من و سلویٰ — قسط نمبر ۶

اگلی صبح وہ پھر ٹھیک تھا۔ جب کام کرنا تھا تو پھر رو کر کیا اور ہنس کر کیا۔ سعود بن جابر سے سات دن تک اس کا دوبارہ سامنا نہیں ہوا، وہ دوبارہ اس کا سامنا کرنا بھی نہیں چاہتا تھا۔
اصطبل میں بظاہر سب کچھ نارمل تھا مگر کرم کو محسوس ہو رہا تھا کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اصطبل کے عملے میں ایک عجیب طرح کی بے چینی اور پریشانی پائی جا رہی تھی۔
اصطبل کے ڈاکٹر ہر وقت ایک کے بعد ایک گھوڑے کا معائنہ کرتے نظر آتے تھے۔ گھوڑوں کو دیا جانے والا چارہ عجیب طرح کے حفاظتی اقدامات میں اصطبل سے باہر سے منگوایا جاتا تھا اور پھر چند خاص افراد ہی اس چارے کو گھوڑوں کو دیتے تھے۔ گھوڑوں کو دی جانے والی باقی خوراک بھی سیلڈ ہوتی تھی اور وہی افراد انہیں گھوڑوں تک پہنچاتے تھے، یہی حال اس پانی کا تھا، جو گھوڑوں کو پلایا جا رہا تھا۔ اصطبل میں کام کرنے والے کسی آدمی کی رسائی پانی کے اس ذخیرہ تک نہیں تھی۔ جس کا پانی ان گھوڑوں تک نلوں کے ذریعے پہنچایا جاتا تھا۔
اصطبل کے تمام ملازمین اپنی اپنی شفٹ میں جب وہاں کام کرنے جاتے تو ان کی مکمل طور پر تلاشی لی جاتی تھی وہاں سو کے قریب گھوڑے تھے۔ اور ان سو گھوڑوں کی حفاظت اور دیکھ بھال کے لئے تقریباً پانچ سو کے قریب عملہ اور ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اس عملے کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا تھا اور ان میں سے زیادہ تر تعداد Vets کی تھی۔
کرم علی کی سمجھ میں یہ سب کچھ نہیں آرہا تھا۔ اس نے زندگی میں چاہے اس طرح کا کوئی اصطبل پہلے نہیں دیکھا تھا۔ مگر وہ اتنا اندازہ ضرور کر سکتا تھا کہ اصطبل اس طرح ڈاکٹرز سے بھرے نہیں ہوتے۔ پھر اس اصطبل میں کیا مسئلہ تھا۔ اصطبل میں کوئی گھوڑا بیمار بھی نہیں نظر آرہا تھا۔ پھر ڈاکٹرز کی اس فوج کا کیا مطلب تھا؟
چھٹے دن گھوڑں کو باہر پھرانے کے لیے نہیں نکالا گیا اور ساتویں دن کرم علی نے سعود بن جابر کو خود بھی اصطبل میں پایا۔ وہ بے حد فکر مند انداز میں ایک ایک گھوڑے کے پاس جا رہا تھا۔ کرم علی کی بہت کوشش تھی کہ سعود بن جابر سے اس کا سامنا نہ ہو مگر یہ ممکن نہیں تھا۔ وہ کئی بار اس سے ٹکرایا اور ہر بار سامنا ہونے پر کرم علی کو اس کی نظریں بے حد عجیب لگیں۔
کرم علی کا خیال تھا شفٹ ختم ہونے پر وہ وہاں سے چلا جائے گا۔ مگر اسے بتایا گیا کہ اسے اس رات بھی اصطبل میں ہی رہنا تھا۔
”کیوں؟”
اس کا جواب بھی کسی کے پاس نہیں تھا۔
وہ رات کرم نے اصطبل کے ایک کونے میں بیٹھے سوتے جاگتے گزاری۔ وضو کر کے فجر کی نماز بھی اس نے وہیں اسی کونے میں پڑھی اور نماز کے بعد کس وقت اسے نیند آگئی اسے پتہ نہیں چلا وہ وہیں زمین پر لیٹ کر سو گیا تھا۔
دوبارہ اس کی آنکھ گیارہ بجے کے قریب کھلی تھی اور کرم علی ہڑبڑا کر اٹھا تھا۔




