پہلی محبت آخری بازی — شیما قاضی

” ماہی !” صبار خود میں مگن اس حسین لڑکی کی طرف بڑھ گیا جس سے وہ ڈھیر ساری محبت کرتا تھا اور جس کو وہ چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا تھا ۔
” تم چلے جاؤ گے ایس بی ؟ مجھے ویران کردو گے تم جا کر ۔۔۔۔” آنسو پیتے پیتے اس کے گلے میں گرہ سا بن گیا تھا ۔ تمہاری محبتوں ، تمہاری چاہتوں میں ڈوب کر میں اپنی Life اور اپنی bitter realities بھول جایا کرتی تھی ۔ لیکن تم چلے جاؤ گے تو میں کہاں پناہ لوں گی ؟” اس نے بڑی بے بسی اور رنجیدگی سے سوچا تھا ۔
” میں جارہا ہوں۔” صبار نے اس کی ٹھوڑی پکڑ کر اس کا چہرہ واوپر کیا ۔
” I know ” وہ اپنے ناخنوں پہ لگی نیل پالش کو کھرچتی رہی ۔
” کچھ کہے گی نہیں ؟”
” نہیں!” اس کی نگاہیں اس کی نگاہیں نیچے کی طرف جھکی تھیں ۔
” ماہی میری طرف دیکھو۔”
” تیری طرف دیکھوں گی تو رو پڑوں گی ۔”
” صبار نے زبر دستی اس کا چہرہ اوپر کیا ۔ بے اختیار گرم گرم آنسو اس کی آنکھوں سے بہہ گئے ۔
” Mahi! please don’t cry… ” صبا ر کا دل کٹ سا گیا ۔ حمائل خاموشی سے روتی رہی۔
” Oh, Sorry بیٹا ! آئی ایم لیٹ ۔” گولڈن کلر کی ساڑھی پہنے صبار کی ممی تیزی سے اس کی طرف آگئیں۔
” ok mami I am just coming!.. ” صبارکی پریشان نظریں حمائل کے اداس چہرے پر مرکوز تھیں ۔
” یہ واپس آئے گا ۔ میں تمہیں زیادہ عرسہ اس سے دور نہیں رکھوں گی ۔” حمائل کے اداس چہرے کو دیکھ کر انہوں نے کہا۔
” Don’t cry darling ” انہوں نے حمائل کے سرپر ہاتھ پھیرا ۔ ”
میں وہاں تمہارا wait کررہی ہوں۔ حمائل سے مل کے وہاں آجانا۔” وہ ویٹنگ لابی کی طرف چلی گئیں۔
” میں کانٹیکٹ کروں گا ۔ ہم بات کریں گے ۔” صبار نے حمائل کے چہرے پر بہتے اشکوں کو دیکھا۔ اس کا دل چاہا وہ ان قطروں کو اپنی ہتھیلیوں میں جذب کرلے یا پھر ان موتی جیسے آنسوؤں کے قطروں کو چن کر اپنے پاس محفو ظ لرلے ۔
اس نے اپنا ہاتھ بڑھایا لیکن حمائل نے اسے پیچھے کی طرف دھکیلا۔
” ایس بی ! گو ۔۔۔۔” وہ چلائی ۔
اناؤنسمنٹ ہورہی تھی ۔





” اوکے ٹیک کئیر ۔ بائے ۔” صبار نے خالی الذہنی کے عالم میں اس کے گال کو چھوا اور ویٹنگ لابی کی طرف تیزی سے بڑھ گیا ۔ وہ سخت ملول تھا اور بے حد رنجیدہ ۔ اس نے مڑ کر دیکھا حمائل آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی پارکنگ کی سمت جارہی تھی ۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنے چہرے کو ڈھانپا ہواتھا۔صبار نے اپنی گرے شرٹ کے آستین سے اپنی آنکھوں کی نمی کو صاف کیا ۔ اس نے دوبارہ مڑ کر نہیں دیکھا تھا ۔
