پیرس سے واپسی پر اس کی زندگی کے ایک نئے فیز کا آغاز ہوا تھا۔ ابتدائی طورپر وہ اسلام آباد میں اس غیر ملکی بینک میں کام کرتا رہا۔ پھر کچھ عرصے کے بعد وہ اسی بینک کی ایک نئی برانچ کے ساتھ لاہور چلا آیا۔ اسے کراچی جانے کا موقع بھی مل رہا تھا مگر اس نے لاہور کا انتخاب کیا تھا۔ اسے یہاں ڈاکٹر سبط علی کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع بھی مل رہا تھا۔
پاکستان میں اس کی مصروفیات کی نوعیت تبدیل ہوگئی تھی مگر ان میں کمی نہیں آئی تھی۔ وہ یہاں بھی دن رات مصروف رہتا تھا۔ ایکExceptionalماہر معاشیات کے طورپر اس کی شہرت اس کے ساتھ ساتھ سفر کررہی تھی۔ حکومتی حلقوں کے لئے اس کا نام نیا نہیں تھا مگر پاکستان آجانے کے بعد فنانس منسٹری مختلف مواقع پر وقتاً فوقتاً اپنے زیر تربیت آفیسرز کو دئیے جانے والے لیکچرز کے لئے اسے بلواتی رہتی۔ لیکچرز کا سلسلہ بھی اس کے لئے نیا نہیں تھا۔Yaleمیں زیر تعلیم رہنے کے بعد وہ وہاں مختلف کلاسز کو لیکچر دیتا رہا تھا یہ سلسلہ نیویارک منتقل ہوجانے کے بعد بھی جاری رہا۔ جہاں وہ کو لمبیا یونیورسٹی میں ہیومن ڈویلپمنٹ پر ہونے والے سیمنیارز میں حصہ لیتا رہا بعد میں اس کی توجہ ایک بارپھر اکنامکس کی طرف مبذول ہوگئی۔
پاکستان میں بھی بہت جلد وہ ان سیمینارز کے ساتھ انوالو ہوگیا تھا۔ جو IBA،LUMS اور FAST جیسے ادارے کروارہے تھے۔ اکنامکس اور ہیومن ڈویلپمنٹ واحد موضوعات تھے جن پر وہ خاموشی اختیار نہیں کیا کرتا تھا۔ وہ اس کے پسندیدہ موضوع گفتگو تھے اور سیمینارز میں اس کے لیکچرز کا فیڈبیک ہمیشہ بہت زبردست رہا تھا۔
وہ مہینے کا ایک ویک اینڈ گاؤں میں اپنے اسکول میں گزارا کرتا تھا اور وہاں رہنے کے دوران وہ زندگی کے ایک نئے رخ سے آشنائی حاصل کررہا تھا۔
”ہم نے اپنی غربت اپنے دیہات میں چھپادی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے لوگ مٹی کو کارپٹ کے نیچے چھپا دیتے ہیں۔”
”اس اسکول کی تعمیر کا آغاز کرتے ہوئے فرقان نے ایک بار اس سے کہا تھا اور وہاں گزارے جانے والے دن اسے اس جملے کی ہولناکی کا احساس دلاتے۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ پاکستان میں غربت کی موجودگی سے ناآشنا تھا۔ وہ یونیسکو اور یونی سیف میں کام کے دوران دوسرے ایشیائی ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان کے بارے میں بھی بہت ساری رپورٹس دیکھتا رہا تھا مگر پاکستان میں غربت کی آخری حدوں کو بھی پار کرنے والے لوگوں کو وہ پہلی بار ذاتی طورپر دیکھ رہا تھا۔
