پہلی محبت آخری بازی — شیما قاضی

” منزہ کو کھو دیا میں نے ۔جو دوست تھی میری۔۔۔” لاؤنج کے سامنے والی سیڑھیوں پہ بیٹھی وہ پاگلوں کی مانند بڑبڑائی ۔ سامنے والی دیوار پہ بیٹھا ایک چیل اپنے پنجوں میں پکڑے ایک ننھے سے چوزے کو اپنی چونچ مار رہا تھا۔
” اور سنان بھی چلا گیا۔” اُس کی آنکھ سے آنسو بہہ نکلا۔
چوزا اپنی پوری قوت لگا کر خود کو چیل کی گرفت سے آزاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
” ابو جی بھی چلے گئے۔ خاموشی سے۔۔۔” آنکھ سے اشکوں کی لڑی بہ نکلی۔ چوزا مر گیا تھا۔
” حمائل بی بی کے بارے میں ربیعہ نے بتادیا ۔سُن کر بہت افسوس ہوا۔”
اندر سے خالہ بی کی آواز آئی ،لہجے میں ہمدردی سے زیادہ دکھاوا تھا۔
چیل چوزے کا گوشت نوچ نوچ کر کھا رہا تھا۔
” حمائل بی بی اکلوتی بھی ہیں اور لاڈلی بھی۔۔۔ لیکن ایسی لڑکیوں کے لئے پھر اچھے رشتے تو نہیں آتے ۔ ہے ناں بیگم صاحبہ! اس لئے میں اپنے چھوٹے بھائی کا رشتہ حمائل بی بی۔۔۔





” یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں خالہ بی! ہوش میں تو ہیں آپ۔۔۔” امی کی تیز آواز اُبھری۔
چیل چوزے کو کھا چکا تھا۔ وہ دیوار سے اُڑ کر لان کے کونے میں پڑے اُس ٹوٹے سے گملے کے پاس جا بیٹھا جس میں بارش کا پانی جمع ہو گیا تھا۔ گملے کے پاس پڑے گوشت کے لوتھڑے پہ ایک بھی نگاہ ڈالے بغیر وہ پانی پینے لگا۔
” میں نے ایس بی کو بھی کھو دیا” اشکوں کی لڑی گہری ہوتی گئی۔
” معاف کرنا بیگم صاحب ! ہم تو آپ کے خادم ہیں لیکن میں نے اس لئے کہا کہ۔۔۔”
” خالہ بی ! بہتر یہی ہو گا کہ آپ اب چلی جائیں۔”
چیل سیر ہوکر اُڑ گیا۔
حمائل ایک جھٹکے سے اُٹھی اور تیزی سے اندر چلی گئی۔
” مجھے یہ رشتہ منظور ہے ۔خالہ بی! اتوار کے دن رخصتی ہو جائے تو اچھا ہے۔”
” حمائل ! یہ تم کیا کہہ رہی ہو ؟ ” امی حیران وپریشان تھیں۔
” خالہ بی! میرے خیال میں اب آپ کو جانا چاہئے۔” امی کا سوال نظر انداز کر کے اُس نے خالہ بی سے کہا اور کمرے میں گئی۔
امی،شہروز بھائی،منزہ سب نے اُسے بہت سمجھایا لیکن وہ اپنے فیصلے پرڈٹی رہی۔
وہ کمرے میں بیٹھی سنان کے بھیجے ہوئے طلاق کے کاغذات دیکھ رہی تھی جب افصہ کمرے میں داخل ہوئی۔ حمائل جانتی تھی امی نے اُسے بلایا ہے اسی لئے وہ اپنے چہرے پہ کوئی بھی تاثر لائے بناء سپاٹ لہجے میں اُس کے ساتھ باتیں کرتی رہی۔
” یہ تو نے کیسافیصلہ کیا ہے ماہی؟۔۔۔I had no ideaکہ تو اتنی بے وقوف ہے” افصہ نے بالآخر اصل بات پوچھ لی۔
