سعود کے پاس آکر اس نے سب سے پہلے عارفہ کو فون کیا اور اسے بے حد پرجوش لہجے میں بتایا کہ وہ چند دنوں تک پاکستان واپس آرہا ہے۔ اس وقت یہ بھی بھول گیا تھا کہ اس کے پاس ٹکٹ کے لیے پیسے تک نہیں تھے۔ عارفہ اسی کی طرح خوش ہوئی تھی اور خوشی کے ساتھ اسے حیرانی بھی ہوئی تھی۔ چند دن پہلے کے کرم علی اور آج کے کرم علی کی آواز میں زمین آسمان کا فرق تھا۔
”میں تمہیں سب کچھ پاکستان آکر بتا دوں گا۔”
کرم علی نے اس سے کہا تھا، پھر اس نے دوسرا فون اپنے گھر اپنے باپ کو کیا تھا۔ رسمی علیک سلیک کے بعد اس نے اسی پرجوش انداز میں انہیں بتایا کہ وہ چند دنوں تک مستقل طور پر پاکستان آرہا تھا۔
دوسری طرف یک دم خاموشی چھا گئی پھر کچھ دیر کے بعد جہاں داد نے بے حد تشویش بھرے انداز میں اس سے کہا۔
”لیکن کیوں بیٹا؟ اتنی اچھی نوکری چھوڑ کر تم یہاں کیوں آرہے ہو؟”
کرم علی کی ساری خوشی جھاگ کی طرح بیٹھ گئی تھی۔ اس کے پاس واقعی باپ کے اس سوال کا جواب نہیں تھا۔
”میں۔۔۔۔” وہ ہکلایا کیا کہتا وہ چار ہزار دینار مہینے والی نوکری چھوڑ کر پاکستان کیا کرنے آرہا تھا۔
”میں پاکستان میں کوئی کاروبار شروع کرنا چاہتا ہوں ابو۔” اس نے بالآخر جہاں داد سے کہا۔
” وہ تو ٹھیک ہے بیٹا! مگر کاروبار کے لیے کتنی رقم ہے تمہارے پاس؟”
کرم علی کچھ بول نہیں سکا ”میں، میں پچھلے تین سال میں جو رقم بھجواتا رہا اس میں سے کچھ رقم بچائی تو ہو گی آپ نے۔” اس نے بالآخر کہا۔
”کہاں بیٹا! اتنی مہنگائی ہو گئی ہے پاکستان میں کہ کچھ بھی بچتا کب ہے۔ تمہیں بتایا تو تھا کہ ایک گاڑی لی ہے پچھلے سال دو دفعہ آصف کا ایکسیڈنٹ ہوا اس گاڑی پر کتنی رقم لگ گئی۔ اب بلکہ مجھے کہہ رہا تھا کہ بھائی جان سے کہیں نئی گاڑی کے لیے پیسے بھیجیں۔ کوئی نیا ماڈل بتا رہا تھا محلے میں کسی نے لیا ہے۔ اوپر کے دو کمروں میں اے سی لگوائے ہیں۔ بہت گرمی ہوتی ہے اور ہاں تمہاری ماں نے نبیلہ کا کچھ زیور بنوایا ہے۔ ایک دو کمیٹیاں ڈال کر، اب اس ماہ ابھی گھر میں Paint کروایا ہے۔ تمہارے بہن بھائی کہہ رہے تھے کہ پردے بھی بدلوانے ہیں۔ کچھ رقم میں نے کرم داد بھائی سے ادھار لی ہے کہ جیسے ہی تم بھیجو گے میں انہیں لوٹا دوں گا۔ ابھی دو ماہ تک نبیلہ کی منگنی کا فنکشن ہے۔ اس کے لیے بھی رقم چاہیے۔”
کرم علی ایک لفظ کہے بغیر چپ چاپ فون پر یہ ساری تفصیل سنتا رہا۔
”کس کا فون ہے؟” اسے فون پر اپنی ماں کی آواز دور سے آتی سنائی دی۔ ”کرم علی، کہہ رہا ہے نوکری چھوڑ کر مستقل طور پر پاکستان آرہا ہے۔” جہاں داد نے مڑ کر اسے بتایا تھا۔
”ہیں! بھلا وہ کس لیے؟” اس نے ماں کو بے ساختہ تشویش بھرے لہجے میں کہتے سنا تھا۔
”پتہ نہیں، تم سمجھاؤ اسے، یہ حماقت نہ کرے۔”
جہاں داد نے ریسیور بیوی کو تھماتے ہوئے ہدایت کی کرم فون پر یہ سب کچھ سن رہا تھا۔ چند لمحے پہلے کی خوشی اور مسرت کا احساس یک دم غائب ہو گیا تھا۔
”ہیلو… کرم بیٹا! یہ تمہارے ابو کیا کہہ رہے ہیں؟”
زینت نے فون کا ریسیور تھامتے ہی بے حد حواس باختہ انداز میں کرم علی سے کہا۔
”کچھ نہیں امی! میں نے ویسے ہی ایک بات کی تھی۔ ایسے ہی پاکستان آپ لوگوں سے ملنے کے لیے آنا چاہتا تھا تو۔۔۔۔”
