امربیل — قسط نمبر ۱۳

اگلے روز شام کو جنید کے گھر والے ان کے ہاں آئے تھے۔ نانو، ثمینہ اور سکندر سے پہلے ہی فون پر بات کر چکی تھیں دونوں نے انہیں اگلے ماہ کی کوئی بھی تاریخ طے کر دینے کا کہا تھا۔ دونوں فیملیز نے کھانے کے بعد باہمی مشورے سے تاریخ طے کر لی۔
جنید اپنے گھر والوں کے ساتھ نہیں آیا تھا۔ رات بارہ بجے کے بعد جب اس کے گھر والے واپس گئے تو اس کے کچھ دیر بعد اس نے علیزہ کو فون کیا۔ اسی وقت سونے کے لیے اپنے کمرے میں گئی تھی۔
”میں صرف مبارکباد دینے کے لیے کال کر رہا ہوں۔” رسمی سلام و دعا کے بعد اس نے علیزہ سے کہا۔ اس کا لہجہ خاصا خوشگوار تھا۔
”تھینکس مگر تین دن پہلے جب ہم لوگ ملے تھے تو آپ کو مجھے بتانا چاہیے تھا۔” علیزہ نے کہا۔
”کس چیز کے بارے میں؟” جنید نے قدرے بے نیازی سے کہا۔
”یہی کہ آپ کے گھر والے تاریخ طے کرنے کے لیے ہمارے گھر آنے والے ہیں۔”
”میں نے سوچا تمہیں سرپرائز دوں۔”
”میں سوچ رہی تھی آپ کہیں گے کہ آپ کو اس کے بارے میں کچھ خبر ہی نہیں تھی۔”
وہ دوسری طرف ہنسنے لگا ”نہیں…میں کوئی لڑکی نہیں ہوں کہ اسے آخری لمحوں تک کچھ پتا ہی نہ ہو اور نہ ہی یہ کوئی فلم ہے۔ ظاہر ہے میری شادی کی تاریخ مجھ سے پوچھے بغیر کیسے طے کی جا سکتی ہے۔”