” اس میں بے وقوفی والی کون سی بات ہے؟ ” وہ خشک لہجے میں بولی ” جب کوئی مجرم پولیس کے سامنے اپنے آپ کو پیش کرتا ہے تو یہ اُس کے لیے اچھا ہوتا ہے ورنہ اُس کے خلاف انکاؤنٹرسٹارٹ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔”
افصہ حیرت سے حمائل کو دیکھتی رہی ۔حمائل کیا کہنا چاہتی تھی اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔
” میں اللہ کے سامنے سرینڈر کر رہی ہوں ۔ اس سے پہلے کہ میرے خلاف انکاؤنٹرسٹارٹ ہو”
”ربش!!” افصہ سختی سے بولی ۔” دیکھ ماہی ! ایس بی کا انتظار کر لے وہ آجائے گا تو تُو اس سے شادی کر لینا۔ ویسے بھی اسے کچھ نہیں پتا …”
”ثمن آنٹی کو پتا ہے اور وہ ہاسپٹل میں بیمار پڑی ہیں ۔ایس بی کو بھی پتہ چل جائے گا۔” اس نے بے تاثر لہجے میں کہا ۔
” تو ایس بی سے محبت کرتی ہے ۔ ” افصہ نے اسے یاد دلایا ۔
” میں ہار چکی ہوں اسے ۔” وہ کسی ہارے ہوئے جواری کی مانند بے بسی سے بولی ۔
” شٹ اپ ۔” افصہ برہم ہوئی ۔ ” یس ماہی ! قاسم ! تو کسی کیس میں پھنس گئے ہیں اور ایس بی اتنا بزی ہے کہ میری تقریباً تین ماہ سے اس سے بات نہیں ہوئی ۔” افصہ اب نرمی سے اسے سمجھانے لگی۔
” تو سب کچھ بھول کر ایک نیا سٹارٹ لے لے ۔ ایس بی بے چارہ وہاں اتنی بری طرح پھنسا ہے کہ اسے اندازہ بھی نہیں ہو گا کہ یہاں کیا ہوا ہے ؟ہم سب کے ساتھ بہت عرصہ سے اس نے بات نہیں کی ۔” افصہ نے اپنا ہاتھ حمائل کے ہاتھ پر رکھ دیا ۔ ” تو نے اس سے کانٹیکٹ نہیں کیا اتنا عرصہ ۔۔۔اگر اب کرلے گی تو اسے یہی لگے گا کہ تو بزی تھی بلکہ آئی ایم شیور وہ خود تجھ سے ایکسکیوز کر لے گا۔ تجھے اپنے پرابلم کے بارے میں بتا دے گا ۔ میں جانتی ہوں اسے وہ بہت اچھا ہے ۔”
” ایف ! وہ اگر اچھا ہے تو وہ مجھے ڈیزرو نہیں کرتا ۔ اسے ایک اچھا انسان ملنا چاہیے۔” اس نے افصہ کے ہاتھ کے نیچے سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ۔
” وہ میٹ یا کامی نہیں ہے ایف ! وہ ایس بی ہے ۔ وہ جو اپنے کپڑوں پر ہلکا سا داغ برداشت نہیں کرسکتا تھا وہ اپنی محبت پہ داغ برداشت کرلے گا ؟” وہ دوسری طرف دیکھنے لگی ۔
” لیکن ماہی ! افصہ نے بولنے کی کوشش کی ۔
” کچھ نہیں ایف ! تو جا ۔۔۔ میں فیصلہ لے چکی ہوں ۔” اس نے فیصلہ کن انداز میں کہا اور افصہ کا بازو تھام کر اسے کمرے سے باہر نکال دیا ۔