پارکنگ کی سمت جاتی حمائل نے ایک بار مڑ کر صبار کو دیکھا ۔ وہ اپنی ماں سے گلے مل رہا تھا ۔ حمائل کی آنکھ سے ایک گہری لڑی بہہ نکلی ۔ا س نے الٹے ہاتھ سے اپنے رخسار پر رینگتے اشکوں کو صاف کیا۔ اس کے بعد حمائل نے مڑ کر نہیں دیکھا تھا ۔ وہ بھاگتی ہوئی پارکنگ کی سمت گئی تھی ۔
٭…٭…٭
اس کے سامنے کئی راستے تھے جن میں سے اس نے ایک راستے کا انتخاب کرکے ناول منزل تک پہنچنا تھا ۔ اسے اصغر حمید سے سخت محبت تھی اور اسی راستے پہ چل کر وہ اپنی منزل پاسکتی تھی ۔لیکن اس نے اپنا راستہ مرینہ کی خاطر بدلنا تھا۔ پھر عرینہ کے غائب ہو جانے کے بعد اس نے اپنا راستہ نہیں اپنی منزل بدلنا تھی ۔ رشتے ٹوٹ رہے تھے ۔ خاندان بکھر رہا تھا ۔ عزت قربانی مانگ رہی تھی ۔ اس نے برآمدے میں لٹکی سیا رنگ کی گرم چادر اوڑھ لی او ر گھر سے نکل گئی ۔
ابھی ابھی اسے مرینہ کے منہ سے جن باتوں کا پتا چلا تھا ، اس نے اس کے دماغ میں بجلیاں گرا دی تھیں ۔ عرینہ جیسی بے دھڑک لڑکی کس قدر خاموشی سے ان سب کی زندگیوں میں زہر گھول کر چلی گئی تھی ۔
وہ اس سرد اندھیری رات میں بنا کچھ سوچے سمجھے ، بنا اپنے دل پہ ہاتھ رکھے، رشتوں اور خاندان کی عزت کی خاطر قربانی دینے جارہی تھی ۔
رات گئے بالکل اکیلے، تنگ و تاریک گلیوں سے گزرتے ہوئے اسے بالکل بھی ڈر نہیں لگ رہا تھا ۔ بلکہ اب تو اسے کسی بھی چیز کا ڈر نہیں تھا ۔ نہ کچھ کھودینے کا اورنہ کھو جانے ۔
وہ خاموشی سے لاؤنج میں داخل ہوگئی ۔ڈائیننگ روم میں سے بولنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ یقینا سب کھانا کھارہے تھی ۔ وہ بے حد خاموشی کے ساتھ اپنے کمرے میں گئی اور لائٹ آن کیے بغیر وہ سمٹ کر بیڈ پر لیٹ گئی ۔
گر م گرم آنسو بڑے آرام سے اس کی آنکھوں سے گر کر تکیے میں جذب ہوتے رہے۔ کوئی آرہاتھا ۔ اس نے اپنی نم آنکھیں زور سے بھینچ لیں۔
منزہ خاموشی سے آ کر اس کے پاس بیڈ پر لیٹ گئی ۔
حمائل دم سادھے پڑی رہی ۔ وہ منزہ کے سامنے ٹوٹنا نہیں چاہتی تھی ۔ بڑی خاموشی اوربے بسی وہ نجانے کب تک آنسو بہاتی رہی تھی ۔ ہماری زندگیوں میں ہمارے پاس آنسو ہی تو سب سے سستی چیز ہوتے ہیں جنہیں ہم جب چاہیں جہاں چاہیں، ڈھیر سارا بہا سکتے ہیں ۔
٭…٭…٭
اس نے دروازہ زور سے بجایا ۔ تھوڑی دیر انتظار کے بعد فیروز بھائی نے دروازہ کھولا۔ وہ بنا اجازت خاموشی سے اندر چلی گئی ۔
” دینا ! تم اس وقت؟ یہاں ؟” برآمدے میں روشن بلب کی روشنی میں انہوں نے اس کا چہرہ دیکھا ۔ “کیوں آئی ہو تم ؟” ان کا لہجہ اجنبیوں والا تھا ۔
” فیروز ! کون ہے دروازے پر ؟”کمرے کے دروازے میں پھوپھا کھڑے پوچھ رہے تھی ۔
” ابا وہ ۔۔” فیروز بھائی ہچکچائے ۔
” میں ہوں دینا ۔” وہ برآمدے میں گئی ۔
” ہم نے تمہارے گھر والوں سے ہر رشتہ توڑ دیا ہے ۔”
” میں رشتہ جوڑنے آئی ہوں ۔” وہ متانت سے بولی ۔
