پہلی محبت آخری بازی — شیما قاضی

” سٹوپڈ ! میر ی محبت کو فوبیا کا نام دے دیا تو نے ۔”
” مجنوں تو تو ہے نہیں جو عشق کا نام دوں ۔”
” اور اگر بن گیا تو۔۔۔؟”
” تب دیکھا جائے گا۔” اس نے آنکھیں بند کر کے دیوار سے ٹیک لگا لیا ۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے گلاب کی پنکھڑیاں اس پر برس رہی ہوںیا پھر وہ بہت دور فضا میں کہیں اڑرہی ہو ۔ سفید بادلوں کے بیچ۔۔۔۔ یہ جو کچھ بھی تھا، بڑاحسین تھا ۔ وہ دیر تک موبائل کان سے لگائے خاموشی سے صبار قاسم کی آواز سنتی رہی ۔ اس کی محبتیں سمیٹی رہی اور ان محبتوں پہ صرف اسی کاحق تھا ۔ وہ چاہتیں صرف اور صرف حمائل اصغر کی تھیں جس میں منزہ علی کا کوئی حصہ نہیں تھا ۔
٭…٭…٭





صبح اس کی آنکھ کھلی تو پتا چلا کہ مرینہ کالج چلی گئی ہے ۔ وہ دل ہی دل میں کڑھتی بستر سے اٹھی۔”اونہہ۔ نماز بھی قضا کردی میں نے ۔” اس نے خود کوکوسا ۔
” میرا مرینہ سے جلد از جلد بات کرنا بہت ضروری ہے کہیں سوچتے سوچتے وقت ہی نہ نکل جائے ۔” وہ غسل خانے کے اندر چلی گئی ۔
” آج وہ کالج سے آئے گی تو میں اس سے بات کر لوں گی ۔” ا س نے وضو کرتے وقت بڑی آسانی سے سوچا ۔
” دن کی شروعات ہی بنا نماز کے” ۔۔۔ اسے نماز قضا ہونے کاملا ل تھا ۔” اشراق پڑھ لوں گی۔” اس نے دلْ میں طے کیا ۔
” یااللہ ! میں نے فجر قضا کر دی ۔ اس کے لیے معاف فرما ۔۔ میں اپنے دن کا آغا ز تیرے ہی نام سے کرتی ہوں ۔ مجھ سے کبھی ناراض مت ہونا ۔ میرے راستے کی مشکلیں آسان فرما ۔آمین ۔ ” جائے نماز بچھا کر وہ نماز پڑھنے لگی ۔
٭…٭…٭
” بھئی! ہمیں بھی بتا دو کہ یہ اظہار محبت کہاں پہ ہواتھا ۔؟ مطیع نے پتہ چلتے ہی صبار اور حمائل کو چھیڑنا شروع کر دیا ۔
” کیوں؟ تجھ سے مطلب؟” حمائل نے کیفے ٹیریا کے اندر جاتے ہوئے کہا ۔
” وہ میں کہہ رہا تھا کہ وہاں ایک تاج محل بنالیں ۔چندے کی رقم سے ۔۔۔”
” فارگاڈ سیک مطیع!چھوڑ بھی دے اب یہ بات ۔ ” افصہ نے مطیع کو ٹوکا ۔
” میں نے پکڑی کب ہے ۔ ؟” وہ معصومیت سے بولا ۔
” کیوں بھابی جی !”” کیا کھا نا ہے آپ نے ؟ وہ حمائل کی طرف متوجہ ہوا ۔
” تو بکواس کرے گا تو تھپڑ ماروں گی ۔”حمائل نے مطیع کو گھورا۔
” یا اللہ ! پناہ۔۔۔ ” مطیع کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے دور ہٹ گیا ۔
” شادی کے بعد تو تجھے تھپڑ ہی پڑنے والے ہیں یا ر! کیوں نہ ابھی سے رولیں ابھی تیرے آنسو پونچھنے کو تو میں ہوں ۔ بعد میں کیا پتا ؟” وہ صبار کے پاس جا کر بیٹھ گیا ۔
” تو میر ی جگہ رولے ۔میں تب تک کھالیتا ہوں ۔” صبار نے مطیع کے کان میں کہا اور کیک کھانے لگا ۔
” میری زندگی کا یہ part میرا ہے ۔ مکمل میرا اور مجھے کی کسی کے ساتھ share نہیں کرنا ۔ ” اس نے کرسی پربیٹھتے ہوئے اپنے ہنستے بولتے دوستوں کو دیکھا اور مزے سے سینڈوچ کھانے لگی۔
