امربیل — قسط نمبر ۱۳

”مجھے اب کوئی غصہ نہیں ہے۔ میرا غصہ ختم ہو چکا ہے۔ میں اس وقت بہت پرسکون ہوں۔ تمہیں اندازہ نہیں ہو رہا؟”
”جنید کے ساتھ اس طرح کرکے تمہیں بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے؟”
”تمہارے دوست کے ساتھ ایسا کرکے مجھے بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے۔”
”علیزہ! وہ اب صرف میرا دوست نہیں ہے۔ تمہارا بھی کچھ تعلق ہے اس سے۔”
”تعلق تھا…اب نہیں ہے۔” اس نے قطعیت سے کہا۔
”اور یہ چیز میں نے تم سے سیکھی ہے۔ چٹکی بجاتے ہوئے ہر رشتے، ہر تعلق کو ختم کر دینا۔” وہ فون بند کر چکی تھی۔
***
”امی! ابھی آپ لوگ علیزہ کے گھر نہ جائیں۔”
عمر سے فون پر بات کرنے کے بعد جنید نے اندر آکر اپنی امی سے کہا۔
”کیوں؟” انہوں نے چونک کر پوچھا۔
”عمر نے ابھی مجھے فون کیا ہے۔”
”پھر؟”
”وہ چاہتا ہے کہ آپ لوگ ابھی وہاں نہ جائیں اس نے گرینی سے بات کی ہے۔ وہ ابھی کچھ دیر تک آپ کو کال کریں گی۔”
”مگر انہوں نے اس طرح اچانک شادی ملتوی کیوں کی ہے؟” عمر کے بابا نے پوچھا۔
”یہ تو میں نہیں جانتا۔”
”تم نے عمر سے نہیں پوچھا کہ شادی کیوں ملتوی کی گئی ہے؟”
”عمر کو پتا نہیں ہے۔”
”کیوں…؟” تم کہہ رہے ہو اس نے مسز معاذ سے ابھی کچھ دیر پہلے بات کی ہے۔” جنید چند لمحوں کے لیے کچھ نہیں بول سکا۔ پھر اس نے کچھ ہکلاتے ہوئے کہا۔
”ہاں…میں…اس نے پوچھا تو ہوگا مگر شاید گرینی نے اسے نہیں بتایا۔”
ابراہیم صاحب کچھ دیر خاموشی سے اسے دیکھتے رہے۔ ”کب فون کریں گی مسز معاذ؟”
”وہ کہہ رہا تھا…کچھ دیر بعد۔” جنید نے موضوع بدلے جانے پر خدا کا شکر ادا کیا۔