”ہاں آپ سے پوچھے بغیر کیسے طے کی جا سکتی ہے۔ وہ تو صرف مجھ سے پوچھے بغیر طے کی جا سکتی ہے۔” علیزہ نے شکوہ کیا۔
”یار! بتا تو رہا ہوں ، تمہارے لیے سرپرائز تھا۔ اچھا سرپرائز نہیں تھا کیا؟” وہ اسی طرح شگفتگی سے بولتا رہا۔
”بہار کے موسم میں شاید میں واحد آدمی ہوں گا جو اتنی خوشی خوشی اپنی رضامندی کے ساتھ آزادی کے بجائے غلامی قبول کروں گا۔ تمہیں تو میرے اس جذبے کو سراہنا چاہیے۔” اس بار اس کے لہجے میں مصنوعی سنجیدگی تھی۔ How very magnanimous(کتنا باحوصلہ ہوں) غلامی قبول کروں گا۔”
”کیسی غلامی؟”
”نہیں شاید قید کہتے ہیں اسے…ہے نا؟” جنید نے فوراً اپنے جملے میں تصحیح کرتے ہوئے کہا۔
”جی نہیں قید بھی نہیں کہتے۔”
”اچھا تو پھر کیا کہتے ہیں؟”
”میرا خیال ہے اسے بس شادی ہی کہتے ہیں۔”
”واقعی؟” اس بار دوسری طرف سے کچھ مزید حیرانی کا اظہار کیا گیا۔
”جی واقعی۔۔۔” وہ اس کے انداز پر مسکرائی۔
”اس میں قید یا غلامی والی کوئی بات نہیں ہوتی؟” سنجیدگی سے تصدیق کی گئی۔
”نہیں کم از کم مردوں کے لیے ایسی کوئی بات نہیں ہوتی۔ اگر ایسا کچھ ہو بھی تو خواتین کے لیے ہوتا ہے۔” علیزہ نے جتانے والے انداز میں کہا۔
”اچھا…! مگر میرے دوستوں کا تجربہ تو اس کے برعکس ہے۔” وہ ابھی بھی اسی موڈ میں بظاہر بڑی سنجیدگی کے ساتھ گفتگو کر رہا تھا۔
”معجزات بھی ہوتے ہیں مگر زیادہ تر نہیں، آپ کے دوستوں کے ساتھ کوئی معجزہ ہوا ہوگا۔” علیزہ اس کی گفتگو سے محظوظ ہو رہی تھی۔
”ہو سکتا ہے میرے معاملے میں بھی ایسا کوئی معجزہ ہو جائے؟” دوسری طرف سے اپنے خدشے کا اظہار کیا گیا۔
”ایسے معجزوں کے لیے خواتین میں کچھ کشف اور کرامات کا ہونا ضرور ہے اور میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ میں ان دونوں چیزوں سے عاری ہوں۔”
”آپ سے یہ جان کر خاصی ہمت بندھی ہے میری، خاصا حوصلہ ہوا ہے مجھے یعنی میری آزادی پر کوئی حرف نہیں آئے گا۔”
”نہیں آپ تسلی رکھیں، آپ کی آزادی پر کوئی حرف نہیں آئے گا۔ آپ ایسے حضرت ہیں بھی نہیں جو اپنی آزادی پر کوئی حرف برداشت کر لیں۔”
علیزہ نے اسے تسلی دی دوسری طرف سے وہ بے اختیار ہنسا۔
”I am very timid. ” (میں تو بہت بزدل لوگوں میں سے ہوں)
”اگر آپ ”اپنے” لیے timid (بزدل ) استعمال کررہے ہیں تو یقیناً ڈکشنری میں Timid کا مطلب بدل چکا ہوگا۔” وہ اس کی بات پر ایک بار پھر ہنسا۔
”میرے بارے میں تم کچھ ضرورت سے زیادہ نہیں جان گئیں؟”
”نہیں ضرورت کے مطابق ہی جانا ہے آپ کو۔”
”تھوڑی سی رومانٹک گفتگو اب لازم نہیں ہو گئی ہم پر؟ ” وہ اس کے جواب سے محظوظ ہوتے ہوئے بولا۔
”میرا خیال ہے ابھی تک ساری گفتگو رومانٹک ہی ہوئی ہے۔”
”نہیں…نہیں…میں کچھ اظہار محبت اور وعدوں وغیرہ کی بات کر رہا ہوں…چاند تارے توڑنے ٹائپ والی باتیں۔”
علیزہ ہنس پڑی ”نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ ان چیزوں کو توڑنے کے بغیر بھی آپ کے بارے میں میری رائے خاصی اچھی ہے۔”
”یہ سن کر خاصی خوشی ہوئی ہے مجھے ورنہ میرا خیال تھا کہ پچھلے چند ماہ میں ہونے والے واقعات کے بعد میرے بارے میں تمہاری رائے کا گراف خاصا نیچے چلا گیا ہوگا۔” وہ اب اسے چھیڑ رہا تھا۔
”ہونا تو چاہیے تھا مگر بہرحال ہوا نہیں۔”
”تب مجھے خود کو خوش نصیب سمجھنا چاہیے۔”
”یہ آپ پر منحصر ہے۔” اس نے کہا وہ اب اپنی سینڈل کے اسٹیرپس کھولتے ہوئے اپنے بیڈ پر بیٹھ رہی تھی۔
”یار! تمہیں بھی تو خوش قسمت سمجھنا چاہیے مجھے۔”
”اچھا ٹھیک ہے، آپ بڑے خوش قسمت ہیں۔ اب آپ یقیناً یہ کہیں گے کہ میں بھی خود کو خوش قسمت سمجھوں۔”
جنید نے بے اختیار قہقہہ لگایا۔