٭…٭…٭
کیسا رہا آج کا دن ؟” دینا نے عرینہ اور مرینہ کے سامنے کھانا رکھتے ہوئے پوچھا ۔
” جیسے باقی دن ہوتے ہیں ، ویسا ہی لیکن تو کیوں پوچھ رہی ہے ۔؟”
” ایسے ہی پوچھ لیا ۔” دینا نے نگاہیں جھکالیں ۔
” بینگن کا بھرتہ کس نے بنایا ہے ۔؟”
” میں نے ۔۔۔ مرینہ کو بہت پسندہے ناں اس لیے ” ۔
” اوہو ! اتنی خاطر مدارت ؟” کیا بات ہے جی ؟ ” عرینہ نے غور سے دیناکو دیکھا ۔
اے بلور انی ! میری بات سن لے ۔ یہ چالاک عورت تیرے لیے اتنا کچھ مفت میں نہیں کررہی ۔ کچھ نہ کچھ تو ہے ۔” عرینہ کے انداز میں شرارت تھی ۔
” آپ کا مطلب ہے دال میں کچھ کالا ہے ۔؟ “مرینہ نے بھی حصہ لیا ۔
” بے وقوف ! کچھ بھی بولتی رہتی ہو ۔” دینا کے ہاتھ کانپنے لگے ۔ اپنی یہ کیفیت چھپانے کے لیے وہ کچھ فاصلے پر پڑی کرسی پر بیٹھ گئی ۔
“عرینہ ! تم بہت تھکا دیتی ہو مجھے۔ کتنی بار کہا ہے غسل خانے میں کپڑے یوں نہ پھیلایا کر و لیکن تم کسی کی بات سنتی ہی کہاں ہو ؟”
وہ جلد ی سے غسل خانے کے اندر چلی گئی ۔ عرینہ کے کپڑے سلیقے سے لٹکانے کے بعد آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا ۔ اس نے حیرت سے اپنے چہرے کو دیکھا ۔”کیا میں خود غرض ہوں ؟” اس نے اپنے چہرے پر اپنے ہاتھ پھیرے ۔” اپنی محبت مانگنا کیا میرا حق نہیں ؟” اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں ۔ “کیامرینہ کو یہ بتانا کہ اصغر کو مجھ سے محبت ہے ۔ غلط ہے ؟ ” اس نے آنکھیں کھول دیں ۔
” اس کو سچائی سے آگاہ کرنا کیا میرا فرض نہیں ؟” وہ بے یقینی سے بڑبڑائی ۔” وہ ایک ادھورا خواب دیکھ رہی ہے ۔ کیا میں اسے اس خواب سے نہ جگاؤں ؟ اسے بے خبرہی رہنے دوں ؟” اس کی آنکھوں سے اشکوں کی ایک رو پھسلی ۔” میں کیا کروں آ خر؟” اس نے دیوار سے ٹیک لگا لیا ۔” اصغر !” وہ سسکنے لگی ۔ اس کی بند آنکھوں سے آنسوؤں کے قطرے بہ بہ کر اس کے گالوں کو تر کررہے تھے ۔ ” میں کیسے سمجھاؤں ان کو کہ میں خود غر ض نہیں ہوں ؟” وہ نڈھال سی بیٹھتی چلی گئی ۔ ” کاش میں کوئی فیصلہ لے پاتی ۔ کاش مرینہ کو بتانا آسان ہوتا ۔” وہ سسکتی رہی ۔
” دینو! باہر نکل آ اندر سورہی ہے کیا ؟” عرینہ کی آواز آئی ۔
وہ جلدی سے اُٹھی ۔ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں پانی بھر بھر کر اس نے اپنے چہرے پر دے مارا اور دوپٹے سے منہ پونچھتی ہوئی وہ باہر نکلی۔
” کیا ہوا ہے تجھے ؟ تیرا منہ کیوں لٹکا ہوا ہے ؟” عرینہ کے لہجے میں تشویش تھی ۔
” کچھ نہیں ۔” عرینہ کو مختصر سا جواب دے کر وہ برتن اُٹھا کر لے جانے لگی ۔
