پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۷

سالار نے اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے دائیں کنپٹی کو مسلا۔ شاید یہ تیز میوزک تھا یا پھر اس وقت اس کا ذہنی اضطراب، اسے اپنی کنپٹی میں ہلکی سی درد کی لہر گزرتی محسوس ہوئی۔ اپنے گلاسز اتار کر اس نے بائیں ہاتھ سے اپنی دونوں آنکھیں مسلیں۔ دوبارہ گلاسز آنکھوں پر لگاتے ہوئے اس نے مڑ کر راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی، کچھ جدو جہد کے بعدوہ اپنی جگہ چھوڑتے ہوئے اس دائرے سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ اسے بخوشی راستہ دے دیا گیا۔
”کدھر جا رہے ہو؟” بے ہنگم شور میں طیبہ نے بلند آواز میں جانے سے پہلے اس کا بازو پکڑ کر پوچھا تھا۔ وہ ابھی رقص کرتے کرتے کچھ تھک کر اس کے پاس کھڑی ہوئی تھیں اس کا سانس پھولا ہوا تھا۔
”ممی! میں ابھی آتا ہوں۔ نماز پڑھ کر۔”
”آج رہنے دو۔۔۔”
سالار مسکرایا مگر اس نے جواب میں کچھ کہا نہیں بلکہ نفی میں اپنا سر ہلاتے ہوئے نرمی سے ان کا ہاتھ اپنے بازو سے ہٹادیا۔
وہ اب باہر نکلنے کی تگ و دو کر رہا تھا۔
”یہ کبھی نارمل نہیں ہوسکتا۔ زندگی کو انجوائے کرنا بھی ایک آرٹ ہے اور یہ آرٹ اس بے وقوف کو کبھی نہیں آئے گا۔” انہوں نے اپنے تیسرے بیٹے کی پشت کو دیکھتے ہوئے قدرے افسوس سے سوچا۔
سالار نے اس ہجوم سے نکل کر بے اختیار سکون کی سانس لی تھی۔
وہ جس وقت نماز پڑھنے کے لئے اپنے گھر کے گیٹ سے باہر نکل رہا تھا۔ سنگر اس وقت بھی گانے میں مصروف تھا۔ اس وقت مسجد کی طرف جانے والا وہ اکیلا تھا۔ شاید گاڑیوں کی لمبی قطاروں کے درمیان سے سڑک پر چلتے ہوئے وہ مسلسل ڈاکٹر سبط علی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ وہ ”سینکڑوں” کے اس مجمع کے بارے میں بھی سوچ رہا تھا جو اس کے گھر پر ناچ گانے میں مصروف تھے۔ مسجد میں کل ”چودہ” لوگوں نے باجماعت نماز ادا کی تھی۔
٭…٭…٭





پاکستان آنے کے بعد اسلام آباد اپنی پوسٹنگ کے دوران وہ سکندر عثمان کے گھر پر ہی رہتا رہا۔ لاہور آنے کے بعد بھی کسی پوش علاقے میں کوئی بڑا گھر رہائش کے لئے منتخب کرنے کے بجائے اس نے فرقان کی بلڈنگ میں ایک فلیٹ کرائے پر لینے کو ترجیح دی۔
فرقان کے پاس فلیٹ لینے کی ایک وجہ اگر یہ تھی کہ وہ لاہور میں اپنی عدم موجودگی کے دوران فلیٹ کے بارے میں کسی عدم تحفظ کا شکار نہیں ہوتا تھا تو دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ فلیٹ کے بجائے کوئی گھر لینے پر اسے دو چار ملازم مستقل رکھنے پڑتے جب کہ اس کا بہت کم وقت فلیٹ پر گزرتا تھا۔ فرقان کے ساتھ آہستہ آہستہ لاہور میں اس کا سوشل سرکل بہت وسیع ہونے لگا تھا۔ فرقان بہت سوشل آدمی تھا اور اس کا حلقۂ احباب بھی خاصا لمبا چوڑا تھا۔ وہ سالار کے موڈ اور ٹمپرامنٹ کو سمجھنے کے باوجود اسے وقتاً فوقتاً اپنے ساتھ مختلف جگہوں پر کھینچتا رہتا۔
