سعود بن جابر کو ایک برص زدہ آدمی کی ضرورت نہیں تھی، قربانی کے ایک جانور کی ضرورت تھی اور کرم علی کی شکل میں اسے وہ جانور مل گیا تھا اور کرم علی ایک دن پہلے تک یہ دعا کرتا پھر رہا تھا کہ سعود بن جابر کے گھوڑے پھر مرنے لگیں۔ یہ جانے بغیر کہ پہلے اگر ان گھوڑوں کی زندگی اس کے وجود کی محتاج تھی تو اب اس کا وجود گھوڑوں کی زندگی تھی۔
چار ہفتوں میں ایک بار اسے کسی گھوڑے کی زندگی اور موت میں دلچسپی پیدا نہیں ہوئی تھی۔ اس کے لیے ہفتے کا ساتواں دن کوئی معنی نہیں رکھتا تھا اور اب وہ ہفتے میں ایک بار ضرور مرتا تھا۔ ساتویں دن کا ایک ایک لمحہ گھونٹ گھونٹ موت کی صورت میں اس کے اندر اترتا تھا۔ یوں جیسے کوئی ریوالور کے چیمبر میں سے کسی ایک میں گولی ڈال کر اسے گھما دے پھر اس کی کنپٹی پر ریوالور رکھ کر باری باری پانچ دفعہ ٹریگر دبائے اور پھر ریوالور یہ کہہ کر ہٹا لے کہ گولی چھٹے چیمبر میں ہے۔
اور کرم علی نے اس اذیت کو ایک دن، ایک ہفتہ، ایک مہینہ یا ایک سال نہیں جھیلا تھا۔ اس نے اگلے تین سال اسی اصطبل میں جیتے مرتے باہر کی دنیا سے مکمل طور پر کٹ کر گزارے تھے۔
تین سالوں میں حادثاتی طور پر اور طبعی طور پر ایک آدھ گھوڑے کی ہلاکت ہوئی بھی تھی مگر اصطبل کے کسی آدمی کو اب اس بات کا اندیشہ تک نہیں تھا کہ اصطبل کے گھوڑوں کو اب تین سال پہلے جیسا کوئی مسئلہ درپیش ہو سکتا تھا۔ وہاں کام کرنے والا کوئی شخص اب ہفتے کے دنوں کی گنتی نہیں کرتا تھا سوائے ایک آدمی… کرم علی کے۔
تین سال میں اس نے موت کا انتظار کیا تھا یا پھر برص کے مرض کے دوبارہ ظاہر ہونے کا۔ دونوں میں سے کوئی بھی نمودار نہیں ہوا تھا۔ کسی نے کرم علی سے زیادہ لمبی موت نما زندگی نہیں پائی ہو گی۔ اس وقت کرم علی کا یہی خیال تھا۔
تین سال نے اس کے ظاہر کو جتنا بدلا تھا۔ اندر کو اس سے زیادہ تبدیل کر دیا تھا۔ ہر ہفتے ملنے والے ایک ہزار دینار ہر مہینے جمع کر کے وہ اسی طرح پاکستان بھجوا دیتا تھا اس نے تین سال میں ان دیناروں میں سے ایک دینار بھی خرچ نہیں کیا تھا اور ہر ماہ اتنی بڑی رقم پاکستان بھجواتے رہنے سے اس کے خاندان کی مالی حالت اور بھی اچھی ہو گئی تھی۔
وہ جانتے تھے کہ اب کرم علی شیخ کے اصطبل میں کام کرتا تھا۔ کیا کام کرتا تھا؟ یہ ان میں سے کسی نے کبھی کرم علی سے نہیں پوچھا۔ یہ پوچھنا ضروری تھا بھی نہیں اور ان تین سالوں میں کرم علی باقاعدگی سے فون پر ان سب سے بات کرتا رہا اور بار بار اس چبھن کا شکار ہوتا رہا کہ ان میں سے کسی کو اس کی پاکستان آمد کا انتظار نہیں تھا۔ صرف اس رقم کا انتظار ہوتا تھا جو وہ پاکستان بھجواتا تھا۔ وہ اگر اس کے پاکستان آنے کے بارے میں پوچھتے بھی تھے تو اتنے سرسری انداز میں کہ کرم علی کو شاید کوئی لمبی چوڑی وضاحت بھی دینی نہیں پڑتی تھی۔ اسی سانس میں دوسرا جملہ کوئی مطالبہ ہوتا تھا۔ اس کی ایسی ہر فون کال کے دوران کوئی نہ کوئی آدمی موجود ہوتا تھا نہ بھی ہوتا تو کرم علی اپنی فیملی کو اپنی مصیبت کے بارے میں نہ بتاتا۔
اسے لگتا تھا اس کی تکلیف ان کے لیے تب تک کوئی معنی نہیں رکھتی جب تک وہ انہیں آ تنی بڑی بڑی رقوم بھجوا رہا تھا۔