” میر ی سچائی اور میری ایمان داری میری عمر بھر کی کمائی ہے اور تم نے میری اسی کمائی پر انگلی اٹھائی ہے ۔” وہ باہر آگئی ۔ اپنی عمر بھر کی اس کمائی کو ایک محبت کے بدلے نہیں لٹا سکتی ۔ کاش یہ باتیں میں تمہارے بھائی کو سمجھا سکتی ۔ وہ باورچی خانے کے اندر چلی گئی ۔
” اور وہ ایک محبت میری زندگی کا حاصل ہے ۔ کاش یہ بات میں اپنی بہن کو سمجھا سکتی ۔” اس نے بے بسی سے سوچا ۔
٭…٭…٭
شہروز بھائی نے حمائل سے معافی مانگ لی۔ امی کا کئی بار فون آیا ،وہ کئی بار معذرت کر چکی تھیں اور حمائل یہ جان کر بہت خوش ہوئی کہ وہ اسے بہت یاد کررہی تھیں ۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا ۔ وہ اپنی زندگی میں خوش تھی لیکن منزہ اب بھی اسے کانٹے کی طرح چبھتی تھی ۔اپنے باپ کی ایک جھلک اب بھی اس میں غصہ اور نفرت بھر دیتی تھی ۔ لیکن اس کے پاس جینے کی ایک بڑی وجہ بھی تھی ۔ وہ صبار قاسم کی محبتوں اور چاہتوں کا محور تھی ۔ صبار کی محبت وہ واحد چیز تھی جو اسے منزہ علی کے ساتھ بانٹنی نہیں پڑتی تھی جو پوری کی پوری اسی کے حصے میں آئی تھی اور وہ مغرور سی لڑکی اس محبت کو پاکر واقعی خوش تھی ۔
٭…٭…٭
پورا ایک مہینہ گزر گیا لیکن وہ مرینہ سے بات نہ کرسکی ۔ جب بھی وہ اس کے سامنے ہوتی، دینا کا دل کرتا وہ اسی لمحے سچ اگل دے لیکن کوشش کے باوجود وہ حوصلہ نہ کر پائی ۔ کبھی کبھی اسے اپنا آ پ خود غرض لگتا تو کبھی وہ خود کو منافق سمجھنے لگتی ۔ اس کے دل اور دماغ میں جنگ جاری تھی ۔ کبھی دماغ کی بات درست لگتی تو کبھی دل صحیح بات کہتا۔ اسی شش و پنچ میں وہ یہ فیصلہ ہی نہ کر پا ئی کہ اسے کیا کرنا چاہیے ۔
مرینہ کو سچ بتانا اگر مشکل تھا تو اصغر کو چھوڑ دینے کا تصور بھی تکلیف دہ تھا۔ کبھی اسے مرینہ کو سچائی بتا دینا صحیح لگتا تو کبھی غلط ۔۔۔ اور وہ بڑی بے بسی سے اس صحیح اور غلط کے بیچ جھول رہی تھی ۔
٭…٭…٭
” لِسن ۔ لِسن ماہی !!” وہ اپنی کلاس فیلو سے بات کرتی ہوئی کلاس کے اندر جارہی تھی جب اسے صبار کی آواز سنائی دی ۔اس نے مسکرا کر پیچھے دیکھا۔
” ایس بی !تو؟ ” وہ حیرت اور خوشی کے ملے جلے احساسات سے لبریز صبار کی جانب بڑھ گئی ۔
” وہ ۔۔۔ میں۔۔” وہ ہکلاتے ہوئے بولا۔
” کیا؟”
” میں تجھے پروپوز کرتے وقت یہ دینا بھول گیا تھا ۔” صبار کے ہاتھ میں سرخ گلاب کا ایک پھول تھا ۔
” wow ” حمائل نے بڑی خوش دلی سے گلاب صبار کے ہاتھ سے لے لیا ۔
” Its lovely لیکن تو ابھی کیوں دے رہا ہے ۔؟” اس نے صبار کو ٹوکا ۔
” پتا ہے ایک month پورا ہو گیا ؟”
” تو کیا ہوا ؟” اس وقت دیتا تو تجھے عام سی بات لگتی ۔ ابھی دے رہا ہوں ۔ ہمیشہ یادر رہے گا۔delayed rose”…. ”
” یہ کہاں سے ملا ؟” حمائل نے گلاب سونگھتے ہوئے پوچھا۔
” اپنے ڈیپارٹمنٹ کے لان سے ۔” صبار نے سچ بو ل دیا ۔
