پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۷

”سالار۔۔۔۔!”
وہ رک گیا۔ سکندر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔
”جو کچھ بھی ہوا… نادانستگی میں ہوا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ تم… اگر تم نے کبھی مجھے امامہ کے بارے میں اپنی فیلنگز بتائی ہوتیں تو میں کبھی یہ سب نہ کرتا۔ میں اس سارے معاملے کو کسی اور طرح ہینڈل کرتایا پھر اس کے ساتھ تمہارا رابطہ کروادیتا۔میرے بارے میں اپنے دل میں کوئی شکایت یا گلہ مت رکھنا۔”
سالار نے سر نہیں اٹھایا۔ ان سے نظر نہیں ملائی مگر سر کو ہلکی سی جنبش دی۔ اسے ان سے کوئی شکوہ نہیں تھا۔ سکندر نے اس کے کندھے سے ہاتھ ہٹالیا۔
وہ تیزی سے کمرے سے نکل گیا، سکندر چاہتے تھے وہ وہاں سے چلاجائے۔ انہوں نے اس کے ہونٹوں کو کسی بچے کی طرح کپکپاتے دیکھا تھا۔ وہ باربار انہیں بھینچ کر خودپر قابو پانے کی کوشش کررہا تھا۔ چند منٹ اور وہاں رہتا تو شاید پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا۔ سکندر اپنے پچھتاوے میں مزید اضافہ نہیں چاہتے تھے۔
طیبہ نے اس ساری گفتگو میں کوئی مداخلت نہیں کی، مگر سالار کے باہر جانے کے بعد انہوں نے سکندر کی دل دہی کرنے کی کوشش کی۔
”پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ نے جو کچھ کیا اس کی بہتری کے لئے کیا۔ وہ سمجھ جائے گا۔”
وہ سکندر کے چہرے سے ان کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگاسکتی تھیں۔ سکندر ایک سگریٹ سلگاتے ہوئے کمرے میں چکر لگارہے تھے۔
”یہ میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ مجھے سالار سے پوچھے بغیر یا اس کو بتائے بغیر یہ سب کچھ نہیں کرنا چاہئے تھا۔ مجھے امامہ سے اس طرح کا جھوٹ بھی نہیں بولنا چاہئے تھا… مجھے…” وہ بات ادھوری چھوڑکر تاسف آمیز انداز میں ایک ہاتھ کو مٹھی کی صورت میں بھینچے ہوئے کھڑکی میں جاکر کھڑے ہوگئے۔
٭…٭…٭





گاڑی بہت محتاط انداز میں اس سڑک پر پھسل رہی تھی۔ سالار کئی سال بعد پہلی بار اس سڑک پر رات کے اس پہر گاڑی چلارہا تھا۔ وہ رات اس کی آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی طرح چل رہی تھی۔ اسے لگا آٹھ سال اڑکر غائب ہوگئے تھے۔ سب کچھ وہی تھا۔ وہیں تھا۔
کوئی بڑی آہستگی سے اس کے برابر میں آبیٹھا۔ اس نے اپنے آپ کو فریب کی گرفت میں آنے دیا۔ گردن موڑکر برابر والی سیٹ کو نہیں دیکھا۔ الوژن کو حقیقت بننے دیا۔ جانتے بوجھتے کھلی آنکھوں کے ساتھ۔ کوئی اب سسکیوں کے ساتھ رورہا تھا۔
”ڈئیر انکل سکندر!