”آج تمہاری ہر Sense (حس) بڑی شارپ ہے۔ میرے کہے بغیر ہی اگلا جملہ بوجھ رہی ہو، کمال کی انڈر سٹینڈنگ ہے ہماری۔”
وہ اس کے آخری جملے پر مسکرائی، جنید واقعی آج بڑے موڈ میں تھا۔
”اگر آپ کے ساتھ رہنا ہے تو senses کو شارپ کرنا ہی پڑے گا۔ ورنہ خاصی مشکل ہو جائے گی۔”
”کس کو…؟ مجھے یا تمہیں؟”
”مجھے…آپ کو تو خاصی آسانی ہو جائے گی۔” علیزہ نے تکیہ کو گود میں لیتے ہوئے کہا۔
) You are pretty intelligent تم بہت ذہین ہو)
جنید نے مسکراتے ہوئے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
”آپ Pretty کے بعد کوما لگا کر یہ بات کہہ رہے ہیں؟” جنید اس کی بات پر بے اختیار محظوظ ہوا۔
”نہیں فل سٹاپ لگا کر کہہ رہا ہوں You are pretty ”اس بار علیزہ اس کی بات پر ہنسی۔
”اور Intelligent؟” اس نے ہنسی روکتے ہوئے پوچھا۔
”فی الحال اس کو delete کر دیتے ہیں۔ بات Pretty تک ہی رکھتے ہیں اس سے ماحول خاصا خوشگوار ہو گیا ہے۔” جنید کا اشارہ اس کی ہنسی کی طرف تھا۔
”تعریف کے لیے شکریہ ادا تو نہ کروں نا؟”
”بالکل نہیں آپ کی تعریف کرکے میں اپنا فرض ادا کر رہا ہوں۔ فرض کی ادائیگی پر کیسا شکریہ ” جنید اب اسے تنگ کر رہا تھا۔
”اچھا تو صرف فرض کی ادائیگی کے لیے تعریف کررہے ہیں دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر نہیں کر رہے۔” علیزہ مصنوعی سنجیدگی سے بولی۔
”دل تو already (پہلے ہی) آپ کے پاس ہے۔ میں تو اس وقت دماغ کو استعمال کرتے ہوئے تعریف کر رہا ہوں۔
sane, sensible thing (دانا اور سمجھ دار)
علیزہ نے بے اختیار ایک گہرا سانس لیا۔
اس کی برجستگی آج واقعی لاجواب کر دینے والی تھی۔
It means that I am going to marry a heartless person ( اس کا مطلب ہے کہ ایسے شخص سے شادی کر رہی ہوں جس کا دل ہی نہیں ہے)
On the contrary I’m going to marry a girl with two hearts (اس کے بر عکس میں جس لڑکی سے شادی کر رہا ہوں اس کے دو دل ہیں)
جنید نے اتنی ہی بے ساختگی سے کہا۔
”میڈیکل سائنس میں دو دلوں والے انسان کو کیا کہا جاتا ہے۔” علیزہ نے بڑے سنجیدہ لہجے میں کہا۔
”میڈیکل سائنس کا تو مجھے پتا نہیں مگر غالب اسے ”محبوب” کہتے ہیں۔”
علیزہ بے اختیار کھکھلائی، جنید کے منہ سے غالب کا حوالہ اسے بے حد دلچسپ لگا تھا۔
”میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ آپ بھی زندگی میں کبھی غالب کی بات کریں گے۔ اقبال کا ذکر کب فرمائیں گے؟”
”اقبال کا ذکر مشکل ہی ہے، وہ خودی کی بات کرتے ہیں اور محبت ہو جانے کے بعد خودی کہاں باقی رہتی ہے۔اس لئے اقبال کا ذکر اب باقی ساری زندگی مشکل ہی ہے۔ بس غالب ہی ٹھیک ہیں۔”
”وہی غالب جو کہتے ہیں کہ عشق نے نکما کر دیا؟”
”غالب تو یہ بھی فرماتے ہیں”
بلائے جان ہے غالب اس کی ہر بات
عبارت کیا، اشارت کیا، ادا کیا
”میرے سر کے اوپر سے گزر گیا ہے آپ کا یہ شعر۔” علیزہ نے جیسے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔
”یہ میرا نہیں غالب کا شعر ہے اس لئے اگر آپ کے سر کے اوپر سے گزر گیا تو کوئی بات نہیں، میں اعتراض تب کرتا اگر میرا شعر آپ کے سر کے اوپر سے گزر جاتا۔”
”آپ کا اپنا شعر ہوتا تو وہ بھی میرے سر کے اوپر سے ہی گزرتا۔ لٹریچر اور خاص طور پر شعر و شاعری کے معاملے میں کچھ زیادہ اچھا ذوق نہیں رکھتی۔”
”آپ فکر نہ کریں جناب، میرے ساتھ رہیں گی تو ٹھیک ہو جائیں گی۔”
”ٹھیک ہو جاؤں گی یا آپ ٹھیک کر دیں گے؟”
”دونوں میں کوئی فرق ہے؟”
”بہت ۔۔۔”




Loading

Read Previous

مکمل آسمان — سیدہ فرحین جعفری

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۴ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!