امربیل — قسط نمبر ۱۳

اگلی صبح جنید حسب معمول نو بجے کے قریب ناشتے کے لئے آیا تھا۔
”بابا نظر نہیں آ رہے؟” اس نے کرسی پر بیٹھتے ہی اپنی امی سے پوچھا۔
”وہ آج کچھ دیر سے آفس جائیں گے اس لئے ابھی نہیں اٹھے۔” اس کی امی نے بتایا، وہ اب اسے ناشتہ سرو کر رہی تھیں۔
”علیزہ کی امی آ گئی ہیں؟” انہوں نے جنید کو چائے سرو کرتے ہوئے پوچھا۔
”پتا نہیں رات نو بجے فلائٹ تھی۔ میری اس کے بعد اس سے بات نہیں ہوئی۔ آ گئی ہوں گی۔” جنید نے اخبار کھولتے ہوئے کہا۔
”میں آج ان کی طرف جانے کا سوچ رہی ہوں۔” اس کی امی نے کہا۔
”ہاں ضرور جائیں ۔۔۔” جنید نے خوش دلی سے کہا۔
”مگر پہلے میں فون پر ان سے بات کر لوں تا کہ ان کی کوئی اور مصروفیت نہ ہو آج کے دن کے لئے۔” اس کی امی نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
جنید ان کی بات پر سر ہلاتے ہوئے اخبار دیکھتا رہا۔ فرنٹ پیج پر سرخیاں پڑھنے کے بعد اس نے اخبار کا پچھلا صفحہ دیکھا اور اس پر ایک سر سری سی نظر دوڑائی۔ صفحے کے نیچے ایک نوٹس پر نظر ڈالتے ہی اس کے ہاتھ میں پکڑا ہوا چائے کا کپ چھوٹتے چھوٹتے بچا تھا۔
”کیا ہوا جنید؟” اس کی امی نے کچھ چونک کر اسے دیکھا، جنید کا رنگ فق تھا وہ اخبار کے نچلے حصے میں موجود ایک خبر پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔
٭٭٭




عمر نے فون اٹھایا، دوسری طرف سے آپریٹر اسے کسی کرنل حمید کے آن لائن ہونے کی اطلاع دے رہا تھا۔ عمر کے ماتھے پر چند بل نمودار ہوئے یہ نام اس کے لئے آشنا نہیں تھا۔
”بات کرواؤ۔” اس نے آپریٹر کو لائن ملانے کے لئے کہا۔
کچھ دیر بعد …دوسری طرف سے …کسی سلام دعا کے بغیر اکھڑ لہجے میں کہہ رہا تھا۔
”ایس پی عمر جہانگیر بات کر رہا ہے؟” عمر کے ماتھے کے بلوں میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔ ”بول رہا ہوں۔”
”میرا نام کرنل حمید ہے، میں تم سے پوچھتا ہوں کہ تم کس طرح اس شہر کو چلا رہے ہو۔” اپنا تعارف کروانے کے بعد اب کرنل حمید کے لہجے میں بہت تندی و تیزی آ گئی۔ ”پولیس کے بھیس میں تم غنڈوں کا گینگ چلا رہے ہو …جو کسی کو بھی اٹھا کر پولیس اسٹیشن میں بند کر دیتے ہیں۔”
عمر کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
”اتنی لمبی بات کرنے کے بجائے تم صرف یہ بتاؤ کہ تمہارا پرابلم کیا ہے؟” عمر نے اس کی بات کاٹ کر۔ تمام ادب آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسے تم کہہ کر مخاطب کیا۔ ”میرے پاس اس طرح کی باتیں سننے کے لئے وقت نہیں ہے۔”
”حالانکہ تمہارے پاس وقت ہی وقت ہونا چاہیے۔ کام تو تمہارے لئے تمہارے گرُگے کر ہی دیتے ہیں۔”
کرنل حمید کو اس کے اکھڑ لہجے نے کچھ اور مشتعل کیا، شاید اسے توقع تھی کہ عمر اس کے سامنے کچھ مدافعانہ یا معذرت خواہانہ انداز اختیار کرے گا۔
