شہرِذات — عمیرہ احمد

”خدا کا خوف کرو فلک! اتنی دیر میں لوگ چاند پر جا کر واپس آجاتے ہیں جتنی دیر میں تم صرف اپنی آنکھوں کا میک اپ کررہی ہو۔ میں تمہیں ایک بار پھر یقین دلاتی ہوں، وہاں سلمان انصر کے آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس لیے اتنے ہتھیاروں سے لیس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔”
رشنا کی بیزاری اب اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی اور وہ سیدھا سیدھا طنز کرنے پر اتر آئی تھی۔ مگر اس کی کسی بات کا فلک پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ وہ اسی سکون و اطمینان سے اپنی پلکوں پر مسکارا کی ایک اور کوٹنگ کرتی رہی۔
”اٹھ جاؤ فلک! اٹھ جاؤ ہم کنسرٹ پر جارہے ہیں کسی فیشن شو میں نہیں اب بس کرو۔” اس کی خاموشی نے رشنا کو کچھ اور تپایا۔ اس نے ڈریسنگ ٹیبل پر اس کے سامنے پڑی میک اپ کٹ کو اٹھا کر بند کر دیا۔
”تمہیں کیا تکلیف ہے یار! چند منٹ انتظار نہیں کرسکتیں؟” فلک نے اس کے ہاتھ سے میک اپ کٹ چھینتے ہوئے کہا۔
”مجھے قطعاً کوئی تکلیف نہیں ہے مگر یار جتنی جانفشانی سے تم میک اپ میں مصروف ہو، اس سے تمہیں ضرور کوئی تکلیف ہو جائے گی۔”
فلک اس کی بات کا جواب دئیے بغیر ایک بار پھر مسکارا لگانے میں مصروف ہو گئی۔ رشنا ڈریسنگ ٹیبل پر بیٹھ کر ہلکی سی مسکراہٹ سے اسے دیکھنے لگی فلک اپنے چہرے پر جمی اس کی آنکھوں کو نظر انداز کرتے ہوئے میک اپ میں مصروف رہی۔
”فلک! تمہیں آخر میک اپ کی ضرورت ہی کیا ہے۔ تمہیں تو خدا نے پہلے ہی بہت مکمل بنایا ہے۔ میک اپ کی ضرورت تو ان لوگوں کو ہوتی ہے جن میں کوئی خامی کوئی کمی رہ گئی ہو۔ تم میں تو ایسی کوئی بات نہیں ہے۔” چند لمحے اس کے چہرے پر نظر جمائے رکھنے کے بعد رشنا نے کہا۔
ایک دلکش مسکراہٹ فلک کے چہرے پر لہرائی۔ ایک خاص ادا سے دایاں ابرو اچکاتے ہوئے اس نے کہا۔





