پہلی محبت آخری بازی — شیما قاضی

اس نے دیکھا لاؤنج میں میز پر ” کلیات اقبال” رکھی تھی ۔ اس نے لپک کر وہ کتاب اٹھالی اور اپنے والدین کے کمرے کی سمت چلی گئی ۔ کمرے کا دروازہ ادھ کھلا تھا ۔ اس نے اندر جھانکا ، کمرے میں ہلکی ہلکی روشنی تھی ۔ وہ دبے قدموں اندر داخل ہوئی ۔
” کون ہے ؟” الماری کے پٹ کھلنے کی
آواز سے شاید ان کی آنکھ کھل گئی تھی ۔
” میں ہوں ۔۔۔۔ابو!” اشکوں کی گہری لڑی بہ گئی” کلیات اقبال” رکھنے آئی ہوں ۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتی کمرے سے نکل گئی ۔
” رات کو اتنی دیر سے اس کو میری کتاب رکھنے کا خیال کیسے آیا ؟ سامنے دیوار پر لگی وال کلاک میں ” ایک ” بج رہا تھا ۔ ” یہ اتنی دیرتک کیوں جاگ رہی ہے ۔؟ طبیعت شاید ٹھیک نہیں اس کی ۔۔ رات کا کھانا بھی نہیں کھایا ۔” وہ فکر مند تھے ۔ ان کی نیند سے بوجھل آنکھوں سے نیند جانے کہاں چلی گئی تھی ؟ بیڈ سے اٹھ کر وہ کھڑکی تک آگئے ۔ پردے سرکا کر انہوں نے کھڑکی کھول دی ۔ باہر کے ماحول سے بے نیاز کمرے میں ان کو گھبراہٹ سی ہونے لگی تھی ۔وہ کھلی کھڑکی میں سے باہر کے ماحول کا جائزہ لینے لگے ۔ باہر کتنا اندھیرا تھا ،کتنی خاموشی اور سکون تھا ۔” یادیں انسان کو واقعی بے چین کردیتی ہیں ۔” انہوں نے آنکھیں بھینچ لیں۔” اب تو میں اس کا چہرہ ، اس کے خدوخال اور اس کی آنکھیں تک بھول چکاہوں ۔ وہ مجھے یا بہت کم آتی ہے ۔ شاید یاد ہی نہیں آتی ۔۔۔ اب تو وہ مر چکی ہے ۔ یہ کتنا عجیب ہے ؟ مجھے اس سے محبت تھی ۔ وہ مجھے یاد نہیں اتی ، یاد نہیں رہتی لیکن پھر بھی وہ ہرگھڑی میرے پاس پاس رہتی ہے ۔ ” کھڑکی کے ذریعے ہوا کاایک سرد جھونکا اندرداخل ہوا تو انہوں نے جھرجھری لی اور بیڈ کی طر ف آگئے ۔ہمیشہ بہت بے چین کیے رکھتی تھی وہ مجھے ۔۔۔ لیکن آج کل ۔۔۔میں سانس مشکل سے لے رہا ہوں ۔ میرا غم لکھ دینے سے شاید مزید بڑھتا ہے ۔” وہ بیڈ پر درا ز ہوگئے ۔” میں زندگی میں پہلی بار ڈائری لکھنے لگا ہوں ۔مرینہ کہتی ہے لکھ دینے سے میرا غم کم ہوجائے گا۔ میرا بوجھ ہلکا ہو جائے گا ۔ شاید وہ ٹھیک کہتی ہے ۔ ” انہوں نے اپنی بیوی کے سوئے ہوئے پر سکون چہرے کو دیکھا” تم کتنے سکون سے سو رہی ہو ! ان کی نگاہوں میں اشک تھا ۔” تم بہت حسین ہو ۔ میں تم سے محبت کرنے لگتا ۔۔ پر ۔۔۔ میں نے کبھی کوشش ہی نہیں کی ۔” انہوں نے کروٹ بدلی ۔
٭…٭…٭





” میری ممی کی کزن ہیں یہیں کہیں ہوں گی ، پنک کلر کے ڈریس میں ہیں ۔وہ میرے پیچھے پڑ گئی تھیں ۔ ان کا بیٹا ساول عاشق ہو گیا تھا مجھ پر ۔۔ لیزا نے ہلکا سا قہقہہ لگایا ۔ ”
ضرور پاگل ہوگا جو تجھ پرعاشق ہو گیا ۔” مرینہ نے بے زاری سے سوچا ۔” وہ تو تھینکس گاڈ شمعون کی مام نے جلد ی سے شمعون کی بات کر لی اور میں نے ہاں کہہ دی ۔ ساول سے جان چھوٹ گئی اور اس کی ماں سے۔۔۔جہاں بھی کالی اور موٹی سی عورت نظرآئے پنک کلر ڈریس میں ۔۔ سمجھو ساول کی ماں ہے ۔” لیزا کے لہجے میں حقارت تھی ۔
کھانا کھا لینے کے بعد لیزا ان کو کرسٹینا اور جوزف سے ملونے لے گئی ۔” یہ بھی دل چسپ سی حقیقت ہے کہ دلہن کی شادی ہو جائے اور اس کا میکہ اور سسرال ایک ہی ہو ۔ جوزف ، کرسٹینا کی پھوپھی کا بیٹا ہے ۔ میرے اور علی کی طرح اور جو بڑی پھوپھی ہمارے گھر آ کر رہنے لگے اور علی بھی ۔۔۔ ” وہ مسکرانے لگی ” ہائے ۔۔” وہ مسرورہ” اللہ نہ کرے ہمارے گھر آکررہنے لگے ۔ ” اس نے سر جھٹک دیا اور لیزا کے ساتھ باتوں میں مصروف ہوگئی ۔
” سنیں !سنیں!وہ موٹی ، بھدی اور کالی سی عورت ساول کی ماں ہے ؟ ” اچانک مرینہ نے لیزا کو جھنجوڑا ۔ لیزا قدرے تعجب سے مرینہ کی انگلی کے تعاقب میں دیکھنے لگی ۔
