پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۷

چند سالوں میں فرقان کی طرح اس نے بھی گاؤں میں بہت کام کیا تھا اور فرقان کی نسبت زیادہ تیز رفتاری سے کیونکہ فرقان کے برعکس وہ بہت زیادہ اثرورسوخ رکھتا تھا۔ اس نے چند سالوں میں اس گاؤں کی حالت بدل کر رکھ دی تھی۔ صاف پانی، بجلی اور بڑی سڑک تک جاتی ایک پختہ سڑک، اس کے پہلے دوسالوں کی کارکردگی تھی۔ تیسرے سال وہاں ڈاک خانہ، محکمہء زراعت کا دفتر اور فون کی سہولت آئی تھی اور چوتھے سال اس کے اپنے ہائی اسکول میں سہ پہر کی کلاسز میں ایک این جی اوکی مدد سے لڑکیوں کے لئے دستکاری سکھانے کا آغاز کیا گیا۔ گاؤں کی ڈسپنری میں ایمبولینس آگئی۔ وہاں کچھ اور مشینری نصب کی گئی۔ فرقان کی طرح یہ ڈسپنری بھی اس نے اپنے وسائل سے اسکول کے ساتھ ہی شروع کی تھی اور اسے مزید بہتر بنانے میں فرقان نے اس کی مدد کی تھی۔
فرقان کے برعکس اس کی ڈسپنری میں ڈاکٹر کی عدم دستیابی کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اس کی ڈسپنری کا باقاعدہ آغاز ہونے سے بھی پہلے ایک ڈاکٹر اس کی کوششوں کی وجہ سے وہاں موجود تھا۔
اسکول پر ہونے والے تمام اخراجات تقریباً اسی کے تھے لیکن ڈسپنری کو قائم کرنے اور اسے چلانے کے لئے ہونے والے اخراجات اس کے کچھ دوست برداشت کررہے تھے۔ یونیسیف میں کام کے دوران بنائے ہوئے کانٹیکٹ اور دوستیاں اب اس کے کام آرہی تھیں اور وہ انہیں استعمال کررہا تھا۔ وہ یونیسیف اور یونیسکو میں اپنے بہت سے دوستوں کو پاکستان آنے پر وہاں لاچکا تھا۔ وہ اب وہاں وو کیشنل ٹریننگ کی پلاننگ کرنے میں مصروف تھا، مگر چوتھے سال میں صرف یہی کچھ نہیں ہوا تھا کچھ اور بھی ہوا تھا۔
٭…٭…٭





سکندر عثمان اس دن سہ پہر کے قریب اسلام آباد آتے ہوئے گاڑی کا ٹائر پنکچر ہونے پر سڑک پر رک گئے۔ ڈرائیور ٹائر بدلنے لگا اور وہ سڑک کے اطراف نظریں دوڑانے لگے۔ تب ان کی نظر ایک سائن بورڈ پر پڑی۔ وہاں لکھے ہوئے گاؤں کے نام نے ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلی۔ سالار سکندر کے حوالے سے وہ نام ان کے لئے ناآشنا نہیں تھا۔
ڈرائیور جب ٹائر بدل کر واپس ڈرائیونگ سیٹ پر آکر بیٹھا تو سکندر عثمان نے اس سے کہا۔
”اس گاؤں میں چلو۔” انہیں اچانک ہی تجسس پیدا ہوا تھا۔ اس اسکول کے بارے میں جو سالار سکندر پچھلے کئی سالوں سے وہاں چلا رہا تھا۔
پکی سڑک پر تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے ہوئے دس منٹ میں وہ گاؤں کے اندر موجود تھے۔ آبادی شروع ہوچکی تھی۔ کچھ کچی پکی دکانیں نظر آنے لگی تھیں۔ شاید یہ گاؤں کا”کمرشل ایریا” تھا۔
