پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۷

سالار صبح آفس میں داخل ہوا اور داخل ہوتے ہی چونک گیا۔ اس کی ٹیبل پر ایک بہت بڑا اور خوب صورت بکے پڑا ہوا تھا۔ اپنا بریف کیس ٹیبل پر رکھتے ہوئے اس نے وہ بکے اٹھاکر اس پر موجود کارڈ کھولا۔
”ہیپی برتھ ڈے ٹو سالار سکندر۔”
رمشہ ہمدانی
سالار نے بے اختیار ایک گہرا سانس لیا۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ آج اس کی سالگرہ تھی مگر رمشہ یہ کیسے جانتی تھی وہ کچھ دیر کسی سوچ میں گم ٹیبل کے پاس کھڑا رہا پھر اس نے بکے کو ٹیبل پر ایک طرف رکھ دیا۔ اپنا کوٹ اتار کر اس نے ریوالونگ چیئر کی پشت پر لٹکایا اور چیئر پر بیٹھ گیا۔ بکے کے نیچے ٹیبل پر بھی ایک کارڈ پڑا ہوا تھا۔ اس نے بیٹھنے کے بعد اس کارڈ کو کھولا۔ چند لمحے تک وہ اس میں لکھی ہوئی تحریر پڑھتا رہا پھر کارڈ بند کرکے اس نے اپنی دراز میں رکھ دیا۔ وہ نہیں جانتا تھا اس کارڈ اور اس بکے پر کس ردِ عمل کا اظہار کرے، چند لمحے وہ کچھ سوچتا رہا پھر اس نے کندھے جھٹک کر اپنا بریف کیس کھولنا شروع کر دیا۔ وہ اس میں سے اپنا لیپ ٹاپ نکال کر بریف کیس کو نیچے کارپٹ پر اپنی ٹیبل کے ساتھ رکھ رہا تھا جب رمشہ اندر داخل ہوئی۔
”ہیپی برتھ ڈے سالار۔” اس نے اندر داخل ہوتے ہی کہا۔
سالار مسکرایا۔
”تھنیکس…” رمشہ اب ٹیبل کے سامنے پڑی کرسی کھینچ کر بیٹھ رہی تھی، جب کہ سالار لیپ ٹاپ کو کھولنے میں مصروف تھا۔
”بکے اور کارڈ کے لئے بھی شکریہ۔ یہ ایک خوشگوار سر پرائز تھا۔”
سالار نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا وہ اب فون لیپ ٹاپ کے ساتھ اٹیج کرنے میں مصروف تھا۔
”مگر تمہیں میری برتھ ڈے کے بارے میں پتا کیسے چلا؟” وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکا۔
”جناب یہ تو میں نہیں بتاؤں گی۔ بس پتا چلانا تھا۔ چلالیا۔” رمشہ نے شگفتگی سے کہا۔” اور ویسے بھی دوست آپس میں یہ سوال کبھی نہیں کرتے۔ اگر دوستوں کو ایسی چیزوں کا بھی پتہ نہیں ہوگا تو پھر وہ دوست تو نہیں ہوئے۔”
سالار لیپ ٹاپ کی اسکرین پر نظریں جمائے مسکراتے ہوئے اس کی بات سنتا رہا۔
”اب میں سارے اسٹاف کی طرف سے پارٹی کی ڈیمانڈ کے لئے آئی ہوں۔ آج کا ڈنر تمہیں ارینج کرنا چاہئے۔” سالار نے لیپ ٹاپ سے نظریں ہٹاکر اس کی طرف دیکھا۔
”رمشہ! میں اپنی برتھ ڈے سیلیبریٹ نہیں کرتا۔”