” وہ ۔۔۔ میری ممی ہیں ۔” لیزا اپنے لہجے کی خشکی نہ چھپا سکی ۔ اچھ۔۔ چھ۔۔ چھا!؟ ” مرینہ شرم سے پانی پانی ہورہی تھی ۔ عرینہ ناگواری سے مرینہ کو دیکھنے لگی ۔” اب اس بدتمیز کو ساول کی ماں سے کیا لینا دینا ؟اس نے ناگواری سے سوچا اور اسی لمحے لیزا بھی بڑی ناگواری سے سوچ رہی تھی ۔” عجیب بدتمیز کزن ہے عرینہ کی۔۔۔ کس طرح جھنجھوڑ ا مجھے ؟ اور اوپر سے ممی کیلئے کیا کیا الفاظ استعمال کیے ؟ وہ اٹھ گئی ۔” میں آتی ہوں ۔” اور لمبے لمبے ڈگ بھرتی وہ نہ جانے کس سمت چلی گئی ۔” یہ کیا کیا تم نے ؟عرینہ نے مرینہ کو ٹوکا ۔” ٹھیک ہی تو کہا میں نے ۔۔۔۔ موٹی ، بھدی اور کالی ہی تو تھی ۔ کون سی لیڈی ڈیانا تھی جو آپ کی دوست کو برا لگا ؟” اس نے ”
لیڈی ڈیانا ” کو خاص لمبا کرکے کہا عرینہ ہنسنے لگی ۔
پورے دو بجے ابا ان کو لینے آئے تھے اور لیز ا نے جاتے جاتے عرینہ کو بتایا کہ وہ بی ۔اے میں داخلہ لے رہی ہے ۔ ” تم بھی لے لو ۔ شمعون کہتا ہے میں پڑھایا کروں گا ۔اس نے کہا اپنی دوست سے کہ وہ بھی داخلہ لے لے تو مل کر پڑھائی کرنا ۔” اور عرینہ نے قدرے بجھے لہجے میں کہا دیکھتی ہوں ۔ گھر میں بات کرلوں گی ۔ ” وہ جانتی تھی اماں کسی صورت نہیں مانیں گی۔ ” کوئی فیصلہ کر لو پھر مجھے ضرور بتانا ” عرینہ جانے لگی۔ ” ٹھیک ہے ۔” وہ اور مرینہ دروازے سے نکل آئیں ۔ ” گھر میں نہیں بتانا ہم شمعون سے ملے گے۔ اماں بُرا منائیں گی ۔ ” اس نے مرینہ کے کان میں سرگوشی کی تھی ۔ سب کچھ اُگل دینے کے باوجود مرینہ میں ایک خوبی تھی وہ راز فاش نہیں کیا کرتی تھی ۔
٭…٭…٭
آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی وہ تاریخ کمرے میں داخل ہوئی ۔ کھڑکی بند کر کے اس نے پردے ڈال دیے ۔ وہ مکمل اندھیرا چاہتی تھی ۔ اس کا ذہن منتشر تھا ۔ وہ خالی دماغ کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گئی ۔ وہی رات اس نے بیٹھے بیٹھے ہی گزار دی اس رات کو سو جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔ وہ رات بے انتہا لمبی تھی ۔یہ رات ختم ہولے ۔۔ اور میں خواب سے جاگ جاؤں اور دیکھ لوں کہ ۔۔۔ میرے ۔۔۔ ابو جی ایسے نہیں ہیں ۔ ایک موٹا قطرہ آنکھ سے گال تک بہ گیا اور آنسوؤں کی لڑی جاری ہو گی ۔ میں اس بھیانک خواب سے جاگ جاؤں اور اپنے “اصل ابو جی کی دیکھ لوں۔” اس نے سسک کر آنکھیں بھینچ لیں اور گھٹنوں پر سر رکھ دیا ۔
٭…٭…٭
” اوں۔۔۔ اتنی جلدی تو واپس آگئے ۔پوری شادی کا مزہ بھی نہیں اٹھایا۔” عرینہ نے آتے ہی شکایت کی۔” کیوں ؟ دولہا ، دولہن کے ساتھ جانے کی خواہش تھی کیا؟” دینا اس کی طرف آتے ہوئے
بولی۔عرینہ نے جواباً اسے گھورتے ہوئے اپنی چادر ہٹا کر اسے پکڑا دی۔
” آ گئے تم لوگ؟” اماں نے پکارا تو عرینہ اور مرینہ خاموشی سے ان کی طرف بڑھ گئیں۔
” اور اب جو ان سے بی۔اے میں داخلہ لینے کی ضد کروں گی تو نہ جانے کیا ہوگا؟” عرینہ نے اپنی خوش شکل ماں کو دیکھ کر سوچا۔اس کا دل بری طرح گھبرا رہا تھا۔
” اماں !!!” وہ ان کے نزدیک بیٹھ گئی۔
” ہوں؟” اماں نے سلائی مشین پر کام کرتے ہوئے ایک لمبی ” ہوں” کی۔
” توبہ ہے ۔اتنا ڈر تو مجھے عزرا ئیل سے بھی نہیں لگتا جتنا میں اماں سے ڈرتی ہوں۔” وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔
” اماں ! میں۔۔۔بی۔ اے میں داخلہ۔۔۔” اماں نے ہاتھ روک کراس کو گھورا وہ مزید کچھ نہ بول سکی۔
” صالحہ برا مانے گی۔” اماں نے نرمی سے کہا اور بڑی مشاقی سے مشین چلانے لگیں۔” اماں! صرف بی۔اے ۔۔۔ اجازت دے دیں ناں۔۔” اس نے سماجت کی۔اماں نے ہاتھ روک کر دوبارہ عرینہ کو دیکھا۔بڑی غور سے دیکھا۔ پھر اپنے کام میں مصروف ہو گئیں۔