اصطبل میں معمول کے مطابق سرگرمیاں جاری تھیں، گھوڑوں کو دو دن کے وقفے کے بعد اصطبل سے نکالا جا رہا تھا۔ کرم علی کچھ دیر بیٹھا اپنے حواس بحال کرتا رہا پھر اس کی نظر اپنے سے کچھ فاصلے پر کرسی پر بیٹھے ہوئے دو آدمیوں پر پڑی، جو اس پر نظریں جمائے بیٹھے تھے وہ انہیں سعود بن جابر کے ساتھ دیکھ چکا تھا۔
شاید وہ اس کے سیکریٹری تھے۔ یا کسی اور طرح کے مدد گار۔
کرم علی نے قدرے شرمندگی کے عالم میں آنکھیں مسلتے ہوئے انہیں دیکھا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ اسے اندازہ بھی نہیں تھا کہ وہ اس طرح وہاں بیٹھے بیٹھے سو جائے گا۔ اسے اٹھتے دیکھ کر وہ آدمی بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور ان میں سے ایک نے آگے بڑھ کر اسے ایک لفافہ تھمایا۔ کرم علی کچھ حیرانی کے ساتھ اس لفافے کو دیکھتا رہا پھر اسے کھول کر دیکھنے لگا اور اسے ایک اور جھٹکا لگا۔ اس لفافے میں کویتی دینار تھے۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا۔ وہ دونوں وہاں سے چلے گئے۔ کرم کے معمے بڑھتے جا رہے تھے۔ اصطبل میں کام کرنے والے لوگ اس وقت بھی کرم کو دیکھ رہے تھے اور وہ ان کی نظروں کو سمجھنے میں ایک بار پھر ناکام ہو رہا تھا۔
کچھ دیر اس لفافے کو ہاتھ میں بے مقصد پکڑے رہنے کے بعد کرم علی بالآخر اس سائیس کے پاس گیا جس کے مدد گار کے طور پر وہ کام کر رہا تھا۔ اس نے ٹوٹی پھوٹی عربی میں اسے اس لفافے کا قصہ سنانے کی کوشش کی مگر اس نے پوری بات سننے سے پہلے ہی اسے ٹوک دیا اور اسے بتایا کہ وہ لفافہ اس کے لیے شیخ سعود بن جابر نے بھجوایا تھا۔
”کیوں…؟” اس سوال کا جواب سائیس نے نہیں دیا۔ اس نے اس کو کوارٹر میں جا کر آرام کرنے کے لیے کہا اور ساتھ اس سے یہ بھی کہا کہ اسے ہر روز وہاں آکر کام کرنے کی ضرورت نہیں، اس کا جب جی چاہے وہ آکر کام کرے۔ جی نہ چاہے تو نہ کرے۔ کرم علی کو لگا وہاں سب اس کے ساتھ مذاق کرنے لگے تھے۔ کوشش کیے بغیر کام کا ملنا اور کام کیے بغیر پیسے۔ ایسا کہاں ہوتا تھا۔ کیا صرف شیخ سعود بن جابر کے اصطبل میں؟ یا پھر وہاں صرف اس کے ساتھ، کیونکہ وہ وہاں باقی تو ہر شخص کو کام کرتے دیکھ رہا تھا۔ تقریباً اسی طرح کا م کرتے اور جان مارتے جیسے شیخ سعود کے اصطبل میں آنے سے پہلے تک وہ کیا کرتا تھا۔
کوارٹر میں آکر اس نے وہ دینار گنے وہ ایک ہزار دینار تھے۔ اس نے اس رقم کو اسی طرح رکھ دیا۔ یہ وہ رقم نہیں تھی جس کے لیے اس نے محنت کی تھی اور اسے خرچ کر سکتا تھا اسے لگا آج اگر اسے ہزار دینار دیے گئے تھے تو کل اس سے ہزار دینار واپس بھی مانگے جا سکتے تھے۔
سہ پہر کے قریب وہ وہاں سے باہر جانے کے لیے گیٹ پر آیا وہ آصف بھٹہ کے پاس جانا چاہتا تھا۔ کچھ دوسرے ساتھیوں سے ملنا چاہتا تھا۔ یہ سب کچھ انہیں بتانا چاہتا تھا۔
گیٹ پر کھڑے گارڈز نے اسے باہر جانے نہیں دیا۔
”شیخ کا حکم نہیں ہے۔” ان میں سے ایک نے اسے بتایا تھا۔
کرم علی کو لگا جیسے وہ کچھ غلط وقت پر باہر جانے کے لیے نکلا تھا۔ اس لیے اسے روکا گیا۔ اس نے گارڈ سے پوچھا کہ وہ کس وقت باہر جانے کے لیے نکل سکتا ہے۔
