من و سلویٰ — قسط نمبر ۶

طلاق کے بعد کچھ عرصہ کے لیے شینا کو ایک بار پھر سے ملنے والی یہ آزادی بہت اچھی لگی اور وہ پہلے کی طرح دوبارہ سرگرم ہو گئی۔ مگر کچھ عرصہ گزرتے ہی اسے دوبارہ سہیل کی یاد ستانے لگی۔ اس سے پہلے کہ وہ سہیل سے دوبارہ رابطے کی کوشش کرتی سہیل کے والدین نے سہیل کی شادی اس کی کسی پرانی دوست کے ساتھ کر دی۔
شینا کے لیے یہ بات ناقابل برداشت تھی وہ سہیل سے ایک بار پھر ملنے لگی تھی، اور یہی وہ وقت تھا جب سعید نواز نے شیراز کو اس کے لیے منتخب کیا تھا۔ ان کے پورے سوشل سرکل میں ہر ایک شینا اور اس کے مزاج سے اچھی طرح واقف تھا۔
سعید نواز اچھی طرح جانتے تھے کہ سب کچھ جانتے ہوئے کوئی بھی شینا کو اپنے خاندان کا حصہ بنانا نہیں چاہے گا۔ اور اگر وہ کسی نہ کسی طرح اپنے جیسے کسی خاندان میں شینا کی شادی کر بھی دیتے تو وہ چار دنوں کے اندر ایک بار پھر طلاق لے کر ان کے پاس آجاتی۔
ان کی کلاس کا کوئی لڑکا شینا جیسی بدمزاج اور آزاد خیال لڑکی کے ساتھ دو دن تو گزار سکتا تھا ”چار” نہیں۔ سعید نواز کو شینا کے لیے ایسے داماد کی ضرورت تھی جو شینا کے سامنے منمنائے، بات نہ کرے۔ اونچی آواز کرنا تو خیر اس سے بھی بری بات ہوتی اور ایسا داماد ان کی اپنی کلاس میں کسی صورت نہیں مل سکتا تھا۔
کہاں مل سکتا تھا سعید نواز جانتے تھے کیوں کہ وہ خود کبھی اسی کلاس سے تعلق رکھتے تھے جس کلاس سے شیراز تعلق رکھتا تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ انہوں نے شیراز کے جیسی غربت نہیں دیکھی تھی۔ اور ان کی زندگی میں دوسری بہت ساری آسانیاں شامل رہی تھیں۔
شیراز سے وہ جواد کے ذریعے ملے تھے جو ان کے کہنے پر شینا کے لیے ایک عدد لڑکا ڈھونڈ رہا تھا۔ اور شیراز کی صورت میں اسے وہ شخص مل ہی گیا تھا جس کے کندھے پر رکھ کر یہ بندوق چلائی جا سکے۔
اپنے گھر پر جواد کے ساتھ اس سے ملنے سے بہت پہلے وہ شیراز کے بارے میں بہت ساری معلومات کروا چکے تھے۔ لیکن انہوں نے کبھی شیراز پریہ ظاہر نہیں کیا کہ وہ اس کے بارے میں کچھ جانتے تھے۔ شیراز کی قیمت کیا تھی یہ سعید نواز اس کے ساتھ پہلی ملاقات میں ہی جان گئے تھے۔ اور وہ قیمت زیادہ نہیں تھی اگر وہ اپنے کارڈز ہوشیاری سے کھیلتے تو…
شیراز نے سعید نواز کے گھر آنے جانے پر شینا کے ساتھ اپنی متوقع شادی کو راز رکھ کر اپنے پیروں پر خود کلہاڑی ماری تھی۔ وہ اکیڈمی میں کسی اور سے اس سارے معاملے کے بارے میں بات کرتا تو شینا کے بارے میں یہ سب کچھ اسے بہت پہلے پتا چل جاتا جو اسے آج پتا چل رہا تھا۔ وہ اس وقت یہ سمجھتا تھا کہ اکیڈمی میں اس کے کامن کے لوگوں کو شینا کے ساتھ اس کی شادی کا پتہ چلا ہو گا وہ تو اس پر رشک کرتے ہوں گے۔ مگر اسے آج احساس ہو رہا تھا کہ وہ دراصل اس پر ہنستے ہوں گے، خاص طور پر وہ لوگ جو شینا، اس کی پہلی شادی اور اس کے افیئرز کے ساتھ ساتھ اس کے مزاج کے بارے میں جانتے ہوں گے اور ان سب کو شیراز سے کیسی ہمدردی ہوئی ہو گی۔
یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا مگر شیراز ان تمام خیالات کو ذہن سے جھٹکتا رہتا تھا۔




”زندگی میں ہر ایک کوئی نہ کوئی کمپرومائز ضرور کرتا ہے۔ اور شینا سے شادی میرا کمپرومائز ہے۔” وہ اکثر اپنے آپ کو تسلی دیتا۔
”اور اس کمپرومائز میں میں نے سب کچھ کھویا نہیں، بہت کچھ پایا بھی ہے۔”
وہ مزید سوچتا اور اس کی یہ سوچ غلط بھی نہیں تھی۔ شادی نے اس کی عزت نفس اور خود اعتمادی بے شک ختم کر دیے ہوں مگر اسے ایک لائف اسٹائل اور زندگی کی بہت ساری آسائشیں ضرور دے دی تھیں۔ اور شیراز کے نزدیک یہ کوئی بڑی قیمت نہیں تھی۔
اسے سہیل اور اس کے بچے کے بارے میں جان کر بھی کبھی یہ خیال نہیں آیا تھا کہ کاش اس نے یہ کچھ نہ کیا ہوتا اسے صرف یہ خیال آتا تھا کہ کاش اسے کوئی شینا سے زیادہ اچھی لڑکی مل جاتی۔ اور ”اچھی” کا شیراز کے نزدیک کیا مفہوم تھا۔ یہ اسے جاننے والا کوئی بھی شخص بوجھ سکتا تھا۔
شینا کی پہلی شادی اور اس کے بچے کے بارے میں شیراز اپنے گھر والوں کو بتانے کی ہمت نہیں کر سکا۔ اور پھر اسے احساس ہوا کہ اس کی ضرورت بھی نہیں تھی، وہ اس کے ساتھ نہیں رہتے تھے کہ وہ انہیں اس ایشو کے بارے میں لا علم نہ رکھ سکتا۔ اور اسے یہ خدشہ نہیں تھا کہ وہ کبھی اس کے گھر اچانک آکر کچھ جان جاتے جتنی دیر وہ یہ بات چھپا سکتا تھا اسے چھپانا چاہیے تھا۔
سعید نواز سے اس گفتگو کے بعد شیراز نے دوبارہ سعید نواز یا شینا سے سہیل یا شینا کی پہلی شادی کے بارے میں بات نہیں کی۔ اور شینا کا انداز اس کے بعد جیسے ہر وقت اس کا مذاق اڑانے جیسا تھا۔ اسے یقین تھا کہ سعید نواز نے شیراز کے ان کے پاس جا کر شکایت کرنے پر اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ہو گا۔
اور اس سے کیا کہا ہو گا اور یہ اندازہ شیراز کو بھی تھا کہ سعید نواز نے شینا کو شیراز کے اپنے پاس آنے کے بارے میں بتایا ہو گا۔ شینا کا بیٹا اب شینا کے پاس ہی رہتا تھا۔
شیراز کچھ ہفتے منتظر رہا کہ سہیل اسے واپس لے جائے گا مگر ایسا نہیں ہوا شاید شینا کی شادی کی وجہ سے سہیل اس بچے کو اپنے پاس لے گیا تھا ورنہ وہ یقینا اس سے پہلے شینا کے پاس ہی ہوتا ہو گا۔ بچے کے آتے ہی بچے کو سنبھالنے والی ایک نینی بھی شینا کے گھر آگئی تھی۔ بچہ زیادہ اس نینی کے پاس ہی رہتا اور شینا کی سر گرمیاں اسی طرح جاری رہیں جس طرح اس بچے کی آمد سے پہلے تھیں۔
واحد تبدیلی جو ہوئی تھی وہ اس گھر میں سہیل کی آمد و رفت تھی۔ سہیل اب اکثر اس گھر میں آنے لگا تھا۔ اور یہ واحد بات تھی جو شیراز کے لیے ہضم کرنا مشکل تھا۔ مسئلہ صرف سہیل کے اس گھر میں آنے جانے کا نہیں تھا، مسئلہ شینا کا رات گئے اس کے ساتھ گھومنے پھرنے کا تھا۔