” لڑکی رات گئے اکیلی گھر سے نکلی ہو اور ہم اس سے رشتہ جوڑیں؟ ناممکن ہے ۔” ان کے لہجے میں حقارت تھی ۔
” یہ لڑکی رات گئے خاندان توڑنے نہیں جوڑنے نکلی ہے ۔”
” رات کو اتنی دیر گھر سے اکیلے نکل آئی ۔ یہ ہے تمہاری تربیت؟”
” معاف کیجیے گا ۔ یہ میری تربیت کا حصہ نہیں ، میں مجبوری کے تحت آئی ہوں ۔”
” تم کہنا کیا چاہتی ہو ؟”
” میں علی سے شادی کرنا چاہتی ہوں ۔” اس کا لہجہ پر اعتماد تھا ۔
” تم نے یہ سوچ بھی کیسے لیا کہ ہم دوبارہ تمہارے ہی گھر سے اپنے بیٹے کا رشتہ جوڑیں گے؟” وہ خشک لہجے میں بولے ۔
” یہ تم کیا کہہ رہی ہو دینا ؟” بڑی پھوپھی کمرے سے نکلیں ۔
” لو بھئی ! ایک منگنی کر کے بھاگ گئی اور دوسری شادی کرنے آئی ہے ۔” اپنے کمرے کے سامنے فردوس بھابھی نے طنز کیا ۔
” خاموش رہو فردوس ! میں بات کررہی ہوں ۔” بڑی پھوپھی نے سختی سے کہا اور دینا کی طرف دیکھنے لگیں۔
” جو ررشتے ٹوٹ گئے ان کو دوبارہ جوڑنا اگر ناممکن ہے تو ان ٹوٹے ہوئے رشتوں کے پیچھے ہم برسوں پرانے رشتوں کو کیوں توڑ دیں ؟پھو پھاجی جو عزت چلی گئی ہے وہ آپ کو واپس نہیں مل سکتی چاہے آپ ہم سے قطع تعلق کیوں نہ کرلیں ۔” وہ پھوپھا جی کے قریب جا کر متانت سے بولی ۔
” ہمارے دامن داغ دار ہو گئے ہیں لیکن اس کے لیے ہم ایک دوسرے کو تو الزام نہیں دے سکتے۔ خاندان توڑنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ میں بس ایک التجا کرنے آئی ہوں، رشتوں کو یوں بے قیمت کرکے نہ توڑیں ۔” اس کے لہجے میں التجاء تھی ۔
” مجھے آپ سے کچھ نہیں چاہیے ۔ عزت ، محبت ۔ کچھ بھی نہیں ۔ ”
” بس پھوپھی”! مجھے اپنے بیٹے کی زندگی میں شامل کرلیں ۔
” ایسا نہیں ہوسکتا۔ یہ ناممکن ہے ۔” پھوپھا نے فیصلہ سنا دیا۔ ” میرا بیٹا کبھی تم سے شادی نہیں کرے گا ۔”
” میں دینا سے شادی کرنے کو تیار ہوں ۔” علی سیڑھیاں اترتا ہو انیچے آگیا ۔ دینا نے نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا ۔ اس کے چہرے پر سنجیدگی تھی ۔
” بیٹا ! یہ بچوں کا کھیل نہیں ہے ۔” پھوپھی گھبرائی ہوئی تھیں۔
” میں جانتا ہوں اماں! آپ فکر نہ کریں ۔ ” وہ دینا کی طرف بڑھ گیا ۔
” تم ایسا نہیں کرو گے علی” ! پھوپھا نے علی کو تنبیہ کیا ۔
” ابا ! آپ کا بیٹا مر چکا ہے اور اس زند ہ لاش کے ساتھ کو ئی لڑکی زندگی گزارنے کو تیار نہیں ہوگی۔یہ جو لڑکی آپ کے سامنے کھڑی ہے یہ آپ کے بیٹے کو واپس زندگی کی طرف لے آئے گی ۔” علی نے معنی خیز انداز میں کہا اور دینا کی طرف متوجہ ہوا۔
” تمہارا یہاں ٹھہرنا مناسب نہیں ۔ میں تمہیں گھر تک چھوڑ آتا ہوں ۔” اس نے دینا کا ہاتھ تھام لیا اور گھر سے نکل گیا ۔
٭…٭…٭
