پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۷

پھر اسی دوران اس نے فون کی گھنٹی سنی۔ فرقان نے فون اٹھایا تھا۔ دوسری طرف ڈاکٹر سبط علی تھے۔ سلام دعا کے بعد انہوں نے کہا۔
”سالار نے پولیس اسٹیشن پر کسی سعیدہ نام کی خاتون کے بارے میں اطلاع دی تھی۔”
فرقان حیران ہوا۔
”جی وہ یہیں ہیں، ہمارے پاس۔”
”اللہ کا شکر ہے۔” ڈاکٹر سبط علی نے بے اختیار کہا۔
”ہاں، وہ میری عزیزہ ہیں، ہم انہیں تلاش کررہے تھے چند گھنٹوں سے۔ پولیس سے رابطہ کیا تو سالار کا نام اور نمبر دے دیا انہوں نے۔”
فرقان نے انہیں سعیدہ اماں کے بارے میں بتایا پھر سعیدہ اماں کی بات فون پر ان سے کروائی۔ سالار بھی باہر لاؤنج میں آگیا۔
سعیدہ اماں فون پر گفتگو میں مصروف تھیں۔
”ڈاکٹر صاحب کی عزیزہ ہیں یہ۔”
فرقان نے دھیمی آواز میں اس کے قریب آکر کہا۔
”ڈاکٹر سبط علی صاحب کی؟” سالار حیران ہوا۔
”ہاں، ان ہی کی۔”
سالار نے بے اختیار اطمینان بھرا سانس لیا۔
”بھائی صاحب کہہ رہے ہیں تم سے بات کروانے کو۔”
سعیدہ اماں نے فرقان سے کہا۔
فرقان تیزی سے ان کی طرف بڑھا اور ریسیورلے کر کاغذ پر کچھ نوٹ کرنے لگا۔ ڈاکٹر سبط علی اسے ایڈریس لکھوارہے تھے۔
سعیدہ اماں نے قدرے حیرانی سے لاؤنج کے دروازے میں کھڑے سالار کو دیکھا۔
”تم کیا کررہے ہو؟” ان کی نظریں سالار کے ایپرن پر جمی تھیں۔
وہ کچھ شرمندہ ہوگیا۔
”میں… برتن دھورہا تھا۔”
سالار واپس کچن میں آیا اور اس نے ایپرن اتاردیا۔ ویسے بھی برتن وہ تقریباً دھوچکا تھا۔
”سالار! آؤ پھر انہیں چھوڑ آتے ہیں۔”
اسے اپنے عقب میں فرقان کی آواز آئی۔
”یہ کام بعد میں کرلینا۔”
”تم گاڑی کی چابی لو، میں ہاتھ دھوکر آتا ہوں۔” سالار نے کہا۔
اگلے دس منٹ میں وہ نیچے سالار کی گاڑی میں تھے۔ فرقان اگلی سیٹ پر تھا اور اس کے باوجود پچھلی سیٹ پر بیٹھی سعیدہ اماں سے گفتگو میں مصروف تھا۔ ساتھ ساتھ وہ سالار کو راستے کے بارے میں ہدایات بھی دیتا جارہا تھا۔
بہت تیز رفتاری سے ڈرائیونگ کرتے ہوئے وہ بیس منٹ میں مطلوبہ محلے اور گلی میں تھے۔ بڑی گلی میں گاڑی کھڑی کرنے کے بعد وہ دونوں انہیں اندر گلی میں ان کے گھر تک چھوڑنے گئے۔ سعیدہ اماں کو اب رہنمائی کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ اپنی گلی کو پہچانتی تھیں۔
وہ فخریہ انداز میں کچھ جتاتے ہوئے سالار کو بتاتی گئیں۔
”حلوائی کی دکان… گٹرکے سیمنٹ والے ڈھکن… پرویز صاحب کا گھر۔۔۔۔”
”جی!” سالار مسکراتے ہوئے سرہلاتا رہا۔
اس نے ان کو یہ نہیں بتایا کہ ان کی بتائی ہوئی ساری نشانیاں صحیح تھیں۔ صرف وہ اسے ایک غلط علاقے میں لے گئی تھیں۔