”کیوں…؟”
”ویسے ہی۔۔۔۔”
”کوئی وجہ تو ہوگی۔”
”کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔ بس میں ویسے ہی سیلیبریٹ نہیں کرتا۔”
”پہلے نہیں کرتے ہوگے مگر اس بار تو کرنی پڑے گی۔ اس بار تو سارے اسٹاف کی ڈیمانڈ ہے۔” رمشہ نے بے تکلفی سے کہا۔
”میں کسی بھی دن آپ سب لوگوں کو کھانا کھلا سکتا ہوں۔ میرے گھرپر، ہوٹل میں، جہاں آپ چاہیں مگر میں برتھ ڈے کے سلسلے میں نہیں کھلا سکتا۔” سالار نے صاف گوئی سے کہا۔
”یعنی تم چاہتے ہو کہ ہم تمہارے لئے پارٹی ارینج کردیں۔” رمشہ نے کہا۔
”میں نے ایسا نہیں کہا۔” وہ کچھ حیران ہوا۔
”اگر تم پورے اسٹاف کو پارٹی نہیں بھی دے سکتے تو کم از کم مجھے ڈنر پر تولے جاسکتے ہو۔”
”رمشہ! میں آج رات کچھ مصروف ہوں اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ۔” سالار نے ایک بار پھر معذرت کی۔
”کوئی بات نہیں، میں بھی آجاؤں گی۔” رمشہ نے کہا۔
”نہیں یہ مناسب نہیں ہوگا۔”
”کیوں…؟”
”وہ سب مرد ہیں اور تم ان سے واقف بھی نہیں ہو۔” اس نے بہانا بنایا۔
”میں سمجھتی ہوں۔” رمشہ نے کہا۔
”پھر کل چلتے ہیں؟”
”کل نہیں… پھر کبھی چلیں گے۔ میں تمہیں بتادوں گا۔”
رمشہ کچھ مایوس ہوئی مگر اسے اندازہ ہوگیا کہ وہ اسے فی الحال باہر کہیں لے جانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔
”اوکے…” وہ کھڑے ہوتے ہوئے بولی۔
”مجھے امید ہے، تم نے مائنڈ نہیں کیا ہوگا۔” سالار نے اسے اٹھتے دیکھ کر کہا۔
”نہیں بالکل نہیں۔ It’s alright”وہ مسکراتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔ سالار اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔ اس کا خیال تھا سالگرہ کا وہ معاملہ وہیں ختم ہوگیا۔ یہ اس کی غلط فہمی تھی۔
لنچ آور کے دوران اس کے لئے ایک سرپرائز پارٹی تیار تھی۔ اس کے باس مسٹر پال ملرنے بڑی گرم جوشی سے سالگرہ پر مبارکباددی تھی۔ وہ پارٹی رمشہ نے ارینج کی تھی اور کیک اور دوسرے لوازمات کو دیکھتے ہوئے وہ پہلی بار صحیح معنوں میں تشویش میں مبتلا ہوا تھا اگر پہلے رمشہ ڈھکے چھپے الفاظ میں اپنی پسندیدگی ظاہر کررہی تھی تو اس دن اس نے بہت واضح انداز میں یہ بات ظاہر کردی تھی۔ وہ لنچ آور کے بعد تقریباً آدھ گھنٹہ اپنے آفس میں بیٹھا پہلی بار رمشہ کے بارے میں سوچتا رہا۔ وہ اندازہ کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ اس سے کون سی ایسی غلطی ہوئی تھی، جس سے رمشہ کو اس میں دلچسپی پیدا ہوئی۔
اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ بہت خوب صورت تھی۔ پچھلے کچھ عرصے میں ملنے والی چند اچھی لڑکیوں میں سے ایک تھی مگر وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ اس میں انوالو ہونے لگے۔ وہ پچھلے کچھ عرصے سے رمشہ کے اپنے لئے خاص رویے کو اس کی خوش اخلاقی سمجھ کر ٹالتا رہا تھا، مگر اس دن آفس سے نکلتے ہوئے اس کی طرف سے دئیے جانے والے چند پیکٹس کو گھر جاکر کھولنے پر اس کے چودہ طبق روشن ہوگئے تھے۔ وہ ابھی ان تحائف کو دیکھ کر تشویش میں مبتلا ہورہا تھا، جب فرقان آگیا۔ ڈرائنگ روم میں پڑے وہ پیکٹس فوراً اس کی نظر میں آگئے۔
