اعتبار، وفا اور تم — نفیسہ سعید

دانیہ کا عمران سے جھگڑا ہوگیا جس کی بنا پر وہ آج کل بہت ڈسٹرب تھی کبھی کبھی تو راشیل کو اُسے دیکھ کر حیرت ہوتی کہ یہ کیسی لڑکی تھی جسے ہر دو ماہ بعد کسی نئے لڑکے سے محبت ہوجاتی یا پھر جس سے وہ محبت کرتی وہ لڑکا کسی اور لڑکی کو اپنا دل دے بیٹھتا اُسے کچھ سمجھ نہیں آتا تھا۔ عجب گورکھ دھندہ تھا۔ ان کے نزدیک محبت کی کوئی حیثیت نہ تھی سوائے ٹائم پاس کے۔ ابھی بھی راشیل کو دانیہ کی زبانی یہ جان کر بہت دکھ ہوا کہ عمران، دانیہ کی کسی اور دوست کو پسند کرنے لگا تھا جس کی بنا پر وہ دانیہ سے بریک اپ چاہتا تھا بہ قول دانیہ وہ عمران کے بنا مر جائے گی اور راشیل یہ جانتی تھی کہ ایسا کچھ نہ ہوگا یہ صرف وقتی رونا دھونا تھا چند دن بعد سب ٹھیک ہوجاتا۔ وہی عمران ہوگا اور وہی دانیہ فرق صرف اتنا آنا تھا کہ دونوں کے درمیان موجود رشتہ تبدیل ہوجاتا۔ دو سالوں میں راشیل اتنا سب کچھ تو دانیہ کے متعلق جان ہی چکی تھی اس لیے اُسے دانیہ کے اس وقتی ڈسٹرب ہونے سے کوئی فرق نہ پڑا سوائے اس کے کہ وہ سارا دن فون کرکے راشیل کا دماغ کھاتی رہتی۔ فون پر تو واقعی اُسے ایسا محسوس ہوتا جیسے وہ بہت پریشان ہے مگر جب وہ اپنے پریکٹیکل کے لیے کالج آئی تو راشیل اُسے دیکھ کر حیران رہ گئی کیوں کہ وہ ہمیشہ کی طرح کافی فریش لگ رہی تھی۔ یونی فارم میں سالونی رنگت پر شوکنگ پنک لپ اسٹک کے ساتھ اُسے دیکھ کر راشیل کے ذہن میں ایک دم گولا گنڈا کا خیال آیا اور اس خیال کے آتے ہی وہ خود بہ خود ہنس دی۔
’’کیا بات ہے آج بڑی خوش نظر آرہی ہو؟‘‘
اپنی چھوٹی سی پونی ہلاتی وہ اچھل کر راشیل کے قریب رکھے اسٹول پر بیٹھ گئی۔
’’ویسے ہی کچھ یاد آگیا۔‘‘
جواب دے کر راشیل نے دیکھا وہ اپنے موبائل پر اس برُی طرح مصروف تھی کہ اُسے آس پاس کا بھی ہوش نہ تھا۔
’’تم فون بند کرکے بیگ کے اندر رکھ دو مسز عمزہ نے دیکھ لیا تو چھین لیں گی۔‘‘ اُس نے فوراً ہی دانیہ کا کندھا ہلا کر اُسے خبر دار کیا۔
’’یہ تصویر دیکھو۔‘‘
اس کی بات کا جواب دیے بغیر دانیہ نے اپنا سیل راشیل کے سامنے کردیا جہاں اسکرین پر مقیت اور اس کی دوست حور عین کی تصویر تھی۔
’’تم نے یہ تصویر کہاں سے لی؟‘‘
اُسے دانیہ کے سیل میں مقیت کی یہ تصویر کچھ عجیب سی لگی۔
’’ارے مقیت کی اپنی آئی ڈی سے اور کہاں سے لیتی۔‘‘
’’اچھی ہے نا۔‘‘





’’وہ تم سے بہت بڑے ہیں اس لیے مقیت بھائی کہا کرو۔‘‘
دانیہ کا اس طرح مقیت کہنا، راشیل کو بالکل اچھا نہ لگا۔
’’ میں کسی کو بھائی نہیں کہتی سوائے اپنے بھائی کے۔‘‘
کھٹاک سے جواب دے کر اُس نے اپنا سیل بیگ میں ڈال لیا۔
