اعتبار، وفا اور تم — نفیسہ سعید

راشیل کی مدد سے مقیت کو بہت کچھ معلوم ہوگیا چوں کہ وہ ابھی بھی دانیہ کی دوست تھی لہٰذا دانیہ اس سے کچھ نہ چھپاتی تھی۔ مقیت کو تو حیرت تھی کہ وہ بڑی دیدہ دلیری سے اپنی اور سعدی کی تصاویر فیس بک پر ڈالتی اور جب بھی کوئی ایسی تصویر اسے راشیل کے ذریعے ملتی وہ بے اختیار ہی اس کا موازانہ حورعین سے کر بیٹھتا۔ جس نے اپنی اتنے سالہ دوستی میں بھی کبھی سعدی کے حوالے سے کوئی ایسی گھٹیا حرکت نہ کی تھی بلکہ وہ تو کبھی اس کی کوئی بات بھی کسی سے شیئر نہیں کرتی تھی۔ سنجیدہ، سوبر اور باوقار سی حورعین کے مدمقابل کھڑی دانیہ دیکھ کر اسے ہمیشہ سعدی کی ذہنی حالت پر رحم آتا، ذہنی طور پر کوئی بھی صحت مند آدمی ایسی حرکت نہیں کر سکتا تھا۔ مقیت، راشیل کی بدولت دانیہ کے کردار میں پوشیدہ ہر خامی سے آگاہ تھا۔ سعدی صرف یہ جان کر کہ وہ اس سے محبت کرتی ہے سب کچھ بھلائے بیٹھا تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ اسے یہ سب کیسے بتایا جائے کہ محض مقیت کے نظرانداز کرنے پر ہی دانیہ یہ گھناؤنا کھیل کھیل رہی ہے جب کہ وہ جانتا تھا کہ اسے سعدی سے کوئی محبت نہ تھی۔ یہ دو انا کے مارے مرد و زن کی داستان تھی۔ ایک حورعین کو نیچا دکھانے کی کوشش میں ہانپ رہا تھا اور دوسری صرف مقیت کو تکلیف پہنچانے کے لیے یہ سب کررہی تھی کیوں کہ وہ جان چکی تھی کہ حورعین کے حوالے سے مقیت خاصا حساس ہے اور اسی بات کا فائدہ دانیہ نے اٹھایا۔ مقیت اپنافرض سمجھتا تھا کہ وہ ایک بار سعدی سے مل کر یہ بات واضح کر لے، اس کے دل میں موجود تمام بدگمانیوں کو دور کرنے کی کوشش کرے جب کہ وہ جانتا تھا کہ اس معاملے میں حورعین کبھی اس کا ساتھ نہ دے گی کیوں کہ اس کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جو آگے بڑھنے کے بعد پیچھے مڑ کر دیکھنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اب جو کرنا تھا اسے خود ہی کرنا تھا۔ کم از کم وہ اپنی پوزیشن کلیئر کرنا چاہتا تھا۔
٭…٭…٭