وہ اس رات فرقان کے ساتھ اس کے کسی ڈاکٹر دوست کی ایک پارٹی اور محفل غزل میں شرکت کے لئے گیا تھا۔ وہ ایک فارم پر ہونے والی پارٹی تھی۔ اس نے سالار کو مدعو کرلیا اور محفل غزل کا سن کر وہ انکار نہیں کرسکا۔
فارم پر شہر کی ایلیٹ کلاس کا اجتماع تھا۔ وہ ان میں سے اکثریت کو جانتا تھا۔ وہ اپنے شناسا کچھ لوگوں کے ساتھ باتیں کرنے لگا۔ ڈنر چل رہا تھا اور ان ہی باتوں کے دوران اس نے فرقان کی تلاش میں نظر دوڑائی تھی وہ کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔ سالار ایک بار پھر کھانے میں مصروف ہوگیا۔ کھانے کے بعد اسے چند لوگوں کے ساتھ فرقان کھڑا نظر آ گیا۔وہ بھی اس طرف بڑھ آیا۔
”آؤ سالار! میں تمہارا تعارف کرواتا ہوں۔” فرقان نے اس کے قریب آنے پر چند جملوں کے تبادلے کے بعد کہا۔ ”یہ ڈاکٹر رضا ہیں۔ گنگا رام ہاسپٹل میں کام کرتے ہیں۔ چائلڈ اسپیشلسٹ ہیں۔” سالار نے ہاتھ ملایا۔
”یہ ڈاکٹر جلال انصر ہیں۔” سالار کو اس شخص سے تعارف کی ضرورت نہیں تھی۔ فرقان اب کیا کہہ رہا تھا وہ سن نہیں پایا۔ اس نے جلال انصر کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔ دونوں کے درمیان بہت رسمی سا مصافحہ ہوا۔ جلال انصر نے بھی یقینا اسے پہچان لیا تھا۔
سالار وہاں ایک اچھی شام گزارنے آیا تھا مگر اس وقت اسے محسوس ہوا کہ وہ ایک اور بری رات گزارنے آیا تھا۔ یادوں کا ایک سیلاب تھا جو ایک بار پھر ہر بند توڑ کر اس پر چڑھائی کر رہا تھا۔ وہ سب اب اس طرف جا رہے تھے جہاں بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ اب فرقان تھا۔ جلال انصر اب اس سے کچھ آگے دوسرے ڈاکٹرزکے ساتھ تھا۔ سالار نے ستے ہوئے چہرے کے ساتھ اس کی پشت کو دیکھا۔
دشت ِ تنہائی میں اے جان جہاں
لرزاں ہیں
تیری آواز کے سائے
تیرے ہونٹوں کے سراب
اقبال بانو گانا شروع کرچکی تھیں۔
دشت ِ تنہائی میں
دوری کے
خس و خاشاک تلے
کھل رہے ہیں
تیرے پہلو کے سمن اور گلاب
اس کے ارد گرد بیٹھے لوگ اپنا سر دھن رہے تھے۔ سالار چند ٹیبلز کے فاصلے پر بیٹھے ہوئے اس شخص کو دیکھ رہا تھا جو اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھا۔ اسے زندگی میں کبھی کسی شخص کو دیکھ کر رشک نہیں آیا تھا، اس دن پہلی بار آرہا تھا۔
آدھا گھنٹہ گزر جانے کے بعد اس نے فرقان سے کہا۔
”چلیں؟” فرقان نے چونک کر اسے دیکھا۔
”کہاں…؟”
”گھر ۔۔۔۔”
”ابھی تو پروگرام شروع ہوا ہے۔ تمہیں بتایا تو تھا، رات دیر تک یہ محفل چلے گی۔”
”ہاں، مگر میں جانا چاہتا ہوں۔ کسی کے ساتھ بھجوا دو۔ تم بعد میں آجانا۔”
فرقان نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا۔
”تم کیوں جانا چاہتے ہو؟”
”مجھے ایک ضروری کام یاد آگیا ہے۔” اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔
”اقبال بانو کو سنتے ہوئے بھی کوئی دوسرا کام یاد آگیا ہے؟” فرقان نے قدرے ملامتی انداز میں کہا۔
”تم بیٹھو میں چلا جاتاہوں۔” سالار نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