’’تم نے یہ تصویر کیوں نکالی ہے؟‘‘
دانیہ کے جواب سے زیادہ راشیل کا دھیان ابھی تک اُس تصویر میں اٹکا ہوا تھا جو چند لمحے قبل وہ اُس کے سیل میں دیکھ چکی تھی۔
’’بس ایسے ہی۔‘‘
وہ کندھے اچکاتے ہوئے بولی۔
’’ایڈٹ کررہی تھی کیوں کہ میں آج کل ایڈیٹنگ کا کام سیکھ رہی ہوں پھر اپنی طرف سے مقیت کو گفٹ کروں گی اور مجھے یقین ہے وہ یہ تصویر دیکھ کر بہت خوش ہوگا۔‘‘
اپنی طرف سے اُسے مطمئن کرکے وہ اسٹول سے نیچے اتر گئی کیوں کہ پریکٹیکل شروع ہوگیا تھا اور لیب اسسٹنٹ نے کاپیاں بانٹنی شروع کردی تھیں۔ پریکٹیکل میں مصروف ہونے کے باعثچند ہی لمحوں میں راشیل کے دماغ سے وہ تصویر نکل گئی جس نے اسے بہت دیر سے ذہنی طور پر اُلجھا رکھا تھا۔
٭…٭…٭
وہ اپنے سامنے پھیلے کاغذات کو جانے کب سے تکے جارہی تھی۔ جب فرزین اس کے پیچھے آن کھڑی ہوئی۔
’’حورعین…‘‘
حورعین نے جیسے ہی اُس کی آواز سنی یک دم چونکی۔
’’ارے تم کب آئیں؟‘‘
کئی دنوں بعد بہن کو اس طرح اچانک اپنے سامنے دیکھ کر جیسے وہ خوشی سے کھل اُٹھی۔
اُسے لگا فرزین کچھ الجھی الجھی سی تھی یا شاید وہ پریشان تھی۔
’’مانو کہاں ہے؟‘‘
بہن سے زیادہ اُسے اپنی ایک سالہ بھانجی میں دل چسپی تھی اس لیے بھی بے قرار ہوکر پوچھ بیٹھی۔
’’دراصل مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنا تھی اس لیے مانو کو امی کے حوالے کر آئی ہوں تاکہ وہ ہم دونوں بہنوں کی خلوت کو ڈسٹرب نہ کرسکے۔‘‘
اوہ تو اُسے ٹھیک لگا فرزین واقعی کچھ الجھی ہوئی تھی اور الجھن بھی کوئی ایسی جس کا تعلق کسی نہ کسی حوالے سے اُس سے تھا۔ اُس نے کچھ نہ پوچھا اور واپس اپنی اُسی کرسی پر جا بیٹھی، جہاں سے وہ فرزین کی آمد سے قبل براجمان تھی۔
’’پوچھو گی نہیں کہ وہ ضروری بات کیا ہے؟‘‘
’’ظاہر ہے جب تم مجھ سے بات ہی کرنے آئی ہو تو میرے پوچھے بنا ہی بتا بھی دو گی۔‘‘
بے پروائی سے کندھے اُچکاتے ہوئے وہ ایسے بولی جیسے اُسے فرزین کی کسی بات سے کوئی دل چسپی نہ ہو۔ فرزین نے توقف سے کہا :
’’دیکھو حورعین مجھے کل سعدی کا فون آیا تھا۔‘‘
’’اچھا! اُس کے پاس اتنا ٹائم تھا کہ وہ تم سے فون پر بات کرسکے۔‘‘
اپنی دو سالہ بڑی بہن کی حیرت دیکھتے ہوئے وہ طنزیہ بولی۔
’’ میں تو جب بھی بات کرنا چاہتی ہوں وہ کہیں نہ کہیں بزی ہوتا ہے کبھی ڈرائیونگ میں، کبھی کلاس میں اور کبھی پاپا کے ساتھ ۔آج پورے دس دن ہوگئے اُسے مجھے نظر انداز کرتے ہوئے۔‘‘
وہ شکوہ نہیں کرنا چاہتی تھی مگر خود بہ خود شکوہ لبوں تک آگیا یا شاید اپنوں کو سامنے دیکھتے ہوئے انسان خود پر اختیار کھو بیٹھتا ہے۔ ایسا ہی اس وقت حورعین کے ساتھ ہوا جس کی گیلی آنکھیں اس پل وہ سب کہہ گئیں جو وہ آج تک کسی سے نہ کہہ پائی تھی۔
