پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۷

”ہاں، دانستہ طورپر نہیں کرتا، اس لئے نہیں کرتا، کیونکہ گناہ سے مجھے خوف آتا ہے۔ یہاں پر بیٹھے بہت سے لوگ دانستہ طورپر گناہ نہیں کرتے ہوں گے، کیونکہ میری طرح انہیں بھی گناہ سے خوف آتا ہوگا مگر نادانستگی میں مجھ سے کیا سرزد ہوجاتا ہے، اسے میں نہیں جانتا۔ ہوسکتا ہے نادانستگی میں مجھ سے بھی گناہ سرزد ہوجاتے ہوں۔” انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”آپ کی دعا قبول ہوتی ہے۔” وہ آدمی اپنے مؤقف سے ہٹنے کے لئے تیار نہیں تھا۔
”دعا تو ماں باپ کی بھی قبول ہوتی ہے، مجبور اور مظلوم کی بھی قبول ہوتی ہے اور بھی بہت سے لوگوں کی قبول ہوتی ہے۔”
”لیکن آپ کی توہر دعا قبول ہوجاتی ہے۔” اس نے اصرار کیا۔
ڈاکٹر سبط علی صاحب نے انکار میں سرہلایا۔
”نہیں، ہر دعا تو قبول نہیں ہوتی۔ میں کئی سالوں سے ہر روز مسلمانوں کی نشأة ثانیہ کی دعا کرتا ہوں، ابھی تک تو قبول نہیں ہوئی۔ ہر روز میری کی جانے والی کئی دعائیں قبول نہیں بھی ہوتیں۔”
”لیکن آپ کے پاس جو شخص دعا کروانے کے لئے آتا ہے، اس کے لئے آپ کی دعا ضرور قبول ہوجاتی ہے۔”
ڈاکٹر صاحب کی مسکراہٹ اور گہری ہوگئی۔
”آپ کے لئے کی جانے والی دعا قبول ہوگئی ہوگی، یہاں بہت سے ایسے ہیں جن کے لئے میری دعا قبول نہیں ہوتی یا نہیں ہوئیں۔”
وہ اب کچھ بول نہیں سکا۔
”آپ میں سے اگر کوئی بتاسکے کہ پیرکامل کون ہوتا ہے؟”
وہاں موجود لوگ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے پھر ایک نے کہا۔
”پیرکامل نیک شخص ہوتا ہے، عبادت گزار شخص، پارسا آدمی۔”
ڈاکٹر سبط علی نے سرہلایا۔
”بہت سے لوگ نیک ہوتے ہیں، عبادت گزار ہوتے ہیں، پارسا ہوتے ہیں۔ آپ کے اردگرد ایسے بہت سارے لوگ ہوتے ہیں تو کیا وہ سب پیرکامل ہوتے ہیں؟”
”نہیں، پیرکامل وہ آدمی ہوتا ہے جو دکھاوے کے لئے عبادت نہیں کرتا۔ دل سے عبادت کرتا ہے، صرف اللہ کے لئے۔ اس کی نیکی اور پارسائی ڈھونگ نہیں ہوتی۔” ایک اور شخص نے اپنی رائے دی۔
اپنے حلقۂ احباب میں آپ میں سے ہر ایک کسی نہ کسی ایسے شخص کو ضرور جانتا ہوگا، جس کی عبادت کے بارے میں اسے یہ شبہ نہیں ہوتا کہ وہ ڈھونگ ہے، جس کی نیکی اور پارسائی کا بھی آپ کو یقین ہوتا ہے تو کیا وہ شخص پیرکامل ہے؟”
کچھ دیر خاموشی رہی پھر ایک اور شخص نے کہا۔
”پیرکامل ایک ایسا شخص ہوتا ہے، جس کے الفاظ میں تاثیر ہوتی ہے کہ وہ انسان کا دل بدل دیتے ہیں۔”





”تاثیر بھی بہت سے لوگوں کے الفاظ میں ہوتی ہے۔ کچھ کے منہ سے نکلنے والے الفاظ میں، کچھ کے قلم سے نکلنے والے الفاظ میں، تاثیر تو اسٹیج پر کھڑے ایک کمپیئر اور اخبار کا کالم لکھنے والے ایک جرنلسٹ کے الفاط میں بھی ہوتی ہے تو کیا وہ پیرکامل ہوتے ہیں؟”
