” بجیا! آپ اپنے فیصلے سے مطمئن ہیں ؟” پاس پڑی کرسی پر بیٹھی مرینہ نے استفسار کیا ۔
” تم یہ کیوں پوچھ رہی ہو؟” اس نے حیرت سے مرینہ کو دیکھا ۔
” مطلب یہ ہے کہ آپ جانتی ہیں کہ علی بھائی عرینہ بجیا سے محبت کرتے تھے ۔ یقیناً اب بھی کرتے ہوں گے ۔”
” خاموش رہو تم ۔ کچھ بھی بکتی رہتی ہو ۔” اماں نے مرینہ کو ٹوکا۔
” میں نے یہ رشتہ کوئی بھی محبت پانے کے لیے نہیں جوڑا اور ویسے بھی زندگی میں صرف محبت سب کچھ نہیں ہوتا۔” معنی خیز انداز میں جواب دے کر وہ اٹھی اور تیزی سے کمرے کی سمت چلی گئی ۔
شام کواماں اس سے بات کرنے خود اس کے کمرے میں گئیں۔
” بیٹا ! کیا تم اپنے فیصلے پر قائم ہو؟” وہ اس کے قریب پلنگ پر بیٹھ گئیں ۔
” جی اماں ! آپ جانتی ہیں میں اپنے فیصلوں پہ قائم رہتی ہوں ۔”
” ہاں لیکن ۔۔۔ تبسم بھابھی کی ہمیشہ خواہش رہی کہ تمہیں اپنی بہو بنالیں ۔” انہوں نے اصل بات کہہ ڈالی ۔ دینااپنی آنکھوں میں بے پناہ حیرت سمیٹے انہیں دیکھنے لگی۔
” اماں ! مرے ہوئے لوگوں سے زندہ زیادہ اہم ہوتے ہیں ۔ ” اس نے بہ مشکل الفاظ اداکیے ۔
” ٹھیک ہے ۔ میں بس یہی پوچھ رہی تھی ۔” وہ اٹھ گئیں ۔
” آئندہ کبھی مت پوچھیئے گا۔ ” وہ معنی خیز انداز میں بولی انہوں نے دینا کو سوالیہ نظروں سے دیکھا اور خاموشی کے ساتھ کمرے سے نکل گئیں ۔
” اور میرے کام کو مجھ پر آسان کردیں ۔” وہ سورہ طہٰ کی آیت نمبر 26 کا بڑی بے چینی سے ورد کرنے لگی اور اشکوں کی لڑیاں کسی بہتی ندی کی مانند اس کے گالوں پہ بہنے لگیں ۔
٭…٭…٭
اس کی آنکھ کھلی تووہ کسی تاریک کمرے میں پلنگ پرلیٹی تھی ۔ اس نے اپنی کمزور نگاہیں ادھر ادھر دوڑائیں لیکن اسے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ وہ کہاں ہے ؟اس نے بہ مشکل اٹھنے کی کوشش کی لیکن وہ اٹھ نہ سکی ۔ اس کے پورے وجود کی ہڈیاں دکھ رہی تھیں اس کے پپوٹے بھاری ہورہے تھے ۔اس کو پھر سے غنودگی نے آلیا ۔ اس نے بے بسی سے آنکھیں بند کرلیں ۔
” اس کو تو ابھی تک ہوش نہیں آیا ۔” کوئی اس تاریک کمرے میں داخل ہوا۔
” یہ آواز ۔۔۔ یہ آواز کچھ جانی پہچانی سی ہے ۔” عرینہ نے اپنے ذہن پر زور دیا لیکن اسے کچھ یاد نہیں آیا۔
” میرے یار ! لاہور سے کراچی تک مسلسل نشے کے انجکشن لگوائے ہیں تو نے ۔ اتنی جلدی کیسے ہوش میں آئے گی ؟” یہ دوسری مردانہ آواز تھی ۔
” لاہور سے کراچی؟ نشے کے انجکشن ؟ یہ میں کہاں ہوں؟”
اس نے خود سے سوال کیا ۔
” اور یہ آواز ۔۔۔ یہ آواز کس کی ہے ؟ ” اس نے زبردستی آنکھیں کھول کر اس پہلی آواز کا چہرہ دیکھنے کی کوشش کی لیکن تاریکی میں وہ دیکھ نہیں پائی ۔
” اس کا ہوش میں آنا بہت ضروری ہے ۔” پہلی آواز نے فکر مندی سے کہا ۔
