پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۷

وہ دونوں ایک ریستوران میں بیٹھے ہوئے تھے۔ رمشہ آج خاص طور پر تیار ہوکر آئی تھی۔ وہ خوش تھی اور کوئی بھی اس کے چہرے سے اس کی خوشی کا اندازہ لگا سکتا تھا۔ سالار بھی۔
ویٹر سے مینیو کارڈ لے کر سالار نے بند کرکے ٹیبل پر رکھ دیا۔ رمشہ نے حیرانی سے اسے دیکھا۔ وہ اپنا کارڈ کھولے ہوئے تھی۔
”لنچ میری طرف سے ہے مگر مینیو آپ طے کریں۔” سالار نے مدھم مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”اوکے۔” رمشہ بے اختیار مسکرائی پھر وہ مینوکارڈ پر نظر دوڑانے لگی اور سالار قرب و جوار میں۔ رمشہ نے ویٹر کو کچھ ڈشز نوٹ کروائیں۔ جب ویٹر چلا گیا تو اس نے سالار سے کہا۔
”تمہاری طرف سے لنچ کی یہ دعوت بڑا اچھا سر پرائز ہے میرے لئے۔ پہلے تو کبھی تم نے ایسی کوئی دعوت نہیں دی؟ بلکہ میری دعوت بھی رد کرتے رہے۔”
”ہاں لیکن اب ہم دونوں کے لئے کچھ باتیں کرنا ضروری ہوگیاتھا۔ مجھے اسی لئے تمہیں یہاں بلانا پڑا۔” سالار نے کہا۔
رمشہ نے گہری نظروں سے اسے دیکھا۔
”کچھ باتیں؟… کون سی باتیں؟”
”پہلے لنچ کرلیں، اس کے بعد کریں گے۔” سالار نے اسے ٹالتے ہوئے کہا۔
”مگر لنچ آنے اور کھانے میں کافی وقت لگے گا۔ کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ہم وہ باتیں ابھی کرلیں؟” رمشہ نے قدرے بے تابی سے کہا۔
”نہیں، یہ بہتر نہیں ہے۔ لنچ کے بعد۔” سالار نے مسکراتے ہوئے مگر حتمی انداز میں کہا۔
رمشہ نے اس بار اصرار نہیں کیا۔ وہ دونوں ہلکی پھلکی گفتگو کرنے لگے پھر لنچ آگیا اور وہ دونوں لنچ میں مصروف ہوگئے۔
لنچ سے فارغ ہونے میں تقریباً پون گھنٹہ لگا، پھر سالار نے ویٹر سے کافی منگوالی۔
”میرا خیال ہے، اب بات شروع کرنی چاہئے۔”
رمشہ نے کافی کا پہلا گھونٹ لیتے ہوئے کہا۔ سالار اب بہت سنجیدہ نظر آرہا تھا۔ وہ سر جھکائے اپنی کافی میں چمچ ہلا رہا تھا۔ رمشہ کی بات پر اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
”میں تم سے اس کارڈ کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں، جو تم نے دو دن پہلے مجھے بھیجا ہے۔”
رمشہ کا چہرہ قدرے سرخ ہوگیا۔
دو دن پہلے جب وہ شام کو اپنے فلیٹ پر پہنچا تو وہاں ایک کارڈ اور بکے اس کا منتظر تھا۔ وہ ایک ہفتہ ہانگ کانگ میں بینک کے کسی کام کے لئے رہا تھا اور اسی شام واپس آیا تھا۔ کارڈ رمشہ کا بھیجا ہوا تھا۔
”تمہیں دوبارہ دیکھ کر مجھے کتنی خوشی ہوگی اس کا اظہار ناممکن ہے۔”
سالار کارڈ پر لکھے پیغام کو پڑھ کر چند لمحوں کے لئے ساکت رہ گیا۔ اس کے بدترین خدشات درست ثابت ہوئے تھے۔ رمشہ اس کے لئے اپنے احساسات کا اظہار کر رہی تھی۔
سالار نے اگلے دو دن اس کارڈ کے بارے میں رمشہ سے کوئی تذکرہ نہیں کیا لیکن اس نے ویک اینڈ پر اسے لنچ کی دعوت دے ڈالی۔ رمشہ کے ساتھ اب ان تمام باتوں کو کلیئر کرنا ضروری ہوگیا تھا۔
”تمہیں کارڈ برا لگا؟” رمشہ نے کہا۔