” وہاٹ ؟ ایس بی ! تو یہ توڑ کے لایا ہے ۔؟” وہ ناراض ہوتے ہوئے بولی ۔
سوری میں بھول گیا تھا کہ میں نے مالی سے محبت کی ہے ۔” صبار کے انداز میں شرارت تھی ۔
وہ خفیف انداز میں مسکرائی ۔ آئندہ شہر کے سب سے بڑے فلاور شاپ پہ جا کے سب سے پیارے rose تیرے لیے لاؤں گا ۔” اس کے کان میں بول کر وہ جانے کو مڑا ۔
٭…٭…٭





اصغر کا فون آیا تھا ۔اس کا امتحان شروع ہو گیا تھا اور اس نے دینا سے دعا کرنے کی درخواست کی تھی ۔
یااللہ اس کو اس امتحان میں اور مجھے اس امتحان میں پاس کردے ۔” اس نے تہ دل سے دعا مانگی اور جائے نماز بچھا کر عصر کی نماز پڑھنے لگی ۔
” نماز پڑھنے کے بعد اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ۔ ” یااللہ! مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔ مجھے کو ئی راستہ نہیں دکھ رہا ۔ تو ہی سب کچھ جانتا ہے اللہ !تو ہم پر رحم فرما ۔ ہماری آزمائشوں کو ختم کردے ۔ آمین۔” اس نے ہاتھ اپنے چہرے پر پھیر دے ۔ کبھی کبھی دل میں اتنے در د اٹھتے ہیں کہ زبان ان کی ترجمانی سے محروم ہوتی ہے ۔
وہ دل پر ایک بھاری بوجھ لیے جائے نماز سے اٹھی اور طاق سے قرآن پاک اٹھا کے پلنگ پر بیٹھ گئی۔ وہ سورة طہٰ کی تلاوت کرنے لگی ۔” اور میرے کام کو مجھ پر آسان کر دے ۔” آیت نمبر 26 پر پہنچ کے وہ لمحہ بھر کو رک گئی اور میرے کا م کو مجھ پر آسان کردے ۔” وہ اسی کا ورد کرنے لگی ۔ اور میرے کام کو… اس کی آنکھوں سے آنسو بہ گئے ۔” اور میرے کام کو مجھ پر آسان کر دے۔” وہ رونے لگی ۔
” یااللہ ! ہم ٹوٹتے ہیں ۔ بکھرتے ہیں پھر جڑتے ہیں اور جیتے ہیں ۔۔ یااللہ !تو ہی ہمارا کارساز ہے ۔اللہ ! اس ٹوٹنے اور بکھرنے کا عمل کو میرے لیے آسان فرما اور پھر سے جڑنے میں میری مدد فرما ۔” وہ سسکنے لگی اور میرے کا م کو مجھ پر آسان کر دے ۔” وہ اسی آیت کا ورد کرتی گئی ۔ آنسوؤں کے سمند ر تھے جو آنکھوں سے بہ کر گالوں پر پھیل جاتے ۔
” میرے اللہ ! میرے کارساز! ” وہ ہچکیاں لینے لگی ۔ اس کے اشکوں کی لڑیاںٹھوڑی تک بہتی گئیں پر آج وہ ان آنسوؤں کو نہیں پونچھ رہی تھی ۔ ان آنسوؤں نے اللہ کے سامنے آزادی سے بہنا تھا۔وہ واحد ذات جو کسی کی آنکھوں سے بہنے والے ایک قطرہ پانی کو بھی بے مول نہیں ہونے دیتا ۔ اس کے سامنے بہنے والے اشکوں کے سمندر کی تو بڑی قیمت ہوتی ہے ۔وہ روتی رہی ، سسکتی رہی۔ اسے یقین تھا اللہ اسے دیکھ رہا ہے ۔ اسے سن رہا ہے اور اب اسے لگ رہا تھا جیسے اس کا دل ہلکا ہو گیا ہے ۔
٭…٭…٭
وہ ڈریسنگ روم کی دیوار پہ لگے فل سائز مرر کے سامنے کھڑی صبار کا دیا ہوا گلاب سونگھ رہی تھی۔” میں تجھے پروپوز کرتے وقت یہ دینا بھول گیا تھا ۔” وہ مُسکرائی ۔” ابھی دے رہا ہوں ۔ ہمیشہ یاد رہے گا۔ delayed rose… ” ایک حسین سے احساس نے اسے اپنے حصار میں لے لیا ۔