” ماہی! لِسن ٹو می ۔۔۔ کامی یوکے چلا گیا ہے ۔ تابو اور میٹ شادی کرکے آسٹریلیا چلے گئے ۔ تیرا بھی تو ڈریم تھا کہ تو بھی ایمزان فاریسٹ کے ٹور پہ جائے گی ۔” افصہ نے گلو گیر آواز میں جلد ی جلدی اسے سب بتا دیا ۔ حمائل نے دروازہ بند کر دیا ۔
” خود کے بارے میں سوچ ماہی ! اپنے ڈریمز کو ایسے چکنا چور کردے گی تو ؟” افصہ کی روتی ہوئی آواز آئی۔ حمائل دروازہ لا ک کر کے فرش پر بیٹھ کر رونے لگی ۔
کافی دیر تک حمائل کے کمرے کے سامنے کھڑے ہو کر وہ روتے رہنے کے بعد وہ آنسو پونچھتی ہوئی تیزی سے باہر نکل گئی ۔ سب سے پہلے اس نے صبار کو اپنے فون ، فیس بک اور سکائپ سے بلاک کر دیا اور پھر باری باری اپنے سب دوستوں کو کال کرکے اس نے کہا تھا ۔” ایس بی تم لوگوں سے کانٹکیٹ کرے گا ۔ ماہی کے بارے میں پوچھے گا لیکن اسے پتہ نہیں چلنا چاہیے ورنہ وہ مر جائے گی ۔ اس لیے اس سے ہر قسم کا کا نٹیکٹ ختم کر دو۔”
” تو ڈریمز کی بات کرتی ہے ۔ میں نے تو اپناسب کچھ اسی آخری بازی میں ہار دیا تھا ۔” اس نے رنجیدگی کے عالم میں سوچا ۔
وہ گنا ہ کر چکی تھی اور اب سزا کے لیے تیار تھی ۔ نہ جانے کیوں وہ اپنی باقی زندگی خود کو ایذا ء میں مبتلا دیکھنا چاہتی تھی ؟
اس کی شادی ہوگئی ۔احسان اللہ پینتالیس سال کا تھا ۔ تین بچوں کا باپ تھا اور ایک جرنیل کے ہاں چوکیداری کرتا تھا ۔ اس کی پہلی بیوی جو چوتھے بچے کی حاملہ تھی ایک ایکسیڈنٹ میں مر گئی تھی ۔
اس پنجرے نما مکان کے اندر جاتے ہی ان کا دم گھٹنے لگا۔ ایک ہی کمرے پر مشتمل اس مکان کا صحن بھی کافی چھوٹا تھا ۔
” میری حمائل یہاں رہتی ہے ؟” ان کا دل ڈوبنے لگا ۔
” یہ تم ہو حمائل ؟ کمرے سے باہر آتی حمائل کو منزہ نے حیرت سے دیکھا ۔
آنسو پیتے پیتے اس کے گلے میں گرہ سی بن گئی ۔” یہ تم نہیں ہو سکتی ۔”
اس نے بے یقینی سے سوچا اور مزید خالہ کے قریب کھسک گئی ۔
حمائل خاموشی سے ان کے پاس بیٹھ گئی ۔
” یہ سامان ۔۔۔۔ میں تمھارے لیے لائی ہوں ۔” انہوں نے بہت سارے شاپنگ بیگز حمائل کی طرف بڑھا دیئے ۔
” مجھ ان کی ضرورت نہیں ۔” حمائل نے سامان لینے سے انکا ر کر دیا ۔
” تمہاری پسند کے کپڑے لائی ہوں ۔” آنسوؤں کا ایک سمندر وہ پی گئیں۔ ” یہ لے لو۔ چپس تمہیں بہت پسند تھے ناں ۔ میں تمھارے لیے لائی ہوں ۔ ” انہوں نے چپس کے پیکٹ حمائل کو دکھائے ۔
” اور پنسل ہیل والی سینڈلز بھی لائی ہوں ۔ ساری چیزیں تمھاری پسند کی ہیں ۔
” مجھے ان چیزوں کی ضرورت نہیں امی جی !”