عرینہ نے اپنے ذہن پہ بہت زور ڈالا ”کون ہے یہ ؟ کون ہے ؟ مجھے یاد کیوں نہیں آرہا ؟” اس نے اپنے بھاری پپوٹوں کو اٹھا کر دیکھنے کی کوشش کی ۔ پھر اس کے ذہن میں ایک جھماکا ہواتھا۔ اسے سب کچھ یاد آگیا ۔ سارے واقعات ایک ایک کرکے اس کے ذہن میں اترنے لگے ۔
٭…٭…٭
رات کے کھانے کے بعد مرینہ نے آکر بتایا کہ اصغر نے اسے بلایا ہے ۔
” وہ کہہ رہے ہیں فارغ ہو کر اوپر آجائیں ۔ آپ سے کچھ بات کرنی ہے ۔”
” اماں نے اسے بتادیا ہوگا اور اب وہ میری جان عذاب میں ڈالے گا ۔” اس نے بے زاری سے سوچا ۔ ”نہیں جاسکتی میں ۔ وہ مجھ سے سوال کرے گا اور میں اسے کوئی جواب نہیں دینا چاہتی ۔” وہ پلنگ پر دارز ہو گئی۔
” سچ تو یہ ہے کہ میرے پاس اس کے کسی سوال کا جواب نہیں ہے ۔” اس نے بڑی آسانی سے سر تسلیم خم کر لیا ۔ آج وہ اصغر کے سامنے سر جُھکاکر خاموش رہنے کو تیا رتھی ۔ اس سے لفظوں کی ہر جنگ ہارنے کو تیا ر تھی لیکن اپنا فیصلہ اس نے کسی صورت نہیں بدلنا تھا ۔
مرینہ کے سوجانے کے بعد وہ کمرے سے نکل گئی لیکن اصغر کے ساتھ ایک لمبی سنجیدہ بحث کے بعد اسے یوں لگا تھا جیسے وہ ایک ایسے میدان میں اتری تھی جس کی جنگ اس کی کبھی تھی ہی نہیں اور وہیں پہ وہ اپنا سب کچھ لٹا کر آئی ہو۔
وہ بھاری بھاری قدموں سے کمرے میں داخل ہوئی تھی۔ مرینہ کے گال کا بوسہ لے کر وہ اپنے پلنگ پہ دراز ہو گئی ۔
٭…٭…٭
عرینہ کو سب کچھ یاد آگیا تھا ۔” یعنی اس نے مجھے دھوکا دیا ؟ جھوٹ بولا ۔ مجھ سے ؟ اغوا کر کے لایا ہے مجھے ؟ لاہور سے کراچی ۔۔۔ ” مارے خوف کے اس کے وجود میں ایک سرد لہر دوڑ گئی ۔
” کیوں لائے ہو تم مجھے یہاں؟” وہ چلانے لگی ۔ شمعون تیزی سے اس کی جانب آگیا ۔ دوسرا جو کوئی بھی تھا وہ بلب لگا کر کمرے سے نکل گیا ۔
” یہ لو ۔ پانی پی لو۔” شمعون نے میز پہ پڑے جگ میں سے گلاس میں پانی ڈال کر عرینہ کی طرف بڑھایا ۔
” میرے پاس آنے کی کوشش مت کرنا ۔” وہ اٹھ کر بیٹھ گئی ۔ اس کی آنکھوں میں خوف اور ڈر تھا ۔
” اوکے ۔ میں تمہارے پاس نہیں آتا ۔ تم یہ پانی پی لو ۔”
شمعون نے نرمی سے کہا اور چند قدم پیچھے ہٹ گیا ۔
” میں نے نہیں پینا ۔ دھوکے باز! ” وہ غرائی ۔
” پھر سے نشے کی دو ا ملائی ہو گی اس میں ۔”
” میرا یقین کر لو ۔ اس میں کچھ نہیں ہے ۔”
” ایک بار یقین کرکے دیکھ چکی ہوں ۔” اس کی آنکھوں میں بے پناہ قہر تھا ۔ ” تم کیوں مجھے یہاںلائے ہو ؟” وہ رونے لگی ۔” مجھے گھر چھوڑ دو پلیز ۔” وہ منتیں سماجتیں کرنے لگی ۔
” میں ایسا نہیں کرسکتا ۔” وہ سامنے کرسی پر براجمان ہو گیا ۔
” کیوں نہیں کر سکتے ؟ مجھے میرے گھر چھوڑ آؤ ۔ خدا کے لیے ۔ میری اماں بیمار ہیں ۔” وہ رو رو کر بے بسی سے کہتی گئی ۔ شمعون کا دل کٹ سا گیا ۔