”نہیں، پیغام۔”
رمشہ کچھ شرمندہ ہوگئی۔
”آئی ایم سوری، مگر میں صرف … سالار! میں تمہیں بتانا چاہ رہی تھی کہ میں نے تمہیں کتنا مس کیا۔”
سالار نے کافی کا ایک گھونٹ لیا۔
”تم مجھے اچھے لگتے ہو، میں تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔”
رمشہ نے چند لمحوں کے توقف کے بعد کہا۔
”ہوسکتا ہے یہ پرو پوزل تمہیں عجیب لگے لیکن میں بہت عرصے سے اس سلسلے میں تم سے بات کرنا چاہ رہی تھی۔ میں تم سے فلرٹ نہیں کر رہی ہوں جو کچھ کارڈ میں میں نے لکھا ہے میں واقعی تمہارے لئے وہی جذبات رکھتی ہوں۔”
سالار نے اسے بات مکمل کرنے دی۔ اب وہ کافی کا کپ نیچے رکھ چکا تھا۔
”لیکن میں تم سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔” جب وہ خاموش ہوگئی تو اس نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”کیوں؟”
”کیا اس سوال کا جواب ضروری ہے؟” سالار نے کہا۔
”نہیں، ضروری نہیں ہے مگر بتانے میں کیا حرج ہے۔”
”تم مجھ سے شادی کیوں کرنا چاہتی ہو؟” سالار نے جواباً پوچھا۔
”کیونکہ تم مختلف ہو۔”
سالار ایک گہری سانس لے کر رہ گیا۔
”عام مردوں جیسے نہیں ہو، وقار ہے تم میں، کلچرڈ اور گرومڈ ہو۔”
”میں ایسا نہیں ہوں۔”
”ثابت کرو۔” رمشہ نے اسے جیسے چیلنج کیا۔
”کرسکتا ہوں مگر نہیں کروں گا۔” اس نے کافی کا کپ دوبارہ اٹھاتے ہوئے کہا۔
”ہر مرد سالار سکندر سے بہتر ہے۔”
”کس لحاظ سے؟”
”ہر لحاظ سے۔”
”میں نہیں مانتی۔”
”تمہارے نہ ماننے سے حقیقت نہیں بدلے گی۔”
”میں تمہیں جانتی ہوں ، ڈیڑھ سال سے تمہارے ساتھ کام کر رہی ہوں۔”
”مردوں کے بارے میں اتنی جلدی کسی رائے پر پہنچنا مناسب نہیں ہوتا۔”
”تمہاری کوئی بات تمہارے بارے میں میری رائے کو تبدیل نہیں کرسکتی۔” رمشہ اب بھی اپنی بات پر قائم تھی۔
”تم جس فیملی سے تعلق رکھتی ہو، جس سوسائٹی میں موو کرتی ہو، وہاں تمہیں مجھ سے زیادہ اچھے مرد مل سکتے ہیں۔”
”تم مجھ سے صرف اپنی بات کرو۔”
”رمشہ! میں کسی اور سے محبت کرتاہوں۔”
اس نے بالآخر کہہ دیا۔ اس ساری گفتگو میں پہلی بار رمشہ کی رنگت زرد پڑی۔
”تم نے…تم نے کبھی… کبھی نہیں بتایا۔”
سالار آہستہ سے مسکرایا۔ ”ہمارے درمیان اتنی بے تکلفی تو کبھی بھی نہیں رہی۔”
”تم اس سے شادی کر رہے ہو؟”
دونوں کے درمیان اس بار خاموشی کا ایک طویل وقفہ آیا۔
”ہوسکتا ہے کچھ مشکلات کی وجہ سے میری وہاں شادی نہ ہوسکے۔” سالار نے کہا۔
”میں تمہاری بات سمجھ نہیں سکی۔ تم کسی سے محبت کر رہے ہو، یہ جانتے ہوئے کہ وہاں تمہاری شادی نہیں ہوسکتی؟”
”کچھ ایسا ہی ہے۔”
”سالار! تم… تم اتنے جذباتی تو نہیں ہو۔ ایک پریکٹیکل آدمی ہوکر تم کس طرح کی عجیب بات کر رہے ہو۔”
رمشہ استہزائیہ انداز میں ہنس دی۔
”فرض کیا کہ وہاں تمہاری شادی نہیں ہوئی تو پھر… پھر کیا تم کبھی شادی نہیں کروگے؟”
”نہیں۔”
رمشہ نے نفی میں سر ہلایا۔ I can’t belive it(مجھے یقین نہیں آرہا)۔
”مگر ایسا ہی ہے، میں نے اگر کبھی شادی کا سوچا بھی تو دس پندرہ سال بعد ہی سوچوں گا اور دس پندرہ سال تک ضروری نہیں کہ میں زندہ رہوں۔”
اس نے بے حد خشک لہجے میں کہتے ہوئے ویٹر کو ہاتھ کے اشارے سے اپنی طرف بلایا۔
”میں چاہتا ہوں رمشہ! کہ آج کی اس گفتگو کے بعد ہم دونوں کے درمیان دوبارہ ایسا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہو۔ ہم اچھے کو لیگ ہیں۔ میں چاہتا ہوں یہ تعلق ایسے ہی رہے۔ میرے لئے اپنا وقت ضائع مت کرو، میں وہ نہیں ہوں، جو تم مجھے سمجھ رہی ہو۔”