تین سال میں صرف عارفہ تھی جس کا وہ اپنے آپ کو مجرم سمجھنے لگا تھا۔ وہ کبھی کھل کر اسے یہ نہیں بتا سکا تھا کہ وہ چاہتا ہے کہ وہ اس کا انتظار نہ کرے، کسی اور کے ساتھ شادی کر لے۔ بہت بار اس نے عارفہ سے یہ کہنا چاہا لیکن کوئی نہ کوئی چیز آڑے آتی رہی۔ کبھی عارفہ کی کوئی بات، اس کی ہنسی، کبھی کرم کی جھجک، مناسب الفاظ کے انتخاب کی کوشش اور کبھی فون کٹ جاتا۔ اور پھر سب کچھ جیسے اگلے ہفتے پر چلا جاتا تھا۔
اس نے کئی بار عارفہ سے بات کرنا بھی چھوڑا صرف اسی خواہش میں کہ وہ اس کی بے اعتنائی پر اس سے متنفر ہو جائے یا اسے اس کی نیت اور ارادے پر ہی کوئی شبہ ہو کہ شاید وہ واپس آنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ شاید وہ اس سے اب شادی کرنا نہیں چاہتا، شاید وہ کسی دوسری عورت کے چکر میں ہے۔
کئی کئی ہفتے اسے فون نہ کرنے کے بعد وہ ایک بار پھر دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اسے فون کرتا اور چند چھوٹے موٹے گِلوں کے بعد سب کچھ پھر وہیں پر آجاتا۔
عارفہ کو اس پر اندھا اعتماد تھا۔ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ اس پر شک کرتی یا اسے کبھی شک ہوا بھی ہو تو اس نے کرم علی سے اس کا اظہار نہیں کیا۔ وہ اس کی زندگی کے 28ویں سال کا انتظار کر رہی تھی جب کرم علی کو واپس آجانا تھا اور ایک موہوم سی امید اور آس کے ساتھ جڑی ہوئی تھی کہ شاید وہ اس سے بہت پہلے واپس آجائے۔ شادی کے لیے نہ سہی، ویسے ہی سہی۔ وہ ہر خط میں یہ لکھتی، وہ اس کے ہر خط کو ہزاروں نہیں تو کم از کم سینکڑوں بار تو ضرور پڑھتا اور اس کے ضمیر کا بوجھ بڑھتا جاتا۔ وہ اسے دھوکا دے رہا تھا اس کے ساتھ جو کچھ کر رہا تھا غلط کر رہا تھا۔
وہ جانتا تھا وہ اس کی زندگی کے سال ضائع کر رہا ہے کرم علی کی خاموشی اگر کسی کو نقصان پہنچا رہی تھی تو وہ عارفہ کے علاوہ اور کوئی نہیں تھی۔ ہر بار اس کا خط پڑھنے پر وہ خود سے وعدہ کرتا کہ اس بار وہ اسے کہہ دے گا کہ وہ اس سے شادی نہیں کر سکتا، وہ اس کے انتظار میں اپنی زندگی ضائع نہ کرے، اس نے بہت خطوں میں عارفہ کو یہ بات لکھی بھی مگر کبھی کسی خط کو پوسٹ کرنے کی ہمت نہیں کر سکا۔ یہ اس کی خود غرضی تھی یا بزدلی یا پھر عارفہ سے محبت۔ وہ یہ طے نہیں کر پایا تھا۔
تین سال… کرم علی اگر چاہتا تو وہ اپنے کوارٹر میں بیٹھے بیٹھے ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر گزار دیتا۔ کم از کم سعود بن جابر نے کھلے لفظوں میں اس سے یہی کہا تھا مگر کرم علی دن میں آٹھ گھنٹے اصطبل میں کام کرتا بعض دفعہ آٹھ گھنٹوں سے بھی زیادہ، وہ جانوروں کے ساتھ پہلی بار اتنا وقت گزار رہا تھا۔ بعض دفعہ اسے لگتا تھا جیسے وہ ان کی زبان سمجھنے لگا تھا۔ ان کے احساسات، ان کے جذبات وہاں اصطبل میں بندھے گھوڑے اسے اپنے جیسے مجبور اور بے بس لگتے تھے یا اس سے کچھ کم بے بس جانوروں سے یہ محبت اس نے شیخ سعود بن جابر کے اصطبل میں سیکھی تھی اور پھر یہ ساری عمر اس کے ساتھ رہی۔