”پاکستان کے دس پندرہ بڑے شہروں سے نکل جائیں تو احساس ہوتا ہے کہ چھوٹے شہروں میں رہنے والے لوگ تیسری دنیا میں نہیں دسویں بارھویں دنیا میں رہتے ہیں۔ وہاں تو لوگوں کے پاس نہ روزگار رہے، نہ سہولتیں۔ وہ اپنی آدھی زندگی خواہش میں گزارتے ہیں اور آدھی حسرت میں مبتلا ہوکر کون سی اخلاقیات سیکھا سکتے ہیں آپ اس شخص کو جس کا دن سوکھی روٹی سے شروع ہوتا ہے اور فاقے پر ختم ہوجاتا ہے اور ہم… ہم لوگوں کی بھوک مٹانے کے بجائے مسجدیں تعمیر کرتے ہیں۔ عالی شان مسجدیں، پر شکوہ مسجدیں، ماربل سے آراستہ مسجدیں۔ بعض دفعہ تو ایک ہی سڑک پر دس دس مسجدیں کھڑی ہوتی ہیں۔ نمازیوں سے خالی مسجدیں۔”
فرقان تلخی سے کہتا تھا۔
”اس ملک میں اتنی مسجدیں ہوچکی ہیں کہ اگر پورا پاکستان ایک وقت کی نماز کے لئے مسجدوں میں اکٹھا ہوجائے تو بھی بہت سی مسجدیں خالی رہ جائیں گی۔ میں مسجدیں بنانے پر یقین نہیں رکھتا جہاں لوگ بھوک سے خودکشیاں کرتے پھررہے ہوں جہاں کچھ خاص طبقوں کی پوری پوری نسل جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتی پھر رہی ہو وہاں مسجد کے بجائے مدرسے کی ضرورت ہے۔ اسکول کی ضرورت ہے، تعلیم اور شعور ہوگا اور رزق کمانے کے مواقع تو اللہ سے محبت ہوگی ورنہ صرف شکوہ ہی ہوگا۔”
وہ فرقان کی باتیں خاموشی سے سنتا رہتا تھا۔ اس نے مستقل طورپر گاؤں میں جانا شروع کیا تو اسے اندازہ ہوا فرقان ٹھیک کہتا تھا۔ غربت لوگوں کو کفر تک لے گئی تھی۔ چھوٹی چھوٹی ضرورتیں ان کے اعصاب پر سوار تھیں اور جو ان معمولی ضرورتوں کو پورا کردیتا وہ جیسے اس کی غلامی کرنے پر تیار ہوجاتے۔ اس نے جس ویک اینڈ پر گاؤں جانا ہوتا اسکول میں لوگ اپنے چھوٹے موٹے کاموں کے لئے جمع ہوتے۔ بعض دفعہ لوگوں کی قطاریں ہوتیں۔
”بیٹے کو شہر کی کسی فیکٹری میں کام پر رکھوادیں۔ چاہے ہزار روپیہ ہی مل جائے مگر کچھ پیسہ تو آئے۔”
”دو ہزار روپے مل جاتے تو میں اپنی بیٹی کی شادی کردیتا۔”
”بارش نے ساری فصل خراب کردی۔ اگلی فصل لگانے کے لئے بیج خریدنے تک کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ آپ تھوڑے پیسے قرض کے طورپر دے دیں، میں فصل کٹنے کے بعد دے دوں گا۔”
”بیٹے کو پولیس نے پکڑلیا ہے، قصور بھی نہیں بتاتے، بس کہتے ہیں ہماری مرضی جب تک چاہیں اندر رکھیں، تم آئی جی کے پاس جاؤ۔”
”پٹواری میری زمین پر جھگڑا کررہا ہے۔ کسی اور کوالاٹ کررہا ہے۔ کہتا ہے میرے کاغذ جعلی ہیں۔”
”بیٹا کام کے لئے پاس کے گاؤں جاتا ہے۔روز آٹھ میل چل کر آنا جانا پڑتا ہے۔ آپ ایک سائیکل لے دیں تو مہربانی ہوگی۔”
”گھر میں پانی کا ہینڈ پمپ لگوانا ہے۔ آپ مدد کریں۔”
وہ تعجب سے ان درخواستوں کو سنتا تھا۔ کیا لوگوں کے یہ معمولی کام بھی ان کے لئے پہاڑ بن چکے ہیں۔ ایسا پہاڑ جسے عبور کرنے کے لئے وہ زندگی کے کئی سال ضائع کر دیتے ہیں۔ وہ سوچتا۔