” تم رونا بند کردو۔” وہ کرسی سے اٹھ کر اس کے پاس آگیا ۔
” میرے پاس مت آنا ۔ دور ہو جاؤ۔ مجھے گھر چھوڑ دو۔”
وہ پھر سے چیخنے لگی ۔ شمعون نے ہم دردی سے عرینہ کو دیکھا اور خاموشی کے ساتھ کمرے سے نکل گیا ۔ وہ اسے پیچھے سے پکارتی رہ گئی ۔ وہ کافی دیر تک باہر کھڑا رہا لیکن اندر نہ جاسکا۔ وہ اس نادان سی لڑکی کو اتنی بے بسی سے روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتاتھا ۔
٭…٭…٭
بڑی پھوپھو اور پھوپھا جی رخصتی کی تاریخ لینے آئے تھے۔ اماں نے ایک ہفتے بعد کی تاریخ دے دی ۔رخصتی سادگی سے ہو تو اچھا ہے ۔ ابھی ابھی تبسم بھابھی کی ۔۔۔اماں نے اپنی بات ادھوری چھوڑ کر ایک لمبی آہ بھری ۔
” ہاں ۔سب کچھ سادگی سے ہوگا ۔ بس نکاح اور رخصتی ۔” بڑی پھوپھی نے چائے پیتے ہوئے کہا ۔ پھوپھا جی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے ۔
٭…٭…٭
شمعون نے عرینہ کو کراچی میں اپنے دوست کے ایک خالی فلیٹ میں رکھا ہوا تھا ۔وہ کافی کشادہ جگہ تھی لیکن عرینہ اسی کمرے میں ہی بند رہتی حالاں کہ شمعون نے اسے بند نہیں رکھا تھا ۔
شمعون اگر اس کے لیے کھانا پانی لے کے جاتا تو وہ گھر جانے کی ضد شروع کرتی ۔
” میں بھاگ جاؤں گی ایک دن ۔ تم دیکھنا۔” و ہ آنکھیں نکال کر غصے سے کہتی اور وہ جواباً مسکرا دیتا ۔
٭…٭…٭
شادی کیا تھی بس چھوٹی پھوپھی ، پھوپھی جی اور دینا کی اکلوتی خالہ مدعو تھیں ۔
اگلے دن رخصتی تھی وہ اپنے کمرے میں بلب لگائے بغیر پلنگ پر دراز تھی ۔
” اور میرے کام کو مجھ پر آسان کر دے ۔” اس نے زیر لب کہا اطمینان سے آنکھیں بند کر دیں۔
” کیا کرنے جارہی ہو تم ؟” وہ اس کے کان میں سرگوشی میں بولا ۔ دینا نے جلد ی سے آنکھیں کھول دیں۔ وہ اس کے بالکل نزدیک بیٹھا تھا ۔ وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی ۔
” میں ہمیشہ اس یقین کے ساتھ جیتا آیا ہوں کہ تم جو بھی بات کہتی وہ صحیح ہوتی ہے ۔تمہارا ہر فیصلہ درست ہوتا ہے ۔ میں مانتا ہوں لیکن تم اگر مجھے برباد کرنے پر تلی ہو تو میں اس کا کیا کروں ؟” وہ اپنا چہرہ دینا کے چہرے کے بالکل قریب لا کر بولا ۔
” میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ۔” وہ گھبرا گئی ۔ اصغر کی سانسیں وہ سن سکتی تھی بلکہ اصغر کی دھڑکن تو اسے اتنی قریب سے سنائی دے رہی تھی کہ ایک لمحے کیلئے دینا کو شک گزرا کہ کہیں اصغر کا دل اس کے سینے میں تو نہیں ۔
” تو پھر کیوں کررہی ہو یہ سب ؟ تم تو جانتی ہو ناں میں بہت کمزور ہوں تمہارے بغیر ۔” اصغر نے اس کا بازو مضبوطی سے جکڑ لیا ۔
” یہ آپ کیا کررہے ہیں ؟ کل شادی ہے میری ۔ ” اس نے خود کو اصغر کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کی ۔