” اماں۔۔۔ ” اس نے پھر سے پکارا۔ اپنے ابا سے بات کرلے۔ انہوں نے اس کی طرف دیکھے بنا کہا۔
عرینہ حیران تھی وہ اتنی جلدی مان کیسے گئیں؟ اور وہ خود بھی تعجب کے عالم میں سلائی کی مشین چلاتے ہوئے سوچ رہی تھیں ہمیشہ اس کو روکا ٹوکا ہے پر اب جب بھی کچھ مانگتی ہے تو دل کرتا ہے اس کی ہر چا ہ پوری کروں۔میری تو یہی ایک ہی بیٹی ہے جس کو میں نے کبھی سینے سے بھی نہیں لگایا۔ انہوں نے کن اکھیوں سے اسے دیکھا۔ مجھے اپنے بچوں سے پیار کرنے کا طریقہ کبھی نہیں آیا۔۔۔ عرینہ خاموشی سے ان کے پاس سے اٹھ گئی۔وہ سلائی کی مشین چلاتے نہ جانے کیا سوچ رہی تھیں ۔ گھڑ گھڑ کرتی مشین کی آواز کے بیچ انہیں اپنی سوچوں کی آواز نہیں سنائی دی۔عرینہ اور مرینہ کھسر پھسر کرتی ہوئی کمرے کی طرف چلی گئیں اور برآمدے میں بیٹھی دینا یہ سب دیکھ رہی تھی۔ اس نے بڑی سمجھ داری سے سوچا ” میری ماں حد سے ذیادہ خاموش اور بڑی اماں حد سے زیادہ سخت۔۔۔۔ان دو مختلف مزاج والی عورتوں میں ایک ہی بات مشترک ہے ان دونوں کو اپنی اولاد سے پیار کرنا نہیں آتا۔
٭…٭…٭





ناشتے کی میز پر اس نے ایک بار بھی سر اٹھا کر اس شخص کو نہیں دیکھا تھا جو اس کا باپ تھا۔ میں اس شخص کی شکل نہیں دیکھنا چاہتی جو اندر سے کچھ اور ہو اور باہر سے کچھ اور۔۔۔ناشتے کی میز پر اس کی خلاف معمول خاموشی کو اس نے بھانپ لیا۔ سب کے پوچھنے کے با وجود اس نے اصل وجہ نہیں بتائی تھی۔
اس دن وہ سکول میں بھی غائب دماغ سی رہی تھی۔اس کی نگاہوں کے سامنے اس کے یقین کی کرچیاں بکھری پڑی تھیں اور وہ بڑی بے یقینی اور دکھ کے ساتھ ان کرچیوں کو سمیٹ کر اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔” لوگ کہتے ہیں ایک بار یقین ٹوٹ جائے پھر نہیں جڑتا ۔ وہ ایک بار آکے مجھے سمجھا دیں ۔ یقین دلا دیں کہ یہ سب جھوٹ ہے میں یقین کر لوں گی۔وہ میرے آئیڈیل۔۔۔۔” تھے” ۔پھر سے آنسو چھلک پڑے تھے۔” تو اب میں کس پہ بھروسہ کروں گی؟کامل یقین تو اب ہر کسی پہ نہیں کیا جا سکتا۔میرا آئیڈیل ٹوٹ گیا۔” اس نے الٹے ہاتھ سے اپنے آنسو صاف کئے۔پورا دن خود سے لڑتی رہی تھی۔اس دن کالج میں پڑھایا گیا ایک بھی لفظ اسے سمجھ نہیں آیا تھا۔اس کی نگاہوں میں وہی فرشتہ گھوم رہا تھا جس کا شیطانی پہلو وہ دیکھ چکی تھی اور جو اس کا باپ تھا۔
٭…٭…٭
پھوپھی جی کو آخر کار گھر جانے کا خیال آ ہی گیا اور ابا کے گھر آتے ہی انہوں نے گھر جانے کی ضد شروع کی ۔ سب کے روکنے پر بھی وہ نہ مانیں ۔ اگلی صبح ابا نہیں اسٹیشن تک چھوڑآئے اور ان کے جانے پر جو جشن عرینہ اور مرینہ نے منایا تھا وہ قابل دید تھا ۔ ” شکر ہے پھوپھی نامہ ختم ہو گیا ۔” عرینہ نے مرینہ سے گلے ملتے ہوئے کہا ایسا ہی ہوتا تھا جب وہ دونوں خوش ہوتی تھیں تو اچھل اچھل کر گلے ملتیں۔
” ہاں ۔ پتہ نہیں یہ پھوپھیاں ہمارے ہی گھر کیوں آتی ہیں ؟” مرینہ نے پوچھا۔
” کاش اماں بھی کسی کی پھوپھی ہوتیں۔” عرینہ نے آرزو کی ۔ ” ہاں ۔ میری ماں اور بڑی ماں میں یہ بات بھی مشترک ہے کہ ان دونوں کا کوئی بھائی نہیں ۔” دینا نے سوچا بڑی دل چسپ حقیقت تھی کہ دونوں عورتیں جو ایک دوسرے سے مکمل مختلف لگتی تھیں میں بہت سی حقیقتیں مشترک تھیں صرف دونوں کا انداز الگ تھا ۔، طر ز عمل جدا تھا ۔ ایک زندگی میں اتنی گھلی ہوئی تھی ، اتنی مگن تھی کہ گمان ہوتا تھا اس کے بغیر زندگی رک جائے گی اور دوسری زندگی سے اتنی دور ، اتنی خاموش اور الگ تھی کہ لگتا ہی نہیں تھا وہ زندگی کا ایک حصہ ہے ۔ دینا نے سرجھٹک دیا ” میں بھی آج کل کیا کیا سوچتی رہتی ہوں ؟” اس نے خود کو ٹوکا ” اورکچھ ہے بھی تو نہیں جس پہ سوچا جائے ۔” اس نے مدافعت کی ۔” اصغر حمید ۔۔۔۔” اس کے دل کے نہاں خانوں سے آواز آئی ۔” اس پہ میں کیا سوچوں؟؟؟” جتنی باتیں ، جتنی یادیں تھیں وہ میں سوچ چکی ۔ میرے پاس اس کو سوچنے کی کچھ نہیں ۔۔۔ کوئی نئی بات ، کوئی نئی یاد۔۔۔ کچھ نہیں ۔ جب سے گیا ہے ایک ہی بار تو مختصر سی بات ہو پائی ہے فون پر ۔ پھر میں اس شخص کو کیا سوچوں ؟ وہ اب خود میں مگن ہوگا !” اس نے تاسف سے سوچا ۔ اصغر کی سوچیں اس کو کس قدر پریشان کر دیا کرتی تھیں ۔ وہ بے انتہا گھبر ا جاتی تھی۔ جاتے جاتے وہ کیا درد سر دے گیا تھا۔ کس مصیبت میں پھنسا کے گیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں اپنے خواب سجا کے جانے والے نے تو ایک بار بھی پیچھے مڑ کر اس کی خبر نہیں لی تھی۔ وہ جو ایک بار فون پر مختصر سی گفتگو ہوئی تھی بڑی ماں اور پھوپھی جی کے سامنے اس میں کیا بتاتی کہ کتنے یاد آتے ہو؟”
٭…٭…٭
” یار ! لائبریری میں دیکھ لی وہ نیو ٹیچر ؟” بریک میں سب سے پہلے کامل بول پڑا۔
” کون ؟ وہ بلیک بیوٹی ؟” مطیع جھٹ سے بو ل بڑا۔ وہ سب کو کتنا ہنساتا تھا ۔ وہ اگر کئی گھنٹے بولتا رہتا تو بھی کوئی تنگ نہیں ہوتا تھا ۔ کوئی بور نہیں ہوتا تھا۔
” ہاں یار ! اینڈ شی از پلیننگ ٹو ارینج این آرٹ ایگزیبیشن۔۔۔” افصہ نے بھی باتوں میں حصہ لیا جب کہ حمائل ، صبار اور تابندہ جوس کے سپ لیتے ہوئے خاموشی سے سن رہے تھے ۔
” او مس ! تو کیوں چُپ ہے۔؟صبار نے تابندہ کو چھیڑا ۔ ” کیا بولوں ؟ آئی ہیٹ آرٹ۔۔۔۔ ” تابندہ اداس ہو کر بولی :” تو تجھے کس نے کہا ہے پارٹیسپیٹ کرنے کو ؟ یہ تو آرٹ لورز کے لیے ارینج ہو رہا ہے ۔” کامل جھٹ سے بو ل پڑا۔
” ہاں یار! آرٹ ایزیبیشن میں چڑیلوں کا کیا کام ؟ مطیع تابندہ کو تنگ کرنے کے لیے ایک بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھالیکن تابندہ بھی کچھ کم نہیں تھی وہ مطیع کی ہر بات ، ہر مذاق اور طنز کا منہ توڑ جواب دیتی تھی ۔
” میں چڑیل ہوں اور تو لمبی دم والا بندر ہے ” تابندہ نے چبا کر کہا۔ سب ہنسنے لگے تھے ۔
” ایک آئیڈیا ہے میرے پا س ۔۔۔” اس سے پہلے کہ مطیع ، تابندہ کو الٹا جواب دیتا اور ان دونوں کی نہ ختم ہونے والی بحث شروع ہو جاتی ۔صبار نے باتوں کارخ کسی اور طرف موڑ دیا ۔
” کیا ؟” سبھی دوست صبار کی طرف متوجہ ہو گئے ۔
” ہم میں سے کوئی بھی اس آرٹ ایگزیبیشن میں انٹر سٹڈ نہیں ہے تو کیوں نہ ہم اس دن پارٹی ارینج کرلیں۔ انجوائے کرلیں گے ۔” صبار نے تفصیل بتا دی ۔
” پارٹی میں کھانے کو کیا ملے گا ؟” مطیع جھٹ سے بول پڑا۔
” تجھے ذبح کر کے تیرا گوشت بھون کر کھا لیں گے ۔” تابندہ بھی مطیع سے کچھ کم نہیں تھی ۔
” ہاں چڑیل! میں بھول گیا تھا تو انسانوں کا گوشت کھاتی ہے ۔” مطیع نے تابندہ کو چھیڑا ۔
” شٹ اپ!” تابندہ نے مطیع کو آنکھیں دکھائیں ۔
” افوہ! تم دونوں ٹام اینڈ جیری سے کچھ کم نہیں ہو ۔” افصہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی ۔
” پارٹی کہاں پر ارینج کرلیں ؟” کافی دیر سے چپ بیٹھی حمائل نے حالات کو سنبھال لیا ۔ وہ آج کل کم ہی بولتی تھی ۔
” میرے گھر پر ۔۔۔۔صبار کی اس بات سے سب خاموشی سے اس کی طرف دیکھنے لگے ۔