”عجیب باتیں کرتے ہو۔ یہاں سے کیسے جاؤگے۔ فارم اتنا دور ہے۔ چلو اگر اتنی ہی جلدی ہے تو چلتے ہیں۔” فرقان بھی اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
میزبان سے اجازت لیتے ہوئے وہ دونوں فرقان کی گاڑی میں آ بیٹھے۔
”اب بتاؤ۔ یوں اچانک کیا ہوا ہے؟” گاڑی کو فارم سے باہر لاتے ہوئے فرقان نے کہا۔
”میرا وہاں ٹھہرنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔”
”کیوں…؟” سالار نے جواب نہیں دیا۔ وہ باہر سڑک کو دیکھتا رہا۔
”وہاں سے اُٹھ آنے کی وجہ جلال ہے؟”
سالار نے بے اختیار گردن موڑ کر فرقان کو دیکھا۔ فرقان نے ایک گہرا سانس لیا۔
”یعنی میرا اندازہ ٹھیک ہے۔ تم جلال انصر کی وجہ سے ہی فنکشن سے بھاگ آئے ہو۔”
”تمہیں کیسے پتلا چلا؟” سالار نے ہتھیار ڈالنے والے انداز میں کہا۔
”تم دونوں بڑے عجیب انداز میں آپس میں ملے تھے۔ جلال انصر نے خلاف معمول تمہیں کوئی اہمیت نہیں دی جب کہ تمہارے جیسی شہرت والے بینکر کے سامنے تو اس جیسے آدمی کو کھل اُٹھنا چاہئے تھا۔ وہ تعلقات بنانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا، خود تم بھی مسلسل اسے دیکھ رہے تھے۔” فرقان بہت آرام سے کہہ رہا تھا۔
”تم جلال انصر کو جانتے ہو؟”
سالار نے گردن سیدھی کرلی۔ وہ ایک بار پھر سڑک کو دیکھ رہا تھا۔
”اِمامہ اسی شخص سے شادی کرنا چاہتی تھی۔” بہت دیر بعد اس نے مدھم آواز میں کہا۔ فرقان کچھ بول نہیں سکا۔ اسے توقع نہیں تھی جلال اور سالار کے درمیان اس طرح کی شناسائی ہوگی ورنہ وہ شاید یہ سوال کبھی نہ کرتا۔
گاڑی میں بہت دیر خاموشی رہی پھر فرقان نے ہی اس خاموشی کو توڑا۔
”مجھے یہ جان کر مایوسی ہوئی ہے کہ وہ جلال جیسے آدمی کے ساتھ شادی کرنا چاہتی تھی۔ یہ تو بڑا خرانٹ آدمی ہے۔ ہم لوگ اس کو ”قصائی” کہتے ہیں۔ اس کی واحد دلچسپی پیسہ ہے۔ مریض کیسے لاکر دے گا، کہاں سے لا کر دے گا، اسے دلچسپی نہیں ہوتی۔ تم دیکھنا آٹھ دس سال میں یہ اسی رفتار کے ساتھ پیسہ کماتے ہوئے لاہور کا سب سے امیر ڈاکٹر ہوگا۔”
فرقان اب جلال انصر کے بارے میں تبصرہ کر رہا تھا۔ سالار خاموشی سے سن رہا تھا۔ جب فرقان نے اپنی بات ختم کرلی تو اس نے کہا۔
”اس کو قسمت کہتے ہیں۔”
”تمہیں اس پر رشک آرہا ہے؟” فرقان نے قدرے حیرانی سے کہا۔
”حسد تو میں کر نہیں سکتا۔” سالار عجیب سے انداز میں مسکرایا۔ ”یہ جو کچھ تم مجھے اس کے بارے میں بتا رہے ہو۔ یہ سب کچھ مجھے بہت سال پہلے پتا تھا۔ تب ہی جب میں اِمامہ کے سلسلے میں اس سے ملا تھا۔ یہ کیسا ڈاکٹر بننے والا تھا، مجھے اندازہ تھا مگر آج اس فنکشن میں اسے دیکھ کر مجھے اس پر بے تحاشا رشک آیا۔ کچھ بھی نہیں ہے اس کے پاس۔ معمولی شکل و صورت ہے۔ خاندان بھی خاص نہیں ہے۔ اس جیسے ہزاروں ڈاکٹرز ہوتے ہیں۔ لالچی، مادہ پرست بھی ہے مگر قسمت دیکھو کہ اِمامہ ہاشم جیسی لڑکی اس کے عشق میں مبتلا ہوئی۔ اس کے پیچھے خوار ہوتی پھری۔ میں اور تم اسے قصائی کہہ لیں، کچھ بھی کہہ لیں، صرف ہماری باتوں سے اس کی قسمت تو نہیں بدل جائے گی نہ ا س کی نہ میری۔”