”سو دفعہ پاکستان آؤ بیٹا! میں تو خود بڑی اداس ہو رہی ہوں تمہارے بغیر، لیکن بیٹا! اس طرح لگی لگائی نوکری پر لات مارنا اچھی بات نہیں۔ رشتہ داروں میں کسی کے بیٹے کی ایسی اچھی نوکری نہیں ہے کویت میں کچھ سال اور لگا لو بیٹا پھر آ تو جانا ہی ہے۔ ابھی تو تمہارے علاوہ گھر میں کوئی کمانے والا تک نہیں ہے۔ تم آجاؤ گے تو گھر کیسے چلے گا؟”
”آپ کو بچت کرنی چاہیے تھی امی! میں جتنی رقم بھیجتا رہا آپ کو وہ سب خرچ نہیں کرنی چاہیے تھی۔”
نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے ماں سے گلہ کیا۔ اس نے تین سال میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ دینار پاکستان بھیجا تھا اور اس کے گھر والے وہ سارا خرچ کر چکے تھے۔ وہ واقعی بے وقوف تھا جو ا پنے پاس کچھ بھی بچا کر رکھنے کے بجائے ساری کی ساری رقم پاکستان بھجواتا رہا اور کویت میں سات سال گزارنے کے باوجود وہ آج بھی وہیں کھڑا تھا، جہاں کل تھا۔
”بیٹا! بچت ہوتی کہاں ہے؟ سو تو خرچے ہوتے ہیں تم الگ سے کوئی رقم بھیجتے تو میں بینک میں جمع کرواتی رہتی۔ مگر تم نے کبھی گھر کے خرچے کے علاوہ تو کبھی کوئی فالتو رقم نہیں بھجوائی۔ آصف کہہ رہا تھا کہ بھائی جان شاید اب عارفہ کے لیے رقم اکٹھی کر رہے ہیں۔ کیونکہ عارفہ کے ماں باپ خاندان میں کہتے پھر رہے ہیں کہ سال دو سال میں کرم علی شادی کے لیے پاکستان آئے گا۔ تم نے عارفہ سے کہا ہو گا۔ میں نے پھر بھی آصف سے کہا کہ کوئی بات نہیں اچھا ہے وہ اگر شادی کے لیے رقم اکٹھی کر رہا ہے شادی پر روپے پیسے کی ضرورت تو پڑتی ہی ہے۔ آصف نے حالانکہ کتنی بار مجھے کہا کہ بھائی جان سے کہیں کہ وہ کاروبار کے لیے رقم بھیجیں جب بھائی جان کی شادی ہوگی تو میں وہ رقم واپس کر دوں گا۔ بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی دوں گا بھائی جان کو۔۔۔۔”
اس کی ماں کہہ رہی تھی۔ کرم علی نے کچھ بھی کہے بغیر فون کا ریسیور رکھ دیا۔
اس کے پاس اس وقت 27 دینار تھے اور یہ وہ رقم تھی جو تین سال پہلے سعود بن جابر کے پاس آنے سے پہلے مہینے کا خرچ پاکستان بھیجنے کے بعد بچی تھی۔ تین سال میں اس رقم میں کوئی کمی یا اضافہ نہیں ہوا تھا اور اس کے گھر والوں کو شبہ تھا کہ وہ اپنی شادی کے لیے رقم اکٹھی کر رہا ہے کیونکہ انہیں یقین تھا کہ وہ ہر مہینے اپنی پوری تنخواہ نہیں بھجواتا ہو گا۔ اپنے پاس اس کا کچھ نہ کچھ حصہ تو رکھتا ہی ہو گا۔
کرم علی اب آزاد تھا۔ کتنا آزاد؟ وہ باہر اصطبل کے گھوڑوں میں آکر پھرنے لگا۔ اس شام اس کا واقعی جی چاہا تھا کہ اس کے جسم پر برص پھیلنے کے بجائے اصطبل کا کوئی گھوڑا مر جاتا تاکہ اس کے بدلے اس کی جان چلی جاتی۔
وہ اگلی صبح اصطبل نہیں گیا اس نے سعود بن جابر کو بتا دیا کہ وہ اس کے پاس کوئی کام کرنا چاہتا ہے۔ سعود بن جابر نے اس سے کوئی سوال جواب کیے بغیر بخوشی اسے اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ لیکن اس بار اس نے کرم علی کو اصطبل میں رکھنے کے بجائے اپنے رہائشی محل میں رکھا تھا اپنے ذاتی خدمت گار کے طور پر اور وہاں رکھنے کے چند ماہ بعد وہ اسے اپنے ذاتی طیارے میں اپنے ساتھ لاس ویگاس کے اس کسینو میں لایا تھا جو سعود بن جابر کی ملکیت تھا اور وہ مہینے میں ایک بار جوا کھیلنے کے لیے اپنے کسینو ضرور جاتا تھا یہ ایک اتفاق تھا یا سعود بن جابر کی بد قسمتی لیکن آج تک سعود اپنے کسینو میں جوا کھیلتے ہوئے کبھی نہیں جیتا تھا لاس ویگاس کے کسی بھی دوسرے کسینو میں ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ اس کی ہار کا سلسلہ جتنا لمبا ہوتا گیا اس کے کسینو کے ملازمین کا یہ اصرار بھی کہ وہ اسے دھوکہ بازی سے جتانے کی کوشش کریں۔ سعود بن جابر کوئی بہت زیادہ ایمان دار آدمی نہیں رہا تھا مگر اس کی ضد تھی کہ وہ اپنے کسینو میں اگر جیتے گا تو کسی دھوکہ بازی کے بغیر ورنہ تب تک ہارناپسند کرے گا جب تک قسمت اس کا ساتھ نہیں دیتی۔
وہ کرم علی کو اپنے ساتھ خوش قسمت سمجھ کر اس کی قسمت آزمانے کے لیے نہیں لایا تھا لیکن یہ عجیب اتفاق تھا کہ جس رات وہ کرم علی کے ساتھ اس کسینو میں آیا۔ اس رات سعود بن جابر نے بیس سال کے بعد اپنے کسینو میں رقم جیتی تھی۔ صرف یہ نہیں وہ اس رات ایک بازی بھی نہیں ہارا تھا۔
رقم سعود بن جابر کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔ جیت معنی رکھتی تھی۔ وہ تقریباً خوشی سے پاگل ہو گیا تھا۔ کرم علی کو ایک لمحے کے لیے بھی خیال نہیں آیا تھا کہ وہ سعود بن جابر کے لیے خوش قسمت ثابت ہوا تھا لیکن سعود بن جابر کو سب سے پہلے یہی خیال آیا تھا۔ کرم علی نے اس کی ہار کے سلسلے کو توڑ دیا تھا۔ کرم علی یک دم اس کے نزدیک بہت اہمیت اختیار کر گیا تھا۔ اس کے بعد وہ جب بھی لاس ویگاس آتا کرم علی کو ساتھ لے کر آتا اور ایسے ہی ایک سفر پرکرم علی نے اس سے مستقل طور پر لاس ویگاس میں ہی رہنے کی خواہش کی تھی۔ سعود بن جابر نے کسی تامل کے بغیر اس کی بات مانی تھی۔
”کسینو میں جو کام کرنا چاہو میں تمہیں دلوا دیتا ہوں۔”
سعود نے بڑی فیاضی کے ساتھ کہا۔ کرم علی کا دل بے ساختہ چاہا اسے کہے وہ وہاں کوئی کام کرنا نہیں چاہتا۔ اسے اس جگہ سے بھی نفرت تھی۔ لیکن اسے خدشہ پیدا ہوا تھا کہ سعود اس کی بات پر بگڑ سکتا تھا یا اگر دوبارہ اسے کویت لے گیا تو؟
”کسینو میں کام۔۔۔۔” کرم علی کہتے کہتے اٹکا۔
”ہاں… کوئی بھی کام جو تم کرنا چاہو۔” سعود بن جابر نے ایک بار پھر اسی انداز میں کہا۔ کرم علی بہت دیر چپ رہا پھر اس نے کہا۔
”میں کسینو کا فرش صاف کرنا چاہتا ہوں۔” سعود بن جابر کو تین سال سے زیادہ کے عرصے میں کرم علی کبھی بے وقوف نہیں لگا تھا مگر اس وقت وہ واقعی احمق لگا تھا اسکی جگہ کوئی اور ہوتا تو آج سعود بن جابر سے کچھ ایسی چیز مانگتا جس سے ہمیشہ کے لیے اس کی قسمت بدل جاتی مگر وہ چھوٹے ذہن اور چھوٹی کلاس سے تعلق رکھنے والا آدمی تھا۔ اتنا بڑا خواب کیسے دیکھتا؟ ساڑھے تین سال میں پہلی بار سعود بن جابر کا دل کرم علی سے اٹھ گیا۔
وہ یہ نہیں جانتا تھا اس چھوٹے ذہن کے اور چھوٹی کلاس سے تعلق رکھنے والے آدمی نے اس کسینو میں ان چند کاموں میں سے ایک چننے کی کوشش کی تھی جس سے اسے رزق حلال کے قریب ترین والا رزق ملتا۔
سعود بن جابر نے ہی امریکہ میں اس کے سارے پیپرز بنوائے تھے۔ کرم علی کویت سے لاس ویگاس آگیا تھا۔
*****