”میں نے تم سے کہا ہے کہ تم لمبی تقریروں کے بجائے صرف کام کی بات کرو ورنہ میں فون بند کر رہا ہوں۔”
”تمہارے آدمیوں نے میرے بیٹے کو پکڑ لیا ہے، میں دس منٹ میں اپنے بیٹے کو اپنے گھر میں دیکھنا چاہتا ہوں۔
”کیوں پکڑا ہے؟” عمر نے سرد لہجے میں کہا۔
”تم لوگوں نے اس پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ گاڑی چلا رہا تھا اور اس نے ایک آدمی کو زخمی کیا ہے۔ حالانکہ نہ تو وہ گاڑی چلا رہا تھا نہ ہی اس نے کسی آدمی کو زخمی کیا ہے میں ڈائریکٹ آرمی مانیٹرنگ کمیٹی کے پاس جا سکتا تھا مگر میں تمہیں ایک موقع دیتے ہوئے فون کر رہا ہوں کہ تم اسے چھوڑ دو۔”
”کہاں ہے وہ؟” کرنل حمید نے اسے اس پولیس اسٹیشن کا نام بتایا۔
”نام کیا ہے اس کا ؟”
”ارمغان۔”
”عمر؟”
”پندرہ سال۔”
عمر وہاں بیٹھے بیٹھے بھی بتا سکتا تھا کہ کیا ہوا ہو گا۔ اس کم عمر بچے نے گاڑی چلاتے ہوئے کسی کو زخمی کیا ہو گا اور اب کرنل حمید اس بات سے ہی انکاری تھا کہ اس نے ایسا کیا تھا۔
”گاڑی کون چلا رہا تھا؟”
”میرا ڈرائیور۔”
”وہ بھی پولیس اسٹیشن میں ہے؟”
”نہیں اسے کسی نے نہیں پکڑا صرف میرے بیٹے کو پکڑ لیا حالانکہ وہ ڈرائیونگ سیٹ پر نہیں تھا۔”
”میں چیک کرتا ہوں۔”
”میں نے تمہیں چیک کرانے کے لئے فون نہیں کیا …میں اسے دس منٹ کے اندر اپنے گھر پر دیکھنا چاہتا ہوں۔”
”میرے پاس کوئی الٰہ دین کا چراغ نہیں ہے کہ میں دس منٹ کے اندر اسے تمہارے گھر پہنچا دوں۔” عمر نے تند و تیز لہجے میں کہا۔” اسے پکڑا گیا تو یقیناً اس نے کچھ نہ کچھ تو غلط کیا ہو گا۔ میں صرف یہ دیکھوں گا کہ اس نے کیا کیا ہے، اگر اس نے کچھ نہیں کیا تو وہ تمہارے گھر آ جائے گا لیکن اگر اس نے کچھ کیا ہے تو پھر تمہارا باپ بھی آ کر اسے نہیں چھڑا سکے گا۔” عمر نے اسے چیلنج کرنے والے انداز میں کہا۔
”میرے باپ کو اسے چھڑوانے کی زحمت نہیں کرنی پڑے گی، میں تمہارے باپ کے ذریعے اسے چھڑوالوں گا۔” کرنل حمید نے اس بار تقریباً چلاتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے، تم میرے باپ کے ذریعے اسے چھڑوا کر دکھاؤ۔” عمر نے اس کا جواب سنے بغیر فون بند کر دیا اور پھر آپریٹر سے اس پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او سے بات کروانے کے لئے کہا …جہاں کرنل حمید کا بیٹا بند تھا۔
”سر ! بات کریں۔” آپریٹر نے کچھ دیر بعد فون پر اس سے کہا۔
”آج تم نے بارہ بجے کے قریب کسی کرنل حمید کے بیٹے ارمغان کو پکڑا ہے۔”
عمر نے انسپکٹر عاطف سے پوچھا، وہ اسے ذاتی طور پر جانتا تھا اور اس بات سے واقف تھا کہ وہ عام پولیس والوں کے بر عکس بہت ایماندار تھا۔ وہ ایک سال سے اس پولیس اسٹیشن میں کام کر رہا تھا اور صرف اسی کا پولیس اسٹیشن وہ واحد پولیس اسٹیشن تھا جس کے بارے میں عمر کو سب سے کم شکایات ملتی تھیں۔ اسی لئے اسے کرنل حمید سے بات کرتے ہوئے بھی یقین تھا کہ اگر وہ انسپکٹر عاطف کے پولیس اسٹیشن پر ہے تو اس کا واقعی یہ مطلب تھا کہ اس نے کچھ غلط کیا تھا۔