مہینے کے ایک ویک اینڈ پر جب وہ وہاں آتا تو اپنے ساتھ دس پندرہ ہزار روپے زیادہ لے کر آتا وہ روپے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بہت سے لوگوں کو بظاہر بڑی لیکن حقیقتاً بہت چھوٹی ضرورتیں پوری کردیتے۔ ان کی زندگی میں کچھ آسانیاں لے آتے، اس کے لکھے ہوئے چند سفارشی رقعے اور فون کالز ان لوگوں کے کندھوں کے بوجھ اور پیروں میں پڑی نہ نظر آنے والی بیڑیوں کو کیسے اتار دیتے۔ اس کا احساس شاید سالار کو خود بھی نہیں تھا۔
٭…٭…٭
لاہور میں اپنے قیام کے دوران وہ باقاعدگی سے ڈاکٹر سبط علی صاحب کے پاس جاتا تھا۔ ان کے ہاں ہر رات عشاء کی نماز کے بعد کچھ لوگ جمع ہوتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کسی نہ کسی موضوع پر بات کیا کرتے تھے۔ بعض دفعہ اس موضوع کا انتخاب وہ خود کرتے بعض دفعہ ان کے پاس آنے والے لوگوں میں سے کوئی ان سے سوال کرتااور پھر یہ سوال اس رات کا موضوع گفتگو بن جاتا۔ عام اسکالرز کے برعکس ڈاکٹر سبط علی صرف خود نہیں بولتے تھے، نہ ہی انہوں نے اپنے پاس آنے والے لوگوں کو صرف سامع بنا دیا تھا بلکہ وہ اکثر اپنی بات کے دوران ہی چھوٹے موٹے سوالات کرتے رہتے اور پھر ان سوالات کا جواب دینے کے لئے نہ صرف لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے بلکہ ان کی رائے کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ان کے اعتراضات کو بڑے تحمل اور برد باری سے سنتے۔ ان کے پاس آنے والوں میں صرف سالار سکندر تھا، جس نے ان سے کبھی سوال کیا تھا نہ کبھی ان کے کسی سوال کا جواب دینے کی کوشش کی تھی۔ وہ کبھی کسی بات پر اعتراض کرنے والوں میں شامل ہوا نہ کسی بات پر رائے دینے والوں میں۔
وہ فرقان کے ساتھ آتا۔ فرقان نہ آتا تو اکیلا چلا آتا، کمرے کے آخری حصے میں اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھ جاتا، خاموشی سے ڈاکٹر صاحب اور وہاں موجود لوگوں کی گفتگو سنتا۔ بعض دفعہ اپنے دائیں بائیں آ بیٹھنے والے لوگوں کے استفسار پر اپنا ایک جملہ تعارف پیش کرتا۔
”میں سالار سکندر ہوں، ایک بینک میں کام کرتا ہوں۔”
وہ جب تک امریکہ میں رہا تب تک ہر ہفتے ایک بار وہاں سے ڈاکٹر سبط علی کو فون کرتا رہا مگر فون پر ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ہونے والی اس کی گفتگو بہت مختصر اور ایک ہی نوعیت کی ہوتی تھی۔ وہ کال کرتا، ڈاکٹر صاحب کال ریسیو کرتے اور ایک ہی سوال کرتے۔
وہ پہلی بار اس سوال پر تب چونکا تھا جب وہ پاکستان سے چند دن پہلے ہی امریکہ آیا تھا اور ڈاکٹر صاحب اس کی واپسی کا پوچھ رہے تھے۔ اسے تعجب ہوا تھا۔
