سعیدہ اماں کچھ دیر خاموش رہیں پھر انہوں نے کہا۔
”تو تم نے بتایا نہیں کہ گرل فرینڈ۔۔۔۔”
سالار نے بات کاٹ دی۔
”نہیں ہے سعیدہ اماں! گرل فرینڈ بھی نہیں ہے۔”
”ماشاء اللہ… ماشاء اللہ۔” وہ ایک بارپھر اس ماشاء اللہ کا سیاق وسباق سمجھنے میں ناکام رہا۔
”گھر اپنا ہے؟”
”نہیں کرائے کاہے۔”
”کوئی ملازم وغیرہ ہے؟”
”مستقل تو نہیں ہے مگر صفائی وغیرہ کے لئے ملازم رکھا ہوا ہے۔”
”اور یہ گاڑی تو اپنی ہی ہوگی؟”
”جی۔”
”اور تنخواہ کتنی ہے؟”
سالار روانی سے جواب دیتے دیتے ایک بار پھر چونکا۔ گفتگو کس نوعیت پر جارہی تھی، فوری طور پر اس کی سمجھ میں نہیں آیا۔
”سعیدہ اماں! آپ یہاں اکیلی کیوں رہتی ہیں۔ اپنے بیٹوں کے پاس کیوں نہیں چلی جاتیں؟”
سالار نے موضوع بدلا۔
”ہاں، میرا یہی ارادہ ہے۔ پہلے تو میرا دل نہیں چاہتا تھا مگر اب یہ سوچا ہے کہ بیٹی کی شادی کرلوں تو پھر باہر چلی جاؤں گی۔ اکیلے رہتے رہتے تنگ آگئی ہوں۔”
سالار اب اس سڑک پر آگیا تھا جہاں سے اس نے سعیدہ اماں کو پک کیا تھا۔
”میں نے آپ کو یہاں سے لیا تھا۔ آپ بتائیں، ان میں سے کون سا گھر ہے؟” سالار نے گاڑی کی رفتار آہستہ کرتے ہوئے دائیں طرف کے گھروں پر نظر ڈالی۔
”نمبر کا نہیں پتہ، گھر کی تو پہچان ہوگی آپ کو؟”
سعیدہ اماں بغور گھروں کو دیکھ رہی تھیں۔
”ہاں… ہاں گھر کی پہچان ہے۔”
وہ گھر کی نشانیاں بتانے لگیں جو اتنی ہی مبہم تھیں، جتنا ان کے اپنے گھر کا پتہ۔ وہ سڑک کے آخری سرے پر پہنچ گئے۔ سعیدہ اماں گھر نہیں پہچان سکیں۔ سالار، بلال کے والد کا نام پوچھ کر گاڑی سے نیچے اتر گیا اور باری باری دونوں اطراف کے گھروں سے سعیدہ اماں کے بارے میں پوچھنے لگا۔
آدھ گھنٹہ کے بعد وہ اس سڑک پر موجود ہر گھر میں جاچکا تھا۔ مطلوبہ نام کے کسی آدمی کا گھر وہاں نہیں تھا۔
”آپ کو ان کا نام ٹھیک سے یاد ہے؟”
وہ تھک ہار کر سعیدہ اماں کے پاس آیا۔
”ہاں… لو بھلا اب مجھے نام بھی پتا نہیں ہوگا۔”
سعیدہ اماں نے برا مانا۔
”لیکن اس نام کے کسی آدمی کا گھر یہاں نہیں ہے، نہ ہی کوئی آپ کے بارے میں جانتا ہے۔”
سالار نے گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھتے ہوئے کہا۔
”ہاں تو… یہ ساتھ والی سڑک پر دیکھ لو۔”
سعیدہ اماں نے کچھ فاصلے پر ایک اور سڑک کی طرف اشارہ کیا۔
”لیکن سعیدہ اماں! آپ نے کہا تھا کہ گھر اسی سڑک پر ہے۔” سالار نے کہا۔
”میں نے کب کہا تھا؟” وہ معترض ہوئیں۔
”میں نے آپ سے پوچھا کہ آپ نے ٹرن تو نہیں لیا۔ آپ نے کہا نہیں۔” سالار نے انہیں یاد کروایا۔
”وہ تو میں نے کہا تھا مگر یہ ہوتا کیا ہے؟”
سالار کا دل ڈوبا۔
”ٹرن؟”
”ہاں، یہی۔”
”آپ کسی اور سڑک سے مڑ کر تو یہاں نہیں آئیں؟”
”لو تو اس طرح کہو نا۔” سعیدہ اماں کو تسلی ہوئی۔
”میں کیوں یہاں بیٹھ گئی تھی۔ تھک گئی تھی چل چل کر اور یہ سڑک تو چھوٹی سی ہے۔ یہاں میں چل کر کیا تھک سکتی تھی؟”
سالار نے گاڑی اسٹارٹ کرلی۔ وہ دن بہت خراب تھا۔