” کیا ہو گیا ہے تمھیں حمائل ؟ وہ رونے لگیں ۔
” مجھ کچھ نہیں ہو ا امی جی ! میں بالکل ٹھیک ہوں ۔ خوش ہوں میں ۔”
وہ جبراً مسکرائی تو منزہ کی آنکھیں بھر آئیں ۔
” تم کیسی ہو منزہ ؟بھائی کیسے ہیں ؟ اس نے بڑی مشکل سے منزہ کی طرف دیکھا ۔ پور ی زندگی و ہ نفرت کی وجہ سے منزہ کی طرف نہیں دیکھتی تھی ۔ آج نفرت نہیں تھی۔ شرمندگی تھی اور ندامت۔۔۔





” میں ۔۔۔ ٹھیک ہوں ۔ اور وہ بھی ۔۔۔ ” منزہ بہ مشکل بو ل پائی ۔
” ہم کراچی شفٹ ہورہے ہیں ۔ تم سے ملنے آگئے ۔” امی نے اپنے آنسو پونچھ لیے ۔ وہ اپنی بیٹی کو بخوبی جانتی تھیں ۔ شاپنگ بیگز اٹھا کر وہ جانے لگیں۔
حمائل کو سینے سے لگا کر وہ بہت روئیں۔
جاتے وقت صحن میں کھیلتے تین بچوں کو دیکھ کر منزہ نے تاسف سے سوچا ۔” تمھیں چھوٹے بچوں سے کس قدر چڑ تھی ۔”
حمائل کو دیکھنے کے بعد وہ کئی راتوں تک سو نہیں پائی تھی ۔
” تمہاری منزل یہ تو نہیں تھی ۔” منزہ نے روتے روتے سوچا تھا ۔
احسان اللہ کو ٹی بی تھی اور اس کی حالت اتنی شدت سے خراب تھی کہ وہ چارپائی سے لگ گیا ۔ گھر میں کھانے کو کوئی چیز نہیں تھی ۔ بچے روتے روتے سوجاتے تھے ۔
حمائل نے کئی پرائیویٹ اسکولوں کے چکر بھی لگائے لیکن کہیں بھی استانی کی ضرورت نہیں تھی۔ بہت تنگی کا عالم تھا ۔ کمائی کا کوئی راستہ نہیں تھا ۔احسان اللہ کی طبیعت دن بہ دن خراب ہوتی جارہی تھی لیکن اس کو دوا میسر نہ تھی ۔
حمائل کے چھوٹے سے پر س میں جتنی رقم تھی وہ ختم ہو گئی تھی ۔
اس نے پرس ٹٹولا ۔” شاید تھوڑی سی رقم نکل آئے ۔” اس نے پر امید انداز میں سوچا ۔
پرس کی سب سے اندرونی جیب میں پانچ ہزار کا نوٹ پڑا مل گیا ۔
” ہیسٹوریکل نوٹ ۔” اس نے زیر لب کہا تو اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو چھلک پڑے۔
اسی پانچ ہزار کے نوٹ سے اس نے گھر کے لیے راشن اور احسان اللہ کیلئے دوا خریدی۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑا تھا ۔ وہ کھانستے کھانستے مر گیا ۔
احسان اللہ کی فوتگی پر اس کے دور کے رشتہ دار عصمت بھی آئی ہوئی تھی جوکہ ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھاتی تھی اور اسی نے حمائل کو اپنے سکول میں سائنس کی ٹیچر کی کمی کے بارے میں بتایا تھا ۔
حمائل پڑھانے لگی تو گھر چلانے میں تھوڑی بہت آسانی آگئی ۔لیکن اب جب کہ وہ ایک بچے کو جنم دینے والی تھی اور اس کا آٹھواں مہینہ چل رہا تھا ۔ اس حالت میں سکول جانا مشکل تھا ۔ اس لیے اس نے سکول سے چھٹی لے لی لیکن پھر سے تہی دست ہونے کا خدشہ تھا اور پھر عصمت نے اس کو ایک ٹرسٹ کے بارے میں بتایا جہاں اس نے صبار قاسم کو دیکھا اور وہ وہاں سے بھاگ گئی ۔
حمائل ایک جھٹکے سے اٹھی ۔رات ہو گئی تھی ۔وہ اندر چلی گئی ۔ اسے اب کھلی فضا میں سونے سے ڈر لگ رہا تھا ۔
