پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۷

”حلوائی کی ایک دکان ہے گلی کے کونے میں… بہت کھلی گلی ہے… پرویز صاحب کا گھر بھی وہیں ہے، جن کے بیٹے نے جرمنی میں شادی کی ہے پچھلے ہفتے… پہلی بیوی اس کی ادھر ہی ہے ہمارے محلے میں… شادی کی اطلاع ملنے پر بے چاری نے رو رو کر محلہ سرپر اٹھالیا۔”
وہ نشانیاں بتاتے بتاتے کہیں اور نکل گئیں۔
سالار نے سڑک کے کنارے گاڑی کھڑی کردی۔
”اماں جی! آپ کے شوہر کا کیا نام ہے؟ گھر کے بارے میں اور گلی کے بارے میں کچھ تفصیل سے بتائیں، اس طرح تو میں کبھی بھی آپ کو گھر نہیں پہنچا سکوں گا۔”
اس نے تحمل سے کام لیتے ہوئے کہا۔
”میں سعیدہ اماں کے نام سے جانی جاتی ہوں۔ میاں بے چارے تو دس سال پہلے فوت ہوگئے۔ ان کو تو لوگ بھول بھال گئے اور گلی کا میں تمہیں بتارہی ہوں، بہت بڑی گلی ہے۔ تین دن پہلے گٹر کے دو ڈھکن لگا کر گئے ہیں، بالکل نئے۔ سیمنٹ سے جوڑ کرگئے ہیں۔ ہر ماہ کوئی نہ کوئی اتار کرلے جاتا تھا، اب بے فکری ہوگئی ہے۔”
سالار نے بے اختیار گہرا سانس لیا۔
”اماں جی! کیا میں یہ کہہ کر لوگوں سے آپ کی گلی کا پوچھوں کہ گٹر کے دو نئے ڈھکنوں والی گلی… آپ وہاں کے کسی ایسے شخص کا نام بتائیں جسے لوگ جانتے ہوں جو قدرے معروف ہو۔”
”وہ مرتضیٰ صاحب ہیں جن کے بیٹے مظفر کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی کل صبح۔”
”اماں جی! یہ کوئی تعارف نہیں ہوتا۔”
وہ اس کی بات پر برا مان گئیں۔
”لو بھلا، اب کیا ہر گھر میں ٹانگ ٹوٹتی ہے کسی نہ کسی کی۔”
سالار چپ چاپ گاڑی سے اتر گیا۔ آس پاس کی دکانوں سے اس نے سعیدہ اماں کے بتائے ہوئے ”کوائف” کے مطابق گلی تلاش کرنا شروع کی، مگر جلد ہی اسے پتہ چل گیا کہ ان نشانیوں کے ساتھ وہ کم از کم آج کی تاریخ میں گھر نہیں ڈھونڈ سکتا۔
وہ مایوس ہوکر واپس لوٹا۔
”اماں جی! گھر میں فون ہے آپ کے؟” گاڑی کے اندر گھستے ہی اس نے پوچھا۔
”ہاں ہے۔”
سالار نے سکون کا سانس لیا۔