”کس سڑک سے مڑ کر یہاں آئی تھیں آپ؟”
اس نے سعیدہ اماں سے کہتے ہوئے گاڑی آگے بڑھائی۔
”میرا خیال ہے…” وہ پہلی سڑک کو دیکھتے ہوئے الجھیں۔
”یہ ہے۔” انہوں نے کہا۔
سالار کو یقین تھا وہ سڑک نہیں ہوگی مگر اس نے گاڑی اس سڑک پر موڑ لی۔ یہ تو طے تھاکہ آج اس کا سارا دن اسی طرح ضائع ہوناتھا۔
اگلا ایک ڈیڑھ گھنٹہ وہ وہاں آس پاس کی مختلف سڑکوں پر سعیدہ اماں کو لے کر پھرتا رہا مگر اسے کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ سعیدہ اماں کو ہر گھر دور سے شناسا لگتا۔ پاس جانے پر وہ کہنا شروع کردیتیں۔
”نہ…نہ…نہ…یہ نہیں ہے۔”
وہ بالآخر کالونی میں تلاش چھوڑ کر انہیں واپس اسی محلہ میں لے آیا جہاں وہ پہلے ان کا گھر ڈھونڈتا رہا تھا۔
مزید ایک ڈیڑھ گھنٹہ وہاں ضائع کرنے کے بعد جب وہ تھک کر واپس گاڑی کے پاس آیا تو شام ہوچکی تھی۔
سعیدہ اماں اس کے برعکس اطمینان سے گاڑی میں بیٹھی تھیں۔
”ملا؟”
انہوں نے سالار کے اندر بیٹھتے ہی پوچھا۔
”نہیں،اب تورات ہورہی ہے، تلاش بے کار ہے۔ میں پولیس میں رپورٹ کروا دیتا ہوں آپ کی۔ آپ کی بیٹی یا آپ کے محلے والے آپ کے نہ ملنے پر پولیس سے رابطہ تو کریں گے ہی… پھر وہ لے جائیں گے آپ کو۔”
سالار نے ایک بار پھر گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے تجویز پیش کی۔
”چچ…چچ… آمنہ بے چاری پریشان ہورہی ہوگی۔”
سعیدہ اماں کو اپنی بیٹی کا خیال آیا۔ سالار کا دل چاہا وہ ان سے کہے کہ وہ ان کی بیٹی سے زیادہ پریشان ہے مگر وہ خاموشی سے ڈرائیو کرتے ہوئے گاڑی پولیس اسٹیشن لے آیا۔
رپورٹ درج کروانے کے بعد وہ اٹھ کر وہاں سے نکلنے لگا۔ سعیدہ اماں بھی اٹھ کھڑی ہوئیں۔
”آپ بیٹھیں… آپ یہیں رہیں گی۔”
سالار نے ان سے کہا۔
”نہیں… ہم انہیں یہاں کہاں رکھیں گے، آپ انہیں ساتھ لے جائیں، کسی نے ہم سے رابطہ کیا تو ہم انہیں آپ کا پتا دے دیں گے۔” پولیس انسپکٹر نے کہا۔
”لیکن میں تو انہیں آپ کے حوالے کردینا چاہتا ہوں۔” سالار معترض ہوا۔
”دیکھیں، بوڑھی خاتون ہیں، اگر کوئی رابطہ نہیں کرتا ہم سے تورات کہاں رہیں گی یہ… اور اگر کچھ دن اور گزر گئے۔۔۔”
پولیس انسپکٹر کہتا گیا۔ سعیدہ اماں نے اسے بات مکمل کرنے نہیں دی۔
”نہیں، مجھے ادھر نہیں رہنا۔ بیٹا! میں تمہارے ساتھ ہی چلوں گی۔ میں ادھر کہاں بیٹھوں گی آدمیوں میں۔”
سالار نے انہیں پہلی بار گھبرائے ہوئے دیکھا۔
”لیکن میں تو…” اکیلا رہتا ہوں، وہ کہتے کہتے رک گیا، پھر اسے فرقان کے گھر کا خیال آیا۔
”اچھا ٹھیک ہے، چلیں۔” اس نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔
باہر گاڑی میں آکر اس نے موبائل پر فرقان سے رابطہ قائم کیا۔ وہ انہیں فرقان کے ہاں ٹھہرانا چاہتا تھا۔ فرقان ابھی ہاسپٹل میں ہی تھا۔ اس نے موبائل پر ساری صورت حال اسے بتائی۔
”نوشین تو گاؤں گئی ہوئی ہے۔” فرقان نے اسے بتایا۔