٭…٭…٭
جاپان میں الیکٹریکل ڈیوائسز کی ایک اور کمپنی نے ڈیڈی پر الیگل بزنس کا الزام لگا یا تھا ان پر ایک بڑا کیس بن گیا تھا ۔
صبار اس قدر الجھا ہوا تھا کہ وہ ایک لمبا عرصہ اپنے دوستوں کے ساتھ کانٹیکٹ نہ کر پایا بلکہ اس الجھن میں تووہ اپنی ماں کو بھی بھول گیا تھا جن سے بات کیے بغیر وہ رات کو سوتا بھی نہیں تھا ۔
ڈیڈی کا کیس بند ہونے میں نہ جانے کتنے مہینے لگ گئے اور ابھی اسے سانس لینے کی بھی فرصت نہیں ملی تھی کہ ممی کی بیماری کی خبر آگئی اور وہ ایمرجنسی فلائٹ سے پاکستان آگیا ۔
لیکن بہت کوششوں اور بہت دعاؤں سے بھی ممی ٹھیک نہ ہوئیں اور چل بسیں ۔
جاپان سے بزنس سمیٹ کر ڈیڈی پاکستان آگئے لیکن ممی کی موت کی خبر جو صبار نے ان سے چھپائی تھی ،سن کر انہیں فالج کا دورہ پڑا تھا ۔
پھر ڈیڈی کے علاج کے ساتھ ساتھ بزنس کی ذمہ داری بھی اس پر آگئی تھی اور وہ سراٹھانے کے قابل بھی نہ رہا تھا ۔
پاکستان میں بزنس جمانے میں مہینوں لگ گئے اور جب وہ فارغ ہوا تو اس کو سب سے پہلا خیال اپنے دوستوں کا آیا تھا ۔اس نے ان سب سے رابطہ کرنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ کسی سے رابطہ نہ کر پایا ۔
تابندہ ، مطیع اور کامل کی فیملیز باہر سیٹل ہو گئی تھیں ۔افصہ بھی اپنی فیملی کے ساتھ اسلام آباد چھوڑ کر چلی گئی تھی اور اس کے نئے ٹھکانے کا کچھ پتہ نہیں تھا ۔
حمائل کے گھر جا کر بھی پتا چلا کہ وہ کہیں اور شفٹ ہو گئے ہیں ۔
وہ حیران و پریشان تھا ۔ اس کے دوستوں نے اسے مکمل طور پر اپنے کانٹیکٹس سے بلاک کیا تھا ۔
اسے حیرت ہورہی تھی کہ وہ سب اس کو اتنی آسانی سے ، اتنی جلدی کیسے بھول گئے ؟او ر وہ لڑکی۔۔۔ جس سے وہ محبت کرتا تھا وہ بے وفا تو نہ تھی ۔ وہ اس کو بھول نہیں سکتی تھی ۔
صبار کو یقین تھا کہ حمائل کبھی نہ کبھی ، کہیں نہ کہیں اس کو ضرور ملے گی اور پھر وہ اسے اپنی بے چینی کے بارے میں بتائے گا ۔اسے بتائے گا کہ میں نے تمھیں کتنا یاد کیا ؟
کبھی کبھی تو سے لگتا کہ وہ سب اس سے ناراض ہیں ۔ وہ ایک لمبا عرصہ ان سے رابطہ نہ کر پایا اس لیے وہ سب اس سے روٹھے ہوئے ہیں اور پھر اس کا دل پاگلوں کی طرح اپنے دوستوں سے ملنے کی ضد کرتا ۔ وہ سوچتا کہ جب وہ ان سب سے ملے گا تو ان سے خوب لڑے گا ۔ ناراض ہو گا ۔روٹھ جائے گا اور پھر وہ سب مل کر اسے منائیں گے ۔ اور وہ ایک بار پھر ان سب کو ایک ساتھ دیکھے گا بالکل اسی طرح جس طرح کالج اور یونیورسٹی میں ہوتا تھا۔
٭…٭…٭





گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے ریڈیو آن کر دیا ۔
زندگی اس قدر خاموش تھی کہ وہ اب خاموشیوں سے گھبرانے لگا تھا ۔ ریڈیو پر کوئی گانا چل رہا تھا ۔