”عمر یہاں لاہور میں ہے؟”
”نہیں بابا! وہ یہاں نہیں ہے۔”
”تو پھر صرف فون پر وہ مسز معاذ سے کیا بات کر سکتا ہے۔ یہ بہتر ہوتا کہ اگر ہم خود وہاں جا کر ان سے بات کر لیتے۔”
”بابا! عمر نے منع کیا ہے تو ضرور کوئی بات ہو گی۔ بہتر ہے ہم ابھی نہ جائیں…ہو سکتا ہے انہیں واقعی کوئی پرابلم پیش آگئی ہو۔”
”ہم لوگ اس پرابلم کے بارے میں ہی تو جاننا چاہتے ہیں…ہو سکتا ہے ہم اس سلسلے میں ان کی مدد کر سکیں۔”
”پھر بھی بابا! گرینی ابھی کچھ دیر میں فون تو کریں گی ہی…آپ ان سے فون پر بات کر سکتے ہیں…وہاں جانا اتنا ضروری تو نہیں ہے۔۔۔” جنید نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی۔
”اگر وہ کال کرنے والی ہیں تو بہتر ہے کہ ہم گھر پر ہی رہ کر ان کی کال کا انتظار کریں۔” اس بار امی نے مداخلت کی۔”اگر بات یہاں ہو جاتی ہے تو زیادہ بہتر ہے۔”
انہوں نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے جنید کی طرف دیکھا۔ ”میں حیران ہوں جنید کہ اس طرح اچانک انہوں نے نوٹس کیوں شائع کروایا ہے…اگر واقعی کوئی سیریس مسئلہ نہیں ہے تو کم از کم مجھے ان کی یہ حرکت اچھی نہیں لگی۔ ہم سے پوچھے بغیر یا ہمیں بتائے بغیر انہیں اس طرح کا کوئی نوٹس نہیں دینا چاہیے تھا۔ معاذ حیدر جیسے خاندان سے میں اس طرح کی چیزوں کی توقع نہیں رکھتا تھا…مجھے بہت مایوسی ہوئی ہے۔”
جنید نے ان کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ وہ صرف خاموشی سے انہیں دیکھتا رہا۔ وہ اندازہ کر سکتا تھا کہ اس نوٹس سے انہیں کس طرح کی پریشانی ہو گی۔
”وہ لوگ اتنے غیر ذمہ دار نہیں ہیں…یقیناً کوئی ایسا مسئلہ ہوگا جس کے بارے میں وہ ہمیں نہیں بتا سکے ورنہ وہ اس طرح کبھی نہ کرتے…ہم تو پھر لڑکے والے ہیں…وہ تو لڑکی والے ہیں، انہیں یقیناً ہم سے زیادہ ان باتوں کا خیال ہوگا۔” جنید کی امی نے ابراہیم صاحب کی بات کے جواب میں کہا۔
”یہ تو ابھی تھوڑی دیر میں پتا چل جائے گا۔” وہ کہتے ہوئے جنید کی طرف متوجہ ہوئے۔
”تم چاہو تو آفس چلے جاؤ۔”
”نہیں ۔ آفس جا کر کیا کرے گا، وہاں بھی پریشان رہے گا…مسز معاذ کا فون آتا ہے اور سارا معاملہ سلجھ جائے تو پھر چلا جائے گا۔” جنید کی امی نے مداخلت کی۔
”میں اپنے کمرے میں جا رہا ہوں اگر ان کا فون آئے تو آپ مجھے بتا دیجئے گا۔” جنید نے واپس مڑتے ہوئے کہا۔
”جنید!” وہ دروازہ کھول رہا تھا جب ابراہیم نے اسے پکارا۔
وہ واپس مڑا ”جی بابا؟”
”کیا واقعی تم نہیں جانتے کہ یہ نوٹس ان لوگوں نے کیوں چھپوایا؟” ابراہیم بہت زیادہ سنجیدہ نظر آرہے تھے۔
”بابا! میں واقعی نہیں جانتا کہ یہ نوٹس انہوں نے کیوں چھپوایا ہے…ورنہ میں آپ سے کیوں چھپاتا۔” جنید کو اس طرح روانی سے جھوٹ بولنے پر بے تحاشا شرمندگی ہو رہی تھی مگر اس وقت اس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا۔
”ٹھیک ہے جاؤ۔” ابراہیم صاحب نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔
جنید نے کمرے سے باہر نکل کر سکون کا سانس لیا۔ اب وہ دعا کر رہا تھا کہ اس کا جھوٹ افشا نہ ہو۔
٭٭٭
”ممی! اگر آپ مجھے سمجھانے آئی ہیں تو پلیز یہ کوشش نہ کریں۔” علیزہ نے ثمینہ کو اپنے کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر کہا۔ ”میں پہلے ہی آپ کی خاصی نصیحتیں سن چکی ہوں۔”
اس کا اشارہ کچھ دیر پہلے لاؤنج میں ہونے والی گفتگو کی طرف تھا۔ وہ اس وقت اپنے بیڈ کی پشت کے ساتھ ٹیک لگائے ایک میگزین کھولے بیٹھی تھی۔
ثمینہ اس کے پاس آکر بیٹھ گئیں ”نہیں۔ میں تمہیں سمجھانے نہیں آئی۔ تم جنید سے شادی نہیں کرنا چاہتیں تو نہ کرو۔”
علیزہ نے کچھ حیرانی سے ان کے چہرے کو دیکھا۔
”اگر تم اسے پسند نہیں کرتیں تو اس سے تمہاری شادی نہیں ہونی چاہیے۔” انہوں نے سکون سے کہا علیزہ خاموشی سے انہیں دیکھتی رہی۔
”میں تمہاری ماں ہوں علیزہ ! مجھ سے زیادہ کسی کو تم سے محبت نہیں ہو سکتی۔” علیزہ اب بھی خاموش رہی۔
”لگتا ہے تمہیں میری بات کا یقین نہیں آیا؟” انہوں نے اس کا چہرہ دیکھا۔
”میں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔” علیزہ نے ایک گہری سانس لی۔
”میں نے ابھی ممی سے بات کی تو مجھے پتا چلا۔”
”کس بارے میں؟”
”انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ تم عمر سے شادی کرنا چاہتی تھیں مگر عمر اس شادی پر رضامند نہیں ہوا۔ ” علیزہ سن ہو گئی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ نانو اس طرح اس بات کے بارے میں ثمینہ کو آگاہ کر دیں گی۔
”وہ میری زندگی کی سب سے بڑی حماقت تھی۔” وہ خود کلامی کے انداز میں بولی۔
”کیوں؟”
”اگر مجھے انسانوں کی ذرا بھی پرکھ ہوتی تو میں کم از کم عمر جیسے انسان کے ساتھ شادی کی کبھی خواہش نہ کرتی۔”
”میں ایسا نہیں سمجھتی علیزہ…میں جانتی ہوں۔ تم عمر سے محبت کرتی ہو۔” ثمینہ نے سر ہلاتے ہوئے کہا ”ایسی دلچسپیاں اور پسندیدگیاں کبھی نہیں بدلتیں۔”
”میں اس سے محبت کرتی تھی۔” اس نے ”تھی” پر زور دیتے ہوئے کہا۔ ”وہ شخص اس قابل ہی نہیں ہے کہ اس سے محبت کی جائے…وہ دنیا کے بدترین لوگوں میں سے ایک ہے۔”
ثمینہ نے خاموش ہو کر اسے غور سے دیکھا۔
”مگر میں یہ چاہتی ہوں کہ عمر سے تمہاری شادی کے بارے میں بات کروں۔” ثمینہ نے مستحکم انداز میں کہا۔ علیزہ کو ان کی بات پر کرنٹ لگا۔ اس کے ہاتھ سے میگزین چھوٹ گیا۔
”آپ مجھے دوبارہ بے عزت کرنا چاہتی ہیں۔ میرے لیے ایک دفعہ اس تذلیل اور تکلیف سے گزرنا کافی ہے…بار بار نہیں۔”
”علیزہ تم۔۔۔” ثمینہ نے کچھ کہنے کی کوشش کی علیزہ نے ان کی بات کاٹ دی۔
”ممی ! میں اس شخص سے اتنی نفرت کرتی ہوں کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتیں…میں نے صرف اس کی وجہ سے جنید کو چھوڑ دیا ہے…اور آپ چاہتی ہیں کہ میں خود اس سے شادی کر لوں…کبھی نہیں۔”
”کیوں …؟ تم اسے اتنا ناپسند کیوں کرتی ہو…اگر وہ پہلے تمہارے لیے اچھا تھا تو اب برا کیسے ہو گیا…اگر پہلے تم ممی کو اس سے اپنے پرپوزل کے لیے بات کرنے پر مجبور کر سکتی تھیں تو اب کیا ہو گیا ہے کہ میں اس سے اس معاملے پر دوبارہ بات نہیں کر سکتی۔” ثمینہ نے اس بار کچھ بلند آواز میں کہا۔
”میں آپ کو بتا چکی ہوں…اب سب کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔ میں قطعاً کسی صورت عمر سے شادی کرنا نہیں چاہتی…مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔”
”تمہیں عمر کی ضرورت نہیں ہے۔ تمہیں جنید کی ضرورت نہیں ہے…تو پھر تمہیں آخر ضرورت کس کی ہے؟” اس بار ثمینہ نے کچھ غصے سے کہا۔
”مجھے کسی کی بھی ضرورت نہیں ہے…میں ہر چیز کے بغیر ہی بہت خوش ہوں۔”
ثمینہ اس کی بات پر ٹھٹھک گئیں۔ ”تمہارا اشارہ میری طرف ہے؟”
”میرا اشارہ ہر ایک کی طرف ہے۔”
”علیزہ! تم آخر مجھ سے اتنی بدظن کیوں ہو۔ میں نے ہمیشہ تمہارا خیال رکھا ہے تمہاری پروا کی ہے…تمہیں ساتھ نہیں رکھ سکی تو اس کی وجہ۔۔۔”
علیزہ نے ان کی بات کاٹ دی۔ ”پلیز ممی! میں نے آپ سے کوئی شکایت نہیں کی…نہ ہی مجھے آپ سے کوئی شکایت ہے اور آپ کو غلط فہمی ہے کہ میں آپ کو برا سمجھتی ہوں۔ میں کسی حوالے سے بھی آپ کو برا نہیں سمجھتی…ہر شخص کو زندگی میں Wise Choice کرنی چاہیے۔ آپ نے بھی Wise Choice کی اور ٹھیک کیا…میں آپ کو کسی لحاظ سے قصوروار نہیں ٹھہراتی۔” علیزہ کی آواز دھیمی ہو گئی۔
”نہ آپ کو…نہ پاپا کو…اس لیے آپ اس طرح سوچیں بھی مت۔”
”تو پھر تم میری بات کو اہمیت کیوں نہیں دیتیں؟” ثمینہ نے فوراً کہا۔
”جتنی اہمیت مجھے دینی چاہیے…میں دیتی ہوں…مگر آپ ایک نامناسب اور ناممکن بات کہہ رہی ہیں جو میرے لیے ممکن نہیں ہے۔”
”عمر کے بارے میں بات کرنا نامناسب کیسے ہے؟” ثمینہ نے اکھڑ انداز میں کہا۔
”آپ اگر اس سب سے گزری ہوتیں، جس سے میں گزر رہی ہوں تو آپ کو اندازہ ہو جاتا کہ عمر کے بارے میں بات کرنا نامناسب کیوں ہے۔”
”ماضی کو بھول جاؤ علیزہ۔”
”میں ماضی کو بھول چکی ہوں ممی…! اس لیے تو مجھے یہ بھی یاد نہیں ہے کہ مجھے عمر سے محبت تھی…میرے لیے وہ صرف ایک کزن ہے۔”
”علیزہ! میں چاہتی ہوں، تم بہت اچھی زندگی گزارو۔”
”عمر کے ساتھ میں اچھی زندگی نہیں گزار سکتی…آپ ایسا سوچتی ہیں تو غلط سوچتی ہیں۔” علیزہ نے حتمی انداز میں کہا۔




Loading

Read Previous

مکمل آسمان — سیدہ فرحین جعفری

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۴ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!