ویٹر قریب آگیا تھا۔ سالار اس کا لایا ہوا بل ادا کرنے لگا۔
رمشہ، سالار کا چہرہ دیکھتی رہی۔ وہ اب کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔
٭…٭…٭
سالار اس روز کسی کام سے لنچ بریک کے بعد آفس سے نکل آیا۔ ریلوے کراسنگ پر ٹریفک کا اژدھام دیکھ کر اس نے دور سے ہی گاڑی موڑ لی۔ وہ اس وقت کسی ٹریفک جام میں پھنس کر وقت ضائع کرنا نہیں چاہتا تھا۔
گاڑی کو پیچھے موڑ کر اس نے ایک دوسری سڑک پر ٹرن لے لیا۔ وہ اس سڑک پر تھوڑا ہی آگے کیا تھا جب اس نے سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر ایک بوڑھی خاتون کو بیٹھے دیکھا۔ وہ ایک بائی روڈ تھی اور اس وقت بالکل سنسان تھی۔ خاتون اپنے لباس اور چہرے سے کسی بہت اچھے گھرانے کی نظر آرہی تھیں۔ اس کے ہاتھ میں سونے کی کچھ چوڑیاں بھی نظر آ رہی تھیں اور سالار کو خدشہ ہوا کہ اس اکیلی سڑک پر وہ کسی حادثے کا شکار نہ ہوجائیں۔ اس نے گاڑی ان کے قریب لے جاکر روک دی۔ خاتون کی سفید رنگت اس وقت سرخ تھی اور سانس پھولا ہوا تھا اور شاید وہ اپنا سانس ٹھیک کرنے کے لئے ہی سڑک کے کنارے بیٹھی تھیں۔
”السلام علیکم اماں! کیا مسئلہ ہے، آپ یہاں کیوں بیٹھی ہیں؟”
سالار نے اپنے سن گلاسز اتارتے ہوئے کھڑکی سے سر نکال کر پوچھا۔
”بیٹا! مجھے رکشہ نہیں مل رہا۔”
سالار ان کی بات پر حیران ہوا۔ وہ مین روڈ نہیں تھی۔ ایک رہائشی علاقے کی بائی روڈ تھی اور وہاں رکشہ ملنے کا امکان نہیں تھا۔
”اماں جی! یہاں سے تو آپ کو رکشہ مل بھی نہیں سکتا۔ آپ کو جانا کہاں ہے؟”
اس خاتون نے اسے اندرون شہر کے ایک علاقے کا نام بتایا۔ سالار کے لئے بالکل ممکن نہیں تھا کہ وہ انہیں وہاں چھوڑ آتا۔
”آپ میرے ساتھ آجائیں۔ میں آپ کو مین روڈ پر چھوڑ دیتا ہوں۔ وہاں سے آپ کو رکشہ مل جائے گا۔”
سالار نے پچھلے دروازے کا لاک کھولا اور پھر اپنی سیٹ سے اتر گیا مگر اماں جی اسے خاصی متامل نظر آئیں۔ وہ ان کے اندیشوں کو بھانپ گیا۔
”اماں جی! ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں شریف آدمی ہوں۔ آپ کو نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ میں صرف آپ کی مدد کرنا چاہتا ہوں، کیونکہ اس سڑک سے تو آپ کو رکشہ ملے گا نہیں اور اس وقت سڑک سنسان ہے، آپ نے زیور پہنا ہوا ہے، کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے آپ کو۔”
سالار نے نرمی سے ان کے اندیشے دور کرنے کی کوشش کی۔ خاتون نے اپنی عینک درست کرتے ہوئے اپنی چوڑیوں کو دیکھا اور پھر سالار سے کہا۔
”لو… یہ سارا زیور تو نقلی ہے۔”
”چلیں، یہ تو بہت اچھی بات ہے مگر کوئی بھی غلط فہمی کاشکار ہوسکتا ہے۔ کوئی آپ سے یہ تھوڑی پوچھے گا کہ یہ زیور اصلی ہے یا نقلی۔”
سالار نے ان کے جھوٹ کا پردہ رکھتے ہوئے کہا۔
وہ اب سوچ میں پڑگئیں ۔ سالار کو دیر ہورہی تھی۔
”ٹھیک ہے اماں جی! آپ اگر مناسب نہیں۔۔۔”
اس نے واپس اپنی گاڑی کی طرف قدم بڑھائے تو اماں جی فوراً بول اٹھیں۔
”نہیں، نہیں۔ میں چلتی ہوں تمہارے ساتھ۔ پہلے ہی ٹانگیں ٹوٹ رہی ہیں چل چل کے۔”




Loading

Read Previous

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۶

Read Next

بھکاری — صبا خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!