” گھر میں تو دم گھٹتا ہے میرا۔ ان کے ساتھ ہوتی ہوں تو وقت اچھے سے گزر جاتا ہے ۔ اب اپنے گھر میں کہاں چھپ جاؤں؟! ایسا کیا کروں کہ ان کا چہرہ نہ دیکھوں ؟” حمائل کو یک دم گرمی لگنے لگی۔ اس کے گال انگارہ ہورہے تھے ۔وہ پھر سے جلنے لگی تھی ۔ اپنے دوستوں کے پاس سے اٹھ کر وہ تقریباً بھاگ کر واٹر کولر کے پا س گئی تھی اور ٹھنڈے پانی کو اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھر بھر کر اس نے اپنے لال بھبھوکا منہ پر دے مارا تھا ۔ سب کی حیران نگاہوں کے جواب میں اس نے دھیرے سے کہا تھا۔
” میں ٹھیک ہوں بس گرمی لگی تھی۔”
٭…٭…٭
آخر کار اس نے بی۔اے میں داخلہ لے لیا ۔ پڑھائی سے زیادہ اسے اپنی سہیلیوں سے ملنے کی خوشی تھی۔ اب وہ پھر سے کالج جا کرروز اپنی سہیلیوں سے ملے گی۔ مستیاں کرے گی اور کالج کی لائبریری میں موجود ڈھیر سارے ناول باری باری گھرلا کر چوری چھپے پڑھا کرے گی ۔ کبھی کمبل میں گھس کر ٹار چ کی روشنی سے اور کبھی تاریخ ،اردویا پھر انگریزی کی کتاب کے درمیان میں ناول چھپا کر ۔۔۔۔۔
زندگی ایک بار پھر رنگوں سے بھر گئی تھی ۔ وہ بے حد خوش تھی کم از کم اماں کی ہروقت کی ڈانٹ سے تو وہ آدھ دن محفوظ رہتی۔ وہ تووہ باورچی خانے میں دال ،چاول اور کڑاہی ہی پکاتی رہ جاتی اور پوری زندگی یوں ہی گزر جاتی ۔۔۔ سالن بناتے بناتے ۔۔ پر وہ کبھی بھی ڈھنگ سے کھانا بنانا نہ سیکھ پائی جس وقت اماں اس کو ہدایت دے رہی ہوتی تھیں اس وقت وہ اپنے تکیے کے نیچے رکھے ناول کی ہیروئن کے بارے میں سوچ رہی ہوتی تھی یا پھر اس ظالم کردار کے بارے میں ، جو ہیروئن پر ظلم کرتا تھا ۔ وہ دل ہی دل میں اسے ہزاروں بددعائیں دیتی بلکہ کبھی کبھی تو اس کو الٹا ہیروئن پر غصہ آجاتا تھا ” یہ کیا اللہ میاں کی گائے بنی بیٹھی ہرکسی کا بر ا بھلا سب سنتی ہے ؟ ارے بھئی ! ہر آدمی کی اپنی انا ہوتی ہے اور انسان کو اب اتنا بے غیرت بھی تو نہیں ہونا چاہیے ناں کہ کوئی کچھ بھی کہے او ر آپ خاموشی سے سنتے جائیں۔ ” اور اسی وقت اس کو اماں کی دھاڑ سنائی دیتی ” میں نے جو بتایا وہ سمجھ گئی ؟ اور وہ یونہی اثبات میں سر ہلا تی رہ جاتی اور اسی لمحے اسے اپنا آپ کسی ناول کی ہیرؤن سے کم نہیں لگتا تھا جو ہر کسی کی اچھی بڑی باتیں خاموشی سے سن لیا کرتی تھی ۔
٭…٭…٭





” تمہارے کالج میں کوئی نئی ٹیچر آئی ہیں ؟” لاؤنج میں پڑے سیاہ رنگ کے قیمتی صوفے پر بیٹھی امی نے حمائل سے پوچھا ۔
” یس !آرٹ ایکسپرٹ ہے ۔” حمائل نے ملازمہ کے ہاتھ سے چائے کا کپ لے کر امی جی کو جواب دیا۔
” ہاں ۔ منزہ بہت خوش ہے بلکہ اسے تو وہ ٹیچر بہت پسند آئی ہے ۔ کہہ رہی تھی بہت پیاری ہے۔” امی جی نے ٹی وی پہ چینل بدلتے ہوئے کہا ۔
” نو امی جی ! شی از ناٹ پریٹی۔۔۔ سانولی سی ہے اور سانولے لوگ تو پیارے نہیں ہوتے ۔” حمائل کے لہجے میں حقارت تھی ۔
” کوئی بھی رنگ اچھا یا برا تو نہیں ہوتا ۔ ہاں ! ہماری سوچ کسی رنگ کو اچھا اور کسی کو برا بنا دیتی ہے ۔ بات اپنے اپنے نظریے اور سوچ کی بھی تو ہوتی ہے ۔” منزہ نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا اور ٹی وی کی طرف متوجہ ہو گئی ۔ حمائل نے منزہ کی اس بات کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا اور خاموشی سے چائے پینے لگی ۔
” لاؤنج میں سب سے الگ تھلگ صوفے پر بیٹھے سیرت النبی ۖ پڑھتے ہوئے اس کی نظریں بے اختیار منزہ کی جانب اٹھ گئیں ۔انہیں لگا وہ اکیس سال پیچھے چلے گئے ہیں ، اس شام میں جب وہ اپنے گھر کی چھت پر کھڑے اس کی منتیں کررہے تھے لیکن وہ نہیں مان رہی تھی ۔ وہ پکے ارادوں والی خاموش سی لڑکی ۔۔۔۔ جو آج بھی ان کو بے چین کیے رکھتی تھی ۔ جس کے فیصلے آج بھی اس کے اعلیٰ ظرف ہونے کا ثبوت پیش کرتے تھے ۔ سوچ اور نظریے کی بات اکیس سال پہلے اس نے ان سے کہی تھی ۔ اس اندھیری شام میں ، جب وہ اس کے فیصلے کے خلاف تھے ۔ اور آج سوچ اور نظریے کی بات۔۔۔ اس اندھیری شام میں ۔۔۔ ان کی نگاہ غیر ارادی طور پر لاؤنج کی کھڑکی کی طرف گئی ۔ شام واقعی خلاف معمول اندھیر ی تھی ۔ انہوں نے حیرت سے منزہ کے چہرے کو دیکھا ۔ وہاں اطمینان تھا ، سکون تھا اور بے نیازی ۔” دو انسان اس قدر مشابہ کیسے ہو سکتے ہیں ؟” وہ حیرت اور بے یقینی سے منزہ کو تکتے رہے ۔ ” اکیس سال پہلے سوچ اور نظریے کی بات اس نے مجھ سے کہی تھی اور آج ۔۔۔۔” انہوں نے اپنی آنکھیں بھینچ لیں ۔” یہ تم میرا پیچھا کر رہی ہو ۔ یہ ٹھیک نہیں ۔۔ یہ غلط ہے ۔ میری زندگی سے چلے جانے کا یہ فیصلہ تمہارا اپنا تھا ۔۔ بنا پوچھے جانا اور بنا پوچھے آجانا۔۔۔۔ یہ غلط ہے ۔ سر اسر غلط ہے ۔ ظلم ہے ، زیادتی ہے وہ پھر سے بے چین ہوگئے تھے ۔ ” کسی کو بھول جانے کے لیے اکیس سال کافی ہوتے ہیں ۔ میں تمہیں بھول بھی جاتا لیکن تم مجھے خود کو بھلانے نہیں دے رہی ۔ پھر میں کیا کروں؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ تم نے جا کر ظلم کیا ہے یا یاد آکر ظلم کررہی ہو ؟” انہیں اپنی آنکھوں میں نمی اترتی محسوس ہوئی ۔
٭…٭…٭
کالج سے چھٹی ہوتے ہی وہ مرینہ اور لیزا کے ہمراہ کالج گیٹ سے نکل آئی ۔” ہائے ۔ لیزا! ابھی وہ تینوں سامنے کھڑے رکشے کی سمت جا ہی رہی تھیں کہ لیزا کو کسی مردانہ آواز نے پکارا۔
” شمعون؟” لیزا شمعون کی آواز پہچانتے ہوئے حیرانی سے ادھر ادھر نگاہیں دوڑانے لگی ۔
” وہ وہاں ہیں ۔” عرینہ نے لیزا کا بازو پکڑ کر دھیرے سے کہا ۔ وہ سفید رنگ کی موٹر کا ر کا دروازہ کھولے کھڑا تھا ۔ لیزا مسکراتے ہوئے اس کی جانب بڑ گئی ۔
” میں نے اپنی زندگی میں اس شمعون سے زیادہ بے وقوف انسان کہیں نہیں دیکھا ۔” مرینہ نے شمعون کی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا ۔وہ بڑی فراخ دلی سے مسکراتے ہوئے لیزا کے ساتھ باتیں کرنے میں مصروف تھا ۔
” کیوں ؟” عرینہ نے بے دھیانی سے پوچھا۔ اس کی نگاہیں اور اس کا دھیان شمعون اور لیزا کی طرف تھا ۔
” ایک بے وقوفی اس نے یہ کی کہ آپ کی اس چڑیل دوست سے منگنی کر لی اور اس کے اوپر جو بڑی بے وقوفی کررہا ہے وہ یہ کہ اب اس کالی کلوٹی کو لینے کالج بھی آگیا ہے اپنے حسن کو چار چاند لگانے۔
” اس کی اپنی زندگی ہے اس کی مرضی جو بھی کرے ۔تجھے کیا ؟” عرینہ نے بہ دستور شمعون اور لیزا کو دیکھتے ہوئے مرینہ کو ڈانٹا ۔
” آپ کو بہت برا لگتا ہے جب میں آپ کی اس کلموہی ” لیزا ” کے بارے میں کچھ بولتی ہوں” مرینہ نے شکوہ کیا ۔
” بس چھوڑ بھی دو چلو چلیں ۔” عرینہ نے شمعون اور لیزا پرسے نگاہیں ہٹاتے ہوئے کہا۔
” ہاں ۔ چلتے ہیں ۔ آپ کی ” لیزا” تو اپنے شمعون کے ساتھ جائے گی ۔ او مائی گاڈ۔۔۔” مرینہ نے طنز کیا لیکن عرینہ نے اس کی بات کو نظر انداز کر دیا اور رکشے میں بیٹھنے لگی ۔
” سنو !عرینہ ۔۔۔رکو ۔۔۔۔ لیزا کی پکارسے وہ دونوں مڑ کر اس کی طرف دیکھنے لگیں ۔
” شمعون چاہتاہے تم دونوں ہمارے ساتھ چلو۔” لیزا ان کی طرف آتے ہوئے بولی ۔ اس سے پہلے کہ عرینہ کوئی بہانہ بناتی مرینہ شمعون کی گاڑی کی طرف بڑھ گئی تھی ۔ کیوں نہ آج رکشے کی بجائے آرام سے موٹرمیں گھر چلے جائیں ۔” اس نے بڑے ہی آرام سے سوچا تھا اور مجبوراً لیزا کے ہم راہ آتی عرینہ نے بڑی بے بسی سے سوچا تھا ۔
” نہ جانے کیوں میں اس شخص کو نہیں دیکھنا چاہتی ؟ مرینہ شاید ٹھیک ہی کہتی ہے یہ بے وقوف ہے لیکن مجھے یہ شخص کسی بھی زاویے سے بے وقوف نہیں لگتا ۔” موٹر میں بیٹھتے ہوئے اس نے ایک بار شمعون کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھا تھا جو خفیف اندازمیں اپنی نگاہیں عرینہ پر جمائے ہوئے اور مرینہ کی نگاہوں نے یہ منظر دیکھ لیا تھا ۔