تین سال میں اس نے صرف کام نہیں کیا تھا۔ عبادت بھی بہت زیادہ کی تھی۔ وہاں سے نکلنے کے لیے، اس مصیبت سے جان چھڑانے کے لیے اس نے ہر وہ وظیفہ پڑھا تھا، جو اسے یاد آیا تھا۔ پہلا ایک سال تو وہ دن رات قرآن پڑھنے کے علاوہ کچھ اور کرتا ہی نہیں تھا۔ سارا دن وہ اصطبل میں کام کرتا اور ساری رات قرآن پڑھتا رہتا خاص طور پر ہر ہفتے کی ساتویں رات کو جب اس کی زندگی داؤ پر لگتی تھی۔ خوف تھا یا کیا تھا مگر اسے نیند نہیں آتی تھی۔ وہ بے خوابی کا شکار ہو گیا تھا اور اس حالت میں وہ قرآن لے کر بیٹھا رہتا۔
پہلے سال کے بعد اس نے وظیفے چھوڑ دیے تھے۔ وہ صرف قرآن پڑھتا نماز پڑھتا، تہجد پڑھتا… اپنی آزمائش پر جیسے اسے صبر آنے لگا تھا۔ اسے لگتا وہ حضرت یونس علیہ اسلام کی طرح مچھلی کے پیٹ میں ہے۔ فرق صرف یہ تھا کہ وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کبھی باہر آسکے گا یا نہیں۔
تین سال تک وہ ہر روز صبح آنکھ کھلنے پر اور رات کو سونے سے پہلے اپنے جسم کے ہر حصے کو دیکھتا۔ وہ برص جس کے اپنے جسم پر نظر آنے پر وہ کئی ہفتے خوف کا شکار رہا تھا اب وہ اسی کے جسم کے کسی دوسرے حصے پر نظر آنے کی دعا مانگتا رہا تھا۔ وہ برص اس کے لیے جیسے اسم اعظم بن گیا تھا، جسے پڑھ کر وہ وہاں سے نکل سکتا تھا۔
اور تین سال بعد اسے بہر حال اپنی دائیں ران پر وہ ننھا سا دھبہ نظر آگیا تھا۔ جس نے اسے مچھلی کے اس پیٹ سے نجات دلا دی تھی۔ وہ کئی گھنٹے خوشی اور بے یقینی کے عالم میں تیز دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ اس ننھے سے دھبے کو دیکھتا رہا۔ پھر اسے لگا جیسے وہ نظر کے دھوکے کا شکار ہو رہا تھا۔ شاید وہ دھبہ اس کے جسم پر تھا ہی نہیں لیکن جب کئی بار آنکھیں بند کرنے اور کھولنے پر بھی وہ دھبہ وہیں رہا تھا تو اسے شبہ ہونے لگا کہ وہ برص کے بجائے کسی اور چیز کا داغ بھی ہو سکتا تھا اگلے کئی دن وہ پہلے کی طرح پین لے کر اس داغ کے گرد حد بندی کرتا رہتا داغ بڑھ رہا تھا ایک ننھے سے دھبے سے وہ ایک سکے کے برابر ہو گیا تھا۔
تب ایک لمبے عرصے کے بعد وہ سعود بن جابر سے ملا۔ دھبہ دیکھ کر وہ بھی اسی طرح سکتے میں آگیا تھا جیسے کرم علی۔ بہت دیر چپ رہنے کے بعد اس نے کرم سے پوچھا۔
”یہ کب ظاہر ہوا؟” اس کے لہجے میں تشویش تھی۔
”دو ہفتے پہلے۔” کرم نے کہا اور پچھلے دو ہفتوں سے برص پھیلنے کے باوجود سعود بن جابر کے کسی گھوڑے کو کچھ نہیں ہوا تھا۔ سعود بن جابر کو کچھ تسلی ہوئی۔
”تو اب میں جا سکتا ہوں؟” کرم علی نے دھڑکتے دل کے ساتھ بالآخر وہ سوال کیا جس کا جواب وہ جانتا تھا۔
سعود بہت دیر چپ چاپ اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ وہ تین سال میں اس کی زندگی میں ہونے والی ایک ایک چیز سے واقف تھا۔ یہاں تک کہ عارفہ سے بھی۔