” میں نہیں مانتا اس شاد ی کو ۔” وہ سرگوشی میں بولا ۔
دینا نے کچھ بولنے کی کوشش کی لیکن اصغر نے اس کے ہونٹوں پہ ہاتھ رکھ دیا ۔ وہ ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹ گئی ۔ اصغر تیزی سے کمرے سے نکل گیا ۔
دینا نڈھال سی لیٹ گئی ۔ وہ دیر تک اپنی سانسوں کو بحال کرنے کی کوشش کرتی رہی۔
٭…٭…٭
کبھی وہ روتی رہتی ۔ کبھی چیختی چلاتی اور شمعون کو گالیاں دیتی اور کبھی بالکل خاموش ہو جاتی ۔ اس کا دھیان بٹانے کے لیے شمعون اسے زاہد کے گھر لے گیا ۔
” سریمہ ! بصیرت ! تم دونوں اس کو مصروف رکھنا اگر مزید میں نے اس کو وہاں اکیلے رکھا تو یہ واقعی پاگل ہو جائے گی۔ شمعون نے زاہد کی بہنوں کو سمجھایا تھا اور وہ خوشی خوشی عرینہ کو اپنے ساتھ کمرے میں لے کے گئی تھیں ۔
٭…٭…٭
وہ عروسی لباس پہنے اپنے کمرے میں بیٹھی تھی ۔ مرینہ اس کو تیا ر کرکے ابھی ابھی کسی کا م سے باہر گئی تھی ۔
” میں نے اصغر کی محبت تمہاری جھولی میں ڈال دی ۔ اب اسے سنبھالنا تمہارا کام ہے ۔” وہ زیر لب بڑبڑائی ۔ وہ اٹھ کر بے چینی سے کمرے میں ٹہلنے لگی ۔ ” اور میرے کام کو مجھ پر آسان کر دے ۔” وہ سورة طٰہ کی آیت نمبر 26 کا ورد کرنے لگی ۔
” ارے بھئی ! دلہن کو لے آؤ ۔ بارات جانے کو تیا رہے ۔ ” اس نے خالہ کی آواز سنی ۔ اس کے قدم تھم گئے ۔
” مرینہ جاؤ۔ اپنی بجیا کو لے کر آؤ۔” یہ آواز امان کی تھی ۔ دینا نے باہر جانا چاہا لیکن اس کے پیروں سے جان سی نکل گئی تھی ۔
” میرے خدا! ” اس نے جانے کو قدم بڑھایا پر اس کی طاقت تو جیسے ختم ہو گئی تھی ۔ “مجھے ہمت دینا میرے اللہ !” اس نے دعا مانگی اور بھا گ کر باہر کی طرف چلی گئی ۔
” ارے کوئی تو لے آؤ ناں دلہن کو ۔ سر دی سے باراتیوں کی جان نکل رہی ہے” خالہ کی آواز پھر سے آئی تھی ۔
” آئیں بجیا !” مرینہ نے اپنی پھولی ہوئیں سانسیں بحال کرتے ہوئے دینا کا ہاتھ تھام لیا ۔
” ایک منٹ مرینہ ! تم جاؤ ۔ میں بس پانچ منٹ میں آتی ہوں ۔ ” مرینہ سے اپنا ہاتھ چھڑا کر وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھنے لگی۔
” میں جارہی ہوں ۔ رخصت کرنے بھی نہیں اٹھیں گے ؟”
اس نے اصغر کے اوپر سے کمبل کھینچ لیا ۔ وہ دم سادھے لیٹا رہا ۔ ” اٹھ جائیں ” دینا نے اسے ہلایا پر اس نے آنکھیں نہیں کھولیں ۔
” بجیا! جلدی کریں ”
مرینہ نے اسے پکارا ۔
” توبہ ہے ۔ بے رخی کی بھی کوئی حد تو ہو۔” اس نے ناراضی سے کہا اور بھاگتی ہوئی کمرے سے نکل گئی ۔
” کیا دیکھنے آئی تھی یہ ؟”اصغر نے کمبل سے سر نکالا ۔ ایک موٹا سا آنسو اس کی آنکھ سے بہ کر تکیے میں جذب ہو گیا ۔
٭…٭…٭
