پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۷

سکندر عثمان صبح ناشتے کی میز پر آئے تو بھی ان کے ذہن میں سب سے پہلے سالار کا ہی خیال آیا تھا۔
”سالار کہاں ہے؟ اسے بلواؤ۔”
انہوں نے ملازم سے کہا۔ ”سالار صاحب تو رات کو ہی چلے گئے۔”
طیبہ اور سکندر نے بے اختیار ایک دوسرے کا چہرہ دیکھا۔
”کہاں چلے گئے…؟ گاؤں؟”
”نہیں، واپس لاہور چلے گئے، کہہ رہے تھے کوئی ضروری کام ہے، میں صبح آپ کو بتادوں۔”
سکندر یک دم اُٹھ کر فون کی طرف چلے گئے۔ انہوں نے سالار کا نمبر ڈائل کیا۔ موبائل آف تھا۔ انہوں نے اس کے فلیٹ کا نمبر ڈائل کیا۔
وہاں جوابی مشین لگی ہوئی تھی۔ انہوں نے پیغام ریکارڈ کروائے بغیر فون بند کردیا۔ کچھ پریشان سے وہ دوبارہ ناشتے کی میز پر آ بیٹھے۔
”فون پر کانٹیکٹ نہیں ہوا؟” طیبہ نے پوچھا۔
”نہیں موبائل آف ہے۔ اس کے فلیٹ پر آنسر فون لگا ہوا ہے۔ پتا نہیں کیوں چلا گیا؟”
”آپ پریشان نہ ہو… ناشتہ کریں۔” طیبہ نے انہیں تسلی دینے کی کوشش کی۔
”تم کرو… میرا موڈ نہیں ہے۔”
وہ اُٹھ کر باہر نکل گئے۔ طیبہ بے اختیار سانس لے کر رہ گئیں۔
٭…٭…٭





سالار نے اپنے فلیٹ کا دروازہ کھولا، باہر فرقان تھا۔ وہ پلٹ کر اندر آگیا۔
”تم کب آئے؟” فرقان نے قدرے حیرانی سے اس کے پیچھے اندر آتے ہوئے کہا۔
”آج صبح…” سالار نے صوفے کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
”کیوں…؟ تمہیں گاؤں جانا تھا؟” فرقان نے اس کی پشت کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”میں تو پارکنگ میں تمہاری گاڑی دیکھ کر آگیا۔ بندہ آتا ہے تو بتاہی دیتا ہے۔”
سالار نے جواب میں کچھ کہے بغیر صوفہ پر بیٹھ گیا۔
”کیا ہوا؟” فرقان نے پہلی بار اس کے چہرے کو دیکھا اور تشویش میں مبتلا ہوا۔
”کیا ہوا؟” سالار نے جواباً کہا۔
”میں تم سے پوچھ رہا ہوں، تمہیں کیا ہوا ہے؟” فرقان نے اس کے سامنے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
”کچھ نہیں۔”
”گھر میں سب خیریت ہے؟”
”ہاں۔۔۔”
”تو پھر تم… سر میں درد ہے؟ میگرین؟”
فرقان اب اس کے چہرے کو غور سے دیکھ رہا تھا۔
”نہیں…” سالار نے مسکرانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس کا فائدہ بھی نہیں تھا۔ اس نے اپنی آنکھوں کو مسلا۔
”تو پھر ہوا کیا ہے تمہیں؟ آنکھیں سرخ ہو رہی ہیں۔”
”میں رات سویا نہیں۔ ڈرائیو کرتا رہا ہوں۔”
سالار نے بڑے عام سے انداز میں کہا۔
”تو اب سوجاتے۔ یہاں آکر فلیٹ پر، صبح سے کیا کر رہے ہو؟” فرقان نے کہا۔
”کچھ بھی نہیں۔۔۔۔”
”سوئے کیوں نہیں…؟”
”نیند نہیں آ رہی۔۔۔۔”
”تم تو سلیپنگ پلز لے کر سوجاتے ہو، پھر نیند نہ آنا کیا معنی رکھتا ہے؟”
فرقان کو تعجب ہوا۔
”بس آج نہیں لینا چاہتا تھا میں۔ یا یہ سمجھ لو کہ آج میں سونا نہیں چاہتا تھا۔”
”کھانا کھایا ہے؟”
”نہیں، بھوک نہیں لگی۔۔۔۔”
”دو بج رہے ہیں۔” فرقان نے جیسے اسے جتایا۔
”میں کھانا بھجواتا ہوں کھالو… تھوڑی دیر سوجاؤ پھر رات کو نکلتے ہیں آؤٹنگ کے لئے۔”
”نہیں، کھانا مت بھجوانا۔ میں سونے جارہا ہوں۔ شام کو اٹھوں گا تو باہر جاکر کہیں کھاؤں گا۔”
سالار کہتے ہوئے صوفہ پر لیٹ گیا اور اپنا بازو آنکھوں پر رکھ لیا۔ فرقان کچھ دیر بیٹھا اسے دیکھتا رہا، پھر اٹھ کر باہر چلاگیا۔
٭…٭…٭

”تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟”
رمشہ نے سالار کے کمرے میں آتے ہوئے کہا۔ اس نے ریسیپشن کی طرف جاتے ہوئے سالار کے کمرے کی کھڑکیوں کے چند کھلے ہوئے بلائنڈز میں اسے اندر دیکھا تھا۔ کوریڈور میں سے گزرجانے کی بجائے وہ رک گئی۔ سالار ٹیبل پر اپنی کہنیاں ٹکائے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑے ہوئے تھا۔ رمشہ جانتی تھی کہ اسے کبھی کبھار میگرین کا درد ہوتا تھا۔ وہ ریسیپشن کی طرف جانے کے بجائے اس کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آگئی۔
سالار اسے دیکھ کر سیدھا ہوگیا۔ وہ اب ٹیبل پر کھلی ایک فائل کو دیکھ رہا تھا۔
”تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟” رمشہ نے فکر مندی سے پوچھا۔
”ہاں میں بالکل ٹھیک ہوں…”
اس نے رمشہ کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ رمشہ واپس جانے کے بجائے آگے بڑھ آئی۔
”نہیں تم ٹھیک نہیں لگ رہے؟” اس نے سالار کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”تم پلیز اس فائل کو لے جاؤ… اسے دیکھ لو… میں دیکھ نہیں پارہا…”
سالار نے اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے فائل بند کرکے ٹیبل پر اس کی طرف کھسکادی۔
”میں دیکھ لیتی ہوں، تمہاری طبیعت زیادہ خراب ہے تو گھر چلے جاؤ۔”
رمشہ نے تشویش بھرے انداز میں کہا۔
”ہاں، بہتر ہے۔ میں گھر چلا جاؤں۔” اس نے اپنا بریف کیس نکال کر اسے کھولا اور اپنی چیزیں اندر رکھنا شروع کردیں۔ رمشہ بغور اس کا جائزہ لیتی رہی۔
٭…٭…٭
وہ گیارہ بجے آفس سے واپس گھر آگیا تھا۔ یہ چوتھا دن تھا جب وہ مسلسل اسی حالت میں تھا۔ یک دم، ہر چیز میں اس کی دلچسپی ختم ہوگئی تھی۔
بینک میں اپنی جاب۔
لمز(LUMS) کے لیکچرز۔
ڈاکٹر سبط علی کے ساتھ نشست…
فرقان کی کمپنی۔
گاؤں کا اسکول۔
مستقبل کے منصوبے اور پلاننگ۔
اسے کوئی چیز بھی اپنی طرف کھینچ نہیں پارہی تھی۔
وہ جس امکان کے پیچھے کئی سال پہلے سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آگیا تھا وہ” امکان” ختم ہوگیا تھا اور اسے کبھی اندازہ نہیں تھا کہ اس کے ختم ہونے سے اس کے لئے سب کچھ ختم ہوجائے گا۔ وہ مسلسل اپنے آپ کو اس حالت سے باہر لانے کے لئے جدوجہد کررہا تھا اور وہ مسلسل ناکام ہورہا تھا۔
محض یہ تصور کہ وہ کس اور شخص کی بیوی بن کر کسی اور کے گھر میں رہ رہی ہوگی۔ سالار سکندر کے لئے اتنا ہی جان لیوا تھا جتنا ماضی کا یہ اندیشہ کہ وہ غلط ہاتھوں میں نہ چلی گئی ہو اور اس ذہنی حالت میں اس نے عمرہ پر جانے کا فیصلہ کیا تھا وہ واحد جگہ تھی جو اس کی زندگی میں اچانک آجانے والی اس بے معنویت کو ختم کرسکتی تھی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۶

Read Next

بھکاری — صبا خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!