امربیل — قسط نمبر ۱۳

”علیزہ! میں گاڑی اندر لے کر جا رہا ہوں۔” جنید نے کہا۔
”نہیں آپ یہیں سے چلے جائیں، اندر آنے کی ضرورت نہیں ہے۔” علیزہ نے سرد آواز میں اس سے کہا۔ جنید کا چہرہ خفت سے سرخ ہوا۔ چوکیدار اب گیٹ کھول رہا تھا۔
”تم اپنے شاپرز اٹھا لو۔”
جنید نے پچھلی سیٹ پر رکھے ہوئے شاپرز کی طرف اشارہ کیا مگر اس سے پہلے کہ وہ انہیں اٹھا کر اس کی طرف بڑھاتا، وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر اتر گئی۔ جنید نے اسے آواز دی مگر اس نے پیچھے مڑے بغیر گیٹ عبور کر لیا۔
کچھ جھنجھلاتے ہوئے جنید گاڑی کو آہستہ آہستہ اندر لے آیا۔ علیزہ کا رویہ۔ اس کے لیے بہت ناقابل یقین تھا۔ اگر اس کے وہم و گمان میں بھی یہ ہوتا کہ وہ اس طرح کے ردعمل کا اظہار کر سکتی ہے تو وہ کبھی اس کے سامنے اس طرح کے انکشافات نہ کرتا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ تھوڑا بہت ناراض ہو گی مگر وہ اسے سمجھا بجھا کر اس کی یہ ناراضی دور کر لے گا۔ مگر اس سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ اس طرح بالکل چپ سادھ لے گی۔
علیزہ اپنے پیچھے اس کی گاڑی کے اندر آنے کی آواز سن رہی تھی مگر اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ لاؤنج کا دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہو گئی۔ نانو لاؤنج میں ہی بیٹھی تھیں۔ انہوں نے علیزہ کو مسکراتے ہوئے دیکھا۔
”تم بہت جلد آگئیں میں سوچ رہی تھی قدرے دیر سے آؤ گی۔”
انہوں نے اسے دیکھتے ہوئے حیرت سے کہا۔ علیزہ نے ان کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ ایک نظر انہیں دیکھنے کے بعد وہ رکے بغیر لاؤنج سے گزر گئی۔ نانو نے حیرت سے اسے جاتے دیکھا۔ وہ اس کے چہرے کے تاثرات سے کچھ بھی اندازہ نہیں کر سکی تھیں۔
علیزہ وہاں رکے بغیر سیدھا اپنے کمرے میں چلی آئی۔ اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے اپنے بیگ کو اپنے بستر پر اچھال دیا اور خود دیوار کے ساتھ پڑے صوفہ کی طرف بڑھ گئی۔ اپنے جوتے اتار کر دونوں پیر صوفہ کے اوپر رکھتے ہوئے کشن گود میں لے کر بیٹھ گئی۔ وہ اپنی کیفیات خود بھی سمجھنے سے قاصر تھی۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ آج خلاف معمول اسے رونا نہیں آرہا تھا۔