ایک اور شخص بولا۔” پیرکامل وہ ہوتا ہے جسے الہام اور وجدان ہو، جو مستقبل کو بوجھ سکے۔”
”ہم میں سے بہت سارے لوگ ایسے خواب دیکھتے ہیں جن میں مستقبل میں درپیش آنے والے حالات سے ہمیں آگہی ہوجاتی ہے۔ کچھ لوگ استخارہ بھی کرتے ہیں اور چیزوں کے بارے میں کسی حدتک جان جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی چھٹی حس بہت تیز ہوتی ہے، وہ خطروں کو بھانپ جاتے ہیں۔”
”پیرکامل کون ہوتا ہے؟” ڈاکٹر صاحب کچھ دیر خاموش رہے، انہوں نے پھر اپنا سوال دہرایا۔
”پیرکامل کون ہوسکتا ہے؟” سالار الجھن آمیز انداز میں ڈاکٹر سبط علی کے چہرے کو دیکھنے لگا۔
”کیا ڈاکٹر سبط علی کے علاوہ کوئی اور پیرکامل ہوسکتا تھا اور اگر وہ نہیں تھے تو پھر کون تھا اور کون ہوسکتا ہے؟”
وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کے دل ودماغ میں ایک ہی گونج تھی۔ ڈاکٹر سبط علی ایک ایک کا چہرہ دیکھ رہے تھے، پھر ان کے چہرے کی مسکراہٹ آہستہ آہستہ معدوم ہوگئی۔
”پیرکامل میں کاملیت ہوتی ہے۔ کاملیت ان تمام چیزوں کا مجموعہ ہوتی ہے جو آپ کہہ رہے تھے۔ پیرکامل وہ شخص ہوتا ہے جو دل سے اللہ کی عبادت کرتا ہے، نیک اور پارسا ہوتا ہے۔ اس کی ہر دعا قبول ہوتی ہے۔ اس حد تک جس حد تک اللہ چاہے۔ اس کے الفاظ میں تاثیر بھی ہوتی ہے۔ وہ لوگوں کو ہدایت بھی دیتا ہے مگر اسے الہام نہیں ہوتا، اسے وجدان ہوتا ہے۔ وحی اترتی ہے اس پر اوروحی کسی عام انسان پر نہیں اترتی۔ صرف پیغمبر پر اترتی ہے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں میں سے ہر پیغمبر کامل تھا مگر پیرکامل وہ ہے جس پر نبوت کا سلسلہ ختم کردیا جاتا ہے۔
ہر انسان کو زندگی میں کبھی نہ کبھی کسی پیرکامل کی ضرورت ضرور پڑتی ہے۔ کبھی نہ کبھی انسانی زندگی اس موڑپر آکر ضرور کھڑی ہوجاتی ہے جب یہ لگتا ہے کہ ہمارے لبوں اور دل سے نکلنے والی دعائیں بے اثر ہوگئی ہیں۔ ہمارے سجدے اور ہمارے پھیلے ہوئے ہاتھ رحمتوں اور نعمتوں کو اپنی طرف موڑ نہیں پارہے۔ یوں لگتا ہے جیسے کوئی تعلق تھا جو ٹوٹ گیا ہے پھر آدمی کا دل چاہتا ہے اب اس کے لئے کوئی اور ہاتھ اٹھائے، کسی اور کے لب اس کی دعا اللہ تک پہنچائیں، کوئی اور اللہ کے سامنے اس کے لئے گڑگڑائے، کوئی ایسا شخص جس کی دعائیں قبول ہوتی ہوں، جس کے لبوں سے نکلنے والی التجائیں اس کے اپنے لفظوں کی طرح واپس نہ موڑدی جاتی ہوں پھر انسان پیرکامل کی تلاش شروع کرتا ہے، بھاگتا پھرتا ہے، دنیا میں کسی ایسے شخص کے لئے جو کاملیت کی کسی نہ کسی سیڑھی پر کھڑا ہو۔
پیرکامل کی یہ تلاش انسانی زندگی کے ارتقاء سے اب تک جاری ہے۔ یہ تلاش وہ خواہش ہے جو اللہ خود انسان کے دل میں پیدا کرتا ہے۔ انسان کے دل میں یہ خواہش، یہ تلاش نہ اتاری جاتی تو وہ پیغمبروں پر کبھی یقین نہ لاتا۔ کبھی ان کی پیروی اور اطاعت کرنے کی کوشش نہ کرتا۔ پیرکامل کی یہ تلاش ہی انسان کو ہر زمانے میں اتارے جانے والے پیغمبروں کی طرف لے جاتی رہی پھر پیغمبروں کی مبعوثیت کا یہ سلسلہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ختم کر دیا گیا۔ آپﷺ کی امت کے لیے آپﷺ کے بعد کسی اور پیرکامل کی گنجائش نہیں رکھی گئی۔