سریمہ بازار جارہی تھی ۔ عرینہ بھی جانے پر بہ ضد تھی ۔ وہ مجبوراً اسے اپنے ساتھ لے گئی ۔ عرینہ کو ہاتھ سے پکڑے وہ کپڑے کی دوکان کے اندر گئی ۔ اپنے لیے کپڑے پسند کرتے کرتے وہ عرینہ کو قطعاً بھول گئی تھی ۔
” یہ کہاں گئی ؟” جب وہ فارغ ہوئی تو عرینہ غائب تھی ۔ اس نے دکان سے باہر جا کر عرینہ کو ڈھونڈا لیکن وہ نہیں ملی ۔
خوف اورگھبراہٹ کے عالم میں اس نے بھاگ کر دکان کے ٹیلی فون سے گھر فون ملایا اور زاہد بھائی کو عرینہ کے لاپتا ہونے کی خبر دے دی ۔
٭…٭…٭
” ایسے تو کسی کا جنازہ بھی نہیں نکلتا ۔ جیسے میری بارات نکل رہی ہے ۔ ” اس نے تاسف سے سوچا تھا ۔
” تجھے میری جٹھانی ہونا چاہیے ۔ مزہ آئے گا ۔ ” اس کے کانوں نے ایک شوخ آواز سنی ۔
” لیکن تمہارے جیٹھ صاحب تو شادی شدہ ہیں ۔ بھئی ! میں سوکن شوکن کے بکھیڑے نہیں پال سکتی ۔ ہاں ! اگر تم اپنا میاں مجھے دو تو پھر بات بن سکتی ہے ۔” اس کے کانوں نے اس کی اپنی آواز سنی۔
” میں نہیں جانتی میں کس کی خاطر قربان ہوئی ہوں۔ عرینہ کی خاطر یا پھر مرینہ کی خاطر۔۔۔؟ ” اس نے حیرانی سے سوچا اور اس کی آنکھیں بھر آئیں۔
٭…٭…٭
” میں بھا گ جاؤں گی ایک دن تم دیکھنا۔” شمعون کو عرینہ کی دھمکی یا د آگئی ۔ وہ زاہد کے ساتھ عرینہ کو ڈھونڈنے نکلا تھا ۔ وہ جلد ی سے اس مارکیٹ پہنچ گئے ۔ جہان سریمہ ان کا انتظار کررہی تھی ۔
” وہ زیادہ دور نہیں گئی ہو گی ، یہی کہیں ہو گی وہ ۔” گاڑی چلاتے ہوئے اس نے کہا اور ادھر ادھر نظریں دوڑانے لگا ۔ وہ سخت پریشان تھا ۔
“وہ ۔۔۔۔ وہ رہی ۔ گلابی کپڑوں والی ۔” اس نے فٹ پاتھ پر بھاگتی عرینہ کو پہچان لیا ۔ وہ تیزی سے گاڑی سے اتر گیا عرینہ کو بازو سے پکڑ کر اس نے گاڑی کی طرف گھسیٹا تھا ۔
٭…٭…٭
وہ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد واپس اپنے کمرے میں جانے کی بہ جائے چھوٹی ماں کے پاس جا کر بیٹھ گیا ۔
” واپسی کب ہے ؟ انہوں نے وظیفے کی کتاب کھولتے ہوئے اصغر سے پوچھا ۔
” دو مہینے بعد ۔” اس نے مختصر سا جواب دیا ۔
” تمہارے جانے کے بعد ہم بالکل اکیلے پڑ جائیں گے، ویسے بھی دینا کی شادی کے بعد گھر بالکل سونا ہو گیا ہے ۔” وہ اداس لہجے میں بولیں۔
” اگر میں آپ کو ساتھ لے جاؤں تو؟”
” کیا مطلب۔”
” میں مرینہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔”
چھوٹی ماں نے حیرت سے اصغر کو دیکھا۔” کیا ؟” وہ حیرت سے دیدے پھاڑے اس کا منہ دیکھتی رہیں۔
٭…٭…٭
” لے جائیں آنٹی ! سمجھائیں اس کو ۔ دماغ خراب ہو گیا ہے اس کا ۔” شمعون سخت برہم تھا ۔ روتی ہوئی عرینہ عشرت آنٹی کی بانہوں میں چھپ گئی تھی ۔
” نہیں ۔ رونا بند کردے شاباش ۔” انہوں نے عرینہ کے آنسو پونچھ لیے ۔” چل میرے ساتھ کمرے میں ۔” وہ اس کو اپنے ساتھ کمرے میں لے گئیں ۔