وہ آج کافی دنوں بعد فرزین اور مانو کے ساتھ شاپنگ مال آئی تھی جہاں انہیں بابر بھائی ڈراپ کرکے اپنے آفس کے کسی کام سے چلے گئے تھے اور واپسی میں انہوں نے ان دونوں کو پک کرنا تھا۔ اب تقریباً تین سے چار گھنٹے تک وہ دونوں بہنیں فری تھیں اور یہ اچھا خاصا ٹائم تھا جس میں ان کی شاپنگ مکمل ہوسکتی تھی اگر انہیں سعدی نظر نہ آجاتا۔ وہ اور فرزین اپنے لیے ہینڈ بیگ دیکھ رہی تھیں کہ اچانک اس کی نگاہ سعدی پر پڑی جو اکیلا نہ تھا بلکہ اس کے ساتھ دانیہ بھی تھی جسے آج پہلی بار حورعین نے دیکھا تھا۔
’’سعدی کے ساتھ غالباً وہی لڑکی ہے جس سے اسے اتنی محبت ہوئی کہ وہ تمہیں بھلا بیٹھا۔‘‘
فرزین نے اپنے ہاتھ میں پکڑا ہینڈ بیگ واپس رکھتے ہوئے کہا۔ حورعین کی سفید رنگت سرخ پڑ گئی تھی۔ وہ ایک جذباتی لڑکی تھی۔ سعدی نے شاید انہیں دیکھ لیا تھا جس کا اندازہ اس کی حرکتیں دیکھ کر بہ خوبی لگایا جاسکتا تھا اور اس پل حورعین کو دل سے افسوس ہوا محض اپنی ضد اور انا میں یہ شخص کیا کرنے جارہا ہے اسے خود اندازہ نہیں۔ اونچا لمبا، گورا چٹا سعدی اور کہاں دبلی پتلی سانولی سی دانیہ،اس سے قطع نظر اس کی چھچھوری حرکتیں دیکھ کر یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ یہ لڑکی سعدی کی من پسند ہونے کا اعزاز رکھتی ہے۔ اس نے سعدی کے بازو کو اس مضبوطی سے تھام رکھا تھا جیسے گرفت ڈھیلی پڑتے ہی وہ کہیں بھاگ جائے گا۔ حورعین کو بے اختیار ہنسی آگئی جب اس کی بات سننے کے لیے سعدی اتنا جھکا کہ بگڑا عاشق دکھائی دینے لگا۔
’’عقل دیکھو اس لڑکے کی ، تمہارے مقابلے میں کس لڑکی کو لاکھڑا کیا۔‘‘
’’میرے مقابلے میں…؟‘‘اس نے فرزین کی جانب دیکھا۔
’’یہ اس کی محبت ہے فرزین میرا مقابلہ نہیں۔‘‘سعدی کے ساتھ خوب چہک کر چلتی ہوئی دانیہ کو دیکھ کر وہ بولی۔
’’بہت پچھتائے گا یہ، اس نے ہمارا دل دکھایا ہے۔‘‘فرزین نے دُکھ سے کہا۔
’’کمال ہے جب اس کی کسی حرکت نے مجھے دکھ نہیں پہنچایا تو بھلا تمہارا دل کیوں دکھ گیا۔ فرزین محبت کا تعلق دل سے ہوتا ہے اور جب اس کا دل دانیہ سے مل گیا تو ہم کون ہوتے ہیں بلاوجہ ظالم سماج بننے والے، چھوڑو اسے اور آؤ ہم اپنی شاپنگ مکمل کریں۔‘‘
دانیہ کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے سعدی کو دیکھ کر اسے بہت کچھ یاد آیا۔ یہ وہ شخص تھا جو کہتا تھا کہ مجھے گھن آتی ہے ان لڑکیوں سے جن کے جسم کا کوئی بھی حصہ غیرمرد چھوتا ہے اور بہ قول اس کے ’’تمہارے ہاتھ ضرور مقیت نے چھوئے ہوں گے اس لیے جب بھی میں تمہارے یہ خوب صورت ہاتھ دیکھتا ہوں مجھے ان پر سانپ رینگتے محسوس ہوتے ہیں۔‘‘ وہی شخص آج اتنی بے باکی سے دانیہ کے ساتھ تھا کہ نہ صرف اسے بلکہ فرزین کو بھی حیرت ہورہی تھی۔
’’سعدی ہمیشہسے ہی ایسا تھا خود غرض اور سانپ کی فطرت والا ہم ہی اسے نہ سمجھ پائے۔‘‘
وہ جانتی تھی کہ سعدی اور ان کا ساتھ بچپن کا تھا، اس لیے اسے فرزین کے اس قدر دکھی ہونے پر کوئی اعتراض نہ تھا مگر سعدی ہمیشہسے ایسا تھا یہ بات غلط تھی، وہ فرزین کو ٹوکے بنا نہ رہ سکی۔
’’سعدی ایسا نہیں تھا فرزین اور یہ بات تم بھی اچھی طرح جانتی ہو۔ بات صرف اتنی ہے کہ وہ ایک مرد ہے جسے یہ سوچ تکلیف دے رہی ہے کہ میں نے اسے مقیت کی خاطر چھوڑ دیا بس اس بات کو غلط ثابت کرنے کے لیے وہ سب کو دکھانا چاہتا ہے کہ میں نے نہیں بلکہ اس نے مجھے دانیہ کی خاطر چھوڑا ہے اور یہ ثابت کرنے کے لیے وہ بے حال ہوا جارہا ہے۔‘‘
’’جو بھی ہے حورعین سعدی اچھا نہیں کررہا۔‘‘ فرزین ابھی بھی دکھی تھی۔