اگلا پورا دن وہ یونیورسٹی میں خود کو یہ یقین دلانے کی کوشش کررہی تھی کہ صبار جا چکاہے ۔ کیفے ٹیریا میں اپنے دوستوں کے ساتھ کھاتے پیتے وقت وہ زیادہ تر خاموش رہی ۔ اسے ہر چیز یک دم بے رنگ و بے مزہ سی لگنے لگی تھی ۔ تابندہ ،افصہ کامل یا مطیع کسی کو بھی دیکھ کر اس کو اپنائیت کا احساس نہیں ہوا تھا۔ صبار قاسم نے جا کر اس کی ساری مسکراہٹیں ، اس کی ساری خوشیاں مارڈالی تھیں ۔ اپنے دوستوں کے جمگھٹے میں وہ اس چہرے کو تلاش رہی تھی جو وہاں تھا ہی نہیں ۔ اور پھر حمائل نے اپنے دوستوں سے ملنا چھوڑ دیا تھا ۔
٭…٭…٭





علی نے دینا کا ہاتھ بہت مضبوطی سے تھام رکھا تھا ۔ اس کو گھرلے جاتے ہوئے وہ پورے راستے خاموش رہا ۔ اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا ۔دینا سے بھی سارے لفظ کہیں کھو گئے تھے ۔
” آئندہ کوئی مجبوری تمہیں رات کو گھر سے نکلنے پر مجبور نہیں کرے گی ۔” اسے گھر پہنچا کر وہ بولا ۔ ”
میں کل اماں ابا کو منا کر رشتے کیلئے بھیج دوں گا ۔
” شکریہ ۔” وہ گھر کا دروازہ کھول کر اندر جانے لگی ۔
” میں باہر ڈیرے پر ہوں ۔ بے فکر ہو کے سو جانا ۔” وہ ڈیرے کی سمت چلاگیا ۔ دینا بھاری بھاری قدم اٹھاتی گھر میں داخل ہوئی تھی۔
” بے یقینی کی کیفیت میں وہ کمرے میں داخل ہوئی ۔ جو ہو گیا تھا وہ خواب کی مانند تھا ۔” بہت بڑی قیمت ادا کر کے میں نے اس گھر کیلئے محافظ خریدا ہے اور تم آگئے تو مجھ سے سوال کرو گے ۔” وہ پلنگ پر لیٹ گئی ۔
اچانک اسے احسا س ہو گیا کہ اس کی ٹانگیں دکھ رہی ہیں ۔اسے یاد آیا دسمبر کا مہینہ ہے اور سردی بہت پڑرہی ہے ۔اس نے کمبل اوڑھ لیا ۔
” رات گئے ۔ اکیلی لڑکی گھر سے نکلی ہو اور ہم اس سے رشتہ جوڑیں ۔ نا ممکن ہے ۔
” لو بھئی ایک منگنی کر کے بھا گ گئی ۔دوسری شادی کرنے آئی ہے ۔
” اسے یک دم اپنا آپ ایک بے مول سکے کی مانند معلوم ہوا۔ اس کی آنکھوں میں نمی اتر آئی ۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ اسے اپنے فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں تھا کیونکہ ابھی تک اسے اس حقیقت کا یقین ہی نہیں تھا ۔
٭…٭…٭
وہ باقاعدگی سے صبار کے ساتھ رابطے میں رہی ۔ کبھی اس سے فون پر بات ہو جاتی ، کبھی سکائپ تو کبھی فیس پک پر ۔ اور اس کے بارے میں حمائل نے کئی بار سوچا تھا ۔ ” کسی سے محبت کرنا عجیب بات نہیں لیکن تم میری عادت بنتے جارہے ہو ۔” اس کیلئے صبار قاسم اور اس کی محبت بے پناہ اہمیت کی حامل تھی ۔ یہی حمائل کی وہ واحد جاگیر تھی جس میں منزہ علی کا کوئی حصہ نہیں تھااور محبت کا اصل مزہ تو تب ملتا ہے جب وہ پوری کی پوری، مکمل طور پر آپ کو مل جائے ۔ اور آپ کسی بڑے جاگیردار کی طرح اس پر برے مزے سے قبضہ جمالیں ۔
٭…٭…٭
نہ جانے کیسے علی نے پھوپھا ، پھوپھی کو منا لیا تھا کہ وہ اگلے دن دینا کیلئے علی کا باقاعدہ رشتہ لے کر آگئے ۔
