اعتبار، وفا اور تم — نفیسہ سعید

سعدی اسے دیکھتے ہی خوش دلی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ یہ یقینا اس سعدی سے قطعی مختلف تھا جو مقیت سے شدید نفرت کرتا تھا جب کہ اس کی بہ نسبت حورعین کا چہرہ بالکل سپاٹ تھا۔ مقیت سعدی سے مل کر اس کے برابر والی کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’سوری مقیت مجھے معاف کردینا یار میں تمہارے اور حورعین کے معاملے میں ہمیشہ غلط فہمی کا شکار رہا۔ جانے کیوں مجھے ایسا لگا جیسے حورعین مجھے نظرانداز کررہی ہے اور یقین جانو میرے اس ایک غلط اندازے نے سب غلط کردیا۔ بہرحال جو بھی ہے اب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو چکا ہے۔‘‘
حورعین نے سر اٹھا کر اپنے سامنے بیٹھے اس شخص کو دیکھا جس کے نزدیک گزرے ہوئے چھ ماہ کی وہ اذیت شاید کوئی اہمیت نہ رکھتی تھی جو اس کی اک ذرا سی غلط فہمی کے نتیجہ میں حورعین نے اٹھائی۔
’’اب مجھے حقیقت معلوم ہوگئی ہے دانیہ نے مجھے سب کچھ سچ بتا دیا ہے۔ وہ تصاویر جو اس نے ایڈٹ کی تھیں ان کے لیے وہ مجھ سے معافی کی طلب گار تھی اور میں نے اسے معاف کردیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ محض مقیت کی ضد میں وہ تم دونوں کو بدنام کر رہی تھی۔‘‘
ہر مسئلہ کو اپنے تئیں سلجھاتے ہوئے وہ داد طلب نگاہوں سے حورعین کی جانب تک رہا تھا جو نہایت خاموشی سے اس کی بات سن رہی تھی۔
’’میں جان گیا ہوں حورعین تم نے مجھے کبھی دھوکہ نہیں دیا اور یہ کہ تم صرف مجھ سے محبت کرتی ہو۔‘‘
’’ایک چھوٹی سی بات جاننے میں تم نے بہت دیر کردی سعدی، اتنی دیر کہ مانو جیسے وقت پھسل کر ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا ہو۔‘‘
مقیت نے چونک کر حورعین کے چہرے پر ایک نظر ڈالی جو عام دنوں کی نسبت خاصی سختی لیے ہوئے تھا۔ ماتھے پر پڑی تیوریاں اور بھنچے لب، وہ جانے کیا سوچ رہی تھی ابھی وہ مقصد سمجھ نہیں پایا تھا کہ سعدی کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔
’’اس میں ساری غلطی تمہاری ہے حورعین، تمہیں مجھ پر ہر بات واضح کرنا چاہیے تھی۔ بتانا چاہیے تھا کہ میں جو سوچ رہا ہوں وہ غلط ہے۔ بہرحال اب جو ہوا اسے جانے دو اور آؤ مل کر…‘‘
’’ایک منٹ سعدی…‘‘