”آمنہ بے چاری پریشان ہورہی ہوگی۔” انہوں نے سرخ اینٹ کی بنی ہوئی ایک حویلی نما دو منزلہ مکان کے سامنے رکتے ہوئے270 دفعہ کہا۔
فرقان نے آگے بڑھ کر بیل بجائی۔ سالار قدرے ستائشی انداز میں حویلی پر نظریں دوڑاتا رہا۔ وہ یقینا کافی پرانی حویلی تھی مگر مسلسل دیکھ بھال کی وجہ سے وہ اس گلی میں سب سے باوقار لگ رہی تھی۔
”تم لوگوں کو اب میں نے چائے پیئے بغیر جانے نہیں دینا۔” سعیدہ اماں نے کہا۔
”میری وجہ سے تم لوگوں کو بہت پریشانی ہوئی۔ خاص طورپر سالار کو۔ بچہ مجھے سارا دن لئے پھرتا رہا۔” سعیدہ اماں نے سالار کے کندھے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
”کوئی بات نہیں، سعیدہ اماں! چائے ہم پھر کبھی پئیں گے، آج ہمیں دیر ہورہی ہے۔”
”ہاں سعیدہ اماں! آج چائے نہیں پئیں گے۔ کبھی آکر آپ کے پاس کھانا کھائیں گے۔”
فرقان نے بھی جلدی سے کہا۔
”دیکھ لینا، ایسانہ ہوکہ یاد ہی نہ رہے تمہیں۔”
”لیں، بھلا کھانا کیسے بھولیں گے ہم۔ وہ جو آپ پالک گوشت کی ترکیب بتارہی تھیں، وہی بناکر کھلائیے گا۔”
فرقان نے کہا۔ اندر سے قدموں کی آواز آرہی تھی۔ سعیدہ اماں کی بیٹی دروازہ کھولنے آرہی تھی اور اس نے دروازے سے کچھ فاصلے پر ہی سعیدہ اماں اور فرقان کی آوازیں سن لی تھیں، اس لئے اس نے کچھ بھی پوچھے بغیر دروازے کا بولٹ اندر سے اتارتے ہوئے دروازہ تھوڑا سا کھول دیا۔
”اچھا سعیدہ اماں! خدا حافظ۔” فرقان نے سعیدہ اماں کو دروازے کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دیکھ کر کہا۔ سالار اس سے پہلے ہی پلٹ چکا تھا۔
٭…٭…٭
گاڑی میں بیٹھ کر اسے اسٹارٹ کرتے ہوئے سالار نے فرقان سے کہا۔
”تمہاری سب سے ناپسندیدہ ڈش، پالک گوشت ہے اور تم ان سے کیا کہہ رہے تھے؟”
فرقان نے قہقہہ لگایا۔” کہنے میں کیا حرج ہے۔ ویسے ہوسکتا ہے وہ واقعی اتنا اچھا پکائیں کہ میں کھانے پر مجبور ہوجاؤں۔”
”تم جاؤگے ان کے گھر؟”
سالار گاڑی میں روڈ پرلاتے ہوئے حیران ہوا۔
”بالکل جاؤں گا، وعدہ کیا ہے میں نے اور تم نے؟”
”میں تو نہیں جاؤں گا۔” سالار نے انکار کیا۔
”جان نہ پہچان، منہ اٹھاکر ان کے گھر کھانا کھانے پہنچ جاؤں۔”
”ڈاکٹر سبط علی صاحب کی فرسٹ کزن ہیں وہ اور مجھ سے زیادہ تو تمہاری جان پہچان ہے ان کے ساتھ۔” فرقان نے کہا۔
”وہ اور معاملہ تھا، انہیں مدد کی ضرورت تھی، میں نے مدد کردی اور بس اتنا ہی کافی ہے۔ ان کے بیٹے یہاں ہوتے تو اور بات تھی لیکن اس طرح اکیلی عورتوں کے گھر میں تو کبھی نہیں جاؤں گا۔” سالار سنجیدہ تھا۔
”میں کون سا اکیلا جانے والا ہوں یار! بیوی بچوں کو ساتھ لے کر جاؤں گا۔ جانتا ہوں میرا اکیلا ان کے ہاں جانا مناسب نہیں ہے۔ نوشین بھی ان سے مل کر خوش ہوگی۔”
