پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۷

وہ ٹانگوں پر زور دیتے ہوئے اٹھنے کی کوشش کرنے لگیں۔
سالار نے ان کا بازو پکڑ کر انہیں اٹھایا۔ پچھلی سیٹ کا دروازہ کھول کر انہیں اندر بٹھادیا۔
بائی روڈ کو تیزی سے کر اس کرکے وہ مین روڈ پر آگیا۔ اب وہ کسی خالی رکشہ کی تلاش میں تھا مگر اسے رکشہ نظر نہیں آیا۔ وہ آہستہ آہستہ گاڑی چلاتے ہوئے کسی خالی رکشے کی تلاش میں ٹریفک پر نظریں دوڑانے لگا۔
”نام کیا ہے بیٹا تمہارا؟” انہوں نے پوچھا۔
”سالار۔”
”سلار؟” انہوں نے جیسے تصدیق چاہی۔ وہ بے اختیار مسکرایا۔ زندگی میں پہلی بار اس نے اپنے نام کو بگڑتے سنا تھا۔ تصحیح کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ وہ پنچابی خاتون تھیں اور اس سے بمشکل اردو میں بات کررہی تھیں۔
”جی۔” سالار نے تصدیق کی۔
”یہ کیا نام ہوا، مطلب کیا ہے اس کا؟” انہوں نے یک دم دلچسپی لی۔
سالار نے انہیں اپنے نام کا مطلب اس بار پنجابی میں سمجھایا۔ اماں جی کو اس کے پنجابی بولنے پر خاصی خوشی ہوئی اور اب وہ پنجابی میں گفتگو کرنے لگیں۔
سالار کے نام کا مطلب پوچھنے کے بعد انہوں نے کہا۔
”میری بڑی بہو کے ہاں بیٹا ہوا ہے۔”
وہ حیران ہوا۔ اسے توقع نہیں تھی کہ نام کا مطلب جاننے کے بعد ان کا اگلا جملہ یہ ہوگا۔
”جی… مبارک ہو۔” فوری طورپر اسے یہی سوجھا۔
”خیر مبارک۔”
انہوں نے خاصی مسرت سے اس کی مبارکباد وصول کی۔
”میری بہو کا فون آیا تھا، پوچھ رہی تھی کہ امی! آپ نام بتائیں۔ میں تمہارا نام دے دوں؟”
اس نے بیک ویومرر سے کچھ حیران ہوکر انہیں دیکھا۔
”دے دیں۔”
”چلو یہ مسئلہ تو حل ہوا۔”
اماں جی اب اطمینان سے عینک اتارکر اپنی بڑی سی چادر کے پلوسے اس کے شیشے صاف کرنے لگیں۔ سالار کو ابھی تک کوئی رکشہ نظر نہیں آیا تھا۔
”عمر کتنی ہے تمہاری؟” انہوں نے گفتگو کا سلسلہ وہیں سے جوڑا جہاں سے توڑا تھا۔
”تیس سال۔”
”شادی شدہ ہو؟”
سالار سوچ میں پڑگیا۔ وہ ہاں کہنا چاہتا تھا مگر اس کا خیال تھا کہ ہاں کی صورت میں سوالات کا سلسلہ مزید دراز ہوجائے گا اس لئے بہتر یہی تھا کہ انکار کردے اور اس کا یہ اندازہ اس دن کی سب سے فاش غلطی ثابت ہوا۔