”جنید ابراہیم۔۔۔” اس نے زیر لب اس کا نام دہرایا۔ اس نے کچھ دیر پہلے اس کے ہونٹوں سے نکلنے والے تمام جملوں کو یاد کرنے کی کوشش کی۔ اس کا شاک ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ وہ اندازہ نہیں کر پا رہی تھی کہ اسے غم زیادہ ہوا تھا یا پھر غصہ اور ان دونوں چیزوں کا تعلق کس سے تھا جنید سے…؟عمر سے…؟ نانو سے… یا پھر ان تینوں سے؟
دروازے پر دستک دے کر نانو اندر آ گئی تھیں۔ ان کے ہاتھ میں شاپرز تھے یقیناً جنید وہ شاپرز انہیں دے گیا تھا۔
”تم یہ ساری چیزیں اس کی گاڑی میں کیوں چھوڑ آئیں؟” نانو نے تنبیہی انداز میں کہا۔
”اور موڈ کیوں خراب ہے تمہارا؟” انہوں نے شاپرز بیڈ پر رکھتے ہوئے کہا۔
”پھر کوئی جھگڑا ہو گیا ہے تم دونوں میں؟” وہ اب اس سے پوچھ رہی تھیں۔
ان کے لہجے میں تشویش کا عنصر نمایاں تھا۔ ”جنید بھی کچھ پریشان نظر آرہا تھا۔ میرے روکنے کے باوجود رکا نہیں۔ اوپر سے تمہارے منہ پر بھی بارہ بجے ہوئے ہیں، آخر ہوا کیا ہے؟”
علیزہ ان کو مکمل طور پر نظر انداز کیے اپنے دانتوں سے انگلیوں کے ناخن کترتی رہی۔
”تم کچھ بتاؤ گی یا اسی طرح بیٹھی رہو گی منہ بند کرکے؟” اس بار نانو نے اسے جھڑکتے ہوئے کہا۔ علیزہ نے اس بار بھی ان کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ ”شادی سے پہلے اس طرح جھگڑ رہے ہو تم دونوں تو بعد میں کیا ہوگا؟ میں اسی لیے لمبی کورٹ شپ کے حق میں نہیں تھی اور علیزہ ! کم از کم تم سے تو میں اس طرح کی حماقت کی توقع بھی نہیں کر سکتی تھی۔”
علیزہ نے اس بار بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ اب بھی خاموشی سے پہلے کی طرح اپنے ناخنوں کوکترتی رہی۔
”کیا تم قسم کھا کر بیٹھی ہو کہ تم بالکل گونگی ہو جاؤ گی اور کچھ بولو گی ہی نہیں ۔ آخر کچھ کہو تو؟” نانو کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو نے لگا۔
”نانو ! آپ اس وقت مجھے اکیلا چھوڑ دیں۔ میں آپ سے صبح بات کروں گی۔” ایک لمبی خاموشی کے بعد اس نے نانو سے کہا۔
”مگر آخر تمہیں ہوا کیا ہے؟” نانو نے کچھ تشویش آمیز انداز میں کہا۔
”جو بھی ہوا ہے میں اس کے بارے میں صبح آپ سے بات کروں گی۔ اس وقت آپ مجھے اکیلا چھوڑ دیں۔”
علیزہ نے اسی انداز میں کہا۔ نانو کچھ دیر کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں اسے دیکھتی رہیں پھر انہوں نے پوچھا۔ ”کھانا کھا لیا ہے تم نے؟”
”سب کچھ کھا چکی ہوں، آپ پریشان نہ ہوں۔” علیزہ نے اکھڑ لہجے میں کہا۔
نانو کچھ دیر اسی طرح کھڑی اسے دیکھتی رہیں پھر کچھ کہے بغیر اس کے کمرے سے باہر نکل گئیں۔ علیزہ اپنے بیڈ پر پڑے ہوئے ان شاپرز کو گھورنے لگی جن میں موجود چیزوں کو کچھ دیر پہلے اس نے بڑے شوق سے جنید کے ساتھ خریدا تھا۔ اس وقت اسے ان تمام چیزوں سے نفرت محسوس ہو رہی تھی۔
اسے سب کچھ ناقابل یقین لگ رہا تھا۔ ”آخر یہ کیسے ہوا کہ مجھے کبھی بھی جنید ابراہیم پر شبہ نہیں ہوا۔ کبھی بھی یہ خیال نہیں آیا کہ عباس کے بجائے وہ خود بھی عمر کا دوست ہو سکتا تھا۔ تب بھی نہیں جب وہ اتنے زور و شور سے عمر کی حمایت کرنے میں مصروف تھا، مجھے سوچنا چاہیے تھا کہ یہ صرف معمولی سی شناسائی تو نہیں ہو سکتی جو جنید کو اس طرح مجھ سے ناراض کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ صرف عباس کے کہنے پر یا عباس کے لیے تو وہ عمر کے لیے اس طرح کی فیلنگز کا اظہار نہیں کر سکتا تھا۔