”ہاں، بھابھی کے ساتھ چلے جانا، کوئی حرج نہیں۔” سالار مطمئن ہوا۔
”میں جاؤں…؟ تم کو بھی ساتھ چلنا ہے، انہوں نے تمہیں بھی دعوت دی ہے۔”
”میں تو نہیں جاؤں گا۔ میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔ تم ہو آنا، کافی ہے۔” سالار نے لاپروائی سے کہا۔
”تم ان کے خاص مہمان ہو، تمہارے بغیر تو سب کچھ پھیکارہے گا۔”
سالار کو اس کا لہجہ کچھ عجیب سالگا۔ اس نے گردن موڑکر فرقان کو دیکھا۔ وہ مسکرارہا تھا۔
”کیا مطلب؟”
”میرا خیال ہے انہیں تم داماد کے طورپر پسند آگئے ہو۔”
”فضول باتیں مت کیا کرو۔” سالار نے اسے ناراضی سے دیکھا۔
”اچھا… دیکھ لینا، پروپوزل آئے گا تمہارا اس گھر سے۔ سعیدہ اماں کو تم ہر طرح سے اچھے لگے ہو۔ ہر بات پوچھی ہے انہوں نے مجھ سے تمہارے بارے میں۔ یہ بھی کہ تمہارا شادی کا کوئی ارادہ ہے کہ نہیں اور ہے تو کب تک کرنے کا ارادہ ہے۔ میں نے کہا کہ جیسے ہی کوئی اچھا پروپوزل ملا وہ فوراً کرلے گا پھر وہ اپنی بیٹی کے بارے میں بتانے لگیں۔ اب جتنی تعریفیں وہ اپنی بیٹی کی کررہی تھیں اگر ہم اس میں سے پچاس فیصد بھی سچ سمجھ لیں تو بھی وہ لڑکی… کیا نام لے رہی تھیں… ہاں آمنہ… تمہارے لئے بہترین ہوگی۔”
”شرم آنی چاہئے تمہیں ڈاکٹر سبط علی صاحب کی رشتہ دار ہیں وہ اور تم ان کے بارے میں فضول باتیں کررہے ہو۔” سالار نے اسے جھڑکا۔
فرقان سنجیدہ ہوگیا۔
”میں کوئی غلط بات نہیں کررہا ہوں، تمہارے لئے تو یہ اعزاز کی بات ہونی چاہئے کہ تمہاری شادی ڈاکٹر سبط علی صاحب کے خاندان میں ہو…”
”جسٹ اسٹاپ اٹ فرقان! یہ مسئلہ کافی ڈسکس ہوگیا، اب ختم کرو۔” سالار نے سختی سے کہا۔
”چلو ٹھیک ہے، ختم کرتے ہیں پھر کبھی بات کریں گے۔”
فرقان نے اطمینان سے کہا۔ سالار نے گردن موڑ کر چبھتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا۔
”ڈرائیونگ کررہے ہو، سڑک پر دھیان رکھو۔” فرقان نے اس کا کندھا تھپتھپایا۔ سالار کچھ ناراضی کے عالم میں سڑک کی طرف متوجہ ہوگیا۔
٭…٭…٭
سعیدہ اماں کے ساتھ ان کا رابطہ وہیں ختم نہیں ہوا۔
کچھ دنوں کے بعد وہ ایک شام ڈاکٹر سبط علی کے ہاں تھے جب انہوں نے اپنے لیکچر کے بعد ان دونوں کو روک لیا۔
”سعیدہ آپا آپ لوگوں سے ملنا چاہتی ہیں، مجھ سے کہہ رہی تھیں کہ میں آپ لوگوں کے ہاں! نہیں لے جاؤں۔ میں نے ان کو بتایا کہ شام کو وہ لوگ میری طرف آئیں گے، آپ یہیں مل لیں۔ آپ لوگوں نے شاید کوئی وعدہ کیا تھا ان کے ہاں جانے کا، مگر گئے نہیں۔”
فرقان نے معنی خیز نظروں سے سالار کو دیکھا۔ وہ نظریں چرا گیا۔
”نہیں، ہم لوگ سوچ رہے تھے مگر کچھ مصروفیت تھی اس لئے نہیں جاپائے۔” فرقان نے جواباً کہا۔
