر آگئی۔
لاؤنج میں آکر اس نے فون کا ریسیور اٹھا یا اور دوسری طرف کی کوئی بات سنے بغیر بولتی گئی۔
”ہاں پاپا! وہ نوٹس میں نے دیا ہے کیونکہ میں جنید سے شادی نہیں کرنا چاہتی…اور شادی اس لیے کرنا نہیں چاہتی کیونکہ وہ مجھے پسند نہیں ہے اور آپ ان تما م معاملات کے بارے میں پریشان نہ ہوں۔ بالکل اسی طرح جس طرح آپ پہلے کبھی پریشان نہیں ہوئے۔”
اس نے اپنی بات مکمل کی اور فون کا ریسیور پٹخ دیا۔ اس کی آنکھیں گیلی ہو رہی تھیں۔ نانو لاؤنج کے دروازے میں کھڑی اسے دیکھتی رہیں۔ وہ بات ختم کرنے کے بعد کچھ بھی کہے بغیر واپس مڑی اور تیز تیز قدموں کے ساتھ ان کے پاس سے گزرتی ہوئی لاؤنج سے باہر نکل گئی۔
”اگر کسی کا بھی فون ہو تو آپ مجھ سے بات کروا دیں۔ میں سب سے بات کر لوں گی۔ آخر آپ کو یا ممی کو میری وجہ سے یہ زحمت کیوں کرنی پڑے، آپ ٹھیک کہتی ہیں۔”
نانو نے اپنے پاس سے گزرتے ہوئے علیزہ کو کہتے سنا۔ انہوں نے مڑ کر اسے کو ریڈور میں سے گزرتے ہوئے دیکھا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

مکمل آسمان — سیدہ فرحین جعفری

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۴ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!