اعتبار، وفا اور تم — نفیسہ سعید

وہ کب سے اپنے فون سکرین پر جگمگاتی حورعین کی تصویر دیکھ رہا تھا، اسے یقین ہی نہ آرہا تھا کہ وقت کیوں اور کیسے اتنی تیزی سے بدلا کہ حورعین اس کی دسترس سے کہیں دور جا کھڑی ہوئی۔ وہ حورعین جو کبھی اس کی اپنی تھی، جو اس کی زندگی تھی، آج ایسے اجنبی ہوگئی جیسے کبھی تھی ہی نہیں، سعدی کو بہت سوچنے پر بھی کہیں اپنا قصور دکھائی نہ دیا۔ اسے لگا جیسے حورعین نے محض اپنی ضد اور انا کی خاطر مقیت کے لیے اسے ٹھکرا دیا اور اس احساس کے ساتھ بھی دل میں عود آنے والی حورعین کی محبت یک دم ہی کہیں غائب ہوگئی اور اس کی جگہ غُصے نے لے لی۔ دلی کیفیت بدلتے ہی اس نے موبائل سکرین پر دکھائی دینے والی تصویر بھی بدل ڈالی۔ اسی وقت اس کے فون پر دانیہ کی کال آگئی جو اس سے فوراً ملنا چاہتی تھی۔ سعدی کو لگا شاید وہ کچھ الجھی ہوئی ہے۔
’’سب خیریت تو ہے؟‘‘ وہ پوچھے بنا نہ رہ سکا۔
’’ہاں خیریت ہی ہے مگر میرا تم سے فوراً ملنا بہت ضروری ہے جیسے بھی ہو مجھ سے ابھی ملو۔‘‘
’’ٹھیک ہے میں آرہا ہوں۔‘‘اور پھر دانیہ سے ملتے ہی جو کچھ اس نے مقیت اور حورعین کے حوالے سے اسے بتایا وہ اس کہانی سے قطعی مختلف تھا جو آج تک وہ خود سعدی کو سناتی رہی تھی۔
’’یقین جانو سعدی مقیت کے نظرانداز کرنے نے مجھ اس قدر تپایا کہ میں اپنے حواس ہی کھو بیٹھی اور بنا سوچے سمجھے ان دونوں کی دوستی کو غلط رنگ دے کر تمہارے سامنے پیش کردیا۔‘‘
’’اور اگر میں تمہاری بات مان بھی لوں تو پھر وہ تصاویر…‘‘وہ ابھی بھی ناقابل یقین کیفیت میں گھرا ہوا تھا۔
’’وہ بھی میں نے ایڈیٹ کی تھیں۔‘‘آج وہ اپنے ہر جرم کا اعتراف کیے جارہی تھی بنا سوچے کہ اس کی ان بچگانہ حرکتوں سے کتنے لوگوں کو تکلیف پہنچی تھی، مگر شاید اس کے نزدیک ان تمام باتوں کی کوئی اہمیت ہی نہ تھی۔
’’اور اگر میں یہ کہوں کہ میری ان حرکتوں کو جلا تمہاری بے اعتباری نے بخشی تو کچھ غلط نہ ہوگا۔‘‘
سعدی کے چہرے پر چھپی ناگواری اور غصہ کی کیفیت محسوس کرتے ہی وہ جلدی سے اپنی صفائی دیتے ہوئے بولی۔
’’یقین جانو اگر تمہیں حورعین کی محبت پر اعتبار ہوتا، اگر تم مقیت کے حوالے سے اس کے کردار پر شک نہ کرتے تو میں بھی کبھی وہ سب نہ کرتی جو میں نے کیا کیوں کہ یہ ہماری خود کی بے اعتباری ہوتی ہے جو ہمارے اپنوں کو ہم سے دور کردیتی ہے اور اس سارے معاملے میں سچ تو یہ ہے کہ تم خود زیادہ قصور وار ہو نہ تم مجھ سے حورعین کی کوئی بات شیئر کرتے اور نہ میں یہ سب کرنے کی حماقت ہی کرتی، کوئی دوسرا تمہیں وہاں آکر بہکاتا ہے جہاں محبت اور اعتبار نہیں ہوتا۔‘‘
وہ اپنا ہینڈ بیگ اٹھا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔





’’بہرحال جو بھی ہے ہوسکے تو اس سارے معاملے میں مجھے معاف کردینا اور آئندہ کوشش کرنا کہ گھر کی بات گھر میں ہی رکھو۔ اسے یوں سرعام انجان لوگوں سے ڈسکس نہ کرو اور محبت میں اعتبار کرنا سیکھو اور اگر نہ سیکھ سکو تو پھر بہتر یہ ہوگا کہ محبت ہی نہ کرو۔‘‘
جاتے جاتے وہ اسے آئینہ دکھانا نہ بھولی تھی۔ جب سے اسے مقیت نے بتایا تھا کہ وہ حورعین سے شادی کرنے والا ہے۔ دانیہ کا دل ہر معاملے سے اچاٹ ہوگیا تھا۔ کیوں کہ جو بھی تھا سعدی اس کی منزل کبھی نہ تھا۔ وہ دانیہ کے ٹائپ کا بندہ ہی نہ تھا۔ یہ تو صرف مقیت کو نیچا دکھانے کی ایک کوشش تھی جس میں وہ بری طرح ناکام ہوگئی تھی لہٰذا اب بہتر تھا کہ اس کھیل کو یہیں ختم کر دیا جائے اور یہ سوچ کر اپنے تئیں اس نے سارا معاملہ سمیٹ دیا اور چلتی بنی جب کہ پیچھے رہ جانے والے سعدی کی سمجھ میں نہ آیا کہ اب وہ کیا کرے۔
٭…٭…٭
’’جہاں تک میں سمجھتی ہوں سعدی اس ساری کہانی میں اس لڑکی کا کوئی قصور نہیں بلکہ ساری غلطی تمہاری ہے تمہیں خود شروع سے مقیت اور حورعین کے درمیان کوئی چکر دکھائی دے رہا تھا اب بلاوجہ ساری بات دانیہ کے سر تھوپ کر بری الذمہ ہونے کی کوشش مت کرو۔ وہ تو ویسے بھی کم عمر، ناسمجھ، اور لاابالی سی لڑکی تھی مگر تم تو سمجھ دار تھے کیسے اس کی باتوں میں آگئے۔‘‘جویریہ نے ساری بات سن کر بیٹے کو بری طرح لتاڑا۔
’’وہ سب کچھ جو تم خود اپنے دوستوں کے سرکل میں کرتے رہے ہمیشہ جائز تھا اور جہاں کہیں ضرورت کے تحت حورعین نے مقیت سے بات کی تم نے اسے غلط رنگ دے دیا۔‘‘
’’جو بھی ہے مما مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوچکا ہے اس لیے پلیز آپ آنٹی سے بات کریں اور جس قدر جلد ممکن ہوسکے میرا حورعین سے نکاح کردیں اب میں مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔‘‘ اس نے ہتھیلی پر سرسوں جمانا چاہی۔
جویریہ نے پلٹ کر بیٹے کی شکل دیکھی، پل میں تولہ اور پل میں ماشہ، ایسے جیسے زندگی نہ ہوئی کوئی مذاق ہو گیا۔’’تم تو ایسے کہہ رہے ہو جیسے سب ختم ہونے کے بعد دوبارہ شروع کرنا بے حد آسان ہو۔‘‘
’’میں نے کچھ ختم نہیں کیا تھا وہ محض غصہ تھا اور غصہ میں انسان کچھ بھی کرسکتا ہے۔ یہ بات تو شاید آپ سب بھی جانتے ہی ہوں گے۔‘‘ سعدی کی ڈھٹائی عروج پر تھی۔
’’اسی لیے غصہ ہمارے مذہب میں حرام ہے اور سوچو ذرا اگر منگنی کے بجائے حورعین پہلے ہی تمہارے نکاح میں ہوتی تو کیا تمہارے غصہ میں اٹھائے گئے کسی غلط قدم کے بعد صلح کی کوئی گنجائش باقی رہ جاتی؟‘‘
ممی کی بات تو کسی حد تک درست تھی مگر اب کیا ہوسکتا تھا۔ گزرا وقت تو واپس نہیں لوٹایا جاسکتا تھا ہاں البتہ اگر گنجائش موجود ہو تو پچھلی غلطیوں کو ضرور سدھارا جاسکتا ہے اور اس لمحہ ایسی ہی خواہش سعدی کے دل میں بھی جاگ اٹھی تھی۔
’’ٹھیک ہے ممی میرا خیال ہے کہ پہلے میں حورعین سے خود بات کرکے معافی مانگ لوں پھر آپ آنٹی سے بات کیجئے گا۔‘‘
’’چلو ایک کوشش کرکے دیکھ لو اگر وہ مان جائے تو‘‘