”کسی وقت پر بھی نہیں۔” اسی گارڈ نے اسی انداز میں جواب دیا۔
”شیخ نے کہا ہے کہ آپ یہاں سے باہر نہیں جا سکتے۔”
کرم علی کو صحیح معنوں میں پسینہ آگیا تھا۔ ”تو کیا وہ وہاں قیدی تھا؟”
وہ واپس کوارٹر میں آگیا اور ایک بار پھر ہزار دینار سے بھرے ہوئے لفافے کو نکال کر دیکھنے لگا۔ اسے اب غصہ آرہا تھا شیخ سعود بن جابر پر اس اصطبل پر اور اپنے آپ پر، وہ آصف بھٹہ کی دکان پر کھڑے شیخ سعود کے دو آدمیوں کے ساتھ آنے سے انکار کر دیتا تو کوئی اسے کیسے یہاں لا سکتا تھا۔ یہ کرم علی کی غلط فہمی تھی۔ وہ وہاں آنے سے انکار کر دیتا تو بھی اسے اس اصطبل میں لے آیا جاتا کیونکہ شیخ سعود بن جابر کو اپنے گھوڑوں کی زندگی کے لیے کرم علی کے وجود کی ضرورت تھی۔
اس رات سعود بن جابر سے اس کی دوبارہ ملاقات ہوئی تھی۔ اس بار وہ پچھلی رات ملاقات کی طرح سنجیدہ نہیں تھا وہ اس ولا کے ایک کمرے کے بار میں بیٹھا شراب پی رہا تھا۔ جب کرم علی کو ایک ملازم وہاں چھوڑ کر آیا۔ اس نے پرسکون انداز میں مسکراتے ہوئے اس طرح کرم کا استقبال کیا تھا، جیسے وہ طویل عرصے کے بعد کسی دوست سے ملا ہو۔ صرف فرق یہ تھا کہ وہ کرم علی کے پاس نہیں آیا تھا اور کرم علی سے گلے ملا تھا نہ اس نے کرم علی سے ہاتھ ملایا تھا مگر اس نے کرم علی کاحال احوال بے حد گرمجوشی سے پوچھنے کے بعد اسے بیٹھنے کے لیے کہا تھا اور خود اس کمرے میں موجود منی بار پر کھڑے ہو کر اپنے لیے شراب کا پیگ تیار کرنے لگا تھا۔
اس کے کہنے کے باوجود کرم علی فوری طور پر بیٹھ نہیں سکا۔ وہ کمرہ اس قدر شاندار تھا کہ کرم علی کو لگا وہ کسی کرسی یا صوفے پر بیٹھے گا تو وہ خراب ہو جائیں گے۔ حالانکہ وہ بے حد صاف ستھرے لباس میں تھا پھر بھی۔
”بیٹھ جاؤ۔” سعود بن جابر نے بغیر مڑے اپنے کام میں مصروف اس سے کہا تھا یوں جیسے اسے پتہ ہو کہ وہ ابھی بھی کھڑا ہو گا۔
اس بار کرم علی ہمت کر کے ایک کرسی پر بیٹھ ہی گیا تھا۔
”کیا لو گے؟” سعود نے بے حد دوستانہ انداز میں اپنا گلاس تیار کر کے پلٹتے ہوئے اس سے پوچھا اور ساتھ ہی ایک کے بعد ایک شراب کا نام لیتا گیا۔
کرم علی ہونقوں کی طرح اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ اس نے زندگی میں وہ نام بھی نہیں سنے تھے، مگر وہ یہ ضرور جانتا تھا کہ بار پر کھڑے ہو کر وہ اسے شراب کے علاوہ کسی اور مشروب کا نہیں پوچھ سکتا تھا۔
سعود اب منتظر تھا کہ وہ کچھ کہے مگر کرم علی کے حلق سے آواز نہیں نکل پا رہی تھی۔ سعودشراب کے سپ لیتا ہوا بے حد تیکھی نظروں سے اسے دیکھتا اسی طرح خاموش کھڑا رہا۔
”نہیں، مجھے کچھ نہیں چاہئے؟” کرم علی نے بالآخر اپنا خشک سا منہ کھولا۔
”تم یہاں سے کہاں جانا چاہتے تھے؟” سعود بلا توقف اپنے اصلی موضوع پر آگیا تھا۔
وہ اب بار سے ہٹ کر کرم علی سے کچھ فاصلے پر موجود ایک کرسی پر آبیٹھا تھا۔ کرم علی فوری طور پر اس کے سوال کا جواب نہیں دے سکا۔ وہ کچھ اور نروس ہو گیا تھا۔ صرف چند گھنٹے پہلے ہی تو اس نے وہاں سے نکلنے کی کوشش کی تھی۔ اور چند گھنٹوں میں ہی سعود اس سے اس بارے میں پوچھ رہا تھا۔ یقینا کرم علی کے بارے میں ہر خبر اس تک پہنچائی جار ہی تھی۔