delayed rose… ” اس نے زیر لب دہرایا اور اس گلاب کو سکاچ ٹیپ کی مدد سے آئینے کے ایک کونے پہ چپکا دیا ایک چٹ پر delayed rose لکھ کر اس نے گلاب کے نیچے چپکا دیا اور دیر تک کھڑی اس کو دیکھ کر مسکراتی رہی ۔
٭…٭…٭
آپ کی زندگی میں ایک مقام ایسا آتا ہے جہاں آپ کے سامنے بہت سارے راستے ہوتے ہیں اور ان کئی راستوں میں صرف ایک ہی راستہ منزل کی طرف جاتا ہے ۔ لہٰذا کئی راستوں میں آپ کو صرف ایک راستہ چننا ہوتاہے جو آپ کو آپ کی منزل تک پہنچا دے، لیکن یہ عمل آسان نہیں ہوتا ۔
اس نے دودھ ابال کر گلاس میں ڈال دیا ۔” دودھ دیکھ کر پھر سے شکلیں بنائے گی وہ ۔” دینا کمرے کے اندر جاتے ہوئے بڑبڑائی ۔
” اوہ ! دودھ۔۔۔”دینا کے ہاتھ میں دودھ کا گلاس دیکھ کر مرینہ جھنجھلائی۔
” ہاں جی ! دودھ۔۔۔” دینا نے دودھ کا گلاس میز پررکھ دیا ۔
اب اٹھو شاباش ! تنگ نہ کرو ۔” وہ مرینہ کو بٹھانے لگی ۔
“نا بجیا! پلیز ۔۔ مجھے دودھ نہیں پینا ۔” مرینہ نے سماجت کی اور بدستور لیٹی رہی ۔
” یہ سب تو تجھے اچھل کو د کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا۔ ” عرینہ الماری سے کپڑے نکالتے ہوئے بولی ۔
” میں اچھل کود تھوڑی کررہی تھی ۔ وہ تو سیڑھیاں چڑھتے ہوئے میرا پیر پھسل گیا اور موچ آگئی۔ ” مرینہ نے ناراضی سے کہا ۔
” بس ! جو بھی تھا لیکن ڈاکٹرنے کہا ہے پندرہ دن تک پلستر نہیں اترے گا ۔” دینا نے یاد دلایا ۔
“اور تب تک تمہیں اچھی غذا کھانی چاہیے جس سے تمہیں طاقت ملے ۔”
” لے !طاقت؟ اے دینو! تو مجھے بتا کہ تو اس کو باکسنگ کیلئے بھیج رہی ہے جو طاقت والی غذا کھلا رہی ہے ؟” عرینہ اپنے کپڑے پلنگ پر پھینک کر مرینہ کے پلنگ کے پاس آ کر کھڑی ہوگئی ۔
” تم خدارا خاموش رہو تھوڑی دیر کے لیے ۔” دینا نے عرینہ کو ٹوکا ۔
” اور تم ! اٹھتی ہو یا بلاؤں بڑی ماں۔۔۔” وہ کہتے کہتے رکی ۔” جس عورت کا نام لے کر میں پوری زندگی مرینہ کو ڈراتی رہی آج وہ عورت کمرے کے کسی کونے میں بیٹھی تسبیح پڑھ رہی ہوگی ۔ اس نے تاسف سے سوچا ۔
” مرینہ !خدا کے لیے اُٹھو ۔ تنگ نہ کرو مجھے ۔” وہ جھنجھلائی ۔
” بجیا ! مجھے اُلٹیاں آتی ہیں دودھ سے ۔” مرینہ منہ پھلا کر دوسری طرف دیکھنے لگی ۔
” میری بلو رانی !اٹھ ناں ۔ شاباش !دودھ پی ۔” عرینہ نے میز پر سے دودھ کا گلاس اُٹھا لیا ۔
” تو جانتی نہیں ہے بلیوں کادودھ سے بڑا گہرا تعلق ہے ۔” وہ مرینہ کے پاس بیٹھنے لگی ۔
” چل تو اٹھ میری بلی کو میں ہی دودھ پلاتی ہوں ۔ ” عرینہ نے دینا کو کہنی ماری ۔وہ جواباً گھورتی ہوئی اٹھ گئی ۔
” شاباش !میری بلی۔”
” ہائے ! میرا پیر ۔” مرینہ درد کی شدت سے چلائی ۔ اس کے ساتھ مرینہ بھی چلانے لگی ۔