کرم کی فون کالز ریکارڈ ہوتی تھیں۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ وہ ہر ہفتے ملنے والی رقم جوں کی توں پاکستان بھیج دیتا ہے۔ اس میں سے کچھ بھی خرچ کیے بغیر وہ یہ بھی جانتا تھا کہ تین سال میں وہ اصطبل کے اچھے ملازمین میں شمار ہونے لگا تھا۔ اس نے کئی بار اس کو کام کرتے دیکھا تھا اسے حیرت ہوتی تھی۔ موت کے خوف اور قید نے کام میں اس کی دلچسپی اور جانقشانی کو متاثر یا کم نہیں کیا تھا۔ وہ یہ جانتا تھا کہ وہ بے حد عبادت گزار تھا۔ تین سال میں کئی بار ولید نے اس کے کہنے پر کرم علی کے لیے عورتیں اور شراب بھجوائی اور ہر بار وہ شکریے کے ساتھ انہیں واپس بھجواتا رہا۔
تین سال میں کبھی اسے کرم علی کے کسی مطالبے، کسی فرمائش کا پتہ نہیں چلا تھا۔ اسے کرم علی پر کبھی ترس یا رحم نہیں آیا تھا مگر اس میں دلچسپی ضرور پیدا ہو گئی تھی۔ بالکل ویسی ہی دلچسپی جیسی اسے اپنے اصطبل میں بندھے ہوئے گھوڑوں سے ہوتی تھی۔ اسے کرم علی بھی اپنے اصطبل کا ایک گھوڑا لگتا تھا۔ ویسا گھوڑا جیسے گھوڑوں کے لیے سعود کچھ بھی کر سکتا تھا۔
”کہاں جاؤ گے تم؟” سعود نے بالآخر اس سے پوچھا۔
کرم علی سوچ میں پڑ گیا۔ واقعی وہ اب کہاں جائے گا۔ تین سال سے کویت میں کسی شخص کے ساتھ اس کا کوئی رابطہ نہیں تھا۔
اس کے گھر والے بتاتے تھے کہ کویت میں اس کے پرانے دوست سمجھتے تھے کہ وہ بے حد مغرور ہو گیا تھا ااور غرور میں ہی کسی سے رابطہ نہیں رکھ رہا تھا اور اب اگر وہ جا کر انہیں بتائے گا کہ وہ کس وجہ سے تو…
”پاکستان جاؤ گے؟” سعود بن جابر نے اسے سوچتے دیکھ کر ایک بار کہا۔
”پاکستان!” کرم علی چونک گیا۔
”اتنا پیسہ تو اس کی فیملی اب جمع کر ہی چکی ہو گی کہ وہ ہمیشہ کے لیے پاکستان چلا جاتا۔ جتنا روپیہ اسے سعود بن جابر کے اصطبل میں کام کر کے تین سال میں ملا تھا اتنا پیسہ وہ اٹھائیس سال تک کہیں مزدوری کر کے بھی نہیں کما سکتا تھا۔ ہاں واقعی اسے پاکستان چلے جانا چاہیے۔ اس نے بے حد مسرور ہو کر سوچا۔
”ہاں، میں پاکستان جاؤں گا۔” کرم نے بے ساختہ کہا۔
”اس کے بعد واپس آؤ گے۔” سعود بن جابر نے پوچھا۔
”واپس؟’ کرم چونکا۔ ”نہیں واپس کیوں آؤں گا؟ کچھ نہ کچھ کر لوں گا۔ میرے گھر والوں نے کافی رقم جمع کر لی ہو گی۔ اس سے کوئی کاروبار کر لوں گا۔”
کرم علی نے بڑے اعتماد سے کہا۔ رہائی کے آثار نظر آتے ہی اس کے لہجے کا اعتماد لوٹ آیا تھا۔
”یہاں کام تو کر رہے ہو چاہو تو یہیں رہ جاؤ اسی تنخواہ میں۔” کرم علی نے چونک کر اسے دیکھا پھر بے ساختہ کہا۔
”نہیں ۔ مجھے یہاں نہیں رہنا، واپس پاکستان جانا ہے۔” سعود کو وہی جواب ملا تھا جس کی وہ توقع کر رہا تھا۔
”تم ایک بے حد عجیب آدمی ہو کرم علی۔”
کرم علی نے حیرانی سے سعود بن جابر کا چہرہ دیکھا۔ اس کا دل چاہا تھا وہ اس سے کہے کہ کیا وہ اس سے بھی زیادہ عجیب انسان تھا۔ جو اپنے گھوڑوں کے لیے ایک جیتے جاگتے انسان کو قیدی بنائے ہوئے تھا اور اسے ضرورت پڑنے پر مارنے کو بھی تیار تھا۔
”اگر میں تمہاری کوئی مدد کر سکتا ہوں تو مجھے بتاؤ۔” سعود بن جابر نے بے حد فراخدلی سے کہا۔
”نہیں کسی چیز کی ضرورت نہیں۔” کرم علی نے اسی انداز میں کہا۔
”جاؤ جا کر سوچوپھر مجھے بتانا۔” سعود بن جابر نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
کرم علی کچھ کہے بغیر وہاں سے چلا آیا۔ وہ شام اس کی زندگی کی سب سے اچھی شام تھی۔ اسے اگلے دن اس اصطبل سے ہمیشہ کے لیے چلے جانا تھا۔