”واؤ، آج تو خاصے تحائف اکٹھے ہورہے ہیں۔ دیکھ لوں؟” فرقان نے صوفہ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ سالار نے صرف سرہلایا، گھڑی، پرفیومز، ٹائیاں، شرٹس، وہ یکے بعد دیگرے ان چیزوں کو نکال نکال کر دیکھتا رہا۔
”یہ تمہاری بری کا سامان اکٹھا نہیں ہوگیا؟” فرقان نے مسکراتے ہوئے تبصرہ کیا۔ ”خاصا دل کھول کر گفٹس دئیے ہیں تمہارے کو لیگزنے۔”
”صرف ایک کولیگ نے۔” سالار نے مداخلت کی۔
”یہ سب کچھ ایک نے دیا ہے؟” فرقان کچھ حیران ہوا۔
”ہاں۔”
”کس نے؟”
”رمشہ نے۔”
فرقان نے اپنے ہونٹ سکوڑے۔
”تم جانتے ہو یہ تمام گفٹس ایک ڈیڑھ لاکھ کی رینج میں ہوں گے۔” وہ اب دوبارہ ان چیزوں پر نظر ڈال رہا تھا۔”
صرف یہ گھڑی ہی پچاس ہزار کی ہے۔ کوئی صرف کولیگ سمجھ کر تو اتنی مہنگی چیزیں نہیں دے گا۔ تم لوگوں کے درمیان کوئی…” فرقان بات کرتے کرتے رک گیا۔
”ہم دونوں کے درمیان کچھ نہیں ہے۔ کم از کم میری طرف سے، مگر آج میں پہلی بار پریشان ہوگیا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ رمشہ… مجھ میں کچھ ضرورت سے زیادہ دلچسپی لے رہی ہے۔” سالار نے ان چیزوں پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔
”بہت اچھی بات ہے۔ چلو تم میں بھی کسی لڑکی نے دلچسپی لی۔” فرقان نے ان پیکٹس کو واپس سینٹر ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
”ویسے بھی تم بہت کنوارے رہ لئے۔ لگے ہاتھوں اس سال یہ کام کرلو۔”
”جب مجھے شادی نہیں کرنی تو میں اس سلسلے کو آگے کیوں بڑھاؤں۔”
”سالار دن بہ دن تم بہت Impracticalکیوں ہوتے جارہے ہو؟ تمہیں اب سیٹل ڈاؤن ہونے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہئے۔ ہر لڑکی سے کب تک اس طرح بھاگتے پھروگے۔ تمہیں اپنی ایک فیملی شروع کرلینی چاہئے۔ رمشہ اچھی لڑکی ہے۔ میں اس کی فیملی کو جانتا ہوں۔ کچھ ماڈرن ضرور ہے مگر اچھی لڑکی ہے اور چلو اگر رمشہ نہیں تو پھر تم کسی اور کے ساتھ شادی کرلو۔ میں اس سلسلے میں تمہاری مدد کرسکتا ہوں۔ تم اپنے پیرنٹس کی مدد لے سکتے ہو مگر اب تمہیں اس معاملے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہئے۔ تمہیں ان تمام باتوں کے بارے میں غورکرنا چاہئے اور کم از کم
دوسرے کی بات کے جواب میں کچھ کہہ ضرور دینا چاہئے۔”
فرقان نے آخری جملے پر زورد یتے ہوئے کہا اس کا اشارہ اس کی خاموشی کی طرف تھا۔
”اس سے دوسرے کو یہ تسلی ہوجاتی ہے کہ وہ کسی مجسّمے کے سامنے تقریر نہیں کرتا رہا۔” فرقان نے کہا۔
”تم کبھی اپنی شادی کے بارے میں سوچتے نہیں ہو؟”
