من و سلویٰ — قسط نمبر ۶

ایک ہاتھ میں سگریٹ لے کر دوسرے ہاتھ میں جوس کے گلاس سے دو سپ لینے کے بعد زینی نے گلاس پاس پڑی میز پر رکھ دیا۔
”میں اب اس مسئلے کا حل چاہتی تھی اور آپ لوگوں سے ملے بغیر اس مسئلے کا کوئی حل نہیں نکل سکتا تھا۔” زینی نے بات کا آغاز کیا اور فہمیدہ نے اسے بات مکمل نہیں کرنے دی۔
”حل ہم نکال چکے ہیں۔ میں نے اپنے بیٹے کا رشتہ کر دیا ہے۔ بس چند دنوں میں شادی کرنے والے ہیں ہم لوگ۔”
اس کی بات پر نفیسہ اور زہرہ کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے تھے مگر زینی اسی طرح بے تاثر چہرے کے ساتھ بیٹھی جوس کے سپ لیتی رہی۔
”لڑکی والوں نے مجھ سے کہا ہے کہ وہ بڑی دھوم دھام سے شادی کریں گے۔ گھر بھر دیں گے جہیز سے۔ میرے بیٹے پر جان چھڑکتے ہیں وہ لوگ۔”
زینی نے فہمیدہ کو مزید بات نہیں کرنے دی۔
”بہت اچھا کرتے ہیں، اگر وہ یہ کرتے ہیں تو… ظاہر ہے اگر داماد کا کاروبار سرے سے ہو ہی نا… اس کی دکان کا سامان پھنکوا کر پولیس نے اسے بند کروا دیا ہو تو جہیز اور سسرال کے جان چھڑکنے کی تو بہت ضرورت پڑتی ہے۔”
زینی نے گلاس رکھتے ہوئے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔ نعیم اور فہمیدہ بے اختیار ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنے لگے تھے۔ وہ یہ سب کیسے جانتی تھی۔ خاندان میں سے کسی نے اسے یہ سب کچھ بتایا ہو گا۔ انہیں پہلا خیال یہی آیا تھا مگر خاندان میں سے کون بتا سکتا تھا۔ انہوں نے نعیم کی شادی وقتی طور پر ملتوی کی تھی مگر ہر ایک سے یہ بات چھپائی تھی کہ اسے دکان سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔ نعیم آج کل صرف یہی دوڑ دھوپ کرنے میں مصروف تھا کہ کسی طرح اسے وہ دکان یا آس پاس کوئی اور دکان مل جاتی۔ شادی اس کے ذہن سے مکمل طور پر غائب ہو گئی تھی اور اب وہ سامنے بیٹھی بڑے اطمینان سے اُسے یوں یہ قصہ سنا رہی تھی، جیسے یہ سب کچھ اس کے سامنے ہوا تھا۔
”تم سے کس نے کہا؟” نعیم نے بے ساختہ اس سے پوچھا۔
”کیا فرق پڑتا ہے کہ کس نے کہا۔”
”جھوٹ ہے یہ سارا۔ پولیس کا کیا تعلق ہے اس سارے معاملے میں۔ وہ دکان میرے بیٹے ہی کے پاس ہے۔ وہ تو شادی کی تیاریوں کی وجہ سے کچھ دنوں کے لیے بند کر دی ہے۔” فہمیدہ نے مداخلت کی تھی۔
”اچھا، میری دکان ہے مگر مجھے پتہ ہی نہیں کہ میرے بہنوئی کی دوسری شادی کی تیاریوں کے لیے اسے بند کیا گیا ہے۔ حیرت ہے۔”
زینی کے جملے پر نعیم کو جیسے کرنٹ لگا تھا۔
”وہ دکان تم نے خریدی ہے؟”
”ہاں۔” زینی نے بڑے اطمینان سے کہا۔
”میرا سامان وہاں سے تم نے پھنکوایا؟”
”ہاں۔”
”تم نے جان بوجھ کر مجھے ذلیل کروایا؟” نعیم اب بھڑک اٹھا تھا۔
”ہاں۔” زینی کے اطمینان میں ذرا برابر فرق نہیں آیا تھا۔