”ابھی تو نہیں…” اس نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہا تھا۔ بعد میں وہ سوال اسے کبھی عجیب نہیں لگا کیونکہ وہ لاشعوری طور پر جان گیا تھا کہ وہ کیا پوچھ رہے تھے۔
آخری بار انہوں نے وہ سوال اس سے تب کیا تھا جب وہ امامہ کی تلاش میں ریڈ لائٹ ایریا میں پہنچا تھا۔ پیرس واپس پہنچنے کے ایک ہفتے کے بعد اس نے ہمیشہ کی طرح انہیں کال کیا تھا۔ ہمیشہ جیسی گفتگو کے بعد گفتگو اسی سوال پر آ پہنچی تھی۔
”واپس پاکستان کب آ رہے ہیں؟”
بے اختیار سالار کا دل بھر آیا۔ اسے خود کو کمپوز کرنے میں کچھ دیر لگی۔
”اگلے ماہ آجاؤں گا۔ میں ریزائن کر رہا ہوں۔ واپس آکر پاکستان میں ہی کام کروں گا۔”
”پھر ٹھیک ہے، آپ سے اگلے ماہ ملاقات ہوگی۔” ڈاکٹر صاحب نے تب کہا تھا۔
”دعا کیجئے گا۔” سالار آخر میں کہتا۔
”کروں گا کچھ اور …؟”
”اور کچھ نہیں۔ اللہ حافظ …” وہ کہتا۔
”اللہ حافظ۔” وہ جواب دیتے۔ گفتگو کا یہ سلسلہ پاکستان آنے تک جاری رہا جب وہ ان کے پاس باقاعدگی سے جانے لگا تو یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔
٭…٭…٭
لاہور آنے کے بعد وہ باقاعدگی سے ان کے پاس جانے لگا تھا۔ اسے ان کے پاس سکون ملتا تھا۔ صرف ان کے پاس گزارا ہوا وقت ایسا ہوتا تھا جب وہ کچھ دیر کے لئے مکمل طور پر اپنے ڈیرپشن سے سے آزادی حاصل کرلیتا تھا۔ بعض دفعہ ان کے پاس خاموش بیٹھے بیٹھے بے اختیار اس کا دل چاہتا وہ ان کے سامنے وہ سب کچھ اگل دے جسے وہ اتنے سالوں سے اپنے اندر زہر کی طرح بھرے پھر رہا تھا۔ پچھتاوا، احساس جرم… بے چینی، بے بسی، شرمندگی، ندامت، ہر چیز۔ پھر اسے خوف پیدا ہوتا ڈاکٹر سبط علی اس کو پتا نہیں کن نظروں سے دیکھیں گے۔ اس کی ہمت دم توڑ جاتی۔
ڈاکٹر سید سبط علی ابہام کو دور کرنے میں کمال رکھتے تھے۔ وہ ان کے پاس خاموش بیٹھا رہتا۔ صرف سنتا، صرف سمجھتا، صرف نتیجے اخذ کرتا۔ کوئی دھند تھی جو چھٹ رہی تھی۔ کوئی چیز تھی جو نظر آنے لگی تھی۔ جن سوالوں کو وہ کئی سالوں سے سر پر بوجھ کی صورت میں لئے پھر رہا تھا ان کے پاس ان کے جواب تھے۔
”اسلام کو سمجھ کر سیکھیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ اس میں کتنی وسعت ہے۔ یہ تنگ نظری اور تنگ دل کا دین نہیں ہے نہ ہی ان دونوں چیزوں کی اس میں گنجائش ہے۔ یہ میں سے شروع ہوکر ہم پر جاتا ہے۔ فرد سے معاشرے تک۔ اسلام آپ سے یہ نہیں کہتا کہ آپ چوبیس گھنٹے سر پر ٹوپی، ہاتھ میں تسبیح پکڑے ہر جگہ مصلےٰ بچھائے بیٹھے رہیں۔ ہر بات میں اس کے حوالے دیتے رہیں۔ نہیں، یہ تو آپ کی زندگی سے… آپ کی اپنی زندگی سے حوالہ چاہتاہے۔ یہ تو آپ سے راست بازی اور پارسائی کا مطالبہ کرتاہے۔ دیانت داری اور لگن چاہتا ہے۔ اخلاص اور استقامت مانگتا ہے۔ ایک اچھا مسلمان اپنی باتوں سے نہیں اپنے کردار سے دوسروں کو متاثر کرتاہے۔”