’’ سعدی کہتا ہے کہ تم اُسے نظر انداز کررہی ہو جب کہ تم کہتی ہو کہ سعدی، بہرحال جو بھی ہو مجھے تو صرف تمہیں اتنا سمجھانا ہے کہ ممی چوں کہ تمہاری شادی کرنا چاہ رہی ہیں اس لیے پلیز تم دونوں بیٹھ کر اپنے درمیان موجود غلط فہمیوں کو آپس میں ہی حل کرلو۔‘‘
وہ جانتی تھی کہ یہ اُس کا آخری سمیسٹر ہے اور یقینا اسی کے بعد ممی کا ارادہ اُس کی شادی کا ہے۔
’’کیا یہ تم سے سعدی نے کہا کہ وہ میرے ساتھ بیٹھ کر تمام مسائل کو حل کرنا چاہتا ہے؟‘‘
اس کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ سعدی اُس کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنا چاہ رہا ہے۔ تمام مسائل حل کرنا چاہتا ہے۔
’’نہیں میں خود سے یہ مشورہ تم دونوں کو دے رہی ہوں۔‘‘
فرزین کے جملینے اُس کے دل میں موجود غلط فہمی کو دور کردیا۔
’’دیکھو حورعین شادی کوئی ایک دو دن کا کھیل نہیں یہ زندگی بھر کا ساتھ ہے اور اُس ساتھ کو شروع کرنے سے قبل ضروری ہے کہ تم دونوں پہلے والے سعدی اور حورعین بن جاؤ جو ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کی بات مانی جائے اور ایک دوسرے کا دل سے احترام کیا جائے۔‘‘
’’تمہیں سعدی نے فون کیوں کیا تھا کیا صرف یہ بتانے کے لیے کہ میں اُسے نظر انداز کررہی ہوں؟‘‘
’’دراصل سعدی چاہتا ہے کہ تم مقیت اور اس میں سے کسی ایک کو چُن لو۔‘‘
فرزین کے الفاظ نے جیسے اُسے زمین میں گاڑ دیا اور وہ اپنی ہی نظروں میں گر گئی۔
’’سعدی کا مقیت سے کیا مقابلہ فرزین؟‘‘
اُسے سعدی کی سوچ نے بہت دکھ دیا۔
’’مقابلہ…؟‘‘
فرزین کو حیرت ہوئی۔
’’ارے وہ تو بلا مقابلہ بھی مقیت کے لیے اپنی جگہ خالی کرنے کو تیار ہے۔ وہ بے وقوف کہتا ہے کہ اگر حورعین چاہتی ہے تو پلیز آپ لوگ اُسے مجبور مت کریں اور اس کی شادی مقیت سے کردیں۔‘‘
’’یہ تم سے سعدی نے کہا؟‘‘
ایسے جیسے اُسے یقین ہی نہ آیا ہو۔
’’میں نہیں مانتی وہ ایسا نہیں کہہ سکتا ابھی کچھ دن قبل ہی تو اُس نے مجھے یقین دلایا تھا کہ وہ میرے بغیر رہ نہیں سکتا پھر کیسے؟‘‘
’’نیور… ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘
وہ آہستہ آواز میں کہہرہی تھی فرزین کو لگا جیسے وہ رو رہی ہو۔
’’دیکھو حورعین سعدی ایک مرد ہے، ایک عام مرد جو انا کا مارا ہوتا ہے اور چاہتا ہے جو عورت اس سے منسوب ہو وہ اُسی کے دماغ سے سوچے اس کے دل سے سنے یا اس کی نظر سے دیکھے بالکل ایسے جیسے اُس کے پاس اپنا کچھ بھی نہ ہو اور یقین جانو دنیا کا ہر مرد ایسا ہی ہوتا ہے اپنی محبت میں شدت پسند اور انا کا مارا ہوا۔‘‘