”اس کا نمبر بتائیں مجھے۔” سالار نے اپنا موبائل نکالتے ہوئے کہا۔
”نمبر کا تو مجھے نہیں پتا۔”
وہ ایک بار پھر دھک سے رہ گیا۔
”فون نمبر بھی نہیں پتا؟” اس نے شدید صدمے کے عالم میں کہا۔
”بیٹا! میں نے کون سا کبھی فون کیا ہے۔ میرے بیٹے خود کرلیتے ہیں، رشتے دار بھی خود کرلیتے ہیں یا ضرورت ہو تو بیٹی فون ملادیتی ہے۔”
”ادھر ماڈل ٹاؤن میں کس کے پاس گئی تھیں؟”
سالار کو یک دم خیال آیا۔
”ادھر کچھ رشتے دار ہیں میرے۔ پوتے کی مٹھائی دینے گئی تھی۔”
انہوں نے فخر یہ بتایا۔
سالار نے سکون کا سانس لیتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کی۔
”ٹھیک ہے، ادھر ہی چلتے ہیں۔ وہاں کا پتہ بتائیں۔”
”پتہ تو مجھے نہیں پتا۔”
سالار اس بار صدمے سے کچھ دیر کے لئے بول بھی نہ سکا۔
”تو پھر گئی کیسے تھیں آپ؟”
”بیٹا! اصل میں جہاں جانا ہو ہمسائے کے بچے چھوڑ آ تے ہیں، ان ہی کو گھر کا پتہ ہے۔ پچھلے دس سال سے مجھے وہی لے کر جارہے ہیں۔ وہ چھوڑ آتے ہیں اور پھر وہاں سے بلال وغیرہ واپس چھوڑ جاتے ہیں۔ اصل میں یہ بلال وغیرہ بھی پہلے میرے محلے میں ہی رہتے تھے۔ یہی کوئی دس بارہ سال پہلے ادھر گئے ہیں اس لئے میرے پورے محلے کو ان کے گھر کا پتہ ہے۔”
سالار نے کچھ نہیں کہا۔ اسے اب بھی امید تھی کہ جہاں سے اس نے ان خاتون کو پک کیا ہے بلال وغیرہ کا گھر وہیں کہیں ہوگا۔”
سعیدہ اماں کی گفتگو جاری تھی۔
”آج تو ایسا ہوا کہ بلال کے گھرپر کوئی تھا ہی نہیں، صرف ملازمہ تھی۔ میں کچھ دیر بیٹھی رہی پھر بھی وہ لوگ نہیں آئے تو میں نے سوچا کہ خود گھر چلی جاؤں اور پھر ماشاء اللہ تم مل گئے۔”
”اماں جی! آپ رکشے والے کو کیا بتاتیں؟”
”وہی جو تمہیں بتایا ہے۔”
وہ ان کی ذہانت پر باغ باغ ہوگیا۔
”اس سے پہلے کبھی آپ اس طرح پتہ بتاکر گھر پہنچی ہیں؟”
اس نے قدرے افسوس بھرے لہجے میں گاڑی کو ریورس کرتے ہوئے پوچھا۔
”نہ… کبھی نہیں… ضرورت ہی نہیں پڑی۔”
سعیدہ اماں کا اطمینان قابل رشک تھا۔ سالار مزید کچھ کہے بغیر گاڑی سڑک پر لے آیا۔
”اب تم کہاں جارہے ہو؟”
سعیدہ اماں زیادہ دیر چپ نہیں رہ سکیں۔
”جہاں سے میں نے آپ کو لیا تھا گھر اسی سڑک پر ہوگا، آپ نے کوئی ٹرن تو نہیں لیا تھا؟”
سالار نے بیک ویومرر سے انہیں دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں، میں نے نہیں لیا۔”
سعیدہ اماں نے قدرے الجھے ہوئے انداز میں کہا۔
سالار نے ان کے لہجے پر غور نہیں کیا۔ اس نے اطمینان کی سانس لی۔ اس کا مطلب تھا گھر اس سڑک پر ہی کہیں تھا اور گلیوں کی نسبت کالونی میں گھر تلاش کرنا آسان تھا۔ وہ بھی اس صورت میں جب اسے صرف ایک سڑک کے گھر دیکھنے تھے۔
”تم سگریٹ پیتے ہو؟”
خاموشی یک دم ٹوٹی۔ وہ گاڑی ڈرائیو کرتے کرتے چونک گیا۔
”میں…؟”
اس نے بیک ویومرر میں دیکھا۔ سعیدہ اماں بھی بیک ویومرر میں ہی دیکھ رہی تھیں۔
”آ… نہیں۔”
وہ سوال کو سمجھ نہیں سکا تھا۔
”کوئی اور نشہ وغیرہ۔”
وہ اس بار سوال سے زیادہ ان کی بے تکلفی پر حیران ہوا۔
”آپ کیوں پوچھ رہی ہیں؟”
”بس ویسے ہی۔ اب اتنا لمبا راستہ میں خاموش کیسے رہوں گی۔”
انہوں نے اپنی مجبوری بتائی۔
”آپ کو کیا لگتا ہے، میں کرتا ہوں گا کوئی نشہ؟”
سالار نے جواباً ان سے پوچھا۔
”نہیں، کہاں… اسی لئے تو میں پوچھ رہی ہوں… تو پھر نہیں کرتے؟”
ان کے انداز نے اس بار سالار کو محظوظ کیا۔
”نہیں۔” اس نے مختصراً کہا۔ وہ اب سگنل پر رکے ہوئے تھے۔
”کوئی گرل فرینڈ ہے؟” سالار کو لگا اسے سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے۔ اس نے پلٹ کر سعیدہ اماں کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”آپ نے کیا پوچھا ہے؟”
”میں نے کہا ہے، کوئی گرل فرینڈ ہے؟” سعیدہ اماں نے”گرل فرینڈ” پر زور دیتے ہوئے کہا۔
سالار کھکھلا کر ہنس پڑا۔
”آپ کو پتا ہے گرل فرینڈ کیا ہوتی ہے؟”
سعیدہ اماں اس کے سوال پر برا مان گئیں۔
”کیوں بھئی… دو بیٹے ہیں میرے، مجھے پتا نہیں ہوگا کہ گرل فرینڈ کیا ہوتی ہے۔ جب انہیں باہر پڑھنے کے لئے بھیجا تھا تو کہہ کر بھیجا تھا میرے شوہر نے کہ گرل فرینڈ نہیں ہونی چاہئے اور پھر مہینے میں ایک بارفون آتا تھا دونوں کا۔”
سگنل کھل گیا۔ سالار مسکراتے ہوئے سیدھا ہوگیا اور ایکسیلیٹرپر پاؤں دبادیا۔
سعیدہ اماں نے بات جاری رکھی۔
”میں دونوں سے کہتی تھی کہ قسم کھاکر بتائیں، انہوں نے کوئی گرل فرینڈ بنائی تو نہیں۔ جب تک شادیاں نہیں ہوگئیں۔ ہر بار فون پر سب سے پہلے دونوں قسم کھاکر یہی بتایا کرتے تھے مجھے۔ سلام بھی بعد میں کیا کرتے تھے۔”
وہ فخریہ انداز میں بتاتی جارہی تھیں۔
”بڑے تابعدار بچے ہیں میرے۔ دونوں نے گرل فرینڈز نہیں بنائی۔”
”آپ نے اپنی پسند سے دونوں کی کہیں شادیاں کی ہیں؟”
سالار نے پوچھا۔
”نہیں، دونوں نے ادھر ہی اپنی پسند سے شادیاں کی ہیں۔”
انہوں نے سادگی سے کہا۔ سالار کے حلق سے بے اختیار قہقہہ نکلا۔
”کیا ہوا؟” سعیدہ اماں نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”کچھ نہیں، آپ کی بہوئیں انگریز ہیں؟”
”نہیں، پاکستانی ہیں مگر وہیں رہتی تھیں۔ میرے بیٹوں کے ساتھ کام کرتی تھیں مگر تم ہنسے کیوں؟”
سعیدہ اماں نے اپنا سوال دہرایا۔
”کوئی خاص بات نہیں۔”




Loading

Read Previous

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۶

Read Next

بھکاری — صبا خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!