پہلی محبت آخری بازی
پیش لفظ
سخن میں دلکشی کچھ ہے تو عجب کیا اس میں؟
خون سے ہر لفظ کو سینچیں تو کمال آتا ہے
یہ کہانی تمہارے ذہن میں کیسے آئی؟ کیسے بھر دیتی ہو اتنے بڑے بڑے رجسٹرز؟ یہ اتنے سارے الفاظ کہاں سے آتے ہیں تمہارے ذہن میں؟ ایسے بہت سارے سوالات مجھ سے لوگ پوچھتے ہیں لیکن مجھے تو شاید یاد بھی نہیں کہ لفظوں سے میرا ناطہ کب جڑا؟ لفظ تو رگوں میں یوں بہتے ہیں جیسے خون یا شاید اوپر سے مجھ پر اترتے ہیں لیکن مجھے اپنی صلاحیت کی پہچان عظمیٰ باجی کو چپکے چپکے ناول اور افسانے لکھتے دیکھ کر ہوئی اور پھر میں نے بھی کاغذ پر لفظوں کو بکھیرنا شروع کیا…
اس سفر میں جن لوگوں نے مجھے سپورٹ کیا ہے ان میں میرے والدین (انوارالحق راہی اور نشاط بیگم) میرا بھائی اور میری پانچ بہنوں کے ساتھ ساتھ میرے اساتذہ اور تمام دوست شامل ہیں۔
”پہلی محبت آخری بازی” کی کہانی ایسے کرداروں پر مبنی ہے جس کے نظریات ایک دوسرے سے قطعاً مختلف ہیں۔ اس ناول کو لکھتے ہوئے میں نے اپنے معاشرے میں حسد جیسے منفی پہلو کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی ہے کیوں شدید محبت میں حسد بھی محبت کی ہی ایک قسم ہے۔ اس کہانی میں جہاں اپنے حسد کی آگ میں جل کر اپنی محبت کو جلا کر راکھ کرنے کا حوصلہ رکھنے والے کرداروں سے تعارف کروایا گیا ہے۔ وہاں محبت کی خاطر قربانیاں دینے والے کردار بھی نظر آتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ انسان رحمانیت اور شیطانیت کا مجموعہ ہے اگر اس کی رحمانیت غالب آتی ہے تو وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اگر اس کی شیطانیت غالب آتی ہے تو وہ برائی کی طرف جاتا ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اچھائی کی طرف جائیں یا پھر برائی کے پودے کو غذا دے کر اتنا پروان چڑھائیں کہ وہ برائی ہماری ذات کا حصّہ ہی بن جائے۔ الف کتاب کا پلیٹ فارم میرے لیے گولڈن چانس تھا جس کے لیے میں اپنی دوست ندا کی بہت شکر گذار ہوں جس نے مجھے میسج کرکے بتایا اور یوں دن رات ایک کرکے رمضان کے مہینے میں آدھی آدھی راتوں کو ٹارچ کی روشنی میں تقریباً پچیس دنوں کے اندر اندر میں نے یہ کہانی لکھی۔ مجھے اندازہ بھی نہ تھا کہ اتنی کم عمری اور کم علمی کے باوجود میں اس پاک سرزمین کے لکھاریوں کی صف میں شامل ہوجاؤں گی بہرحال میں تو الف کتاب کی پوری ٹیم کی تہ دل سے شکر گذار ہو جنہوں نے خاص میرٹ کی بنیاد پر میری کہانی کو سلیکٹ کیا اور میری تحریر دوسرے انعام کی حق دار ٹھہری۔
شیما قاضی