سالار ان کی باتوں کو ایک چھوٹے سے ریکارڈر میں ریکارڈ کر لیتا پھر گھر آکر بھی سنتا رہتا۔ اسے ایک رہبر کی تلاش تھی، ڈاکٹر سبط علی کی صورت میں اسے وہ رہبر مل گیا تھا۔
٭…٭…٭
”سالار آؤ، اب آ بھی جاؤ۔ کتنی منتیں کر واؤگے؟” انیتا نے اس کا بازو کھینچتے ہوئے ناراضی سے کہا۔
وہ عمار کی شادی میں شرکت کے لئے اسلام آباد آیا ہوا تھا۔ تین دن کی چھٹی لے کر حالانکہ اس کے گھر والوں کا اصرار تھا کہ وہ ایک ہفتے کے لئے آئے۔ شادی کی تقریبات کئی دن پہلے شروع ہوچکی تھیں۔ وہ ان تقریبات کی ”اہمیت” اور ”نوعیت” سے واقف تھا۔ اس لئے گھر والوں کے اصرار کے باوجود وہ تین دن کی رخصت لے کر آیا اور اب وہ عمار کی مہندی کے فنکشن میں شرکت کر رہا تھا جو عمار اور اس کے سسرال والے مل کر کر رہے تھے۔ عمار اور اسریٰ دونوں کے عزیز و اقارب اور دوست مختلف اور پاپ گانوں پر رقص کرنے میں مصروف تھے۔ ایک طوفان بدتمیزی تھا جو وہاں برپا تھا۔ سلیو لیس شرٹس، کھلے گلے، جسم کے ساتھ چپکے ہوئے کپڑے، باریک ملبوسات ، سلک اور شیفون کی ساڑھیاں، نیٹ کے بلاؤز، اس کی فیملی کی عورتیں بھی دوسری عورتوں کی طرح اسی طرح کے ملبوسات پہنے ہوئے تھیں۔
مکسڈ گید رنگ تھی اور وہ تقریب شروع ہونے پر اس ہنگامے سے کافی دور کچھ ایسے لوگوں کے پاس بیٹھا ہوا تھا جو کارپوریٹ یا بینکنگ سیکٹر سے تعلق رکھتے تھے اور سکندر یا اس کے اپنے بھائیوں کے شناسا تھے۔
مگر پھر مہندی کی رسومات کا آغاز ہونے لگا اور انیتا اسے اسٹیج کی طرف لے گئی۔ اسریٰ اور عمار بے تکلفی سے اسٹیج پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ وہ پہلی بار اسریٰ سے مل رہا تھا۔ عمار نے اس کا اور اسریٰ کا تعارف کروایا۔ مہندی کی رسومات کے بعد اس نے وہاں سے جانے کی کوشش کی مگر کامران اور طیبہ نے اسے زبردستی روک دیا۔
”بھائی کی مہندی ہو رہی ہے اور تم اس طرح وہاں کونے میں بیٹھے ہو۔” طیبہ نے اسے ڈانٹا تھا۔ ”تمہیں یہاں ہونا چاہئے۔”
وہ ان کے کہنے پر وہیں کامران اور اس کی بیوی کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ اس کے ایک کزن نے ایک بار پھر وہ دو پٹہ اس کے گلے میں ڈالنے کی کوشش کی جو وہ سب ڈالے ہوئے تھے۔ اس نے ایک بار پھر قدرے ناگواری سے اس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے اسے تنبیہ کی۔
اگلے چند منٹوں کے بعد وہاں رقص شروع ہوچکا تھا۔ عمار سمیت اس کے سارے بہن بھائی اور کنزنز رقص کر رہے تھے اور انیتا نے اسے بھی کھینچنا شروع کردیا تھا۔