کون ہے جسے اب یا آئندہ آنے والے زمانے میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کوئی مقام دیا جائے؟
کون ہے جسے آج یا آئندہ آنے والے زمانے میں کسی شخص کے لئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کاملیت دے دی جائے؟
کون ہے جو آج یا آئندہ آنے والے زمانے میں کسی شخص کے لئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر شفاعت کا دعویٰ کرسکے؟
جامد اور مستقل خاموشی کی صورت میں آنے والا نفی میں یہ جواب ہم سے صرف ایک سوال کرتا ہے۔
پیرکامل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑ کر ہم دنیا میں اور کس وجود کو کھوجنے نکل کھڑے ہوئے ہیں؟ پیرکامل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیعت شدہ ہوتے ہوئے ہمیں دوسرے کس شخص کی بیعت کی ضرورت رہ گئی ہے؟
پیرکامل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راستے پر چلنے کے بجائے ہمیں دوسرا کون سا راستہ اپنی طرف کھینچ رہا ہے؟
کیا مسلمانوں کے لئے ایک اللہ، ایک قرآن، ایک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی سنت کافی نہیں؟
اللہ اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کی کتاب کے علاوہ اور کون سا شخص، کون سا کلام ہے جو ہمیں دنیا اور آخرت کی تکلیفوں سے بچاسکے گا؟
جو ہماری دعاؤں کو قبولیت بخشے، جو ہم پر نعمتیں اور رحمتیں نازل کرسکے؟
کوئی پیرکامل کا فرقہ بتاسکتا ہے؟ نہیں بتاسکتا۔”
ڈاکٹر سبط علی کہہ رہے تھے۔
”وہ صرف مسلمان تھے، وہ مسلمان جو یہ یقین رکھتے تھے کہ اگر وہ صراطِ مستقیم پر چلیں گے تو وہ جنت میں جائیں گے، اس راستے سے ہٹیں گے تو اللہ کے عذاب کا نشانہ بنیں گے۔
اور صراطِ مستقیم وہ راستہ ہے جو اللہ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے قرآن پاک میں بتاتا ہے۔ صاف، دوٹوک اور واضح الفاظ میں۔ وہ کام کریں جس کا حکم اللہ اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے دیتا ہے اور اس کام سے رک جائیں جس سے منع کیا جاتا ہے۔
اللہ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن کسی بات میں کوئی ابہام نہیں رکھتے۔ قرآن کو کھولئے، اگر اس میں کہیں دوٹوک اور غیر مبہم الفاظ میں کسی دوسرے پیرکامل یا پیغمبر کا ذکر ملے تو اس کی تلاش کرتے رہئے اور اگر ایسا کچھ نظر نہیں آتا تو پھر صرف خوف کھائیے کہ آپ اپنے پیروں کو کس دلدل میں لئے جارہے ہیں۔ اپنی پچاس ساٹھ سالہ زندگی کو کس طرح اپنی ابدی زندگی کی تباہی کے لئے استعمال کررہے ہیں کس طرح خسارے کا سودا کررہے ہیں۔ ہدایت کی تلاش ہے، قرآن کھولئے۔ کیا ہے جو وہ آپ کو نہیں بتادیتا۔ وہ آپ کو معصوم، انجان اور بے خبر نہیں رہنے دیتا۔ آپ کا اصل آپ کے منہ پردے مارتا ہے۔ کیا اللہ انسان کو نہیں جانتا ہوگا؟ اس مخلوق کو، جو اس کی اربوں کھربوں تخلیقات میں سے ایک ہے۔