”میں… میں اپنے کچھ دوستوں سے ملنا چاہتا تھا۔” کرم علی نے بالآخر کہا۔
”تم ولید کو بتا دو وہ تمہارے دوستوں کو یہیں بلا لے گا۔” سعود نے وہاں کے انتظامی امور کے نگران کا نام لیتے ہوئے کہا۔
”لیکن میں یہاں سے باہر کیوں نہیں جا سکتا؟” کرم علی نے بالآخر وہ سوال کیا جو وہ کرنا چاہتا تھا۔ سعود نے جواب دینے کے بجائے شراب کے گلاس سے ایک سپ لیا کرم علی منتظر نظروں سے اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ جواب نہیں آیا۔
”مجھے یہاں کس لیے لے کر آئے ہیں، کام کے لیے تو نہیں لے کر آئے؟ اور مجھے ہزار دینار کس لیے دیے ہیں۔ میں نے کیا کیا ہے؟”
کرم علی اب یکے بعد دیگرے سوال کرنے لگا۔ شیخ سعود بن جابر سے اب وہ خوف اور جھجک محسوس نہیں ہو رہی تھی جو اس سے پہلے ہوتی رہی تھی۔
سعود اس کے چہرے کو خاموشی سے دیکھتا رہا پھر اس نے شراب کا گلاس رکھ دیا۔
ساڑھے پانچ ماہ سے شیخ سعود بن جابر کے اصطبل کے گھوڑے یکے بعد دیگرے بغیر کسی وجہ کے مر رہے تھے۔ ہر ہفتے ایک گھوڑا، شروع کے چند ہفتے سعود نے اسے ایک اتفاق سمجھا۔ مگر جب یہ سلسلہ جاری رہا تو اس نے اسے سازش سمجھا۔ ہر مہینے گھوڑوں کا طبی معائنہ کیا جاتا تھا، وہ معائنہ ہر ہفتے ہونے لگا گھوڑوں میں کسی قسم کی کوئی بیماری نہیں تھی۔
اور مرنے والے گھوڑوں کے جسم میں بھی زہر خوانی کے کوئی اثرات نہیں تھے۔ اس کے باوجود سعود نے بہت سا پرانا عملہ نکال دیا۔ اور بہت سا نیا عملہ رکھا گھوڑے مرتے رہے، سعود حفاظتی اقدامات اور علاج معالجہ کے انتظامات بہترین سے بہترین کرتا گیا۔ یہاں تک کہ وہ خود اسی اصطبل کے ساتھ منسلک ولا میں مستقل طور پر رہنے لگا اور اس کے دن رات کا بڑا حصہ ان گھوڑوں کے ساتھ گزرنے لگا۔ اس کے باوجود ہر ساتویں دن ایک گھوڑا اچانک زمین پر گرتا۔ اس کے منہ سے جھاگ نکلنے لگتا۔ اور جب تک ڈاکٹرز یا اصطبل کا عملہ کچھ کر پاتا وہ گھوڑا ختم ہو چکا ہوتا۔ پچھلے تین ماہ سے سعود بن جابر کے سامنے یہ گھوڑے مر رہے تھے اور وہ بے بسی سے انہیں مرتا دیکھنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ یہ سلسلہ
Orlando polish Arabian نسل کے گھوڑوں کے مرنے سے شروع ہوا تھا اور اب تک دس مختلف نسلوں کے گھوڑے مر چکے تھے۔ آخری مرنے والے دو گھوڑے Percheron stallion تھے۔ اور ان گھوڑں کی موت کے ساتھ ہی سعود بن جابر کا حوصلہ جواب دے گیا تھا۔ وہ اس کے بہترین اور پسندیدہ ترین گھوڑوں میں سے تھے۔
وہ تو ہم پرست نہیں تھا مگر مجبور ہو گیا تھا کہ اسے کالا جادو سمجھتا وہ اپنے قبیلے کے کسی بڑے کی ہدایت پر کسی دوسرے قبیلے کے ایک بدو سے ملا تھا اور کرم علی کی وہاں آمد اس ٹوٹکے کا نتیجہ تھی۔ جو اس بدو نے بتایا تھا۔




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۵

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!