٭…٭…٭
اصغر کے ساتھ شادی ایک خواب تھی یا پھر کوئی حسین حقیقت ۔۔۔؟وہ لال رنگ کا عروسی لباس پہنے پلنگ پر بیٹھی تھی ۔
اصغر کے قدموں کی آہٹ سُن کر اس نے پلکیں اٹھا کر اوپر دیکھا۔ اس کے وجود بھر میں خوشی کی ایک لہر سی دوڑ گئی ۔
وہ اس کے پاس آکر بیٹھ گیا ۔ مرینہ نے پلکیں جھکالیں۔
٭…٭…٭
” یار زاہد ! تو بندوبست کر دے ۔ میں آج شادی کررہا ہوں اس سے ۔” اس نے فیصلہ کن انداز میں کہا ۔
” لیکن ایک عیسائی مسلمان لڑکی سے شادی نہیں کر سکتا ۔ قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔”
” پھر کیا کرنا پڑے گا؟” اس نے پر اُمید نگاہوں سے زاہد کو دیکھا ۔
” تم دونوں میں سے ایک کو اپنا مذہب بدلنا ہو گا۔ ”
مجھے کسی عالم کے پاس لے چلو ۔ میں اسلام قبول کرنے کو تیا رہوں ۔” شمعون نے فیصلہ کن اندا ز میں کہا۔
٭…٭…٭
” مرینہ ! میں نہیں جانتا کہ میں کیا کررہا ہوں ؟ ” اصغر ہکلاتے ہوئے بولا ۔” مجھے ۔۔۔ دینا سے محبت تھی اور شاید زندگی بھر اس سے محبت کرتا رہوں۔” مرینہ نے بے یقینی سے اصغر کو دیکھا ۔ اس کی سماعتوں پہ جیسے، پہاڑ گر گئے تھے ۔وہ خالی نظروں سے اصغر کو دیکھتی رہی ۔
” اس نے ہمیشہ جو بھی کہا میں نے مان لیا ۔اس نے کہا کہ میں تم سے شادی کر لوں ۔” اصغر کے الفاظ آگ کی طرح مرینہ کو جلاتے گئے اور وہ جھلستی گئی ۔
” بجیاان سے محبت کرتی تھی ؟
انہوں نے ان سے میری شادی کروائی ؟” وہ بے یقینی کے عالم میں بڑ بڑائی ۔
” دینا کے اس فیصلے کا ہم دونوں نے احترام کرنا ہے ۔اس رشتے کو کسی طرح گھسیٹنا ہے ہم دونوں نے ۔” مرینہ نے اس شخص کو دیکھا جس سے وہ محبت کرتی تھی ۔
” تو میں خوش فہمی میں مبتلا تھی کہ ان کو مجھ سے محبت ہے ؟” اس نے بے بسی سے سوچا۔” بجیا نے میری خاطر چھوڑ دیا ان کو ؟ انہوں نے میرے لیے قربانی دی ؟” کیسی عجیب اور ناقابل یقین حقیقت تھی۔ مرینہ نے بے یقینی اور بے بسی سے اصغر کو دیکھا وہ شخص اس کے پاس ہو کر اس سے کتنا دور تھا ۔ اس کی آنکھوں میں بن بلائے پانی بھر آیاتھا ۔
٭…٭…٭
” شمعون بُرا لڑکا نہیں ہے بیٹا ! وہ تم سے محبت کرتا ہے ۔تمہارے لیے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے ۔” عشرت آنٹی نے عرینہ کو سمجھایا ۔
” نہیں چاہیے مجھے ایسی محبت ۔” وہ رونے لگی ۔” دیکھیں آنٹی ! میری منگنی ہو چکی ہے ۔ علی مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں ۔آپ پلیز مجھے گھر بھجوا دیں ۔ یہ عیسائی مجھے بر باد کر دے گا ۔”
” ہم اگر تمہیں گھر بھیج دیں تو تمہیں وہاں کوئی قبول نہیں کرے گا ۔”