جہاں تک جویریہ، حورعین کو جانتی تھی انہیں قطعی امید نہ تھی کہ اتنی آسانی سے یہ سارا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ پھر بھی سب کچھ سعدی پر چھوڑ کر وہ ایک طرف ہوگئیں کیوں کہ اس سے بہتر اس مسئلے کا حل ان کے نزدیک فی الحال کوئی اور نہ تھا۔
٭…٭…٭
حورعین نے جب سے یہ سنا تھا کہ سعدی اس سے ملنا چاہتا ہے وہ ایک شش و پنج کی کیفیت کا شکار تھی، آیا ملے یا نہ ملے۔ اس کا دماغ سعدی سے ملنے اور بات کرنے پر قطعی آمادہ نہ تھا جب کہ دل کہتا تھا کہ اسے ضرور ملنا چاہیے تاکہ یہ جان سکے کہ اب وہ کیا چاہتا ہے؟ کون سا نیا الزام ہے جو اب وہ حورعین کی ذات پر لگانا چاہتا ہے؟ یہ سوچ کر اس نے فرزین کو اپنی رضامندی کا عندیہ دے دیا۔ اگلے دن ہی سعدی نے اسے لنچ پر انوائٹ کیا۔ بہت سی تلخ یادیں من میں آتے ہی حورعین کو الجھا گئیں مگر چوں کہ وہ وعدہ کرچکی تھی اس لیے فی الحال خاموشی کو ہی بہتر جانا اور ضروری سمجھا کہ چوبیس گھنٹے گزرنے کا انتظار کیا جائے جس کے بعد علم ہو سکے کہ اب اس کے دل و دماغ میں کیا چل رہا ہے۔
دو ہفتیمزید گزر گئے وہ بھول گیا کہ اس کی کبھی دانیہ سے کوئی بات بھی ہوئی تھی۔ اگر اس شام حورعین کا فون نہ آجاتا۔
’’تم سعدی سے ملے تھے؟‘‘کال ریسیو کرتے ہی اس کی طرف سے پوچھے گئے اس سوال نے مقیت کو ایک پل کے لیے ساکت کردیا۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا وہ کیا جواب دے۔
’’ہیلو… ہیلو… مقیت۔‘‘
اسے خاموش پا کر حورعین نے زور سے پکارا مبادا کہیں فون کی لائن کٹ گئی ہو۔
’’ایسا کیا ہوگیا جو تم بنا سلام دعا کیے مجھ پر چڑھ دوڑی ہو۔‘‘
’’تم سعدی سے ملے تھے یا نہیں میری بات کا جواب دو۔‘‘
ایسے جیسے حورعین نے اس کی بات سنی ہی نہ ہو۔
’’سعدی سے تو نہیں البتہ دانیہ سے ضرور ملا تھا اور وہ بھی اب پرانی بات ہوگئی۔ جانے دو اور یہ بتاؤ تمہارا آج کا پیپر کیسا ہوا؟‘‘
وہ اس موضوع کی طرف نہیں آنا چاہتا تھا اس لیے حورعین کا ذہن دوسری طرف لے جانے کی کوشش کرتا ہوا یہ بھول گیا کہ وہ اتنی آسانی سے کوئی بات چھوڑنے والوں میں سے نہ تھی۔
’’تم اس وقت کیا کررہے ہو؟‘‘ ایسے جیسے سب کچھ اس کی سمجھ میں آگیا ہو۔
’’کچھ نہیں جم جانے کی تیاری کیوں؟‘‘
جواب کے ساتھ مقیت نے سوال بھی کرلیا۔
’’آج جم سے چھٹی کرو اور دو بجے تک کیفے پلازمہ پہنچ جاؤ میں وہیں جارہی ہوں۔‘‘
’’کیوں خیریت ہے؟‘‘
جانے کیوں مقیت کو لگا کہ ضرور کوئی خاص بات ہے ورنہ وہ کبھی اسے اس طرح ہنگامی طور پر نہ بلواتی۔
’’ہاں…‘‘
اس کے ساتھ ہی کھٹاک سے فون بند ہوگیا اور پھر مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق مقیت دو بج کر دس منٹ پر جب حورعین کے بتائے ہوئے کیفے پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہاں حورعین اکیلی نہ تھی بلکہ سعدی بھی اس کے ساتھ تھا جسے دیکھ کر مقیت کے دل میں جیسے کوئی پھانس سیچبھ گئی مگر بہ ظاہر وہ مسکراتا ہوا ان دونوں کے قریب جا پہنچا۔
’’ارے مقیت آؤ یار ہم تمہارا ہی انتظار کررہے تھے۔‘‘




Loading

Read Previous

سمیٹ لو برکتیں — مریم مرتضیٰ

Read Next

اپنا کون — تنزیلہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!