”نہیں انیتا! میں نہیں کرسکتا۔ مجھے نہیں آتا۔”
اس نے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے معذرت کی مگر اس کی معذرت قبول کرنے کے بجائے وہ اور عمار اسے کھینچ کر رقص کرنے والوں کے ہجوم میں لے آئے تھے۔ کامران اور معیز کی شادی میں وہ بھی ایسے ہی رقص کرتا رہاتھا، مگر عمار کی مہندی پر وہ پچھلے سات سالوں میں اتنا لمبا ذہنی سفر طے کر چکا تھا کہ وہاں اس ہجوم کے درمیان خالی بازو کھڑے کرنا بھی اس کے لئے دشوار تھا۔ قدرے بے بس مسکراہٹ کے ساتھ وہ اسی طرح ہجوم کے درمیان کھڑا رہا پھر اس نے انیتا کے کان میں کہا۔
”انیتا… میں ڈانس بھول چکا ہوں۔ Please Let me go (براہِ مہربانی مجھے جانے دو)۔”
”تم کرنا شروع کرو… آجائے گا۔” انیتا نے جواباً اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ اب اسریٰ بھی اس ہجوم میں شامل ہوچکی تھی۔
”میں نہیں کرسکتا۔ تم لوگ کرو۔ میں انجوائے کر رہا ہوں۔ مجھے جانے دو۔”
اس نے مسکراتے ہوئے نکلنے کی کوشش کی۔ اسریٰ کی آمد نے اسے اس کوشش میں کامیاب کردیا۔
”عروج ہر قوم، ہر نسل کا خواب ہوتا ہے اور پھر وہ قومیں جن پر الہامی کتابیں نازل ہوئی ہوں وہ تو عروج کو اپنا حق سمجھتی ہیں مگر کبھی بھی کسی قوم پر عروج صرف اس بنا پر نہیں آیا کہ اسے ایک کتاب اور نبی دے دیاگیا جب تک اس قوم نے اپنے اعمال اور افعال سے عروج کے لئے اپنی اہلیت ثابت نہیں کردی وہ کسی مرتبہ، کسی مقام، کسی فضیلت کے قابل نہیں ٹھہریں۔ مسلمان قوم یا امت کے ساتھ بھی ایسا ہوتا رہا ہے اور ہورہا ہے۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ا ن کے اعلیٰ طبقات تعیش اور نفس پرستی کا شکار ہیں۔ یہ دونوں چیزیں وبا کی طرح ہوتی ہیں۔ ایک سے دوسرے، دوسرے سے تیسرے اور پھر یہ سلسلہ کہیں رُکتا نہیں۔” اسے وہاں کھڑے ان ناچتے ہوئے عورتوں اور مردوں کے ہجوم کو دیکھتے ہوئے بے اختیار ڈاکٹر سبط علی کی باتیں یاد آنے لگیں۔
”مومن عیاش نہیں ہوتا نہ تب جب وہ رعایا ہوتاہے نہ تب جب وہ حکمران ہوتا ہے۔ اس کی زندگی کسی جانور یا کیڑے کی زندگی جیسی نہیں ہوتی۔ کھانا پینا، اپنی نسل کو آگے بڑھانا اور فنا ہوجانا۔ یہ کسی جانور کی زندگی کا انداز تو ہوسکا ہے مگر کسی مسلمان کی نہیں۔” سالار بے اختیار مسکرایا۔ وہ آج پھر ”جانوروں” اور ”حشرات الارض” کاایک گروہ دیکھ رہا تھا۔ اسے خوشی ہوئی، وہ بہت عرصہ پہلے ان میں سے نکل چکا تھا۔ وہاں ہر ایک خوش باش، پرسکون اور مطمئن نظر آرہا تھا۔ بلند قہقہے اور چمکدار چہرے اور آنکھیں۔ اس کے سامنے طیبہ عمار کے سسر کے ساتھ رقص کر رہی تھیں۔ انیتا اپنے سب سے بڑے بھائی کامران کے ساتھ۔