اماں نے بڑی ماں کی اجازت اور دینا کی مرضی جاننے کے بعد ” ہاں” کر دی ۔
پھوپھا ، پھوپھی کے جانے کے بعد جو وہ بڑی ماں کے پاس جا کر بیٹھ گئی اور وہ جس قدر دل کھول کر روئی تو ساتھ میں سب کو رلا گئی ۔
” اپنے اصغر کی دلہن بنانا چاہا تھا اس کو ۔ ایسا کب سوچا تھا ؟” ان کے دل کو ایک گہرا زخم لگاتھا ۔ کچھ حادثات و واقعات انسان کے جسم کے ساتھ ساتھ اس کی روح کو بھی اذیت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
٭…٭…٭
اس کی پیکنگ مکمل ہو گئی تو ہ لان میں جا کر امی کے پاس بیٹھ کے چائے پینے لگی ۔ اگلے دن اس نے یونیورسٹی کی طرف سے سٹڈی ٹور پر کشمیر جانا تھا ۔
” کل کس ٹائم نکلو گی ؟” امی نے چائے پیتے ہوئے دریافت کیا ۔
” گھر سے سات بجے نکلوں گی ۔ یونیورسٹی سے نکلتے نکلتے نو تو بج ہی جائیں گے ۔”
” اپنے کھانے پینے کا دھیان رکھنا وہاں پر ۔ کچھ الٹا سیدھا مت کھا لینا۔”
امی جی ! یہ کیا آپ ٹپیکل ماؤں جیسی باتیں کررہی ہیں ؟”
” اپنے بچوں کیلے ہر ماں ٹپیکل بن جاتی ہے ۔ انہوں نے حمائل کا ہاتھ چوم لیا ۔
” Anyways. I love you. ” اس نے ان کا بوسہ لیا ۔
” I Love you too ” انہوں نے حمائل کو اپنے سینے سے لگا لیا ۔
” کیا ہو گیا ہے ؟” یہ کیوں ایسا behave کررہی ہے ؟ میں وجہ کیوں نہیں جان پارہا ؟” لاؤنج کی کھڑی سے باہر دیکھتے ہوئے انہوں نے افسردگی سے سوچا اور صوفے پر جا کر بیٹھ گئے ۔
ان کی عزیز ترین بیٹی ان کا قیمتی اثاثہ تھی، لیکن وہ ان سے ایسے بد گمان ہو گئی تھی کہ ان سے بات کرنا بھی اسے گوارا نہیں تھا ۔ وہ اگر سختی سے بات کرتے تو وہ بگڑ جاتی تھی ۔ غصہ ہو جاتی تھی ۔ بد تمیز ی پر اتر آتی تھی۔اور اگر وہ نرمی سے بات کرتے تو وہ ٹال جاتی تھی، ان کو نظر انداز کر دیا کرتی تھی ۔
٭…٭…٭
وہ اپنے کمرے میں بچھے قالین پر ٹانگیں پھیلائے بیٹھا تھا ۔اس کی گرم چادر کا ایک سرا اس کے کندھوں اور دوسرا سرا قالین پر پڑا تھا ۔ اس نے ایک ہاتھ میں لائیٹر اور دوسرے ہاتھ میں عرینہ کی تصویر پکڑی ہوئی تھی ۔
” عورت گھر کی عزت ہو تی ہے اور جب یہ عزت گھر میں موجود ہو تی ہے تو ہم اس سے محبت بھی کرتے ہیں او راس پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کو بھی تیارہوتے ہیں ۔ ” اس نے لائیٹر جلایا ۔
” لیکن جب یہ عزت گھر کی چوکھٹ پارکرلیتی ہے تو پھر نہ یہ ہماری عزت رہتی ہے نہ ہماری محبت، اور نہ ہی ہماری زندگیوں میں اس کی کوئی اہمیت رہ جاتی ہے ۔” وہ عرینہ کی تصویر جلانے لگا ۔