”کون اپنی شادی کے بارے میں نہیں سوچتا؟” سالار نے مدھم آواز میں کہا۔”میں بھی سوچتا ہوں مگر میں اس طرح نہیں سوچتا جس طرح تم سوچتے ہو۔ چائے پیوگے؟”
”آخری جملے کے بجائے تمہیں کہنا چاہئے تھا کہ بکواس بند کرو۔”
فرقان نے ناراضی سے کہا۔ سالار نے مسکراکر کندھے اچکادئیے وہ اب چیزیں سمیٹ رہا تھا۔
٭…٭…٭
رمشہ نے حیرانی سے اپنے سامنے پڑے ان پیکٹس کو دیکھا۔” لیکن سالار! یہ سب چیزیں تمہارا برتھ ڈے گفٹ ہیں۔”
سالار اگلی صبح ایک ٹائی چھوڑکر تمام چیزیں واپس اٹھالایا تھا اور اب وہ رمشہ کے آفس میں تھا۔
” میں کسی سے اتنا مہنگا تحفہ نہیں لیا کرتا۔ ایک ٹائی کافی ہے۔”
”سالار، میں اپنے فرینڈز کو اتنے ہی مہنگے گفٹس دیتی ہوں۔” رمشہ نے وضاحت کی کوشش کی۔
”یقینا تم دیتی ہوگی مگر میں نہیں لیتا… اگر تم نے زیادہ اصرار کیا تو میں وہ ٹائی بھی لاکر واپس تمہیں دے دوں گا…” سالار نے کہا اور اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر کمرے سے نکل آیا۔ رمشہ پھیکے چہرے کے ساتھ اسے کمرے سے نکلتا دیکھتی رہی۔
٭…٭…٭
سالار اس دن ہمیشہ کی طرح ڈاکٹر صاحب کے پاس آیا ہوا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے ابھی اپنا لیکچر شروع نہیں کیا تھا جب ان کے پاس بیٹھے ایک ادھیڑ عمر آدمی نے کہا۔
”ڈاکٹر صاحب! آدمی کو پیر کامل مل جائے تو اس کی تقدیر بدل جاتی ہے۔”
سالار نے گردن موڑکر اس شخص کو دیکھا، وہ وہاں پچھلے چند دن سے آرہا تھا۔
”اس کی نسلیں سنور جاتی ہیں۔ میں جب سے آپ کے پاس آنے لگا ہوں، مجھے لگتا ہے میں ہدایت پاگیا ہوں۔ میرے الٹے کام سیدھے ہونے لگے ہیں۔ میرا دل کہتا ہے کہ مجھے پیرکامل مل گیا ہے۔ میں… میں آپ کے ہاتھوں پر بیعت کرنا چاہتا ہوں۔”
وہ بڑی عقیدت مندی سے ڈاکٹر صاحب کا ہاتھ پکڑے ہوئے کہنے لگا۔ کمرے میں مکمل خاموشی چھاگئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے نرمی سے اس شخص کے ہاتھ پر تھپکی دیتے ہوئے اپنا ہاتھ چھڑالیا۔
”تقی صاحب! میں نے زندگی میں آج تک کسی سے بیعت نہیں لی۔ آپ کے منہ سے پیرکامل کا ذکر سنا… پیرکامل کون ہوتا ہے… پیرکامل کس کو کہتے ہیں… وہ کیا کرتا ہے…؟ اس کی ضرورت کیوں ہوتی ہے؟”
وہ بڑی سنجیدگی سے اس شخص سے پوچھ رہے تھے۔
”آپ پیرکامل ہیں۔” اس شخص نے کہا۔
”نہیں، میں پیرکامل نہیں ہوں۔” ڈاکٹر سبط علی نے کہا۔
”آپ سے مجھے ہدایت ملتی ہے۔” اس شخص نے اصرار کیا۔
”ہدایت تو استاذ بھی دیتا ہے، ماں باپ بھی دیتے ہیں، لیڈرز بھی دیتے ہیں، دوست احباب بھی دیتے ہیں، کیا وہ پیرکامل ہوجاتے ہیں؟”
”آپ… آپ گناہ نہیں کرتے۔” وہ آدمی گڑبڑا گیا۔




Loading

Read Previous

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۶

Read Next

بھکاری — صبا خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!