رات پھیلی ہے تیری سرمئی آنچل کی طرح
چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے پاگل کی طرح
اس کا فون بجنے لگا ۔ اس نے ریڈیو بند کر کے موبائل کا ن سے لگا لیا ۔
” ڈیدی I can’t find her…! اس نے افسردگی سے کہا۔
” مل جائے گی بیٹا ! be patient….! ” موبائل میں سے ان شفقت بھری آواز ابھری ۔
” I hope so …. اس کے انداز میں ناامیدی تھی ۔
” دھیمی آنچ پہ پکا ہوا کھانا ۔۔۔”
” زیادہ لذیز ہوتا ہے ۔” وہ ان کی بات کاٹ کر بولاا ۔
” But it’s not like that…. ”
” yeah, I understand…. ” وہ دوستانہ لہجے میں بولے ۔ ” بس تم جلدی سے گھر آجاؤ ۔۔۔ بور ہورہا ہوں میں ۔۔۔ اتنا وقت تو تمھاری ممی نے بھی گھر پر نہیں گزارا تھا جتنا مجھے گزارنا پڑرہا ہے ۔
” Okay I am coming ” اس نے ہنستے ہوئے فون بند کر دیا ۔
ایسے ہی صبار کی ہر صبح اس امید کے ساتھ جاگتی کہ وہ اپنے دوستوں سے مل پائے گا اور شام ہوتے ہی وہ یہ امید اگلی صبح پر ٹال دیتا تھا لیکن مام کے نام اس نے جو ٹرسٹ بنایا تھا اس میں حمائل اصغر نامی خاتون کا بے وقت اس کے آفس میں آنا اور پھر خاموشی سے اس کے آفس سے بھاگ جانا حیران کن امر تھا ۔اس شام و ہ روتے روتے گھر گیا تھا اور وہ رات اس نے انتہائی بے چینی اور اضطراب میں کاٹ دی تھی ۔
اگلی صبح وہ ناشتہ کیے بغیر گھر سے نکلا اور عصمت کو فون ملا کے اس نے حمائل کے گھر کا ایڈریس لیا تھا ۔
تنگ و تاریک گلیوں اور خستہ حال مکانوں سے گزر تے ہوئے اسے خود پر حیرت ہورہی تھی ۔ ” میں ماہی کو یہاں ڈھونڈنے آیا ہوں ؟ وہ خود پر ہنسا ۔
” میں جانتا ہوں وہ یہاں نہیں ہو سکتی لیکن نہ جانے کیوں اس سے ملنے کی امید مجھے یہاں تک گھسیٹ لائی ہے ؟وہ اس ڈربے نما مکان کا بوسیدہ سا دروازہ بجانے لگا۔
تھوڑی دیر بعد بوجھل سے قدموں کی آہٹ سنائی دی ۔ دروازہ کھل گیا ۔وہ اس کے سامنے کھڑی تھی ۔
صبار کو اپنے سامنے دیکھ کر وہ گھبرا کر چند قدم پیچھے ہٹ گئی ۔
اس کا جسم موٹاپے کی سمت مائل تھا ۔ اس کی رنگ بالکل پیلی پڑ گئی تھی ۔اس کی آنکھیں خالی ہو چکی تھیں۔ایسا لگتا تھا جیسے اس نے خواب دیکھنے چھوڑ دیے ہوں ۔
اس کے ہونٹ خزاں رسیدہ پتے کی مانند خشک تھے ۔
” یہ ماہی ہے ؟ ” صبار کے قدم لڑکھڑاگئے ۔ وہ بے یقینی اور سکتے کے عالم میں اپنے سامنے کھڑی اس غریب و لاچار سی خاتون کو دیکھ رہا تھا جو اس وقت عمر میں اس سے دوتین سال بڑی لگ رہی تھی۔
حمائل نے آنکھیں بھینچ لیں ۔ وہ اس شخص کا سامنا نہیں کر سکتی تھی جس کو اس نے ایک ایسی جنگ میں ہارا تھا جو سرے سے اسکی تھی ہی نہیں ۔
دل گیا تھا تو یہ آنکھیں بھی کوئی لے جاتا
میں فقط ایک ہی تصویر کہاں تک دیکھوں
” ماہی ؟” وہ بہ مشکل بول پڑا ۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے سامنے کھڑی وہ بے بس عورت حمائل نہیں تھی ۔ ہو ہی نہیں سکتی تھی ۔