مجھے آپ کے بیٹے کی موت پر بہت افسوس ہوا۔ چند سال پہلے میری وجہ سے آپ کو بہت تکلیف اٹھانی پڑی، میں اس کے لئے آپ سے معذرت خواہ ہوں۔ مجھے سالار کو کچھ رقم اداکرنی تھی۔ وہ اب میں آپ کو بھیج رہی ہوں۔”
خدا حافظ
امامہ ہاشم
ایک بار پھر اس خط کی تحریر اس کے ذہن میں گونجنے لگی تھی۔
وہ سکندر عثمان کے پاس سے آکر بہت دیر تک خط لئے اپنے کمرے میں بیٹھا رہا۔
اس نے امامہ کو کوئی رقم نہیں دی تھی مگر وہ جانتا تھا اس نے اس کا کون سا قرض لوٹا یا تھا۔ موبائل فون کی قیمت اور اس کے بلز، وہ خالی الذہنی کے عالم میں اپنے بیڈپر بیٹھے نیم تاریک کمرے کی کھڑکیوں سے باہر اس کے گھر کی عمارت کو دیکھتا رہا۔ ساری دنیا یک دم جیسے ہر زندہ شے سے خالی ہوگئی تھی۔
اس نے خط پر تاریخ پڑھی ، وہ امامہ کے گھر سے جانے کے تقریباً ڈھائی سال بعد بھیجا گیا تھا۔
ڈھائی سال کے بعد اگر وہ بیس ہزار روپے اسے بھجوارہی تھی تو اس کا مطلب تھا وہ خیریت سے تھی۔ کم از کم اس کے امامہ کے بارے میں بدترین اندیشے درست ثابت نہیں ہوئے تھے۔ اسے خوشی تھی لیکن اگر اس نے یہ سمجھ لیا تھا کہ سالار مرچکا تھا تو پھر وہ اس کی زندگی سے بھی نکل گیا تھا اور اس کا کیا مطلب تھا وہ یہ بھی جانتا تھا۔
کئی گھنٹے وہ اسی طرح وہیں بیٹھا رہا پھر پتا نہیں اس کے دل میں کیا آیا، اپنا بیگ پیک کرکے وہ گھر سے نکل آیا۔
اور اب وہ اس سڑک پر تھا۔ اسی دھند میں، اسی موسم میں، سب کچھ جیسے دھواں بن رہا تھا یا پھر دھند چند گھنٹوں کے بعد وہ اسی ہوٹل نما سروس اسٹیشن کے پاس جا پہنچا۔ اس نے گاڑی روک لی۔ دھند میں ملفوف وہ عمارت اب بالکل بدل چکی تھی۔ گاڑی کو موڑ کر وہ سڑک سے اتار کر اندر لے آیا۔ پھر دروازہ کھول کر نیچے اتر آیا، آٹھ سال پہلے کی طرح آج بھی وہاں خاموشی کا راج تھا۔ صرف لائٹس کی تعداد پہلے سے زیادہ تھی، اس نے ہارن نہیں دیا۔ اس لئے اندر سے کوئی نہیں نکلا۔ برآمدے میں اب وہ پانی کا ڈرم نہیں تھا۔ وہ برآمدے سے گزرتے ہوئے اندر جانے لگا، تب ہی اندر سے ایک شخص نکل آیا، اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا سالار نے اس سے کہا۔
”میں چائے پینا چاہتا ہوں۔”
اس نے جما ہی لی اور واپس مڑگیا۔
”آجائیں۔۔۔۔”
سالار اندر چلا گیا۔ یہ وہی کمرہ تھا مگر اندر سے کچھ بدل چکا تھا۔ پہلے کی نسبت میزوں اور کرسیوں کی تعداد زیادہ تھی اور کمرے کی حالت بھی بہت بہتر ہوچکی تھی۔
”چائے لیں گے یا ساتھ کچھ اور بھی؟” اس آدمی نے مڑ کر اچانک پوچھا۔
”صرف چائے۔”
سالار ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
آدمی کاؤنٹر کے عقب میں اب اسٹوو جلانے میں مصروف ہوچکا تھا۔
”آپ کہاں سے آئے ہیں ؟” اس نے چائے کے لئے کیتلی اوپر رکھتے ہوئے سالار سے پوچھا۔ جواب نہیں آیا۔