”نہیں۔”
”شادی کیوں نہیں کی؟”
”بس ایسے ہی۔ خیال نہیں آیا۔” اس نے جھوٹ بولا۔
”اچھا۔”
کچھ دیر خاموشی رہی۔ سالار دعائیں کرتا رہا کہ اسے رکشہ جلدی مل جائے۔ اسے دیر ہورہی تھی۔
”کیا کرتے ہو تم؟”
”میں بینک میں کام کرتا ہوں۔”
”کیا کام کرتے ہو؟”
سالار نے اپنا عہدہ بتایا۔ اسے اندازہ تھا کہ اماں جی کے سرکے اوپر سے گزرے گا مگر وہ اس وقت ہکا بکا رہ گیا جب انہوں نے بڑے اطمینان سے کہا۔
”یہ افسر ہوتا ہے نا؟”
وہ بے اختیار ہنسا۔ اس سے زیادہ اچھی وضاحت کوئی اس کے کام کی نہیں دے سکتا تھا۔
”جی اماں جی!”افسر” ہوتا ہے۔” وہ محظوظ ہوا۔
”کتنا پڑھے ہو تم؟”
”سولہ جماعتیں۔”
اس بار سالار نے اماں جی کا فارمولا استعمال کرتے ہوئے اپنی تعلیم کو آسان لفظوں میں پیش کیا۔ اماں جی کا جواب اس بار بھی حیران کن تھا۔
”یہ کیا بات ہوئی سولہ جماعتیں…؟ ایم بی اے کیا ہے یا ایم اے اکنامکس؟”
سالار نے بے اختیار پلٹ کر اماں جی کو دیکھا۔ وہ اپنی عینک کے شیشوں سے اسے گھوررہی تھیں۔
”اماں جی! آپ کو پتا ہے ایم بی اے کیا ہوتا ہے یا ایم اے اکنامکس کیا ہوتا ہے؟” وہ واقعی حیران تھا۔
”لو مجھے نہیں پتا ہوگا؟ میرے بڑے بیٹے نے پہلے ایم اے اکنامکس کیا ادھر پاکستان سے پھر انگلینڈ جاکر اس نے ایم بی اے کیا۔ وہ بھی بینک میں ہی کام کرتا ہے مگر ادھر انگلینڈ میں۔ اسی کا تو بیٹا ہوا ہے۔”
سالار نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے گردن واپس موڑلی۔
”تو پھر تم نے بتایا نہیں؟”
”کیا؟”
سالار کو فوری طورپر یاد نہیں آیا کہ انہوں نے کیا پوچھا تھا۔
”اپنی تعلیم کے بارے میں؟”
”میں نے ایم بی اے کیا ہے۔”
”کہاں سے؟”
”امریکہ سے۔”
”اچھا… ماں باپ ہیں تمہارے؟”
”جی۔”
”کتنے بہن بھائی ہیں؟” سوالات کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا تھا۔
”پانچ۔” سالار کو کوئی جائے فرار نظر نہیں آرہی تھی۔
”کتنی بہنیں اور کتنے بھائی؟”
”ایک بہن اور چار بھائی۔”
”شادیاں کتنوں کی ہوئی ہیں؟”
”میرے علاوہ سب کی۔”
”تم سب سے چھوٹے ہو؟”
”نہیں، چوتھے نمبر پر ہوں۔ ایک بھائی چھوٹا ہے۔”
سالار کو اب پہلی بار اپنے”سوشل ورک” پر پچھتاوا ہونے لگا۔
”اس کی بھی شادی ہوگئی؟”
”جی۔”
”تو پھر تم نے شادی کیوں نہیں کی؟ کوئی محبت کا چکر تو نہیں ہے؟”
اس بار سالار کے پیروں کے نیچے سے حقیقت میں زمین کھسک گئی۔ وہ ان کی قیافہ شناسی کا قائل ہونے لگا۔
”اما جی! رکشہ نہیں مل رہا۔ آپ مجھے ایڈریس بتادیں، میں آپ کو خود چھوڑ آتا ہوں۔”
سالار نے ان کے سوال کا جواب گول کردیا۔
دیرتو اسے پہلے ہی ہوچکی تھی اور رکشے کا ابھی بھی کہیں نام ونشان نہیں تھا اور وہ اس بوڑھی خاتون کو کہیں سڑک پر بھی کھڑا نہیں کرسکتا تھا۔
اماں جی نے اسے پتا بتایا۔
سالار کی سمجھ میں نہیں آیا۔ ایک چوک میں کھڑے ٹریفک کانسٹیبل کو اس نے وہ پتا دوہراکر مدد کرنے کے لئے کہا۔ کانسٹیبل نے اسے علاقے کا رستہ سمجھایا۔
سالار نے دوبارہ گاڑی چلانا شروع کی۔
”تو پھر تم نے مجھے بتایا نہیں کہ کہیں محبت کا چکر تو نہیں تھا؟”
سالار کا دل چاہا وہ کہیں ڈوب کر مرجائے۔ وہ خاتون ابھی تک اپنا سوال نہیں بھولی تھیں جبکہ وہ صرف اس سوال کے جواب سے بچنے کے لئے انہیں گھر چھوڑنے پر تیار ہوا تھا۔
”نہیں اماں جی! ایسی کوئی بات نہیں۔’
اس بار اس نے سنجیدگی سے کہا۔
”الحمدللہ۔” وہ اماں جی کی اس” الحمدللہ” کا سیاق وسباق سمجھ نہیں پایا اور اس نے اس کا تردّد بھی نہیں کیا۔
اماں جی اب اس کے ماں باپ کے بارے میں کرید کرید کر معلومات حاصل کرنے کی کوشش فرما رہی تھیں۔ سالار واقعی مصیبت میں پھنس گیا تھا۔
سب سے بڑی گڑبڑ اس وقت ہوئی جب وہ اماں جی کے بتائے ہوئے علاقے میں پہنچا اور اس نے اماں جی سے مطلوبہ گلی کی طرف رہنمائی کرنے کی درخواست فرمائی اور اماں جی نے کمال اطمینان سے کہا۔
”اب یہ تو مجھے پتہ ہے کہ اس علاقے میں گھر ہے مگر پتہ مجھے معلوم نہیں۔”
وہ بھونچکا رہ گیا۔
”اماں جی! تو گھر کیسے پہنچاؤں میں آپ کو۔ پتے کے بغیر اس علاقے میں آپ کو کہاں ڈراپ کروں؟”
وہ اپنے گھر پر لکھا نمبر اور نام بتانے لگیں۔
”نہیں اماں جی! آپ مجھے گلی کا نام بتائیں۔”
وہ گلی کے نام کی بجائے نشانیاں بتانے لگیں۔




Loading

Read Previous

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۶

Read Next

بھکاری — صبا خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!