حمائل نے چونک کر آنکھیں کھو ل دیں۔ وہ آواز ، وہ لہجہ وہ نام کتنے جانے پہچانے ، کتنے میٹھے تھے لیکن حمائل کا اب ان سب سے ناطہ کٹ چکا تھا ۔
وہ خاموشی سے صبار کا چہرہ دیکھتی رہی ۔
” Maahi! It’s you ? ” اسے اب بھی یقین نہیں ہورہا تھا کہ اس کے سامنے حمائل کھڑ ی ہے ۔ اس کے دوپٹے میں پیوند لگے تھے ۔ وہ حمائل نہیں ہوسکتی تھی ۔حمائل تو ہر پارٹی ، ہر فنکشن میں سب سے اچھا اور قیمتی لباس زیب تن کرتی تھی ۔
صبار نے اسے چھوٹے سے کچے مکان کو ایک نظر دیکھا اسے یا د آیا حمائل کو بڑے بڑے اور خوب صورت گھر اچھے لگتے تھے ۔
اس نے صحن میں بنی کیاریوں میں لگے گلاب کے پودوں کو دیکھا ۔اسے یاد آیا حمائل کو گلاب بہت زیادہ پسند تھے ۔ اس کا دل ڈوبنے لگا ۔وہ کتنے عرصے سے یہاں رہتی تھی ؟ کیسے رہ لیتی تھی ؟ وہ بے حیران تھا اور سخت افسردہ ۔۔
کتنی بے مائیگی ،بے بسی اور تنگ دستی تھی وہاں ۔ صبار کو اپنی سانسیں بند ہوتی محسوس ہوئیں ۔
” چلا جا یہاں سے ۔” وہ سپاٹ لہجے میں بولی ۔
” صبار کو لگا کسی تیز دھار چھری سے اس پر وا ر کیا ہو ۔
” تم تو جب بولتی تھی تو یوں لگتا تھا جیسے کو ئی سُرچھیڑ رہا ہو۔





تم تو نیند سے بوجھل وجود کی انگڑائی تھی ، تم تو کوئی دل ربا گیت تھی ۔ تمھارے آنسو جب تمھاری آنکھوں سے نکلنے لگتے تو یوں محسوس ہوتا تھا جیسے موتی نکل رہے ہوں ۔ تم تو معصومیت اور حسن کے حسین امتزاج کا خلاصہ تھی ۔ تم تو خود میں پوری کائنات تھی جس میں کھو کر میں خود کو بھول جایا کرتا تھا ۔ لیکن یہ تم کیا بن گئی ہو؟ اتنی مفلسی کے باوجود بھی تمھارا طمینان مجھے ڈس رہا ہے ۔ اسے یا د آیا تھا وہ حسین تھی ۔ وہ اسے ایسے تو نہیں چھوڑ کر گیا تھا ۔ پھر وہ کیا بن گئی تھی ؟ یہاں تک کیسے پہنچ گئی تھی ؟ بے شمار سوال تھے لیکن گلے میں اشکوں کے سمند ر تھے ۔
” تُو یہاں کیسے تُو تو حالات سے گھبرانے والوں میں سے نہیں تھی ۔ ناں ۔۔۔۔ تو تو کانٹ کی followerتھی ” وہ آنسو پیتے ہوئے بولا ۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کہاں سے شروع کرے ؟ جہاں و ہ چھوڑ گیا تھا ؟ لیکن وہ مقام تو بہت پیچھے رہ چکا تھا ۔زندگی بہت آگے بڑھ گئی تھی ۔ اپنی تنگ و تاریک گلیوں میں کہیں کھو گئی تھی ۔
” اب میں کافکا کی follower ہوں ” لہجہ کسی بھی تاثیر سے خالی تھا ۔
صبار کو یاد آگیا ۔ کافکا کہتاہے ۔ ”زندگی کی ہر رکاوٹ مجھے توڑ ڈالے گی ۔”
” نو ماہی ! میں تیرے ساتھ ہوں ۔ چل میرے ساتھ ۔۔۔ صبار نے اس کیا ہاتھ تھام لیا ۔
” چھوڑ مجھے ۔ چلا جا ۔” وہ چلائی ۔” اس نے صبار کا ہاتھ جھٹک دیا ۔