٭…٭…٭
” ایگزیبشن کی ڈیٹ فکس ہو گئی ۔” افصہ نے ٹینس ریکٹ حمائل کو تھماتے ہوئے بتایا ۔
” کب ؟ تجھے کیسے پتا چلا ؟” حمائل نے اپنے ٹینس کورٹ کی طرف جاتے ہوئے افصہ سے سوال کیا ۔
” آج صبح۔ میم رقیہ نے اناؤنسمنٹ کی ۔ آپ تو لیٹ ہو گئی اور مس کر دیا ۔” افصہ نے شارٹ مارتے ہوئے بلند آواز میں کہا ۔
” مجھے کوئی انٹرسٹ بھی نہیں ۔” حمائل نے بے دلی سے کہا ۔
” انٹرسٹنگ بات یہ ہے کہ اس دن کامی کا برتھ ڈے ہے ۔” افصہ نے تفصیل بتائی تو حمائل شارٹ مارتے مارتے رک گئی ۔ ” یو مین پانچ ستمبر؟”
” یس! ” افصہ حمائل کی سمت آتے ہوئے مسکرائی ۔
” فنٹاسٹک !” حمائل نے اپنے سپورٹس بیگ سے پانی کی بوتل نکالتے ہوئے کہا اور پانی پینے لگی۔
” سٹوپڈز! ایڈیٹیس!” منہ ہی منہ میں گالیا ں دیتا کامل برہم لگ رہا تھا ۔اس نے آتے ہی حمائل سے پانی کی بوتل لی اور غٹا غٹ پانی پی گیا ۔
” وہاٹ ہیپنڈ ؟” حمائل ٹشو پیپرسے اپنے ماتھے کا پسینہ صاف کرتے ہوئے بولی ۔
” ان دونوں کی وجہ سے ہر بار ہمارا سپورٹس لیسن خراب ہوجاتا ہے ۔ ” کامل کے لہجے میں شکایت تھی ۔
” تم کس کی بات کررہے ہو ؟ ” حمائل نے نہ سمجھتے ہوئے کہا ۔
” آف کورس ۔ آئی ایم ٹاکنگ اباؤٹ تابو اینڈ میٹ ۔”
” اوہ ۔ اچھا ” وہ مسکرائی ۔
” سپورٹس ماسٹر سخت غصے میں ہے ۔۔۔۔ تابو نہ تو اپنا گیم چینج کرتی ہے اور نہ اپنی زبان کو قابو میں رکھنا جانتی ہے ۔” کامل اب بھی برہم تھا ۔
” یار !اس کی ٹیچر ایسی ہے ۔ وہ کرکٹ بھی کھیلے گی اور میٹ کی جان بھی نہیں بخشے گی ۔” افصہ نے اپنا سپورٹس بیگ اٹھایااور کامل اور حمائل کے ہمراہ ٹینس کورٹ سے نکل گئی ۔
وہ تینوں گراؤنڈ کے اس حصے کی جانب چلے گئے ۔ جہاں صبار ، مطیع ،تابندہ کے بیچ صلح کروانے کی ناکام کوشش کررہاتھا ۔
” چھوڑو یہ سب ۔ چلوکامی کے برتھ ڈے کیلئے کچھ پلین کرتے ہیں ۔ حمائل نے آتے ہی موضوع بدل ڈالا کیوں کہ وہ جانتی تھی مطیع او ر تابندہ اگلے لمحے پھر سے کسی اور بات پر لڑ پڑیں گے اس لیے ان کی صلح کروانا فضول ہے ۔
” یارکامی !میں کسی اور دن تیرا برتھ ڈے سیلی بریٹ کر لوں گا ۔ اس چڑیل کو کائی بھروسہ نہیں ۔کیا پتہ یہ کیک کی نایف سے میرا گلا کاٹ دے ۔” مطیع کا اندازسنجیدہ تھا ۔
” شٹ اپ” تابندہ کی دھاڑ سنتے ہی وہ سیدھا ہو کربیٹھ گیا تھا ۔گھنٹی بجتے ہی سب کلاس کی طرف جانے لگے ۔ یہ طے تھا کہ سب دوست کامل کا برتھ ڈے سیلیبریٹ کرنے اس کے گھر جائیں گے لیکن مطیع اور تابندہ کی موجودگی میں پارٹی کیا موڑ لے گی ؟” اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔
٭…٭…٭





” شمعون واپس چلا گیا ۔” لیز ا نے عرینہ کو بتایا ۔ وہ آج کچھ اداس سی تھی ۔
” اچھا ۔” عرینہ نے لیز ا کے ہمراہ کلاس کے اندر جاتے ہوئے آہستہ سے کہا ۔ بھلا اس کو شمعون کے آنے یا جانے سے کیا دلچسپی ہو سکتی تھی ؟” ممی کہتی ہیں کہ میرا بی۔اے اور اس کا ایم ۔اے مکمل ہو جائیں تو پھر شادی کر لیں گے ۔” لیزا نے اچانک خوش ہوتے ہوئے کہا ۔ شمعون کے بارے میں بات کرتے وقت اس کی آنکھوں میں جو چمک آتی تھی وہ واقعی قابل دید تھی ۔
” جس طرح تم اسے یاد کر کے اداس ہو جاتی ہے ۔ جس قد ر تمہیں اس سے محبت ہے کہا وہ بھی تم سے اتنی ہی محبت کرتا ہے ؟” عرینہ نے حیرت سے سوچتے ہوئے لیزا کو دیکھا ۔ ” کیاوہ واقعی بے وقوف ہے جس طرح مرینہ کہتی ہے ۔” وہ شاید مزید بھی سوچتی لیکن مس زاہدہ کے آتے ہی اس نے اپنے ذہن سے یہ خیال جھٹک دیا ۔ بھلا اس کو شمعون اور لیزا کے رستے اور محبت سے کیا دلچسپی ہو سکی تھی ؟