”جانتی ہوں مجھے میک اپ کی ضرورت نہیں ہے مگر سلمان کو میک اپ پسند ہے اور جو چیز اسے پسند ہے، وہ فلک کو کیسے ناپسند ہوسکتی ہے۔ مس رشنا کمال! یہ سب سنگھار صرف اسی ایک شخص کے لیے کر رہی ہوں تاکہ اس کی نظر کہیں اور نہ جاسکے۔ اگر کوئی چہرہ اس کے خیالوں میں رہے تو وہ یہی چہرہ ہو اگر کوئی وجود اس کی نظر کو اسیر کرے تو وہ یہی وجود ہو۔”
فلک نے میک اپ کٹ بند کرکے دراز میں رکھ دی۔
”دل تو اس بندے کا پہلے ہی جیت چکی ہو اب باقی کیا رہا جسے حاصل کرنے کی خواہش ہے۔ وہ بندہ تمہارے پیچھے اس قدر دیوانہ ہے کہ اس سب سنگھار کے بغیر بھی اس کی نظر تمہارے علاوہ کسی اور چہرے پر نہیں ٹکے گی۔”
رشنا نے رشک آمیز حسرت سے کہا تھا۔ ایک تفاخر آمیز مسکراہٹ سے فلک اپنے تراشیدہ بالوں میں برش کرتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
خوبصورتی کی اگر کوئی حد ہوتی تو وہ حد فلک شیرافگن تھی۔ وہ مجسم حسن تھی جو نظر ایک بار اس چہرے کو دیکھ لیتی وہ دوبارہ کچھ اور دیکھنے کے قابل نہیں رہتی تھی۔ اسے نظروں کا اسیر کرنے کا ہنر آتا تھا۔ بعض دفعہ وہ اپنے وجود کو آئینے میں دیکھتی اور خود اپنے سحر میں گرفتار ہو جاتی اور پھر سوچتی۔
”اگر میں ایک عورت ہوتے ہوئے خود اپنے ہی عکس سے نظر ہٹا نہیں سکتی تو کسی مرد کے لیے یہ کتنا مشکل ہو گا۔”
یہ احساس اسے بیٹھے بٹھائے قلوپطرہ بنا جاتا پھر وہ گھنٹوں آئینے کے سامنے بیٹھی سنگھار میں مصروف رہتی۔ بہت سے لوگوں کو دنیا میں صرف ایک چیز ملتی ہے اور بس ایک ہی چیز ملتی ہے۔ بعض لوگوں کو دنیا میں سب کچھ ملتا ہے اور سب کچھ ہی ملتا ہے، فلک شیرافگن دوسری فہرست میں آتی تھی۔ وہ شیرافگن جلیل کی اکلوتی بیٹی تھی اور شیرافگن جلیل ملک کے نامور انڈسٹریلسٹ تھے۔ اسے چاہا نہیں گیا تھا۔ بے تحاشا چاہا گیا تھا اگر اس کے ماں باپ کا بس چلتا تو وہ واقعی اسے اپنی پلکوں پر بٹھا لیتے۔ وہ خود پسند بھی تھی اور خود پرست بھی مگر کوئی اور خامی اس میں نہیں تھی یا شاید اس کا حسن کسی دوسرے کو اتنی جرأت ہی نہیں دیتا تھا کہ وہ فلک شیرافگن کی کوئی خامی ڈھونڈ پاتا۔
اس نے ہر جگہ سے ستائش پائی تھی چاہے وہ گھر ہو یا سکول، کالج ہو یا یونیورسٹی۔ وہ لڑکیاں بھی جو اس سے حسد کرتی تھیں۔ کہیں نہ کہیں ان کے دل میں بھی اس سے دوستی کی خواہش ضرور دبی رہتی تھی۔ بعض دفعہ کوئی دل ہی دل میں اس سے سخت بدگمان ہوتا اسے ناپسند کرتا اس کے بارے میں دوسروں سے غلط باتیں کہتا اور پھر وہ ایک بار ہی اس سے مخاطب ہوتی، حال احوال پوچھتی، مسکراتی اور اگلا چاروں شانے چت ہو جاتا پھر اس میں کوئی مزاحمت ہی باقی نہیں رہتی تھی۔ اگلے کتنے دن وہ اسی احساس کے ساتھ ساتویں آسمان پر رہتا کہ فلک شیرافگن نے اس سے بات کی ہے اس کا حال احوال دریافت کیا ہے اسے دیکھ کر مسکرائی ہے۔ پھر وہ دوبارہ کبھی اس کی مخالفت کرنے کی جرأت نہ کر پاتا۔ وہ اکثر اپنے مخالفین کو اسی طرح چت کیا کرتی تھی۔
وہ یونیورسٹی میں ایم ایف اے کر رہی تھی مگر اس کا حلقہ احباب لمبا چوڑا نہیں تھا۔ اس کے دوستوں کی تعداد محدود تھی۔ اس کی چند دوستیں وہی تھیں جن کے ساتھ اسکول کے زمانے سے اس کی دوستی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تعلق نہ صرف مضبوط ہوا تھا بلکہ اس کی دوستوں میں کوئی اضافہ بھی نہیں ہوا تھا۔ رشنا بھی اس کی ان ہی گہری دوستوں میں سے ایک تھی اور اس سے اور مریم سے ہی اس کا سب سے زیادہ میل جول تھا۔