” عورت تم جیسی نہیں ہوتی عرینہ حمید ! عورت تو وہ ہے جو یہ جاننے کے باوجود کہ مجھے تم سے محبت ہے ۔ مجھ سے شادی کرنے لگی ہے ۔ ” اس نے جلتی ہوئی تصویر کو نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھا ۔” تم جیسی بد کردار عورتیں محبت کے لائق ہی نہیں ہو تیں ۔” وہ اٹھ کر بے چینی سے ٹہلنے لگا ۔
وہ تجھ کو بھولے ہیں تو تجھ پہ بھی لازم ہے میر
خاک ڈال ، آگ لگا ، نام نہ لے ، یاد نہ کر
اس نے میر تقی میر کا شعر زیر لب کہا اور آرام کرسی پر بیٹھ کر جھولنے لگا ۔
میں نے آج تم سے زندگی اور محبت کا ہر رشتہ توڑ دیا ہے اور میں ۔۔۔ علی سراج آج قسم کھاتا ہوں کہ آئندہ زندگی میں اگر تم کبھی میرے سامنے آئیں تو میں تم سے منہ موڑ کر ایسے چلا جاؤں گا جیسے تمہیں جانتا تک نہیں ہوں ۔” سخت لہجے اور مضبوط ارادے کے ساتھ اس نے خود سے ایک بڑا وعدہ کیا تھا ۔
٭…٭…٭
دودھ کا ایک گلا س پی کر اس نے ٹوسٹ پہ جام لگایا اور جلدی جلدی کھانے لگی ۔ اس مختصر سے ناشتے کے بعد وہ امی اور شہروز بھائی سے مل کر گھر سے نکل گئی ۔
وہ بہت زیادہ پرجوش تھی۔ دوہفتوں تک کشمیر کے مختلف علاقوں میں گھو م پھر کر انہوں نے مختلف قسم کے پودے جمع کرنے تھے۔ اسی پلانٹس کولیکشن ٹور کیلئے اس نے بہت انتظار کیا تھا اور آج وہ بہت زیادہ خوش تھی ۔
٭…٭…٭





بڑی اماں کی حالت دن بدن خراب ہوئی جارہی تھی یا تو وہ بالکل چپ رہتیں اور اگر کچھ بولتیں تو ساتھ ساتھ روتی جاتیں ۔
دینا ان کا بہت زیادہ خیال رکھتی تھی ۔ ان کا دھیان بٹانے کی کوشش کرتی لیکن وہ دینا کو دیکھ دیکھ ملو ل ہوتیں اور مزید رونے لگتیں ۔
پہلے تو کسی کا سہار ا لے کر باہر آجاتیں لیکن اب تو انہوں نے کمرے سے نکلنا چھوڑ دیا تھا ۔
“میرے کام کو مجھ پر آسان کر دے ” سورة طٰحہٰ کی آیت نمبر 26 کا ورد کرتی وہ بڑی ماں کے کمرے میں گئی ۔ اب اسے وہاں جاتے ہوئے ڈر لگتا تھا۔ اس عورت کے آنسو دینا کو بہت کمزور بنا دیتے تھے ۔وہ ان آنسوؤں میں بہنا نہیں چاہتی تھی اسی لیے ان کے کمرے میں جاتے وقت و ہ خود کو بہت ساری قرآنی آیات کے حصارمیں لے لیتی تھی ۔
“کیسی طبیعت ہے اب آپ کی ؟” وہ ان کے پاس جا کر بیٹھ گئی ۔ بڑی ماں خاموشی سے چھت کو گھورتی رہیں، ان کی آنکھوں کے کونے بھیگنے لگے ۔ دینا نے ان کی آنکھوں میں چمکتے موتی دیکھ لیے تھے ۔ اس کا دل کٹ گیا ۔
” اور میرے کا م کو مجھ پر آسان کر دے ۔” اس نے زیر لب کہا ۔اس کا دل گھبرا رہاتھا ۔
” آپ کتنی سخت مزاج ہو اکرتی تھیں ۔ ایسا لگتا ہے آپ جیسے برف تھیں اور اب آپ پگھل کر پانی ہورہی ہیں لیکن مجھے ڈر ہے یہ پانی مجھے خود میں کہیں بہا کر نہ لے جائے ۔” اس کا دم گھٹنے لگا ۔ فون کی گھنٹی بج رہی تھی وہ بھا گ کر باہر چلی گئی ۔
٭…٭…٭
” حمائل چلی گئی ؟” رات کا کھانا کھاتے ہوئے انہوں نے سوال کیا ۔
” جی چلی گئی ۔” خالہ نے مختصر جواب دیا ۔
” مل کے نہیں گئی ۔ ” ان کے لہجے میں افسردگی تھی ۔