’’معاف کرنا فرزین ہوسکتا ہے ہر مرد ایسا ہو مگر یقین جانو مقیت ایسا مرد نہیں ہے۔‘‘
الفاظ خود بہ خود اُس کے منہ سے پھسل گئے۔ فرزین اس کی بات سن کر خاموش رہی۔
’’مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ مجھے پسند ہے یا مجھے اُس سے محبت ہوگئی ہے۔ خدا گواہ ہے ایسا کچھ نہیں ہے میں بس ایک عام بات کررہی ہوں کیوں کہ وہ میرا ایک اچھا دوست ہے۔‘‘
فرزین کہیں کچھ غلط نہ سمجھ لے اس لیے اُس نے جلدی سے اپنی بات کی وضاحت کی۔
’’پھر بھی اگر تم چاہو تو میں سعدی سے بات کرلوں گی بلکہ کوشش کروں گی کہ مقیت بھی خود سعدی سے ہر بات کلیئر کرے اور ہر غلط فہمی کو دور کردے۔‘‘
اُسے محسوس ہوا جیسے سعدی کی طرح فرزین بھی اُس کے اور مقیت کے بارے میں کچھ غلط سوچ رہی ہے۔ اس لیے وہ فوراً سے بیش تر سعدی سے بات کرنے کو تیار ہوگئی۔
’’یہ تم نے اچھا فیصلہ کیا ہے اب کوشش کرو کہ جلد از جلد تم لوگ اپنے درمیان موجود تمام غلط فہمیوں کو دور کر لو تاکہ ہم تم دونوں کی شادی کی تاریخ رکھ سکیں۔‘‘
شاید فرزین اس کی طرف سے مطمئن ہوگئی تھی۔وہ سعدی سے مل کر کوئی بات کلیئر نہ کرسکی تھی کہ وہ سب کچھ ہوگیا جس نے اُس کی زندگی کو ایک بالکل نئے موڑ پر لاکھڑا کیا۔
٭…٭…٭
مقیت آج کل دانیہ سے بہت کم بات کررہا تھا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ راشیل کی باتیں سن کر اس لڑکی کو اپنے دوستوں کی فہرست سے فوراً خارج کردیتا مگر اپنی نرم فطرت کی بدولت چاہ کر بھی وہ ایسا نہ کرسکا۔ اب وہ دانیہ کو خاصا اگنور کرنے لگا تھا جب بھی اُس کا کوئی پیغام آتا وہ فوراً آف لائن ہوجاتا۔ بہت کم ایسا ہوتا کہ وہ اُسے جواب دیتا۔ ایسے میں دانیہ سمجھ جاتی اور خود ہی پیچھے ہٹ جاتی مگر شاید وہ نہ صرف ضرورت سے زیادہ ڈھیٹ بلکہ ایک ضدی لڑکی بھی تھی۔ مقیت اُسے جتنا اگنور کرتا تھا اتنا ہی وہ اس کی جانب آرہی تھی اور اب تو ویسے بھی وہ کئی دنوں سے آن لائن ہی نہ آیا تھا۔ اس کے امتحانات ہورہے تھے جن میں مصروفیت کے سبب اُسے فیس بک کھولنے کا وقت ہی نہ مل رہا تھا۔ دانیہ اُس کی مصروفیت دریافت کرنے کے لیے اُسے واٹس ایپ پر کئی پیغام بھیج چکی تھی جن کا مقیت نے کوئی جواب نہیں دیا اور نہ وہ دینا ہی چاہتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ دانیہ خود بہ خود اُس کی جان چھوڑ دے گی مگر یقینا اس کی یہ سوچ غلط تھی جس کا احساس اُسے آنے والے چند دنوں میں ہی ہوگیا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

سمیٹ لو برکتیں — مریم مرتضیٰ

Read Next

اپنا کون — تنزیلہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!