دعا قبول نہیں ہوتی تو آسرے اور وسیلے تلاش کرنے کے بجائے صرف ہاتھ اٹھالیجئے، اللہ سے خود مانگیں۔ دے دے تو شکر کریں، نہ دے تو صبر… مگر ہاتھ آپ خود ہی اٹھائیں۔
زندگی کا قرینہ اور سلیقہ نہیں آرہا تو اسوئہ حسنہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف چلے جائیں، سب کچھ مل جائے گا آپ کو۔
احترام ہر ایک کا کریں۔ ہر ولی کا، ہر مومن کا، ہر بزرگ کا، ہر شہید کا، ہر صالح کا، ہر پارسا کا…
مگر اپنی زندگیوں میں ہدایت اور رہنمائی صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لیں کیونکہ انہوں نے آپ تک اپنے ذاتی احکامات نہیں پہنچائے جو کچھ بتایا ہے وہ اللہ کا نازل کردہ ہے۔
ڈاکٹر سید سبط علی کون ہے، کیا ہے، کون جانتا ہے اسے؟ آپ…؟ آپ کے علاوہ چند سو لوگ… چند ہزار لوگ مگر جس پیرکامل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کررہا ہوں، انہیں تو ایک ارب کے قریب لوگ روحانی پیشوا مانتے ہیں۔ میں تو وہی کچھ کہتا، دہراتا پھر رہا ہوں، جو چودہ سوسال پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماچکے ہیں۔ کیا نئی بات کہی میں نے؟”
ڈاکٹر سبط علی خاموش ہوگئے تھے۔ کمرے میں موجود ہر شخص پہلے ہی خاموش تھا۔ انہوں نے وہاں بیٹھے ہر شخص کو جیسے آئینہ دکھادیا تھا اور آئینے میں نظر آنے والا عکس کسی کو ہولارہا تھا، کسی کو لرزا رہا تھا۔
وہاں سے باہر آکر سالار بہت دیرتک اپنی گاڑی کی سیٹ پر چپ چات بیٹھا رہا۔ اس کی آنکھوں پر بندھی آخری پٹی بھی آج کھول دی گئی تھی۔
کئی سال پہلے جب امامہ ہاشم سوچے سمجھے بغیر گھر سے نکل پڑی تھی تو وہ اس لگن کو سمجھ نہیں پایا تھا۔ اس کے نزدیک وہ حماقت تھی۔ بعد میں اس نے اپنے خیالات میں ترمیم کرلی تھی۔ اسے یقین آگیا تھا کہ کوئی بھی واقعی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اس حدتک گرفتار ہوسکتا ہے کہ سب کچھ چھوڑدے۔
اس نے اسلام کے بارے میں جاننا شروع کیا تو اسے پتا چلا صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی اسی طرح کی قربانیاں دیا کرتے تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک ان گنت لوگ تھے اور ہر زمانے میں تھے اور سالار سکندر نے اقرار کرلیا تھا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اتنی طاقت تھی کہ وہ کسی کو بھی کچھ بھی چھوڑنے پر مجبور کردیتی۔ اس نے کبھی اس محبت کا تجزیہ کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ آج وہاں بیٹھا پہلی باریہ کام کررہا تھا۔