’’جو وہ کررہا ہے وہ اس کا مسئلہ ہے تم چھوڑو اور آؤ میرے ساتھ۔‘‘
اس نے فرزین کا بازو پکڑ کر اسے اپنے ساتھ گھسیٹ لیا حالاں کہ سعدی اور دانیہ کو اس طرح ساتھ دیکھ کر تکلیف اسے بھی ہوئی تھی مگر وہ ہمیشہ اپنے رب کی رضا میں راضی رہنے والی لڑکی تھی۔ اس کی یہ تکلیف پل بھر میں غائب بھی ہوگئی۔
٭…٭…٭
’’کیوں کررہی ہو تم یہ سب؟‘‘ دانیہ کے کال ریسیو کرتے ہی مقیت نے غصے سے پوچھا۔ اس نے آج ہی راشیل سے اس کا نمبر لیا تھا۔
’’کون بات کررہا ہے؟‘‘دوسری طرف دانیہ کا لہجہ حیرت بھرا تھا کیوں کہ اس سے قبل اس کی آج تک مقیت سے کبھی فون پر بات نہ ہوئی تھی۔
’’مقیت بول رہا ہوں‘‘
’’اوہ! آپ نے آج کیسے مجھے یاد کرلیا۔‘‘کچھ پل قبل والی حیرت یک دم خوشی میں بدل گئی۔
’’مجبوری تھی جو تمہیں یاد کرنا پڑا۔‘‘ وہ جلے کٹے انداز میں بولا۔
دانیہ کھلکھلائی۔
’’تم نے سعدی کو کیوں بھڑکایا ہے حورعین کے خلاف۔‘‘
’’تم سے کس نے کہا کہ میں نے ایسا کچھ کیا ہے؟‘‘
’’مجھے بیوقوف بنانے کی کوشش مت کرو دانیہ۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں تم نے میری چیٹ کو غلط رنگ دے کر اسے پیش کیا ہے۔ حورعین کے حوالے سے ہم دونوں کے درمیان ہونے والی سرسری گفتگو کو بڑھا چڑھا کر سعدی تک پہنچایا۔ یہاں تک کہ میری آئی ڈی سے نکالی ہوئی ہم دونوں کی تصاویر بھی اسے سینڈ کیں۔ حد ہے دانیہ، تم سے دوستی کرنے سے قبل مجھے بالکل اندازہ نہ تھا کہ تم اس قدر تنگ نظر لڑکی ہو جو محض اپنی انا کی تسکین کے لیے دوسروں کی اچھی بھلی زندگی میں زہر گھولتے ہوئے ذرا شرم محسوس نہیں کرتی۔‘‘مقیت تیزی سے بولتا چلا گیا۔
’’بس یا ابھی کچھ اور کہنا باقی ہے؟‘‘مقیت کے خاموش ہوتے ہی اس نے نہایت اطمینان سے سوال کیا۔
’’بہت بے وقوف ہو تم دانیہ محض اپنی انا کی تسکین کے لیے کھیلے جانے والے اس کھیل میں سارا نقصان تمہارا ہوا اور میرا سراسر فائدہ جس کا تمہیں احساس تک نہیں۔‘‘
اس کی فطرت دیکھتے ہوئے مقیت نے اگلے ہی پل پینترا بدلا۔
’’کیا مطلب؟ میں تمہاری بات سمجھی نہیں۔‘‘
’’مطلب یہ کہ تم نے جو کھیل کھیلا اس کے نتیجہ میں حورعین اور سعدی کا رشتہ ختم ہوگیا۔ سوچو ذرا تمہاری اس حرکت سے کسے فائدہ ہوا؟ ظاہر ہے مجھے کیوں کہ اب جلد ہی میں حورعین سے شادی کرنے والا ہوں۔ تمہارا شکریہ جو اس مسئلے کو حل کرنے میں تم نے میرا ساتھ دیا ورنہ یقین جانو میرے لیے یہ سب کچھ کرنا قطعی ناممکن ہوتا۔ تھینک یو سو مچ دانیہ مجھے امید نہ تھی تمہاری چند روزہ دوستی میرے اس قدر کام آئے گی۔‘‘
’’اوہ!‘‘یہ سب تو دانیہ نے سوچا ہی نہ تھا۔ اسے سمجھ ہی نہ آیا اب وہ مقیت کو کیا جواب دے۔ حورعین کو نیچا دکھانے کا اس کا خواب ادھورا رہ گیا۔ وہ غلط سمجھی تھی کہ روتی کرلاتی حورعین کی محبت مقیت کو اس کے سامنے جھکا دے گی یہاں تو پانسہ ہی پلٹ گیا اور بازی خود بہ خود مقیت کے حق میں چلی گئی۔ مقیت فون بند کر چکا تھا وہ اپنا سر تھام کر وہیں قریب رکھی کرسی پر ڈھے سی گئی۔ جب کہ مقیت نے پانسہ پھینک دیا تھا اور اسے امید تھی کہ جلد ہی کوئی اچھا نتیجہ اس کے سامنے آئے گا اور اپنے حوالے سے حورعین کی زندگی میں آنے والی اس تباہی کا ذمہ دار جو وہ خود کو سمجھ رہا تھا تو اپنے تئیں اس نے اس مسئلے کو حل کرنے کی ایک کوشش ضرور کی تھی اور اُس کے بعد سارا معاملہ اللہ پر چھوڑ کر وہ مطمئن ہوگیا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

سمیٹ لو برکتیں — مریم مرتضیٰ

Read Next

اپنا کون — تنزیلہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!