”یہاں نیچے اترکر کسی سے پوچھو کہ سالار سکندر کا اسکول کہاں ہے۔” سکندر عثمان نے ڈرائیور کو ہدایت دی۔ اس وقت انہیں یاد آیا تھا کہ اس نے کبھی ان کے سامنے اسکول کا نام نہیں لیا تھا اور جہاں ان کی گاڑی موجود تھی وہاں آس پاس کسی اسکول کے آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ گاؤں کے لوگوں کے لئے چند سال پہلے سکندر عثمان کی گاڑی بے حد اشتیاق یا تجسس کا باعث بنتی مگر پچھلے کچھ سالوں میں سالار اور فرقان کی وجہ سے وہاں وقتاً فوقتاً گاڑیوں کی آمد ہوتی رہتی تھی۔ یہ پہلے کی طرح ان کے لئے تعجب انگیز نہیں رہی تھی مگر وہ گاڑی وہاں سے ہمیشہ کی طرح گزرجانے کے بجائے جب وہیں کھڑی ہوگئی تو یک دم لوگوں میں تجسّس بیدار ہوا۔
سکندر عثمان کی ہدایت پر ڈرائیور نیچے اترکر پاس کی ایک دکان کی طرف گیا اور وہاں بیٹھے چند لوگوں سے اسکول کے بارے میں پوچھنے لگا۔
”یہاں سالار سکندر صاحب کا کوئی اسکول ہے؟” علیک سلیک کے بعد اس نے پوچھا۔
”ہاں جی ہے… یہ اسی سڑک پر آگے دائیں طرف موڑمڑنے پر بڑی سی عمارت ہے۔” ایک آدمی نے بتایا۔
”آپ ان کے کوئی دوست ہیں؟” اس آدمی نے جواب کے ساتھ ساتھ سوال بھی کیا۔
”نہیں میں ان کے والد کے ساتھ آیا ہوں۔”
”والد؟” اس آدمی کے منہ سے بے ساختہ نکلا اور وہاں بیٹھے ہوئے تمام لوگ یک دم سکندر عثمان کی گاڑی کی طرف دیکھنے لگے۔ پھر اس آدمی نے اٹھ کر ڈرائیور سے ہاتھ ملایا۔
”سالار صاحب کے والد آئے ہیں بڑی حوش قسمتی ہے۔” اس آدمی نے کہا اور پھر ڈرائیور کے ساتھ گاڑی کی طرف آنے لگا۔ وہاں بیٹھے ہوئے باقی لوگ بھی کسی معمول کی طرح اس کے پیچھے آئے۔
سکندر عثمان نے دور سے انہیں ایک گروپ کی شکل میں اپنی طرف آتے دیکھا تو وہ کچھ الجھن کا شکار ہوگئے۔ ڈرائیور کے پیچھے آنے والے آدمی نے بڑی عقیدت کے ساتھ کھڑکی سے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔ سکندر عثمان نے کچھ تذبذب کے عالم میں اس سے ہاتھ ملایا جب کہ اس آدمی نے بڑے جوش خروش سے دونوں ہاتھوں کے ساتھ ان سے مصافحہ کیا۔ اس کے ساتھ آنے والے دوسرے آدمی بھی اب یہی کررہے تھے۔ سکندر کچھ الجھن کے انداز میں ان سے ہاتھ ملارہے تھے۔
”آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی ہے۔ صاحب!”
پہلے ادھیڑ عمر آدمی نے عقیدت بھرے انداز میں کہا۔
”آپ کے لئے چائے لائیں یا پھر بوتل…” وہ آدمی اسی جوش وخروش سے پوچھ رہا تھا۔ ڈرائیور اب گاڑی اسٹارٹ کرچکا تھا۔
”نہیں… کوئی ضرورت نہیں۔ بس راستہ ہی پوچھنا تھا۔” انہوں نے جلدی سے کہا۔
ڈرائیور نے گاڑی آگے بڑھادی۔ وہ آدمی اور اس کے ساتھ کھڑے دوسرے لوگ وہیں کھڑے گاڑی کو آگے جاتے دیکھتے رہے پھر اس آدمی نے قدرے مایوسی سے سرہلایا۔