” اٹھو ۔ بیوقوف! تم اس کے پاؤں پر بیٹھ گئی ہو۔” دینا نے بڑھ کر عرینہ کو بازو سے پکڑ کر اُٹھا دیا۔
” دودھ پلائی کی رسم نہیں تھی یہ ۔” درد کی شدت کی وجہ سے مرینہ رونے لگی ۔
تھوڑی دیر اور بیٹھتیں تو ہڈی ٹوٹ جاتی میری ۔ ایسے بیٹھی تھی جیسے بادشاہت کے تخت پر بیٹھی ہو۔”
” وہ سخت برہم تھی ۔
” لے ۔ تو ہی پلا ۔عرینہ نے دودھ کا گلاس دینا کو تھما دیا ۔”
یہ کام تجھ جیسی سلیقہ مند لڑکی ہی کر سکتی ہے ۔ ” اس کے لہجے کے طنز کو بھانپ کر بھی دینا خاموش رہی ۔ ”
اونہہ۔ یہ تو ٹھنڈا ہو گیا ۔ اس نے بیزاری سے سوچا اور کمرے سے نکل گئی ۔
” میری طاقت پگھلتی جارہی ہے ۔ اب دیکھو تو۔ ۔۔ ایک چھوٹا سا کام مجھ سے نہ ہوا ۔ ” وہ بوجھل سے اندا ز میں باورچی خانے کے اندر داخل ہوئی ۔ “مرینہ تنگ بھی تو بہت کرتی ہے۔اماں کو پتا چلا کہ اس نے دودھ نہیں پیا تو الگ ناراضی ہوں گی ۔” اس نے دوددھ کا گلاس چولہے کے پاس رکھ دیا ۔” لیکن میں کیا کروں؟ میرا بھی ایک مسئلہ تو نہیں ۔ ” اس نے دیگچی چولہے پر رکھ دی ۔” مرینہ ٹھیک ہوتی تو میں اس موضوع پہ بات کرلیتی لیکن ۔۔ اب تو نہیں ہو سکتی بات جب تک وہ ٹھیک نہیں ہو جاتی۔ دیگچی میں گھی ڈال کر اس نے سوچا۔” اس حالت میں بات کروں گی تو یہ تو صاف خود غرضی ہوئی ناں ۔ آخر کو وہ چھوٹی بہن ہے میری۔” کٹے ہوئے پیاز گھی میں ڈال کر اس نے اپنائیت سے سوچا اور دیگچی میں چمچہ ہلانے لگی ۔ دوپہر کے کھانے میں مرینہ نے دال چاول کھانے کی فرمائش کی تھی ۔
٭…٭…٭





اکیڈمی سے واپس آکر اس نے گھر کی دیوار پرپھیلی انگور کی بیل پہ ایک نظر دوڑائی ۔
Lovely” ” اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
wow” ” اس میں grapes بھی ہیں ۔”
وہ انگور کا گچھا توڑنے میں ناکا م رہی ۔
” Fatty maa! the grapes are sour.. ” سپورٹس سوٹ پہنے شہروز گھر کے اندرونی حصے سے برآمد ہو ا۔
” None of yours business ” حمائل نے اسے گھورا اور خجل سی جا کر لان میں پڑی کرسی پر بیٹھ گئی ۔شہروز سیٹی بجاتا ہو اگیٹ سے نکل گیا ۔
” بیٹا حمائل ! امی جی کی آواز پر اس نے مڑ کر دیکھا ۔ وہ اورنج کلر کی ساڑھی پہنے گیٹ کے پاس کھڑی مسکرا رہی تھیں ۔ حمائل جا کر ان کے گلے لگ گئی ۔
I missed you so much….” ” اس نے ان کا بوسہ لیا ۔
” I missed you too ” انہوں نے بھی حمائل کا ہاتھ چوم لیا ۔
” رشید !گاڑی میں سامان پڑا ہے وہ اندر لے آؤ ۔” ملازم کو ہدایت کر کے وہ حمائل کے ساتھ گھر کے اندرونی حصے کی جانب چلی گئیں ۔
” اس گہری شام میں اگر میں کوئی اور دعا مانگتا تو یقینا قبول ہو جاتی لیکن مجھے تمہاری ضرورت تھی۔” لاؤنج کے صوفے پر بیٹھے و ہ اطمینان سے سوچ رہے تھے ۔