فلک کے لیے رشتے تب سے آنے شروع ہو گئے تھے جب وہ اسکول میں تھی۔ مگر شیرافگن نے بڑی خوبصورتی سے سب کو ٹال دیا تھا وہ چھوٹی عمر میں اس کی شادی کرنا نہیں چاہتے تھے ویسے بھی وہ جانتے تھے کہ فلک کے لیے کبھی بھی رشتوں کی کمی نہیں ہو گی۔ وہ نہ صرف بے پناہ خوبصورت تھی بلکہ ان کی ساری دولت کی بھی مالک تھی پھر ایسی سونے کی چڑیا کو پھانسنے کے لیے شکاریوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ کیوں نہ ہوتا۔
وہ شروع سے کو ایجوکیشن میں پڑھی تھی اور شروع سے ہی اس کے پیچھے بھاگنے والوں کی فہرست بہت لمبی تھی۔ مگر فلک نے کبھی کسی کی پرواہ نہیں کی تھی یا پھر شاید اس کو کسی میں اتنی کشش ہی محسوس نہیں ہوئی تھی کہ وہ اس کے بارے میں سوچتی بلکہ وہ اکثر اپنی فرینڈز کے ساتھ مل کر ایسے عشاق کا مذاق اڑایا کرتی تھی۔ رشنا اکثر اس سے کہا کرتی تھی۔ ”جو لوگ خود خوبصورت ہوتے ہیں، انہیں کسی دوسرے سے محبت ذرا کم ہی ہوتی ہے اور عشق تو دور کی بات ہے۔” وہ ہر بار اس کی باتوں پر قہقہہ لگایا کرتی تھی۔
سلمان انصر سے اس کی ملاقات اپنی ایک دوست کی بہن کی شادی کی تقریب میں ہوئی تھی۔ آواری میں سوئمنگ پول کے کنارے ایک ٹیبل پر وہ اپنی دوستوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی حسب معمول بہت سی نظروں کا مرکز بنی ہوئی تھی اور اس بات سے آگاہ بھی تھی اور بے پرواہ بھی اپنی دوستوں کے کسی بات پر قہقہہ لگاتے ہوئے اس کی نظر سوئمنگ پول کے دوسرے کنارے پر موجود ایک ٹیبل پر پڑی تھی۔ سیاہ جینز اور اسی رنگ کی لیدر کی جیکٹ اور ٹی شرٹ میں ملبوس وہ بندہ اس ٹیبل کی سب سے خاص چیز تھا۔ وہ اتنی دور سے بھی اس کے چہرے کے نقوش کی خوبصورتی کو محسوس کر سکتی تھی۔ وہ اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے لڑکے کی بات سن رہا تھا اور ہاتھ میں پکڑے ہوئے گلاس سے کوک کے سپ لے رہا تھا۔ فلک چاہتے ہوئے بھی اس سے نظر ہٹا نہیں پائی۔ اپنی فرینڈ کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے وہ وقفے وقفے سے اسے دیکھ رہی تھی اور کچھ دیر بعد اچانک اسے احساس ہوا تھا کہ وہ صرف فلک کی توجہ کا مرکز نہیں تھا۔ کچھ اور نظریں بھی بار بار اس کی طرف اٹھ رہی تھیں۔ اور اس احساس نے پہلی بار اسے حسد سے روشناس کروایا تھا۔ اس کے دل میں بڑی شدت سے اس کے پاس جانے کی خواہش پیدا ہوئی۔
”رشنا! یہ سوئمنگ پول کے دوسری طرف ٹیبل پر بلیک آؤٹ فٹ میں جو بندہ ہے، اسے جانتی ہو؟”
اس نے اچانک رشنا سے سرگوشی میں پوچھا جو اس کے پاس بیٹھی ہوئی تھی رشنا نے نظر دوڑائی تھی۔ ”نہیں یار یہ کوئی نیا بندہ ہے کم ازکم میں واقف نہیں ہوں۔” اس نے سر ہلاتے ہوئے کہا تھا۔
پھر فلک نے یہی سوال ٹیبل کے گرد بیٹھی ہوئی اپنی دوسری دوستوں سے کیا تھا۔ سب کا جواب نفی میں تھا۔
”رمشہ سے پوچھو، میرا خیال ہے، یہ اس کے بہنوئی کا کوئی دوست ہو گا۔” رشنا نے اس سے کہا تھا۔ وہ رشنا کے ساتھ اٹھ کر اسٹیج کی طرف آگئی تھی۔ وہاں رمشہ، دولہا دلہن کے ساتھ بیٹھی تصویریں بنوا رہی تھی۔ فلک نے اسے ایک طرف بلوایا اور اس بندے کے بارے میں پوچھا تھا وہ اپنے بھائی سے اس کے بارے میں پوچھنے گئی تھی۔