اور پھر اس دن وہاں کے ایف سی میں ان دونوں کو اکٹھے دیکھ کر بھی میں نے یہ سوچنے کی کوشش نہیں کی کہ یہ دوستی دیرینہ بھی ہو سکتی تھی۔ ان دونوں کے درمیان نظر آنے والی بے تکلفی کے باوجود میں نے یہی سوچا کہ یہ تعلقات ابھی حال ہی میں استوار ہوئے ہیں اور وہ بھی عمر کی کوشش سے…عمر کو جنید کے گھر دیکھ کر بھی مجھے اس پر کوئی شبہ نہیں ہوا۔ آخر کیوں؟ کیا واقعی میں اس حد تک بے وقوف ہوں کہ کوئی بھی جب دل چاہے مجھے بے وقوف بنا سکتا ہے اور وہ بھی اس حد تک…وہ غم و غصہ کے عالم میں سوچ رہی تھی اور…آخر عمر جہانگیر چاہتا کیا ہے، کیا کرنا چاہتا ہے؟ اپنے بہترین دوست کو میرے گلے میں کیوں باندھ رہا ہے اور وہ بھی اسے اس بات سے بے خبر رکھ کر کہ میں عمر جہانگیر سے محبت کرتی رہی ہوں اور اس سے شادی کی خواہش مند تھی اور مجھے اس بات سے بے خبر رکھ کر کہ جنید سے اس کے تعلقات اس نوعیت کے تھے۔ وہ آخر یہ کیوں چاہتا ہے کہ میں اس سے شادی کر لوں۔ اس سے عمر جہانگیر کو کیا ملے گا اور باقی سب لوگ نانو، عباس، عباس کی ممی آخر ان سب نے میرے ساتھ اتنا بڑا دھوکا کیوں کیا۔ کیا انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ میں کبھی یہ سب جان جاؤں گی اور پھر… پھر میں ان کے بارے میں کیا سوچوں گی۔”
اسے اپنے سر میں شدید درد محسوس ہو رہا تھا ، اتنے بہترین طریقے سے اسے ٹریپ کیا گیا تھا کہ آج اگر جنید خود اسے سب کچھ نہ بتا دیتا تو اسے کبھی بھی ان سب پر شک نہ ہوتا ، نہ وہ اصلیت جان سکتی۔
علیزہ کو اب بھی یاد نہیں آرہا تھا کہ اس نے عمر کے ساتھ آج سے کئی سال پہلے جنید کو دیکھا تھا۔ ان دنوں سرسری طور پر اس نے کئی بار عمر کے بہت سے دوستوں کو دیکھا تھا اور ان میں سے جنید کو پہچاننا اور یاد رکھنا ناممکن کام تھا، جب تک کہ خاص طور پر وہ ان دونوں کو آپس میں متعارف نہ کرواتا اور ایسا نہیں ہوا تھا۔ وہ اگر اس سے ملی بھی تھی تو سرسری انداز میں مگر جہاں تک جنید کے فون کالز ریسیو کرنے کا تعلق تھا اسے وہ یاد آگئی تھیں۔ عمر جنید کو جین کہا کرتا تھا اور کئی بار فون کرنے پر وہ عمر تک جین کے پیغام بھی پہنچایا کرتی تھی۔ عمر کے منہ سے اس نے بہت دفعہ جین کا ذکر بھی سنا تھا۔ جوڈی کے بعد یہ دوسرا نام تھا جس کا عمر خاصا ذکر کرتا تھا مگر اس کے باوجود اس نے کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ جین کا اصلی نام کیا ہے۔ اس کے نزدیک یہ بات کبھی اتنی اہمیت کی حامل رہی ہی نہیں تھی۔
اور اب وہ ماؤف ہوتے ہوئے ذہن کے ساتھ ان دونوں کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ جنید ابراہیم ،عمر جہانگیر اپنے بہترین دوست کے ساتھ باندھنا کیوں چاہتا ہے عمر مجھے…دونوں کو دھوکا دیتے ہوئے۔ مجھے بھی جنید کو بھی۔
***




Loading

Read Previous

مکمل آسمان — سیدہ فرحین جعفری

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۴ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!