”سالار صاحب کی اور بات ہے۔”
”ہاں سالار صاحب کی اور ہی بات ہے، وہ کبھی کچھ کھائے پیئے بغیر یہاں سے اس طرح جاتے تھے۔” ایک دوسرے آدمی نے تائید کی۔ وہ لوگ اب واپس قدم بڑھانے لگے۔
سالار گاؤں میں موجود ان چند دکانوں کے پاس ہی اپنی گاڑی کھڑی کردیا کرتا تھا اور پھر وہاں موجود لوگوں سے ملتے ان کی پیش کردہ چھوٹی موٹی چیزیں کھاتا پیتا وہاں سے پیدل دس منٹ میں اپنے اسکول چلا جاتا تھا۔ وہ لوگ مایوس ہوئے تھے۔ سکندر عثمان نے تو گاڑی سے اترنے تک کا تکلف نہیں کیا تھا، کھانا پینا تو دور کی بات تھی۔
گاڑی اب موڑ مڑرہی تھی اور موڑمڑتے ہی ڈرائیور سے مزید کچھ کہتے کہتے سکندر عثمان خاموش ہوگئے۔ پچھلی سیٹ پر بیٹھے ونڈاسکرین کے پار نظر آنے والی وسیع وعریض عمارت ان چھوٹے چھوٹے کچے پکے مکانوں اور کھلے کھیتوں کے درمیان دور سے بھی حیرت میں ڈالنے کے لئے کافی تھی۔ سکندر کو اندازہ نہیں تھاکہ وہ وہاں اتنا بڑا اسکول چلارہا تھا مگر ان کو دم بخود اس اسکول کی دورتک پھیلی ہوئی عمارت نے نہیں کیا تھا بلکہ اسکول کی طرف جاتی ہوئی سڑک پر لگے اس سائن بورڈ نے کیا جس پر تیر کے ایک نشان کے اوپر جلی حروف میں اردو میں تحریر تھا۔ سکندر عثمان ہائی اسکول، ڈرائیور گاڑی اسکول کے سامنے روک چکا تھا۔
سکندر عثمان نے گاڑی سے اترکر اس عمارت کے گیٹ کے پار عمارت کے ماتھے پر چمکتے ہوئے اپنے نام کو دیکھا، ان کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی تیرگئی۔ سالار سکندر نے ایک بارپھر انہیں کچھ بولنے کے قابل نہیں رکھا تھا۔ گیٹ بند تھا مگر اس کے دوسری طرف چوکیدار موجود تھا جو گاڑی کو وہاں رکتے دیکھ کر گیٹ کھول رہا تھا۔ ڈرائیور جب تک گاڑی سے اترا چوکیدار باہر آگیا۔
”صاحب شہر سے آئے ہیں ذرا اسکول دیکھنا چاہتے ہیں۔” ڈرائیور نے چوکیدار سے کہا۔ سکندر عثمان ہنوز اس اسکول پر لگے اپنے نام کو دیکھ رہے تھے۔
”سالار صاحب کے حوالے سے آئے ہیں؟” چوکیدار نے پوچھا۔
”نہیں…” ڈرائیور نے بلاتوقف کہا۔” ویسے ہی آئے ہیں۔” سکندر عثمان نے پہلی بار اپنی نظریں ہٹاکر ڈرائیور اور پھر چوکیدار کو دیکھا۔
”میں سالار سکندر کا باپ ہوں۔” سکندر عثمان نے مستحکم مگر بھرّائی ہوئی آواز میں کہا۔ ڈرائیور نے حیرانی سے ان کو دیکھا۔ چوکیدار ایک دم بوکھلا گیا۔
”آپ… آپ سکندر عثمان صاحب ہیں؟” سکندر کچھ کہے بغیر میکانکی انداز میں گیٹ کی طرف بڑھ گئے۔
٭…٭…٭
وہ شام کو جاگنگ ٹریک پر تھا جب موبائل پر سکندر عثمان کی کال آئی۔ اپنی بے ترتیب سانس پر قابو پاتے ہوئے وہ جاگنگ کرتے کرتے رک گیا اور ٹریک کے پاس ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔
”ہیلو پاپا! السلام علیکم!”