”جی سر ! پکڑا ہے۔” عاطف نے مودب انداز میں کہا۔
”کس لئے؟”
”سر ! وہ گاڑی چلا رہا تھا جبکہ اسکی عمر صرف پندرہ سال ہے پھر اس نے تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے ہوئے ایک دوسری گاڑی سے نکلنے والے آدمی کو ٹکر مار دی۔ اسی آدمی کے رشتہ داروں نے گاڑیوں کا تعاقب کر کے اسے پکڑا، اتفاقاً وہاں پولیس موبائل آ گئی اور انہوں نے اسے بچا لیا ورنہ شاید وہ لوگ تو اسے وہیں مار دیتے۔ ہم نے شک پڑنے پر جب اس کا چیک اپ کروایا تو پتہ چلا کہ وہ شراب پئے ہوئے تھا …اس زخمی…کی حالت خاصی نازک ہے اور اس کے رشتہ دار ابھی بھی یہاں پولیس اسٹیشن پر بیٹھے ہیں۔ وہ بہت مشتعل ہیں کیونکہ یہ لڑکا ان سے کہتا رہا ہے کہ وہ کرنل کا بیٹا ہے کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور ان لوگوں کو شک ہے کہ اسے چھوڑ دیا جائے گا۔” عاطف نے اسے تفصیل بتائی۔
”مگر کرنل حمید تو مجھ سے کہہ رہا تھا کہ گاڑی اس کا ڈرائیور چلا رہا تھا جسے تم لوگوں نے پکڑا ہی نہیں۔” عمر نے کہا۔
”سر ! گاڑی میں اس لڑکے کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا، میں نے آپ کو بتایا کہ اسے پکڑا بھی ان ہی لوگوں نے ہے، اگر اس کا ڈرائیورساتھ ہوتا تو وہ اسے کس طرح جانے دیتے۔ وہ اسے بھی اسی طرح پیٹتے جس طرح انہوں نے اسے پیٹا ہے۔”
”زیادہ چوٹیں تو نہیں آئیں اس لڑکے کو؟”
”نو سر …اتنا زیادہ نہیں پیٹا۔”
”تم نے ایف آئی آر درج کر لی ہے؟”
”سر ! وہ تو اسی وقت کر لی تھی کیونکہ وہ لوگ وہیں سے پولیس اسٹیشن آئے تھے۔”
”کرنل حمید نے تمہیں فون کیا تھا؟”
”سر انہوں نے فون کیا تھا، وہ بڑے مشتعل تھے اور اپنے بیٹے کو چھوڑنے کے لئے کہہ رہے تھے۔ مگر میں نے انکار کر دیا کیونکہ میرے لئے ایسا ممکن ہی نہیں تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ آپ سے بات کریں یا پھر اپنے وکیل سے۔”
”اس نے مجھ سے ابھی فون پر بات کی تھی، مجھے حیرانی ہے کہ وہ خود پولیس اسٹیشن اپنے بیٹے کو چھڑوانے کیوں نہیں گیا۔”
”سر ! وہ لاہور سے بات کر رہے تھے میرا خیال ہے کہ وہ ابھی چند گھنٹوں تک یہاں آ جائیں گے اور پھر پولیس اسٹیشن بھی آئیں گے۔”
”تم اس لڑکے کو اپنی کسٹڈی میں رکھو مگر مارنے پیٹنے کی ضرورت نہیں …اگر اسے کسی چیز کی ضرورت ہو تو وہ بھی دینا اور کھانا وغیرہ بھی کھلانا …اس کی گاڑی آرمی کی تھی؟” عمر کو ہدایات دیتے ہوئے اچانک خیال آیا۔
”نہیں سر …سرکاری گاڑی نہیں تھی، کرولا تھی۔”
”کون سا ماڈل؟”
”سر 2000 XE ۔”
”اپنی تھی۔”
”یس سر اس کی اپنی ہے۔”