اس نے بات ادھوری چھوڑدی۔ فرقان نے اس کے چہرے کو دھواں دھواں ہوتے دیکھا۔
”کوئی نہ کوئی خوبی تو ہوگی اس میں کہ… کہ امامہ ہاشم کو اور کسی سے نہیں صرف اسی سے محبت ہوئی۔” وہ اب اپنی دونوں آنکھوں کو مسل رہا تھا۔
”مجھے اگر پتا ہوتا کہ یہاں تم جلال انصر سے ملوگے تو میں تمہیں کبھی اپنے ساتھ یہاں نہ لاتا۔”
فرقان نے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے کہا۔
”مجھے بھی اگر یہ پتا ہوتا تاکہ میں یہاں اس کا سامنا کروں گا تو میں بھی کسی قیمت پر یہاں نہ آتا۔” سالار نے ونڈاسکرین سے نظر آنے والی تاریک سڑک کو دیکھتے ہوئے افسردگی سے سوچا۔
کچھ اور سفر بے حد خاموشی سے طے ہوا پھر فرقان نے ایک بارپھر اسے مخاطب کیا۔
”تم نے اسے کبھی ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی؟”
”امامہ کو…؟ یہ ممکن نہیں ہے۔”
”کیوں؟”
”میں اسے کیسے ڈھونڈ سکتا ہوں۔ کئی سال پہلے ایک بار میں نے کوشش کی تھی کوئی فائدہ نہیں ہوا اور اب… اب تو یہ اور بھی مشکل ہے۔”
”تم نیوز پیپرز کی مدد لے سکتے ہو۔”
”اشتہاردوں اس کے بارے میں؟” سالار نے قدرے خفگی سے کہا۔”وہ تو پتا نہیں ملے یا نہ ملے لیکن اس کے گھر والے مجھ تک ضرور پہنچ جائیں گے۔ شک تو ان کو مجھ پر پہلے بھی تھا اور فرض کرو میں ایسا کچھ کر بھی لوں تو نیوز پیپر میں کیا اشتہار دوں۔ کیا کہوں؟” اس نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔
”پھر اسے بھول جاؤ۔” فرقان نے بڑی سہولت سے کہا۔
”کوئی سانس لینا بھول سکتا ہے؟” سالار نے ترکی بہ ترکی کہا۔
”سالار! اب بہت سال گزرگئے ہیں۔ تم آخر کتنی دیر اس طرح اس لاحاصل عشق میں مبتلا رہوگے۔ تمہیں اپنی زندگی کو دوبارہ پلان کرنا چاہئے۔ تم اپنی ساری زندگی امامہ ہاشم کے لئے تو ضائع نہیں کرسکتے۔”
”میں کچھ بھی ضائع نہیں کررہا ہوں۔نہ زندگی کو، نہ وقت کو، نہ اپنے آپ کو۔ میں اگر امامہ ہاشم کو یاد رکھے ہوئے ہوں تو صرف اس لئے کیونکہ میں اسے بھلانہیں سکتا۔ یہ میرے بس میں نہیں ہے۔ مجھے اس کے بارے میں سوچنے سے بہت تکلیف ہوتی ہے لیکن میں اس تکلیف کا عادی ہوچکا ہوں۔ ہوں۔ وہ میری پوری زندگی کو Dominateکرتی ہے۔ وہ میری زندگی میں نہ آتی تو میں آج یہاں پاکستان میں تمہارے ساتھ نہ بیٹھا ہوتا۔ سالار سکندر کہیں اور ہوتا یا شاید ہوتا ہی نہ۔ مجھ پر اس کا قرض بہت ہے۔ جس آدمی کے مقروض ہوں اس کو چٹکی سے پکڑ کر اپنی زندگی سے کوئی باہر نہیں کرسکتا۔ میں بھی نہیں کرسکتا۔”
سالار نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”فرض کرو دوبارہ نہ ملے پھر …؟” فرقان نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔ یکلخت گاڑی میں خاموشی چھاگئی۔ بہت دیر بعد سالار نے کہا۔
”میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔ کسی اور موضوع پر بات کرتے ہیں۔” اس نے بڑی سہولت سے بات بدل دی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۶

Read Next

بھکاری — صبا خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!