”مگر کوئی مسئلہ نہیں، میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔ انہیں اپنے فلیٹ پر لے جاؤں گا۔ وہ کون سی کوئی نوجوان خاتون ہیں کہ مسئلہ ہوجائے گا۔ تم ضرورت سے کچھ زیادہ ہی محتاط ہورہے ہو۔”
”نہیں، میں ان کے آرام کے حوالے سے کہہ رہا تھا۔ آکورڈ نہ لگے انہیں۔” سالار نے کہا۔
”نہیں لگتا یار! پوچھ لینا تم ان سے، ورنہ پھر کسی ساتھ والے فلیٹ میں ٹھہرادیں گے، عالم صاحب کی فیملی کے ساتھ۔”
”اچھا، تم آؤ پھر دیکھتے ہیں۔”
سالار نے موبائل بند کرتے ہوئے کہا۔
”کوئی بات نہیں بیٹا! میں تمہارے پاس ہی رہ لوں گی۔ تم میرے بیٹے کے برابر ہو، مجھے اعتماد ہے تم پر۔”
سعیدہ اماں نے مطمئن لہجے میں کہا۔
”سالار نے صرف مسکرانے پر اکتفا کیا۔
اس نے راستے میں رک کر ایک ریسٹورنٹ سے کھانا لیا۔ بھوک سے اس کا برا حال ہورہا تھا اور یک دم اسے احساس ہواکہ سعیدہ اماں بھی دوپہر سے اس کے ساتھ کچھ کھائے پیئے بغیر ہی پھررہی ہیں۔ اسے ندامت کا احساس ہوا۔ اپنے فلیٹ کی طرف جاتے ہوئے اس نے راستے میں ایک جگہ رک کر سعیدہ اماں کے ساتھ سیب کا تازہ جوس پیا۔ وہ زندگی میں پہلی بار کسی بوڑھے شخص کے ساتھ اتنا وقت گزار رہا تھا اور اسے احساس ہورہا تھا کہ یہ کام آسان نہیں تھا۔
فلیٹ میں پہنچ کر وہ ابھی سعیدہ اماں کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا جب فرقان آگیا۔
اس نے سعیدہ اماں سے خود ہی اپنا تعارف کروایا اور پھر کھانا کھانے لگا۔ چند منٹوں میں ہی وہ سعیدہ اماں کے ساتھ اتنی بے تکلفی کے ساتھ ٹھیٹھ پنجابی میں گفتگو کررہا تھا کہ سالار کو رشک آنے لگا۔ اس نے فرقان سے اچھی گفتگو کرنے والا کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کے گفتگو کے انداز میں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور تھا کہ دوسرا اپنا دل اس کے سامنے کھول کر رکھ دینے پر مجبور ہوجاتا تھا۔ اتنے سالوں سے دوستی کے باوجود وہ فرقان کی طرح گفتگو کرنا نہیں سیکھ سکا تھا۔
دس منٹ کے بعد وہ وہاں خاموشی سے کھانا کھانے والے ایک سامع کی حیثیت اختیار کرچکا تھا جبکہ فرقان اور سعیدہ اماں مسلسل گفتگو میں مصروف تھے۔ سعیدہ اماں یہ جان کر کہ فرقان ڈاکٹر ہے، اس سے طبی مشورے لینے میں مصروف تھیں۔ کھانے کے خاتمے تک وہ فرقان کو مجبور کرچکی تھیں کہ وہ اپنا میڈیکل باکس لاکر ان کا چیک اپ کرے۔
فرقان نے انہیں یہ نہیں بتایا کہ وہ اونکولوجسٹ تھا۔ وہ بڑی تحمل مزاجی سے اپنا بیگ لے آیا۔ اس نے سعیدہ اماں کا بلڈپریشر چیک کیا پھر اسٹیتھو سکوپ سے ان کے دل کی رفتار کو ماپا اور آخر میں نبض چیک کرنے کے بعد انہیں یقین دلایا کہ وہ بے حد تندرست حالت میں ہیں اور بلڈپریشر یا دل کی کوئی بیماری انہیں نہیں ہے۔
سعیدہ اماں یک دم بے حد ہشاش بشاش نظر آنے لگیں۔ سالار ان کے درمیان ہونے والی گفتگو سنتے ہوئے کچن میں برتن دھوتا رہا۔ وہ دونوں لاؤنج کے صوفوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