عمر نے بھنویں اچکائیں۔ وہ کرنل یا تو کسی بہت با اثر فیملی سے تعلق رکھتا تھا یا پھر کسی نہ کسی طرح خاصا مال بنا رہا تھا۔
فون بند کر کے اس نے اپنے پی اے کو بلوایا اور اسے کرنل حمید کے کوائف سے آگاہ کرتے ہوئے اس کے بارے میں معلومات لینے کیلئے کہا۔
”سر ! کرنل حمید کو ہر کوئی جانتا ہے۔” پی اے نے کرنل حمید کا نام سنتے ہی کہا۔ ”یہ یہاں اس کی پوسٹنگ کا آخری سال ہے، وہ رینجرز میں ہے بارڈرز ایریا میں اسمگلنگ کا بہت سا مال اس کی وجہ سے آسانی سے آ جاتا ہے۔ بہت راشی آدمی ہے وہ۔”
”خاندان کیسا ہے اس کا؟”
”سر ! خاندان خاصا اثر و رسوخ والا ہے۔ مگر ایسا نہ بھی ہوتا تب بھی یہ آدمی اتنا چلتا پرزہ ہے کہ اسی طرح عیش کر رہا ہوتا یہ اس کا ہوم سٹی بھی ہے۔ یہاں ویسے بھی اس کے جاننے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ صنعت کاروں میں بھی خاصا اثر و رسوخ ہے اس کا، یہ بہت سوشل ہے۔” اس کے پی اے نے اسے مزید معلومات دیں۔
”بس اب تم جاؤ۔ عمر نے اسے جانے کے لئے کہا۔ پی اے ابھی کمرے سے نکلا ہی تھا جب آپریٹر نے اسے کرنل حمید کے ایک بار پھر آن لائن ہونے کے بارے میں بتایا۔
”تم نے پتہ کروایا ہے میرے بیٹے کا؟” کرنل حمید نے عمر کی آواز سنتے ہی کہا۔
”تمہارے بیٹے کے خلاف چار الزامات کے تحت ایف آئی آر درج ہوئی ہے …لائسنس کے بغیر گاڑی چلانے کا الزام ایک آدمی کو اپنی گاڑی سے زخمی کرنے اور موقع واردات سے فرار ہونے کا الزام …شراب پی کر گاڑی چلانے کا الزام اور پولیس کے اہلکاروں کو گالیاں دینے اور ان کے ساتھ بد تمیزی کا الزام …بہتر ہے تم کسی وکیل کا بند و بست کر لو، کیونکہ اس کی رہائی کسی وکیل کے بغیر ممکن نہیں ہے۔”
”میں نے تم سے کہا تھا کہ میرا بیٹا گاڑی نہیں چلا رہا تھا۔”
”اس زخمی کے رشتہ داروں کے اور پولیس کے مطابق گاڑی میں اس وقت تمہارے بیٹے کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔”
”وہ لوگ بکواس کر رہے ہیں، جھوٹ بول رہے ہیں۔” کرنل حمید غرایا۔
”مان لیا مگر اس کے چیک اپ کے بعد رپورٹ کے مطابق وہ نشے کی حالت میں تھا۔ یہ جھوٹ نہیں ہو سکتا۔”
”میں یہ بات ماننے کے لئے تیار نہیں کہ میرے بیٹے نے شراب پی ہے۔ تم لوگ یہ سب اسے اور مجھے پھانسنے اور بلیک میل کرنے کے لئے کر رہے ہو۔” کرنل حمید اس کی بات پر اور مشتعل ہوا۔ ”تمہارے لئے بہتر یہی ہے کہ تم اسے رہا کر دو۔”
”میں کسی صورت اسے نہیں چھوڑ سکتا …خاص طور پر اس صورت میں جب اس پر اتنے سنگین الزامات ہیں تمہارے لئے بہتر یہی ہے کہ تم کسی وکیل کا بند و بست کرو اس کے لئے۔”




Loading

Read Previous

مکمل آسمان — سیدہ فرحین جعفری

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۴ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!