” جلدی میں تھی ۔” جو اب پھر سے مختصر تھا ۔ وہ خاموشی سے کھانا کھانے لگے ۔ ” جلدی میں نہیں تھی کوئی اور وجہ ہے ۔” انہوں نے تاسف سے سوچا ۔
” مجھ سے بھی تو نہیں ملی وہ ۔” خاموشی سے کھانا کھاتی منزہ نے سوچا ۔
رات کو سوتے وقت بے اختیار اسے حمائل کی یاد آگئی ۔
” تم نہیں ہوتی تو اچھا ہوتا ہے میں سکون سے رہ پاتی ہوں لیکن اس وقت تمہاری کمی شدت سے محسوس ہورہی ہے ۔” منزہ نے کروٹ بدل کر اداسی سے سوچا ۔
دل دکھاتا ہے وہ مل کر بھی مگر آج کیرات
اسی بے درد کو لے آؤ کہ کچھ رات کٹے
٭…٭…٭
اس نے ریسیور کان سے لگا لیا ۔
” ہیلو۔اصغر بول رہا ہوں۔”
” اور میرے کا م کو مجھ پر آسان کر دے ۔” اس نے تہ دل سے دعا مانگی اور خاموش رہی ۔ اس کے دل کی دھڑکن جیسے تھم گئی تھی ۔
” ہیلو! فون پہ کون ہے ؟” اس کو ریسیور میں سے اصغر کی آواز سنائی دی ۔
” جب میں تمہارے راستے پہ چل رہی تھی ، جب تم میری منزل تھے تب میں تمہاری آواز سننے کو مہینو ں تک ترستی رہی اور آج جب میں نے راستہ بدل لیا ہے ۔ میری منزل کوئی اور ہے تو تمہاری آواز سن رہی ہوں۔”
” ہیلو؟” ریسیور میں سے اصغر کی آواز پھر سے ابھری ۔
” پتھر بن چکی ہوں لیکن تمہاری آواز مجھے ریت بنادیتی ہے ۔میں تمھار ا سامنا کیسے کروں گی اصغر حمید ؟ سب کے آنسو دیکھ سکتی ہوں لیکن تمہارے آنسو دیکھوں گی تو مر جاؤں گی ۔ ” اس نے ریسیور کریڈل پر رکھ دیا اور نڈھال سی نیچے بیٹھ گئی۔
” میں دل والی نہیں ہوں۔ اصغر ! تم میری منزل نہیں ہو ۔” اس نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا اور رونے لگی ۔ تمہاری طاقت کسی اور نے چھین لی ہے اصغر ! ” اس نے اپنا چہرہ اپنے ہاتھو ں میں ڈھانپ لیا۔ دینا اگر اصغر حمید کی طاقت تھی تو اصغر دینا سعید کی سب سے بڑی کمزوری تھا ۔
٭…٭…٭
منزہ کے کالج میں فن فئیر تھا ۔ خالہ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس لیے وہ کالج جانے کے بہ جائے گھر پر رکی ۔ خالہ کو دوادینے کے بعدو ہ سٹور روم کی طرف چلی گئی ۔اس کی پینٹنگ کا سار ا سامان سٹورروم میں پڑا تھا ۔جہاں وہ فارغ وقت میں بیٹھ کر پینٹنگز بنایا کرتی تھی ۔
اس نے بہت عرصے سے اکیلے بیٹھ کر کوئی پینٹنگ نہیں بنائی تھی اور اس خاموش سے ماحول میں اس کا دل کسی اچھے سے منظر کو کینوس پر اتارنے کومچل رہا تھا ۔
وہ سٹور روم کے اندر چلی گئی ۔
یہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس کی ایک کھڑکی لان کی طرف کھلتی تھی ۔ منزہ نے اس چھوٹی سی جگہ کو اپنے لیے اس طرح ترتیب دیا تھا کہ یہ کسی نو عمر مصور کا کمرہ لگتا تھا ۔