”یہ سلمان انصر ہے، اسد بھائی کا کزن ہے۔” اس نے آکر اپنے بہنوئی کا نام لیا تھا۔ فلک نے اس سے کہا تھا کہ وہ اسے اس سے ملوائے۔
”اچھا چلو ٹھیک ہے۔ اسد بھائی کا چھوٹا بھائی جمشید بھی اسی کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے۔ میں اس کے پاس تمہیں لے جاتی ہوں ظاہر ہے وہ خود ہی ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں کا تعارف کروا دے گا۔ ” رمشہ نے اس ٹیبل پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔
فلک دھڑکتے دل کے ساتھ رمشہ کے ساتھ اس ٹیبل کی طرف آگئی تھی۔ وہ دور سے جتنا خوبصورت نظر آرہا تھا پاس آکر اس سے زیادہ اچھا لگا تھا اسے۔ رمشہ کے ساتھ جب وہ اس ٹیبل کے پاس پہنچی تو رمشہ نے جمشید سے اس کا تعارف کروایا تھا پھر جمشید نے باری باری ٹیبل کے گرد بیٹھے ہوئے لڑکوں کا تعارف ان سے کروایا تھا۔
سلمان انصر نے اپنے تعارف پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ہیلو کہا تھا۔ پھر وہ پہلے کی طرح ارد گرد نظر دوڑانے میں مصروف ہو گیا تھا۔ فلک کے لیے یہ بات حیران کن تھی۔ وہ اس ٹیبل پر بیٹھے ہوئے دوسرے لڑکوں کی طرح اسے ستائشی نظروں سے نہیں دیکھ رہا تھا۔ اس کے دل کو کچھ ٹھیس لگی تھی، کچھ دل گرفتہ سی وہ واپس اپنی میز پر آگئی تھی۔ فنکشن کے اختتام تک اس کی توجہ اسی پر مرکوز رہی تھی مگر اس نے سلمان انصر کو ایک بار بھی اپنی طرف متوجہ نہیں دیکھا۔
اگلے کئی دن وہ اس کے بارے میں سوچتی رہی۔ وہ چہرہ جیسے اس کے دماغ میں کہیں فیڈ ہو گیا تھا۔ وہ چاہتے ہوئے بھی اسے اپنے ذہن سے جھٹک نہیں پارہی تھی۔
سلمان انصر سے اس کی دوسری ملاقات Pace میں ہوئی تھی۔ وہ ہاتھوں میں کچھ شاپنگ بیگز تھامے باہر کی طرف آرہا تھا۔ جبکہ وہ اندر جارہی تھی۔ اسے سامنے سے آتے دیکھ کر فلک کے قدم رُک گئے۔
”ہیلو!” پاس آنے پر فلک نے بے تابی سے اسے مخاطب کیا وہ کچھ حیران ہوا تھا۔ اس کی آنکھوں میں شناسائی کی چمک نہیں تھی۔
فلک کو شاک لگا۔ ”کیا مجھ میں ایسی کوئی بات بھی اسے نظر نہیں آئی کہ یہ مجھے یاد رکھتا۔” اس نے سوچا تھا۔
”سوری، میں نے آپ کو پہچانا نہیں ہے۔”
فلک نے کچھ دل گرفتہ ہو کر دو ہفتے پہلے ہونے والی ملاقات کے بارے میں بتایا۔
وہ ایک دم مسکرایا۔ ”مجھے یاد آگیا کیسی ہیں آپ؟”
اس کی مسکراہٹ نے فلک کی ساری سنجیدگی دور کر دی تھی ”میں ٹھیک ہوں، آپ کیسے ہیں؟”
”فائن۔”
”اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو کیا میں آپ کو لنچ کی آفر کر سکتی ہوں؟” اس نے ایک لمحہ کی تاخیر کے بغیر اس سے کہا تھا۔
وہ اس اچانک آفر پر کچھ حیران ہوا تھا۔
”لنچ آل رائٹ چلیں۔” چند لمحے سوچنے کے بعد اس نے کہا تھا۔
دونوں باہر نکل آئے۔ فلک نے اپنے ڈرائیور کو واپس بھجوا دیا۔ سلمان کے ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے اسکا دل بہت تیزی سے دھڑک رہا تھا۔
”کہاں چلیں؟” اس نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا تھا۔
”فیوجی یاما۔” وہ گاڑی کو ریورس کرتے ہوئے سڑک پر لے آیا تھا۔




Loading

Read Previous

لباس — حریم الیاس

Read Next

بے شرم — انعم خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!