” علی مجھے ہر حال میں قبو ل کریں گے ۔ وہ محبت کرتے ہیں مجھ سے اور یہ شخص اچھا آدمی نہیں ہے آنٹی ! اس کی منگنی ہو چکی ہے ۔ اس کی منگیتر میری دوست ہے ۔ یہ آدمی دھوکے باز ہے ۔ پلیز آنٹی ! مجھے بچا لیں پلیز۔” اس نے روتے ہوئے اپنے ہاتھ عشرت آنٹی کے سامنے جوڑ لیے ۔
” ایسا نہیں ہے ۔ شمعون دھوکے باز نہیں ہے ۔ اصل کہانی کچھ اور ہے ۔” وہ نرمی سے بولیں ۔ ” شمعون کی کی ماں لیزا کے باپ کی سوتیلی بہن تھی ۔لیزا کے باپ نے اپنی سوتیلی بہن کے حصے کی دولت بھی ہتھیا لی۔ بہت مشکلوں سے اس نے اپنی اور اپنی بیوہ ماں کی ضروریات پوری کیں ۔ ”
عشرت آنٹی دھیرے دھیرے بتاتی رہیں ۔عرینہ خاموشی سے سنتی رہی ۔
” جوزف کی کرسٹینا سے منگنی کے بعد شمعون کی ماں نے شمعون پر زور ڈالنا شروع کردیا، کہ وہ لیزا سے شادی کرلے تو وہ اپنی دونوں یتیم بھتیجیوں سے دولت اپنے نام کر کے اپنے مرے ہوئے سوتیلے بھائی سے بدلہ لے لے ۔”
” یہ شمعون کی ممی چاہتی تھی ؟” عرینہ نے حیرت سے پوچھا ۔
” ہاں۔ لیکن شمعون ایسا نہیں چاہتا تھا ۔ اسے لیزا میں کوئی دل چسپی نہیں تھی ۔ وہ چاہتاتھا لیز ا ساول سے شادی کر لے تو اسے محبت بھی مل جائے گی اور اپنے حصے کی دولت بھی ۔ لیکن شمعون کی ماں کے سر پر اپنے مرے ہوئے بھائی سے بدلہ لینے کا بھوت سوار تھا ۔ اس نے تو شمعون سے یہ تک کہہ دیا کہ لیزا سے دولت ہتھیانے کے بعد وہ شمعون کی شادی اس کی پسند سے کسی اور جگہ کروا دے گی ۔ لیکن تمہیں کرسٹینا کی شادی میں دیکھ کر شمعون نے یہ طے کر لیا کہ تم ہی سے شادی کرے گا۔
عرینہ نے خاموشی سے عشرت آنٹی کی باتیں سنیں ۔
” شمعون محبت نہیں کرتا مجھ سے ۔ اگر کرتا تو بر دباد نہ کرتا مجھے” اس نے خشکی سے عشرت آنٹی سے کہا اور باہر نکل گئی ۔
٭…٭…٭
مرینہ اور اماں اصغر کے ساتھ انگلینڈ چلی گئیں ۔
” آپ کی زندگی کے ہر پل میں جس طرح میں آپ کے پاس ہوں ۔ کاش آپ کے ساتھ بھی ہوتی۔ ” اصغر کا سنجیدہ چہرہ دیکھ کر وہ اکثر تاسف سے سوچ لیتی۔
مرینہ اصغر کی سوچتی سوچتی آنکھوں میں دینا کا عکس دیکھا کرتی تھی ۔ وہ محبت دیکھا کر تی تھی جو نامکمل تھی ۔ وہ خواب دیکھا کرتی تھی جو ادھورے تھے لیکن وہ خاموش رہتی ۔ دینا سعید سے حسد کرنا بھی کچھ آسان تو نہ تھا ۔
٭…٭…٭
نکا ح کے وقت قاضی نے جب عرینہ سے اس کی مرضی پوچھی تو اس کا دل چاہا وہ ” نا ” کہہ دے ۔
” ہم اگر تمہیں گھر بھیج بھی دیں تو تمہیں وہاں کوئی قبول نہیں کرے گا۔ ” اس کے کانوں میں عشرت آنٹی کی آواز گونجنے لگی ۔
پھر اسے یاد آیا شمعون نے اسلام قبول کر لیا ہے اور بے اختیا ر اس کے منہ سے نکلا تھا ۔” جی قبول ۔”
٭…٭…٭
” تم چھوڑ دو علی کو ۔ میں تمہارے بغیر ادھورا ہوں ۔ میرے پاس لوٹ آؤ ۔ میں تم سے اب بھی بے پناہ محبت کرتا ہوں ۔” اصغر حمید اس کے بالکل پاس کھڑا اس کے کان میں سرگوشی کر کے بولا ۔