ایک کونے میں رکھا ہوا سٹینڈ بورڈ ، اس کے پاس پڑا لکڑی کا اسٹول ، کھڑکی کے پاس پڑی لکڑی کی ایک میز جس پر تارپین کا ایک ڈبہ ، ایک پینٹنگ ٹرے ، کئی برش اور مختلف رنگوں کے کئی ڈبے پڑے تھے ۔
منزہ نے کھڑکی کھول دی اور اسٹینڈ بور ڈ کو کھڑکی کے قریب گھسیٹ لیا ۔ بورڈ پر سلک کا کینوس چپکا کے اس نے برش اٹھا لیا اور اپنے ذہن میں ابھرتے کسی دل فریب منظرکو کینوس پر اتارنے لگی ۔
٭…٭…٭
جس کی اپنی ذات ٹوٹ پھوٹ کا شکا رتھی ۔ وہ اپنے رشتوں کو جوڑنے میں لگی تھی ۔ خاندان کو بکھرنے سے بچانے کے لیے اس نے جو اتنی بڑی قربانی دی تھی اس کا خود اسے بھی یقین نہیں تھا ۔بڑی ماں کے آنسوؤں کو روکنے کے لیے اس نے خود کو قربانی کیلئے پیش کر دیا تھا ۔ لیکن یہاں بڑی ماں کئی گھنٹوں تک خاموش رہتیں اب کئی کئی دنوں تک چُپ رہنے لگی تھیں۔
دینا ان کو دوا دینے جاتی کوئی بات کرتی تو جواب میں خاموشی اور آنسوؤں کے سوا کچھ نہیں ملتا تھا۔ بڑی بے بسی سے پلنگ پر پڑی رہتی ۔ دینازبردستی کھاناکھلاتی تو وہ چند نوالوں سے زیادہ کچھ نہیں کھا پاتیں۔
٭…٭…٭
دھوپ خاصی تیز ہو چکی تھی ۔ کاغذ پہ لکھے گئے پتے کے مطابق وہ سیا ہ رنگ کے ایک بڑے سے گیٹ کے سامنے ٹیکسی سے اتر گیا ۔ گیٹ کے باہر کھڑا لمبی مونچھوں والا چوکیدار گہری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا جب وہ احترام سے آگے بڑھا اور اس سے اصغر حمید کے بارے میں دریافت کیا ۔
” صاحب جی گھر پر نہیں ہیں ۔ آفس گئے ہوئے ہیں ۔”
” گھر پہ کوئی توہو گا ؟ ان کی بیوی ؟ یا بچے ؟”
” ہاں ۔ منزہ بی بی اور بیگم صاحب گھر پر ہیں ۔”
” کیا میں ابھی ان سے مل سکتا ہوں؟ میرا ان سے ملنا بہت ضروری ہے ۔ میں اصغر حمید کا بھانجا ہوں ۔ ”
سنان نے ملتجی نگاہوں سے چوکیدار کو دیکھا ۔
” آپ صاحب جی کے بھانجے ہیں ؟ آپ کو پہلے کبھی نہیں دیکھا ۔”
” ہاں میں پہلے کبھی نہیں آیا ۔ میں پرسوں سعودی عرب سے پاکستان آیا ہوں ۔”
” جی اچھا آپ بیگم صاحب سے مل سکتے ہیں ۔”
” وہ بوجھل سے قدموں سے گیٹ کے اندر چلا گیا۔
وہ قدرے بے زاری سے ، بے دلی سے لان میں داخل ہوا ۔ اسے اپنے اجنبی ماموں سے ملنے میں کوئی خاص دل چسپی نہیں تھی لیکن وہ اپنی ماں کی خاطر آیا تھا ۔
” میں اماں جا ن کا خط ماموں کو دے دوں اور پھر واپس چلا جاؤں گا ۔”اس نے لا ن کے چاروں اطراف پر بنی خوش وضع کیاریوں میں لگے مختلف رنگوں کے پھولوں کو دیکھ کر سوچا ۔
اچانک اس کی نظر سٹور روم کی کُھلی کھڑکی پر پڑی ۔وہاں کوئی لڑکی اسٹینڈ بورڈ کے پاس کھڑی کوئی پینٹنگ بنا رہی تھی ۔ سنان بے اختیار اس گندمی رنگت اور کچھ سوچ سے بھری آنکھوں والی لڑکی کی جانب بڑھ گیا ۔




Loading

Read Previous

چائے والا — ایم رضوان ملغانی

Read Next

ڈگریاں — ثناء سعید

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!