اس شخص نے گردن موڑ کردیکھا۔ چائے پینے کے لئے آنے والا وہ شخص کمرے کے ایک کونے پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ بالکل پتھر کے کسی مجسّمے کی طرح بے حس و حرکت۔
وہ نماز پڑھ کر اس کے بالمقابل میز کے دوسری جانب کرسی پر آ بیٹھی تھی۔ کچھ کہے بغیر اس نے میز پر پڑا چائے کاکپ اٹھایا اور اسے پینے لگی۔ لڑکا تب تک بر گر لے آیا تھا اور اب ٹیبل پر برگر رکھ رہا تھا۔ سالار تیکھی نظروں کے ساتھ اس برگر کی پلیٹ کو دیکھ رہا تھا، جو اس کے سامنے رکھی جا رہی تھی۔ جب لڑکے نے پلیٹ رکھ دی تو سالار نے کانٹے کے ساتھ برگر کااوپر والا حصہ اٹھایا اور تنقیدی نظروں سے فلنگ کا جائزہ لیا پھر چھری اٹھا کر اس نے لڑکے سے کہا جواب امامہ کے برگر کی پلیٹ اس کے سامنے رکھ چکا تھا۔
”یہ شامی کباب ہے۔”
وہ fillingکی اوپر والی تہ کو الگ کر رہا تھا۔
”یہ آملیٹ ہے۔” اس نے نیچے موجود آملیٹ کو چھری کی مدد سے تھوڑا اونچا کیا۔
”اور یہ کیچپ، تو چکن کہاں ہے؟ میں نے تمہیں چکن برگر لانے کو کہا تھا نا؟”
اس نے اکھڑ لہجے میں لڑکے سے کہا۔
امامہ تب تک خاموشی سے برگر اٹھا کر کھانے میں مصروف ہوچکی تھی۔
”یہ چکن برگر ہے۔” لڑکے نے قدرے گڑ بڑا کر کہا۔
”کیسے چکن برگر ہے؟ اس میں کہیں چکن نہیں۔” سالار نے چیلنج کیا۔
”ہم اسے ہی چکن برگر کہتے ہیں۔” وہ لڑکا اب نروس ہورہا تھا۔
”اور جو سادہ برگر ہے اس میں کیا ڈالتے ہو؟”
”اس میں بس شامی کباب ہوتا ہے۔ انڈہ نہیں ہوتا۔”
”اور انڈہ ڈال کر سادہ برگر چکن برگر بن جاتاہے، چونکہ انڈے سے مرغی نکلتی ہے اور مرغی کے گوشت کو چکن کہتے ہیں اس لیے directlyنہیں تو indirectlyیہ چکن برگر بنتا ہے۔”
سالار نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔ وہ لڑکا کھسیانے انداز میں ہنسا۔ امامہ ان دونوں کی گفتگو پر توجہ دیئے بغیر ہاتھ میں پکڑا برگر کھانے میں مصروف تھی۔
”ٹھیک ہے جاؤ۔” سالار نے کہا۔
لڑکے نے یقینا سکون کا سانس لیا اور وہاں سے غائب ہوگیا۔ چھری اور کانٹے کو رکھ کر سالار نے بائیں ہاتھ سے برگر کو اٹھالیا۔ برگر کھاتے ہوئے اِمامہ نے پہلی بار پلیٹ سے سالار کے ہونٹوں تک بائیں ہاتھ میں پکڑے ہوئے برگر کے سفر کو تعجب آمیز نظروں سے دیکھا اور یہ تعجب ایک لمحہ میں غائب ہوگیا تھا۔ وہ ایک بار پھر برگر کھانے میں مصروف تھی۔ سالار نے اپنے برگر کو دانتوں سے کاٹا ایک لمحہ کے لئے منہ چلایا اور پھر برگر کو اپنی پلیٹ میں اچھال دیا۔
”فضول برگر ہے۔ تم کس طرح کھا رہی ہو؟” سالار نے لقمے کو بمشکل حلق سے نگلتے ہوئے کہا۔
”اتنا برا نہیں ہے جتنا تمہیں لگ رہا ہے۔” اِمامہ نے بے تاثر انداز میں کہا۔
”ہر چیز میں تمہارا اسٹینڈرڈ بڑا لوہے اِمامہ ! وہ چاہے برگر ہو یا شوہر۔”
برگر کھاتے ہوئے اِمامہ کا ہاتھ رُک گیا۔ سالار نے اس کے سفید چہرے کو ایک پل میں سُرخ ہوتے دیکھا۔ سالار کے چہرے پر ایک تپا دینے والی مسکراہٹ آئی۔
”میں جلال انصر کی بات کر رہا ہوں۔” اس نے جیسے امامہ کو یاد دلایا۔