”اب ساری عمر بہن کو گھر بٹھا کر رکھنا کیونکہ میں اسے طلاق دے دوں گا۔”
نعیم نے اس دھمکی کا استعمال کیا جو ہمیشہ کار گر ثابت ہوئی تھی۔
”اگر بات طلاق کی ہے تو پھر یہ کام ابھی اور اسی وقت ہوناچاہیے۔ کاغذ پین لے کر آؤ۔”
زینی نے چائے کی ٹرالی اندر لاتے ہوئے ملازم سے کہا۔ اس کے ساتھ اندر آتی ربیعہ نے زینی کو بے حد ملامت بھری نظروں سے دیکھا۔
چند لمحوں کے لیے نعیم کچھ نہیں کہہ سکا۔ یہی حال فہمیدہ کا ہوا تھا۔ زینی اس قدر دھڑلے سے طلاق کا مطالبہ کرے گی۔ اس کا انہیں اندازہ نہیں تھا۔ طلاق کے نام پر پہلے جو خوف اور سراسیمگی ضیاء کے خاندان کے ہر فرد کے چہرے پر نظر آنے لگتی تھی۔ اب وہ یک دم غائب ہو گئی تھی یا کم از کم زینی کے چہرے پر انہیں نظر نہیں آئی تھی اور یہ بات جاننے میں نعیم اور فہمیدہ کو دیر نہیں لگی کہ وہ ضیاء کی بیٹی تھی مگر ضیاء نہیں تھی۔
وہ ضیاء کے گھر کے صحن میں بیٹھے ہوتے تو زہرہ کو طلاق دے کر ہی اٹھتے مگر یہ زینی کے ڈیڑھ کنال کے گھر کا کمرہ تھا۔ یہاں انہیں بات تول کر کرنی تھی۔ ترازو پہلے بھی برابر نہیں تھا۔ پلڑا ان کی طرف جھکا ہوا تھا۔ ترازو اب بھی برابر نہیں تھا۔ پلڑا زینی کی طرف جھکا ہوا تھا۔
”طلاق ہو گی تو پھر نعیم اپنی تینوں بچیاں لے جائے گا۔” فہمیدہ نے ایک اور حربہ استعمال کرنے کی کوشش کی۔ وہ زہرہ کو آزمانا چاہتے تھے۔
”تینوں بچیوں کو ساتھ لیتے آنا۔” زینی نے فہمیدہ کو بات مکمل بھی نہیں کرنے دی اور ٹرالی رکھ کر جاتے ہوئے ملازم سے کہا۔ ”آپ بڑی خوشی سے بچیاں اپنے ساتھ لے جا سکتی ہیں۔ نہ لے کر جائیں تو طلاق کے بعد ہم خود بھجوا دیں گے۔” زینی نے سابقہ انداز میں کہا۔
”ہم ساری عمر بچیوں کو ماں سے ملنے نہیں دیں گے۔” نعیم نے ایک اور دھمکی دی۔
”یہ اور بھی اچھا ہو گا۔ ویسے بھی طلاق کے بعد زہرہ آپا یہاں گھر تھوڑی بیٹھی رہیں گے۔ وہ بھی دوسری شادی کر کے چلی جائیں گی۔ ان کے اپنے بچے ہو جائیں گے۔ ساری عمر ان بچیوں کا سوگ تھوڑی منائیں گی وہ۔”
فہمیدہ اور نعیم کے چہرے پر پہلی بار ہوائیاں اڑنے لگی تھیں۔
”چائے تو یقینا آپ لوگ نہیں پیئں گے کیونکہ اس گھر کی ہر شے حرام ہے آپ پر۔”
زینی نے بڑے اطمینان سے ٹرالی کھینچتے ہوئے اپنے لیے چائے بنانی شروع کی۔ اس کی پوری توجہ اس طرح چائے پر لگی ہوئی تھی جیسے وہ اسی ایک کام کے لیے ان سب کے بیچ بیٹھی ہو۔ کمرے میں اس کے علاوہ بیٹھا ہوا ہر شخص مکمل طور پر ہکا بکا تھا۔ نفیسہ، زہرہ اور ربیعہ کو خوف تھا کہ نعیم، کہیں طلاق دے ہی نہ دے اور نعیم اور فہمیدہ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب وہ طلاق کی دھمکی کیسے واپس لیں۔
”تم یہ سب کچھ کیوں کر رہی ہو؟” نعیم نے بالآخر جیسے تھک کر کہا تھا۔