یہ صرف پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نہیں تھی، جس نے امامہ ہاشم کو گھر چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا۔ وہ صراطِ مستقیم کو دیکھ کر اس طرف چلی گئی تھی۔ اس صراطِ مستقیم کی طرف جسے وہ کسی زمانے میں اندھوں کی طرح ڈھونڈتا پھرتا تھا۔ وہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی اسی صراطِ مستقیم کی طرف جاتے تھے۔
امامہ ہاشم نے کئی سال پہلے پیرکامل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پالیا تھا۔ وہ بے خوفی اسی ہدایت اور رہنمائی کی عطا کردہ تھی جو اسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے ملی تھی۔ وہ آج تک پیرکامل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خود شناخت نہیں کرپایا تھا اور امامہ ہاشم نے ہر کام خود کیا تھا۔ شناحت سے اطاعت تک… اس کو سالار سکندر کی طرح دوسروں کے کندھوں کی ضرورت نہیں پڑی۔
سالار سکندر نے پچھلے آٹھ سالوں میں امامہ ہاشم کے لئے ہر جذبہ محسوس کیا تھا۔ حقارت، تضحیک، پچھتاوا، نفرت، محبت، سب کچھ … مگر آج وہاں بیٹھے پہلی بار اسے امامہ ہاشم سے حسد ہورہا تھا۔ تھی کیا وہ…؟ ایک عورت… ذراسی عورت آسمان کی حور نہیں تھی… سالار سکندر جیسے آدمی کے سامنے کیا اوقات تھی اس کی۔
کیا میرے جیسا آئی کیو تھا اس کا؟
کیا میرے جیسی کامیابیاں تھیں اس کی؟
کیا میرے جیسا کام کرسکتی تھی وہ؟
کیا میرے جیسا نام کماسکتی تھی؟
کچھ بھی نہیں تھی وہ اور اس کو سب کچھ پلیٹ میں رکھ کردے دیا اور میں… میں جس کا آئی کیولیول150 ہے مجھے سامنے کی چیزیں دیکھنے کے قابل نہیں رکھا؟
وہ اب آنکھوں میں نمی لئے اندھیرے میں ونڈاسکرین سے باہر دیکھتے ہوئے بڑبڑارہا تھا۔
”مجھے بس اس قابل کردیا کہ میں باہر نکلوں اور دنیا فتح کرلوں۔ وہ دنیا جس کی کوئی وقعت ہی نہیں ہے اور وہ…وہ۔۔۔۔”
وہ رک گیا۔ اسے امامہ پر غصہ آرہا تھا۔ آٹھ سال پہلے کا وقت ہوتا تو وہ اسے”بچ” کہتا، تب امامہ پر غصہ آنے پر وہ اسے یہی کہا کرتا تھا مگر آٹھ سال کے بعد آج وہ زبان پر اس کے لئے گالی نہیں لاسکتا تھا۔ وہ امامہ ہاشم کے لئے کوئی برا لفظ نکالنے کی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔ صراطِ مستقیم پر خود سے بہت آگے کھڑی اس عورت کے لئے کون سی زبان سے برا لفظ نکال سکتا تھا؟
اپنے گلاسز اتارکر اس نے اپنی آنکھیں مسلیں۔ اس کے انداز میں شکست خوردگی تھی۔
”پیرکامل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم… صراطِ مستقیم۔” آٹھ سال لگے تھے، مگر تلاش ختم ہوگئی تھی۔ جواب مل چکا تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۶

Read Next

بھکاری — صبا خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!