حورعین نے اس کی بات مکمل ہوئے بنا ہی کاٹ دی۔
’’میں نے تمہیں دھوکہ نہیں دیا۔ یہ تو تم مانتے ہو نا، مگر تم نے مجھے دھوکہ ضرور دیا دانیہ کے ساتھ محبت کا کھیل کھیلتے ہوئے۔ ایک پل کو بھی تمہیں میرا احساس نہ ہوا۔‘‘
وہ شاید رو رہی تھی، مقیت کو ایسا لگا جیسے ان دونوں کے درمیان اس پل اس کا وجود بے معنی ہوگیا ہو۔ مگر اب اس طرح وہاں سے نکل جانا قطعی نامناسب سمجھتے ہوئے وہ خاموشی سے بیٹھا اپنے سیل فون سے کھیلنے لگا۔
’’میں شاید تمہیں بتانا بھول گیا میرے اور دانیہ کے درمیان ایسا کچھ بھی نہ تھا جو تم لوگ سمجھ رہے تھے، وہ مقیت کی ضد میں آپے سے باہر تھی اور مجھے تمہارا نظرانداز کرنا اندر ہی اندر سلگا رہا تھا۔ اس لیے ہم دونوں نے مل کر تمہیں بے وقوف بنانے کا پلان کیا تھا۔‘‘
سعدی مسکرا رہا تھا۔
’’میں دراصل دیکھنا چاہتا تھا کہ تمہیں مجھ سے کتنی محبت ہے۔ میں صرف تمہاری محبت کو آزما رہا تھا اور تم میری اس آزمائش میں پوری اتری۔ میں جان گیا ہوں کہ میں غلط تھا اور تم نے کبھی میری غلط فہمی دور کرنے کی کوشش ہی نہیں کی اس لیے ہم دونوں قصوروار ہیں۔‘‘
’’پلیز سعدی…‘‘
اس نے اپنا ہاتھ اٹھا کر سعدی کو مزید کچھ کہنے سے روک دیا۔
’’ایک بات بتاؤ کیا مرد کو ہی صرف یہ اختیار ہے کہ وہ ان وجوہات کی بنا پر کسی بھی عورت سے نفرت کرے؟ کیا کوئی عورت اتنی بااختیار نہیں کہ وہ بھی ایسے مرد سے نفرت کرسکے جو اس کے سامنے کسی نامحرم کو چھوتا ہو۔ سعدی کیا تمہارے یہ ہاتھ پاک ہیں جن سے تم نے کبھی دانیہ کو چھوا تھا؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ اب یہ ہاتھ کبھی مجھے چھو سکیں گے؟ کبھی نہیں سعدی کیوں کہ اب میں تم سے نفرت کرتی ہوں، شدید نفرت، تمہارے قول و فعل کا تضاد تمہاری ضد جس نے تمہیں اتنا گرا دیا کہ تم نے ہر وہ گھٹیا حرکت کی جو تمہارے نزدیک میرے دل دکھانے کا سبب بن سکتی تھی۔‘‘
مقیت نے چونک کر سر اٹھایا، اس نے دیکھا سعدی ہکا بکا حورعین کو دیکھ رہا تھا۔ حورعین کی سرخ آنکھیں اس کے دلی جذبات کی ترجمانی کے لیے کافی تھیں۔
’’میں تم سے معافی مانگ چکا ہوں حورعین اپنی ہر زیادتی کی جو جانے ان جانے میں مجھ سے ہوئی پھر بھلا اب کیوں پرانی باتوں کا ذکر کر رہی ہو؟‘‘
’’میں نے معاف کیا، میں نے تمہاری ہر غلطی معاف کی سعدی جو میرا دل دکھانے کا باعث بنی مگر سوری سعدی میں اب تم سے شادی نہیں کرسکتی۔ تمہاری ضد اور انا نے تمہیں مجھ سے چھین لیا ہے۔‘‘
اپنی آنکھ سے آنسو صاف کرتی وہ اٹھ کھڑی ہوئی اس کے ساتھ ہی مقیت بھی کھڑا ہوگیا جو اب تک یہ نہ سمجھ پایا تھا کہ اسے حورعین نے یہاں کیوں بلوایا تھا۔