”اس سوال کا جواب میرے پاس نہیں، آپ کے پاس ہے۔ اس شہر میں آپ کہیں کوئی کام کرنا چاہیں گے، میں کام نہیں کرنے دوں گی۔ جو کچھ اب کروایا ہے وہی پھر کرواؤں گی اور یہ تب تک ہوتا رہے گا جب تک میری بہن میرے گھر بیٹھی ہے۔” زینی نے اس بار دو ٹوک انداز میں جیسے اعلان کیا تھا۔
”تم مجھے دھمکی دے رہی ہو؟” نعیم نے بے یقینی سے کہا۔
”ہاں۔” چائے میں چینی ڈالتے ہوئے اس کا لہجہ اتنا ہی ٹھنڈا تھا۔
”نفیسہ! تم کچھ کیوں نہیں بولتیں یہ۔۔۔۔” فہمیدہ نے اس بار نفیسہ کو مخاطب کیا۔
”امی کچھ نہیں کہیں گی جو کہوں گی، میں کہوں گی۔ کاغذ اور پین آگیا۔ طلاق لکھ دیں۔”
زینی نے ملازم کو اندر آتے ہوئے دیکھ کر کہا۔ کمرے میں بیٹھے ہر شخص کی جان پر بن گئی تھی۔ ملازم نے کاغذ پین لا کر نعیم کے سامنے رکھ دیا۔ زینی کیک کا ایک ٹکڑا کاٹ کر اپنی پلیٹ میں رکھ رہی تھی۔ وہ واقعی بہت مزے دار تھا۔ یہ اس کا فیورٹ کیک تھا۔ آلمنڈ کیک۔
”اگر کریم ہے تو تھوڑی کریم لا دو۔ میں کیک پر ڈالوں گی۔” اس نے ملازم سے کہا۔ ملازم سر ہلاتے ہوئے چلا گیا۔
”آپ لوگ چائے پیئں گے، بنا دوں؟”
زینی نے نفیسہ سے پوچھا انہیں لگا اس کا ذہنی توازن خراب ہو گیا ہے۔ نعیم ان کی بیٹی کو طلاق لکھ کر دینے والا تھا اور وہ کیک پر کریم ڈال کر کھاتے ہوئے ان سے چائے کا پوچھ رہی تھی۔ یوں جیسے وہ کوئی فلم یا اسٹیج پلے دیکھنے بیٹھے تھے۔ زینی نے ٹرالی کے نچلے حصے میں کوئی اور چیز بھی تلاش کرنی شروع کی ، بہت عرصے کے بعد اسے اپنے گھر میں بیٹھ کر اتنی بھوک لگ رہی تھی۔
ملازم تب تک کریم لے آیا تھا۔ زینی نے کریم کے دو چمچے کیک کے سلائس پر ڈالے اور ملازم کو اپنا سیل فون لانے کے لیے کہا۔
”بیگ بھی لے آنا۔ مجھے ذرا نکلنا ہے اور ڈرائیور سے کہنا، گاڑی نکال دے۔ بچیوں کا سامان بھی پیک کروا دینا۔” اس نے ملازم کو آخری ہدایت دی اور کانٹے سے کیک کا ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوئے نعیم کو دیکھا۔ وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ دونوں بہت دیر تک ایک دوسرے کو آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھتے رہے۔ زینی کی آنکھوں میں کتنی بے خوفی، دلیری اور اس کے لیے تضحیک تھی، یہ جاننے کے لیے نعیم کو بہت دیر نہیں لگی تھی۔ جس بلی کو دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا تھا، وہ شیر پر جھپٹ پڑنے کے لیے تیار تھی۔
نعیم نے آنکھیں چرا لیں اور ماں کو دیکھا پھر پین اور کاغذ ایک طرف کرتے ہوئے بے حد کمزور آواز میں کہا۔
”کوئی سمجھوتہ ہو سکتا ہے؟”
زینی کیک کا ٹکڑا منہ میں ڈالتے ڈالتے رک گئی پھر اس نے ملازم سے کہا۔
”چائے سرو کریں ان لوگوں میں۔”
٭٭٭




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۵

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!