” تم نے پورا ایک مہینہ گھر سے باہر گزارا ہے تمہیں نہیں بتا سکتا کہ یہ وقت میں نے کیسے کاٹا ہے؟بہ ظاہر ٹی وی سکرین پر نظریں جماتے انہوں نے سوچا ۔ ” کاش اپنے احساسات کا اظہار کرنا اتنا آسان ہوتا جتنا اس وقت تھا۔ ” انہوں نے کن اکھیوں سے اپنی بیوی کو دیکھا ۔ ” جب وہ میری طاقت تھی۔” انہوں نے مرینہ کے چہرے سے اپنی نگاہیں ہٹا لیں۔” آج تم میری طاقت ہو تو یہ سب کہہ دینا کس قدر مشکل ہے ۔” وہ صوفے پر سے اٹھ گئے ۔
” آپ کی تنہا ئیوں میں پھر سے خلل بن کر آئی ہوں میں،لیکن کیا کروں ؟ برسوں پہلے دل نے مجبور کیاتھا اور آج اپنے بچوں کی محبت نے۔” وہ حمائل کو رات کا مختصر سا جواب دیتی رہیں۔ ان کا دھیان اس شخص کی جانب تھا جو اجنبیوں کی طرح ان سے مل کر کمرے میں چلا گیا تھا ۔ ” آپ کے پاس رہنا چاہتی ہوں لیکن آپ سے دوررہتی ہوں ۔خود پہ یہ ستم آپ ہی کی خاطر تو کرتی ہوں لیکن کیا کروں؟میں آپ کو چھوڑ کر نہیں جا سکتی ۔” انہوں نے تاسف سے سوچا ۔
” تم سے میں شاید اس لیے نہیں بول پا رہا کہ تم میرا یقین نہیں کرو گی ۔” کمرے کے اندر جاتے ہوئے انہوں نے سوچا۔” بر سوں پہلے اس نے ٹوٹی کانچ کے ٹکڑے سمیٹتے ہوئے اپنی انگلیوں کو زخمی کیا تھا اور آج تم میرے ساتھ ہر قدم پہ کھڑی میری ذات کے ٹکڑے سمیٹ کر زخمی ہورہی ہو۔ اس کے ہاتھوں پہ پٹی میں نے لگائی تھی ۔ تمہاری ذات کے زخموں پر مرہم لگانا بھی میرا فرض ہے ۔” وہ ایزی چئیر پر بیٹھ گئے ۔
” لیکن مجھے ڈر ہے ۔” انہوں نے بے چینی سے سوچا ۔
” بڑی پھوپھی اور پھوپھا جی عمرہ سے واپس آگئے ہیں ۔ مہمان بہت آرہے ہیں اور فردوس بھابھی اکیلی ہیں ۔اس لیے انہوں نے ہاتھ بٹانے کے لیے مجھے بلایا ہے ۔” دینا نے اعلان کیا ۔
شکر ہے اللہ کا خیریت سے واپس آگئے ۔ ” بڑی ماں نے ایک گہرا سانس لیا۔
” اطلاع کس نے دی ؟” انہوں نے سر اٹھا کر آم کے گھنے درخت کو دیکھا ۔
” علی بھائی کا فون آیا تھا ۔ وہ لینے آرہے ہیں مجھے ۔”
” تو تو جارہی ہے ۔؟ عرینہ نے سوال کیا ۔
” جانا پڑے گا ” ۔ دینا نے مختصر جواب دیا ۔
” وہ مسرورہ کیا کرتی ہے ؟” کا م کرے ناں اپنے گھر کے ۔” عرینہ کے اندا ز میں بیزاری تھی۔
” وہ تمہاری طرح ہے ۔ کام نہیں کرتی ۔” دینا کے انداز میں شرارت تھی ۔
” بیٹا !تم علی کو فون کر کے بتا دو کہ ہم آرہے ہیں ۔ وہ ہمیں لینے نہ آئے ۔” بڑی ماں نے دینا کو ہدایت کی۔
” جی ۔میں کردیتی ہوں ۔ ” دینا چارپائی سے اٹھ کر برآمدے کی طرف گئی ۔
” اماں ! آپ کیوں جارہی ہیں ۔؟ “عرینہ اداس ہو گئی ۔
” وہ اللہ کے گھر کی زیارت کر کے آئے ہیں ۔ میں اورفرحت ملنے چلے جائیں گے ۔ ” وہ چارپائی پر سے اٹھتے ہوئے بولیں ۔
” میں اور مرینہ گھر پر اکیلے رہیں گے ؟ “اسے فکر لاحق ہو گئی ۔
” علی ہو گا باہر ڈیرے پر ۔اصغر کے جانے کے بعد وہ ہی تو ہررات آکر سوتا ہے ڈیرے پر” ۔ وہ اپنے کمرے کی طرف جانے لگیں ۔