”تم ٹھیک کہتے ہو۔” اِمامہ نے پرسکون لہجے میں کہا۔
”میرا اسٹینڈرڈ واقعی بہت لوہے۔” وہ ایک بار پھر برگر کھانے لگی۔
”میں نے سوچا تم برگر میرے منہ پر دے ماروگی۔” سالار نے دبی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”میں رزق جیسی نعمت کو کیوں ضائع کروں گی۔”
یہ اتنا برا بر گر نعمت ہے؟” اس نے تضحیک آمیز انداز میں کہا۔
”اور کون کون سی نعمتیں ہیں اس وقت تمہارے پاس… ”
”انسان اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کر ہی نہیں سکتا۔ یہ میری زبان پر ذائقہ چکھنے کی جو حس ہے یہ کتنی بڑی نعمت ہے کہ میں اگر کوئی چیز کھاتی ہوں تو میں اس کا ذائقہ محسوس کرسکتی ہوں۔ بہت سے لوگ اس نعمت سے بھی محروم ہوتے ہیں۔”
”اور ان لوگوں میں ٹاپ آف دی لسٹ، سالار سکندر کا نام ہوگا ہے نا؟”
اس نے اِمامہ کے بات مکمل کرنے سے پہلے ہی تیز آواز میں اس کی بات کاٹی۔
”سالار سکندر کم از کم اس طرح کی چیزیں کھا کر انجوائے نہیں کرسکتا۔”
اس شخص نے چائے کا کپ اس کے سامنے رکھ دیا۔ سالار یک دم چونک گیا۔ سامنے والی کرسی اب خالی تھی۔
”ساتھ میں کچھ اور چاہئے؟” آدمی نے کھڑے کھڑے پھر پوچھا۔
”نہیں، بس چائے کافی ہے۔” سالار نے چائے کا کپ اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا۔
”آپ اسلام آباد سے آئے ہیں؟” اس نے پوچھا۔
”ہاں۔۔۔”
”لاہور جار ہے ہیں؟” اس نے ایک اور سوال کیا۔
اس بار سالار نے سر کے اشارے سے جواب دیا۔ وہ اب چائے کا گھونٹ لے رہا تھا۔ اس آدمی کو شبہ ہوا اس نے چائے پینے والے شخص کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی دیکھی ہے۔
”میں کچھ دیر یہاں اکیلا بیٹھنا چاہتا ہوں۔” اس نے چائے کا کپ میز پر رکھتے ہوئے سر اٹھائے بغیر کہا۔
وہ شخص کچھ تعجب سے اسے دیکھتا واپس کچن میں چلاگیا اور ثانوی نوعیت کے کاموں میں مصروف گاہے بگاہے دور سے سالار پر نظریں دوڑاتا رہا۔
پورے پندرہ منٹ بعد اس نے سالار کو ٹیبل چھوڑ کر کمرے سے نکلتے دیکھا۔ وہ آدمی بڑی تیز رفتاری کے ساتھ کچن سے کمرے میں آیا مگر اس سے پہلے کہ وہ سالار کے پیچھے باہر جاتا، میز پر خالی کپ کے نیچے پڑے ایک نوٹ نے اسے روک لیا۔ وہ بھونچکا سا اس نوٹ کو دیکھتا رہا، پھر اس نے آگے بڑھ کر اس نوٹ کو پکڑا اور تیزی سے کمرے سے باہر آگیا۔ سالار کی گاڑی اس وقت ریورس ہوتے ہوئے مین روڈ پر جارہی تھی۔ اس آدمی نے حیرانی سے اس دور جاتی ہوئی گاڑی کو دیکھا پھر ہاتھ میں پکڑے اس ہزار روپے کے نوٹ کو برآمدے میں لگی ٹیوب لائٹ کی روشنی میں دیکھا۔
”نوٹ اصلی ہے مگر آدمی بے وقوف…”
اس نے اپنی خوشی پر قابو پاتے ہوئے زیر لب تبصرہ کیا اور نوٹ کو جیب میں ڈال لیا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۶

Read Next

بھکاری — صبا خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!