”وعلیکم السلام… ٹریک پر ہو؟” انہوں نے اس کے پھولے ہوئے سانس سے اندازہ لگایا۔
”جی… آپ کیسے ہیں؟”
”میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔”
”ممی کیسی ہیں؟”
”وہ بھی ٹھیک ہیں۔” سالار ان کی طرف سے کچھ مزید کہنے یا پوچھنے کا انتظار کرتا رہا۔ دوسری طرف اب خاموشی تھی پھر چند لمحوں کے بعد وہ بولے۔
”میں آج تمہارا اسکول دیکھ کر آیا ہوں۔”
”رئیلی…!” سالار نے بے ساختہ کہا۔
”کیسا لگا آپ کو؟”
”تم نے یہ سب کیسے کیا ہے سالار؟”
”کیا…؟”
”وہ سب کچھ جو وہاں پر ہے۔”
”پتا نہیں۔ بس ہوتا گیا۔ مجھے پتا ہوتا تو میں آپ کو خود ساتھ لے جاتا۔ کوئی پرابلم تو نہیں ہوئی؟” سالار کو تشویش ہوئی۔
”وہاں سالار سکندر کے باپ کو کوئی پرابلم ہوسکتی ہے؟” انہوں نے جواباً کہا۔ سالار جانتا تھا وہ سوال نہیں تھا۔
”تم کس طرح کے آدمی ہو سالار؟”
”پتا نہیں… آپ کو پتا ہونا چاہئے، میں آپ کا بیٹا ہوں۔”
”نہیں مجھے… مجھے تو کبھی بھی پتا نہیں چل سکا۔” سکندر کا لہجہ عجیب تھا۔ سالار نے ایک گہرا سانس لیا۔
”مجھے بھی کبھی پتا نہیں چل سکا۔ میں تو اب بھی اپنے آپ کو جاننے کی کوشش کررہا ہوں۔”
”تم… تم… سالار ایک انتہائی احمق، کمینے اور خبیث انسان ہو۔”
سالار ہنسا…
”آپ ٹھیک کہتے ہیں، میں واقعی ایسا ہوں… اور کچھ…؟”
”اور… یہ کہ میں بڑا خوش قسمت ہوں کہ تم میری اولاد ہو۔” سکندر عثمان کی آواز لرز رہی تھی۔ اس بار چپ رہنے کی باری سالار کی تھی۔
”مجھے اس اسکول کے ہر ماہ کے اخراجات کے بارے میں بتادینا۔ میری فرم ہر ماہ اس رقم کا چیک تمہیں بھجوادیا کرے گی۔”
اس سے پہلے کہ سالار کچھ کہتا فون بند ہوچکا تھا۔ سالار نے پارک میں پھیلی تاریکی میں ہاتھ میں پکڑے موبائل کی روشن اسکرین کو دیکھا۔ پھر جاگنگ ٹریک پر لگی روشنیوں میں وہاں دوڑتے لوگوں کو کچھ دور وہ وہیں بٹھا خالی الذہنی کے عالم میں ان لوگوں کو دیکھتا رہا پھر اٹھ کر لمبے لمبے ڈگ پھرتے ہوئے ٹریک پر آگیا۔

٭…٭…٭

رمشہ سے سالار کی پہلی ملاقات لاہور آنے کے ایک سال بعد ہوئی تھی۔ وہ لندن اسکول آف اکنامکس کی گریجویٹ تھی اور سالار کے بینک میں اس کی تعیناتی ہوئی تھی۔ اس کے والد بہت عرصے سے اس بینک کے کسٹمرز میں سے تھے اور سالار انہیں ذاتی طورپر جانتا تھا۔
رمشہ بہت خوب صورت، ذہین اور خوش مزاج لڑکی تھی اور اس نے وہاں آنے کے کچھ عرصے کے بعد ہی ہر ایک سے خاصی بے تکلفی پیدا کرلی تھی۔ ایک کولیگ کے طورپر سالار کے ساتھ بھی اس کی اچھی سلام دعا تھی اور کچھ اس کے والد کے حوالے سے بھی وہ اس کی خاصی عزت کرتا تھا۔ بینک میں کام کرنے والی چند دوسری لڑکیوں کی نسبت رمشہ سے اس کی کچھ زیادہ بے تکلفی تھی۔
لیکن سالار کو قطعاً انداز نہیں ہواکہ کس وقت رمشہ نے اسے کچھ زیادہ سنجیدگی سے لینا شروع کر دیا۔ وہ سالار کا ضرورت سے زیادہ خیال رکھنے لگی تھی۔ وہ اس کے آفس میں بھی زیادہ آنے جانے لگی تھی اور آفس کے بعد بھی اکثر اوقات اسے کال کرتی رہتی۔ سالار کو چند بار اس کا رویہ کچھ خلافِ معمول لگا لیکن اس نے اپنے ذہن میں ابھرنے والے شبہات کو جھٹک دیا مگر اس کا یہ اطمینان پورے ایک سال کے بعد ایک واقعے کے ساتھ رخصت ہوگیا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۶

Read Next

بھکاری — صبا خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!