” جاگتا تو نہیں ہے ناں سوتا ہے ۔” عرینہ بُڑبُڑائی اورمرینہ کو اطلاع دینے کمرے کے اندر چلی گئی ۔
” فرحت ! تم بھی جلدی سے تیا ر ہو جاؤ ۔ شام ہونے والی ہے ۔” وہ اپنے کمرے کے اندر گئیں اور تھوڑی دیر بعد نکلیں تو کمرے کے دروازے میں منہ پُھلائے کھڑی عرینہ کے پاس آ کر بولیں۔
” میں جاتے ہی علی کو بھجوا دوں گی ۔ تم بالکل بھی فکر نہ کرو ۔ دروازے بند کر کے رکھنا ۔ میں آیت الکرسی کی حصار میں لے لوں گی تمہیں ۔” اور پھر وہ بھار ی بھاری قدم اٹھاتی دینا کے پاس جاکر بیٹھ گئیں ۔
” میر ی ماں تو گھنٹوں کھڑی رہتیں اور نہ تھکتیں ۔”
عرینہ نے غور سے برآمدے کے دوسرے سرے میں چارپائی پر بیٹھی عورت کو دیکھا ۔
” یہی ہرے رنگ کا جوڑا اماں پر کتنا جچ رہا تھا ۔ جب انہوں نے عید پہ اس پہنا تھا ۔پر آج تو لگتا ہی نہیں یہ عورت اماں ہے ۔اتنی خاموش تو نہیں تھیں وہ ۔” عرینہ نے بے یقینی سے سوچا اور مرینہ کے لیے پانی لانے باورچی خانے چلی گئی ۔
٭…٭…٭
سی گرین کلر کی لانگ شرٹ کے ساتھ گولڈن کلر کا پاجامہ پہنے وہ لاؤنج میں کھڑی تھی۔اس کے سیاہ،خوب صورت ، لمبے بال بڑی بے پروائی سے اس کے کندھوں پہ پڑے تھے ۔ اس نے ایک ہاتھ میں اپناسیل فون اور دوسرے ہاتھ میں میچنگ کاکلر ہینڈ بیگ تھاما ہوا تھا ۔
” تم کہیں جارہی ہو ؟” امی جی اپنے کمرے سے نکل کر اس کی طرف آگئیں ۔
” ہاں ۔ ایس بی کے گھر گیدرنگ ہے” ۔
” کیسی گیدرنگ؟”
” وہ قاسم انکل جاپان سے آئے ہوئے ہیں ناں ۔ I thought you know about his arrival ”
” اوہ ہاں ! پر میں بھول گئی تھی ۔”
” please Maa!Now don’t say that you are becoming old.I am still young like you”.
” اوکے ۔ انہوں نے اس کا بوسہ لیا ۔
” I love you.. ” اس نے اپنا سر ان کے سینے پر رکھ دیا ۔
” I know ” انہوں نے اپنے بازو اس کے گر حائل کیے ۔
” چلو تم انجوائے کر و میں پھر کبھی مل لوں گی ان سے ۔” انہوں نے پیارسے اس کی کمر پر تھپکی دی۔
” By the way تمہاری ائیر رنگز بڑی اچھی ہیں ۔” انہوں نے اس کی گولڈن کلر کی ائیر رنگز کی تعریف کی ۔
” اور لاکٹ بھی ۔” اس نے لاکٹ دکھاتے ہوئے کہا ۔
” Your sense of style is always good ”
” Because I am your daughter ” وہ مسکرائی ۔
” اللہ حافظ “۔ لاؤنج کا دروازہ کھول کر وہ باہر جانے لگی ۔
” کہاں جانے کی تیاری ہے “؟ وہ آفس سے آگئے ۔
” حمائل مسٹرقاسم سے ملنے جارہی ہے ۔” امی نے جواب دیا ۔
” کون مسٹر قاسم ؟ وہ صوفے پر بیٹھ گئے ۔
” صبار کے فادر۔۔۔ ” اس بار بھی جواب امی نے دیا ۔




Loading

Read Previous

چائے والا — ایم رضوان ملغانی

Read Next

ڈگریاں — ثناء سعید

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!