” تو مجھ سے ناراض ہے میں جانتا ہوں ۔but i apologize میں تجھ سے کلیئر کردوں گا ۔ تو چل میرے ساتھ ۔۔ چھوڑ یہ سب ۔” وہ اس کی منتیں کرنے لگا ۔
” اب یہ میری دنیا ہے ۔ میں اسے نہیں چھوڑ سکتی ۔
” تو اس دنیا پہنچی کیسے ؟ کیا ہو ا تھا ۔؟ کہاں گئے سب؟
آنٹی ، انکل ، شہروز ؟ وہ بے قرار ہونے لگا ۔
” ہماری زندگیوں میں ایسا موڑآتا ہے جب سارے رشتے ایک ایک کرکے ہم سے چھوٹ جاتے ہیں ۔” وہ دوسری طرف دیکھنے لگی ۔
” میں نے تجھے نہیں چھوڑا ہے ماہی ! میں ہمیشہ تیرے ساتھ ہوں ۔ وہ التجاعی نظروں سے حمائل کو دیکھنے لگا جیسے اس سے اپنی حمائل مانگ رہا ہو۔
” میں نے تجھے چھوڑ دیا ہے ۔ اب نہیں ۔ بہت پہلے ۔”
” ایسا کیسے کہ سکتی ہے تو؟ اتنی آسانی سے چھوڑ دے گی ؟ وہ تڑپ کر بولا ۔” مجھ سے ناراض ہے تو مجھ سے لڑ ! لیکن چھوڑ جانے کی بات نہ کر ۔
” وہ سارے حق میں کھو چکی ہوں ۔”
ایسے تو نہ بھول ۔” وہ رونے لگا ۔
” اپنے آنسو یہاں نہ بہاؤ ۔ یہاں ان کا کوئی خریدار نہیں ۔”
” وہ دروازہ بند کرنے لگی ۔ ” اپنی یادیں اس گلی میں چھوڑ کے جان۔ گھر جانے سے پہلے نئی شروعات کر لینا۔ اس نے دروازہ بند کر دیا ۔
” ماہی ! ماہی لِسن۔۔ مجھے فوبیا ہو گیا ہے ۔ میرا تو علاج تو ہی کر سکتی ہے ۔” وہ زور زور سے دروازہ بجاتے ہوئے روتا رہا ۔
” تو اپنے رب کی تسبیح حمد کے ساتھ اور اس سے مغفرت کی دعا مانگ ۔ بے شک وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا ہے ۔” وہ سورة النصر کی آیت نمبر 3 کا ورد کرتی ہوئی کمرے کی سمت چلی گئی ۔ اس کے کسی بھی حال پر دروازہ نہیں کھولنا تھا ۔ جب زندگی کا دروازہ اس نے صبا ر قاسم پہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا تھا تو گھر کا دروازہ کھول دینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔
اس دن ایک لمبے عرصے بعد اس نے آنکھوں سے بہنے والے سمند ر کو آزادی سے بہنے دیا تھا ۔
٭…٭…٭
ملک کے بڑے بڑے شاعر مشاعرے کے لیے جمع تھے پروگرام کی شروعات تھیں ۔ ایک خستہ حال شخص اپنی پہچان بتائے بغیر سٹیج پر چڑھ گیا ۔
دل کے ٹوٹے ہوئے پیالے کا خریدار نہیں
بہت پچھتائے ہیں بے لوث محبت کر کے
جس خامو شی کے ساتھ وہ آیاتھا ۔اسی خاموشی کے ساتھ وہ چلا گیا ۔بس یہی ایک شعر اس کی زندگی کا ترجمان تھا ۔
وہ جو چند برس پہلے سنان یوسف تھا ۔ آج ایک گُم نام شاعر تھا ۔سب لوگ حیرت سے اسے جاتا دیکھتے رہے۔
” انسان کو اپنی اوقات پتا چلتی ہے جب اسے وہاں سے ٹھوکر پڑے جہاں اس نے سب سے زیادہ بھروسہ کیا ہوتا ہے ۔ ” مستنصر حسین تارڑ کا قول زیر لب کہتے ہوئے وہ بڑ بڑا تا ہوا نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

چائے والا — ایم رضوان ملغانی

Read Next

ڈگریاں — ثناء سعید

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!