دینا ہڑبڑا اٹھی ۔ اس نے اپنے پہلو میں سوئے ہوئے علی کو دیکھا اور پلنگ سے اٹھ گئی۔ ” میں نے اپنی زندگی کا اختیار آپ کو دیا ہے لیکن میرے خیالوں پر اگر اس کا قبضہ ہے تو میں کیا کروں؟” اسے پیاس لگ رہی تھی ۔اس نے میز پر پڑے جگ سے گلا س میں پانی ڈالا اور پینے لگی ۔
٭…٭…٭
وہ جتنی بے دھڑ ک اور منہ پھٹ ہو ا کرتی تھی ۔اتنی ہی خاموش ہو گئی تھی ۔اسے شمعون کی ذات سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔وہ کہتا تھا ” میں نے اسلام قبول کر لیا ہے ۔ مجھے یوسف بلاؤ ۔” لیکن عرینہ کو اس کے نام سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ۔اس کے لیے وہ وہی گہری آنکھوں والا عیسائی تھا جس کے ذکر سے وہ گھبرا جاتی تھی اور جس کا سامنا کرنے سے بیزار تھی ۔
” پیکنگ کر لو ۔ کل شام پانچ بجے ہماری فلائٹ ہے ۔ ہم سعودیہ جارہے ہیں ۔ ” وہ قرآن پاک کی تلاوت کررہی تھی جب یوسف کمرے میں داخل ہوا ۔ عرینہ نے اسے کوئی جواب نہیں دیا ۔
اسے آج گھر کی بہت یاد آئی تھی ۔اماں ، چھوٹی ماں ، دینا اور اصغر بھائی سب کی یاد اسے ستارہی تھی لیکن علی کو یاد کرکے اس کے سینے میں ایک شدید درد سا اٹھا تھا اور مرینہ ۔۔۔ اسے تو یا د کرکے اس کے آنسو چھلک پڑے تھے ۔
” میں بہت اداس ہوں ۔ مجھے تم بہت یاد آتے ہو، لیکن میں واپس تمہارے پاس لوٹ کے نہیں آسکتی کیوں کہ میں بہت آگے جا چکی ہوں ۔ میں اگر واپس جاؤں گی بھی تو کوئی مجھے قبول نہیں کرے گا ۔ کوئی بھی نہیں۔۔۔” اس نے تاسف سے سوچا تھا ۔ اسے تو آج مسرورہ بھی یاد آرہی تھی ۔” کل میں اس شخص کے ساتھ بہت دور چلی جاؤں گی اور پھر شاید زندگی بھر وہیں رہ جاؤں ۔ کسی گم نام جگہ میں ، اجنبی لوگوں کے بیچ۔شاید تم لوگوں کو بھول جاؤں اور خود کو کھو دوں ۔ کیوں کہ اب میری کوئی حقیقت نہیں ہے۔میں تم لوگوں کیلئے ایک تلخ یاد ہوں اور اپنے لیے ایک بد قسمت۔” اس نے اپنی ہتھیلیوں سے اپنی آنکھوں میں اترتے پانیوں کو خشک کیا تھا ۔
٭…٭…٭
شہروز کی آمد نے اس کی زندگی میں ایک رنگ سا بھر دیا تھا ۔ اصغر اس کے بہت قریب آنے لگا تھا۔ اس کے دل میں جو احساس کمتری تھا وہ کسی کچے دھاگے کی مانند دھلتا جا رہاتھا کیوں کہ اصغر ایک شوہر سے زیادہ ایک اچھا دوست تھا ۔ اس لیے اس کے دل کی کتاب میں اگر دینا سعید کا باب تھا تو اس سے مرینہ کو کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔وہ اصغر کو سمجھتی تھی اور اس کا دکھ بانٹ بھی لیا کرتی تھی کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ دینا جیسی مضبوط ارادوں والی لڑکی کو بھول جانا اتنا آسان نہ تھا ۔
٭…٭…٭