٭…٭…٭

” میں کون سا ڈریس پہنوں؟ بلیک یا بلیو؟” ہینگر میں لٹکے کپڑوں کو دونوں ہاتھوں میں تھامے وہ اپنے والدین کے کمرے میں بنا دستک دیے بے دھڑک داخل ہوئی ۔ اس کو بچپن سے ابو جی کی چوائس پر یقین تھا ۔ وہ جو بھی ڈریس سلیکٹ کرتے حمائل اصغر وہی ڈریس پہنتی چاہے کوئی کچھ بھی کہتا۔
” آئی تھنک ۔۔۔ بلیو! ابو جی نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
” امی جی ! آئی ایم آسکنگ یو ۔” وہ اپنے لہجے کی خشکی نہ چھپا سکی ۔ ابو جی کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے وہ امی جی کی طرف متوجہ تھی ۔
امی ، ابو دونوں نے حیرانی سے حمائل کو دیکھا ۔ ” تم کہاں جارہی ہو اس کی بات کا جواب دینے کی بہ جائے الٹا امی نے سوال کر ڈالا ۔
” کامی کا برتھ ڈے ہے کل ۔ وہیں جانا ہے ۔” اس نے دھیرے سے جواب دیا ۔” آپ بتائیں ناں کون سا والا ڈریس اچھا ہے ؟” وہ جبراً مسکرائی ۔
” بلیو ۔” امی جی نے مختصر سا جواب دیتے ہوئے کن اکھیوں سے اپنے شوہرکے حیران چہرے کو دیکھا ۔ وہ ہمیشہ سے اصغر حمید کی ہاں میں ہاں ملاتی چلی آئی تھیں ۔ ان کی پسند کو اپنی پسند بنانے والی مسز مرینہ اصغر کی پسند آج ان سے مختلف کیسے ہو سکتی تھی ؟وہ زندگی کو، لوگوں کو، حالات کو حتی کہ خود کو بھی ان کی نظروں دیکھتی تھیں۔ ان کی اپنی نظر تو اکیس سال پہلے اس گھڑی ختم ہوئی تھی جب ان کی شادی ہوئی تھی اور تب سے آج تک ان آنکھیں وہ کچھ دیکھتی تھیں جو اصغر حمید دیکھتا تھا ، جو کہ ان کا محبوب شوہر تھا جس سے انہوں نے چپکے چپکے بے پناہ محبت کی تھی ۔
حمائل خاموشی سے کمرے سے نکل گئی تو ابو جی کے ذہن میں حیرت کے نئے دروا ہو گئے ۔ یکدم ان کو احساس ہو گیا کہ وہ ان سے ناراض ہے ۔ لیکن اس کی ناراضی کی وجہ کیا ہوسکتی تھی ۔اس کا ان کو اندازہ بھی نہیں تھا ۔ حمائل ان کی لاڈلی اور پیاری بیٹی تھی ۔ وہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھی اور شہروز سے کہیں زیادہ ان کے دل کے قریب تھی لیکن آج حمائل کے رویے کی اس تبدیلی نے ان کو گہری سوچ میں مبتلا کر دیا تھا۔ ” تمہاری اس ناراضی کی وجہ کیا ہو سکتی ہے ؟” نہ جانے ایسا کیا کر دیا میں نے کہ تم مجھ سے یک دم اتنی پرائی ہوگئی ؟کاش تمہیں احساس ہو جائے کہ مجھے تمہاری یہ بے رخی کس قدرتکلیف دیتی ہے۔” انہوں نے تاسف سے سوچا ۔ نجانے وہ حمائل کے بارے میں سوچ کر ہمیشہ جذباتی کیوں ہو جاتے تھے ؟ یک لخت انہیں وہ دن یاد آگیا جب وہ پیدا ہوئی تھی ۔ وہ کس قدر رورہی تھی ۔ اورجب انہوں نے اسے گود میں اٹھایا تھا تو وہ بالکل خاموش ہو گئی تھی ۔ اسی لمحے انہوں نے اسے دل سے لگایا تھا اور جس میٹھے احساس سے وہ دوچار ہوئے تھے اس نے ان کے دل کی ویران دنیا کو آباد کر دیا تھا اور تب ان کی آنکھوں سے اشکوں کے چند موٹے موٹے قطرے گرے تھے۔ کمرے سے نکل کر وہ باہر چلے گئے ۔ دوپہر کا وقت تھا لیکن ان کے دل کے اندر تو ایک اداس سی شام چھائی ہو ئی تھی ۔
٭…٭…٭
مرینہ اور لیزا کالج کے باہر عرینہ کے آنے کا انتظار کررہی تھیں۔ ” میری تو گرمی کی وجہ سے جان نکلی جارہی ہے ۔ ” لیزا نے پریشان ہوتے ہوئے کہا تو مرینہ نے بے زاری سے اس کی طرف دیکھا۔”اونہہ۔ مسز شمعون کے نازو انداز تو دیکھو۔۔۔ ” اس نے حقارت سے سوچا۔ اس کو لیزاسے بلاوجہ چڑ تھی۔ شاید اس لیے کہ وہ شمعون جتنی خوش شکل نہیں تھی۔




Loading

Read Previous

چائے والا — ایم رضوان ملغانی

Read Next

ڈگریاں — ثناء سعید

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!