وہ دونوں ڈاکٹر سبط علی کے ساتھ ان کے ڈائننگ روم میں چلے آئے جہاں کچھ دیر بعد سعیدہ اماں بھی آگئیں اور آتے ہی ان کی شکایات اور ناراضی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ فرقان انہیں مطمئن کرنے میں مصروف رہا جبکہ سالار خاموشی سے بیٹھا رہا۔
اگلے ویک اینڈپر فرقان نے سالار کو سعیدہ اماں کی طرف جانے کے پروگرام کے بارے میں بتایا۔ سالار کو اسلام آباد اور پھر وہاں سے گاؤں جانا تھا۔ اس لئے اس نے اپنی مصروفیت بتاکر سعیدہ اماں سے معذرت کرلی۔
ویک اینڈ گزرنے کے بعد لاہور واپسی پر فرقان نے اسے سعیدہ اماں کے ہاں گزارے جانے والے وقت کے بارے میں بتایا۔ وہ فیملی کے ساتھ وہاں گیا تھا۔
”سالار! میں سعیدہ اماں کی بیٹی سے بھی ملا تھا۔”
فرقان نے بات کرتے ہوئے اچانک کہا۔
”بہت اچھی لڑکی ہے۔ سعیدہ اماں کے برعکس خاصی خاموش طبع ہے۔ بالکل تمہاری طرح۔ تم دونوں کی بڑی اچھی گزرے گی۔ نوشین کو بھی بہت اچھی لگی ہے۔”
”فرقان! تم صرف دعوت تک ہی رہو تو بہتر ہے۔” سالار نے اسے ٹوکا۔
”میں بہت سیریس ہوں سالار!” فرقان نے کہا۔
”میں بھی سیریس ہوں۔” سالار نے اسی انداز میں کہا۔” تمہیں پتا ہے فرقان! تم جتنا شادی پر اصرار کرتے ہو، میرا شادی سے اتنا ہی دل اٹھتا جاتا ہے اور یہ سب تمہاری ان باتوں کی وجہ سے ہے۔”
سالار نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا۔
”میری باتوں کی وجہ سے نہیں۔ تم صاف صاف یہ کیوں نہیں کہتے کہ تم امامہ کی وجہ سے شادی نہیں کرنا چاہتے۔”
فرقان یک دم سنجیدہ ہوگیا۔
‘اوکے… صاف صاف کہہ دیتا ہوں، میں امامہ کی وجہ سے شادی کرنا نہیں چاہتا پھر…؟”
سالار نے سرد مہری سے کہا۔
”یہ ایک بچگانہ سوچ ہے۔” فرقان اسے بغور دیکھتے ہوئے بولا۔
”اوکے، فائن۔ بچگانہ سوچ ہے پھر؟” سالار نے کندھے جھٹکتے ہوئے کہا۔
”Then you should get rid of it “(تب تمہیں اس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہئے)۔ فرقان نے نرمی سے کہا۔
so?”…I don’t want to get rid of it “( میں اس سے چھٹکارا نہیں چاہتا… پھر؟)۔
سالار نے ترکی بہ ترکی کہا۔ فرقان کچھ دیر لاجواب ہوکر اسے دیکھتا رہا۔
”میرے سامنے دوبارہ تم سعیدہ اماں کی بیٹی کی بات مت کرنا اور اگر تم سے وہ اس بارے میں کریں بھی تو تم صاف صاف کہہ دینا کہ مجھے شادی نہیں کرنی، میں شادی شدہ ہوں۔”
”اوکے، نہیں کروں گا اس بارے میں تم سے بات۔ غصے میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔”
فرقان نے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے صلح جوئی سے کہا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۶

Read Next

بھکاری — صبا خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!