’’میرے لیے کسی بھی بات سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ مجھ پر اعتبار کیا جائے، میرے لیے میری عزت دنیا میں سب سے زیادہ قیمتی ہے جسے تم نے دانیہ جیسی لڑکی کے ساتھ ڈسکس کرکے زیرو کرنے کی کوشش کی۔ وقت گزر چکا سعدی، مجھے پہلے بھی شاید تمہاری عادت تھی محبت نہیں مگر اب وہ عادت بھی ختم ہوگئی اور آج مجھے فخر ہے کہ میرے ساتھ مقیت جیسا ساتھی ہے جو پچھلے چار سالوں سے بنا کسی اظہار مجھ سے محبت کررہا ہے جو جانتا تھا کہ میں کبھی اس کی نہیں ہوں گی مگر پھر بھی اس نے ہمیشہ نہ صرف میری عزت کی، مجھ سے محبت کی اور میرا اعتبار بھی کیا اور جانتے ہو دنیا کی کسی بھی عورت کے لیے یہ چیزیں ہی سب سے زیادہ اہم ہیں اور یہ سب کچھ مجھے مقیت نے دیا تم نے نہیں۔‘‘
مقیت چونک گیا، حورعین کے الفاظ تھے یا نرم نرم بارش کی پھوار، جو یک دم اس کے چاروں طرف برسنے لگی۔ وہ محبت کی اس بارش میں سر تا پا ڈوب گیا۔ وہ جو یہ سمجھتا تھا کہ حورعین اس کے دلی جذبات سے بالکل واقف نہیں، آج اس کی ساری غلط فہمی دور ہوگئی اور ایسے میں اسے محسوس ہوا جیسے وہ ہواؤں میں اڑ رہا ہو۔
’’میں تمہاری ہر بات مانتا ہوں حورعین مجھ سے غلطی ہوئی مگر پلیز تم مجھے چھوڑ کر نہ جاؤ۔‘‘
’’یہ ساتھ تو چھ ماہ قبل ہی ختم ہوگیا تھا جب تم نے دانیہ کو مجھ پر فوقیت دی جب تمہارے ہاتھوں نے اس کے جسم کو چھوا، جب تمہاری محبت بھری آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی اور جب جب تم نے مجھ پر بے اعتباری کی تب تب میں تم سے دور ہوگئی، اتنی دور کے شاید اب ہمارا قریب آنا بالکل ناممکن ہے۔‘‘
حورعین نے ٹیبل پر رکھا اپنا ہینڈ بیگ اُٹھایا اور مقیت کی جانب پلٹی۔
’’میں نے تمہیں اس لیے بلوایا تھا تاکہ واپسی میں تم مجھے گھر چھوڑ دو۔‘‘
حورعین کے الفاظ نے مقیت کو حیرت سے دوچار کردیا۔
’’ہاں اور یہ بھی کہنا تھا کہ بابا اگلے ہفتے پاکستان آرہے ہیں تو پلیز تم اپنے گھر والوں کو لے آؤ تاکہ وہ ہمارے رشتے کی بات کرسکیں۔ ‘‘
’’سعدی میں اور مقیت جلد شادی کرنے والے ہیں، اس لیے پلیز اب تم بھی وہ کرو جو تمہارا دل چاہتا ہے۔ بے کار دوسروں کی خوشی کے لیے یہاں وہاں مت بھٹکو۔‘‘
اس کے الفاظ اسی کے منہ پر مار کر وہ مقیت کی سنگت میں آگے بڑھ گئی جب کہ پیچھے کھڑا سعدی صرف یہ سوچتا رہا کیا ہر عورت بے اعتباری اور بے عزتی کی اتنی ہی کڑی سزا دیتی ہے جتنی ابھی کچھ پل قبل اسے حورعین دے کر گئی تھی مگر نہیں کیوں کہ دنیا کی ہر عورت حورعین نہیں ہوتی۔
اور اس سوچ کے ساتھ ہی وہ بے دم ہوکر واپس اپنی کرسی پر بیٹھ گیا یقینا اس کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جو اپنے ہاتھ آیا ہوا ہیرا پتھر سمجھ کر دوسروں کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں اور پھر ان کے پاس کچھ باقی نہیں بچتا سوائے پچھتاوے کے جو عمر بھر ان کے ساتھ رہتا ہے۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

سمیٹ لو برکتیں — مریم مرتضیٰ

Read Next

اپنا کون — تنزیلہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!