کئی بار نینی گھر پر نہیں ہوتی اور شیراز، شینا کی عدم موجودگی میں اس کے بچے کو سنبھالتا پھرتا اور یہ ایسا وقت ہوتا تھا کہ اسے اپنے آپ پر ترس آتا اور وہ خود کو بے بس محسوس کرتا۔ بعض دفعہ اس کا دل چاہتا، وہ شینا کے بچے کا گلا دبا دے اور بعض دفعہ اس کا دل چاہتا وہ شینا کا ہی گلا دبا دے۔ مگر یہ دونوں کام کرنے سے زیادہ آسان خود کا گلا دبانا تھا اور بہر حال ابھی حالات اتنے خراب نہیں ہوئے تھے کہ شیراز اپنا گلا دبانے کی سوچتا۔
اس رات بھی وہ خون کے گھونٹ پیتے ہوئے شینا کے بچے کو بہلا رہا تھا۔ شینا حسب معمول غائب تھی۔ دو گھنٹے کی جدوجہد کے بعد وہ بالآخر بچے کو سلانے میں کامیاب ہو گیا مگر اس کا خود نیند سے برا حال ہو رہا تھا۔ اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے باہر پورچ میں کسی گاڑی کے آکر رکنے کی آواز سنی تھی شینا بالآخر گھر واپس آگئی تھی۔ اس نے کھڑکی کا پردہ ہٹا کر باہر جھانکا اور وہ غصے سے آگ بگولہ ہو گیا۔ شینا سہیل کی گاڑی سے اتر رہی تھی۔ وہ غصے کے عالم میں کمرے سے نکلا مگر جب تک وہ پورچ میں پہنچا سہیل جا چکا تھا اور شینا اندر آرہی تھی۔
”تم کس کے ساتھ آئی ہو؟” اس نے تیز آواز میں شینا سے پوچھا جو اطمینان کے ساتھ اس پر ایک نظر ڈالے بغیر اندر جا رہی تھی۔
”سہیل کے ساتھ۔” اس نے رکے یا شیراز کو دیکھے بغیر اس سے کہا اور اندر چلی گئی۔ شیراز بے حد غصے میں اس کے پیچھے آیا۔
”سنی سو گیا؟” شینا نے پلٹ کر دیکھے بغیر اس سے یوں پوچھا جیسے وہ اسے سنی کی دیکھ بھال کے لیے چھوڑ کر گئی تھی۔
”تمہار ابیٹا میری ذمہ داری نہیں ہے۔” شیراز نے بلند آواز میں کہا شینا نے بالآخر پلٹ کر اسے دیکھا اور صرف دیکھا نہیں تھا اوپر سے نیچے تک دیکھا ۔ ایک تیز کاٹنے والی نظر کے ساتھ۔
”کیوں؟ کیا تم اس گھر میں نہیں رہتے؟”
”رہتاہوں مگر تمہارے پہلے شوہر کی اولاد پالنے کے لیے نہیں۔”
”مائنڈ یور لینگوئج۔” شینا نے بلند آواز میں اس کے جملے پر ری ایکٹ کیا تھا۔
”تمہیں سنی کی اتنی پروا ہے تو اسے اس کے باپ کے پاس بھجوا دو۔” شیراز نے اس کی بلند آواز سے متاثر ہوئے بغیر کہا۔
”اوہ، ناؤ آئی گیٹ اٹ۔ تم چاہتے ہو کہ میں آ پنی اولاد اس گھر میں نہ رکھوں کیونکہ اس سے تمہیں تکلیف ہوتی ہے لیکن میں تمہیں صاف صاف بتا رہی ہوں کہ میں اس گھر سے تمہیں تو نکال سکتی ہوں سنی کو نہیں۔”
”تو پھر تم گھر بیٹھ کر سنی کو دیکھو جیسے ایک ماں کو گھر پر ہوناچاہیے۔”
”اس کو دیکھنے کے لیے نینی ہے۔ تمہارے مشورے کی ضرورت نہیں۔” شینا نے دوبدو کہا۔
”مجھے تمہارا سہیل کے ساتھ گھومنا پھرنا پسند نہیں ہے۔” چند لمحوں کے توقف کے بعد شیراز بالآخر اس موضوع پر آگیا جس پر وہ بات کرنا چاہتا تھا۔
”اور مجھے تمہاری پسند اور ناپسند کی کوئی پروا نہیں۔ آئی لو سہیل۔” اس کے آخری جملے نے شیراز کو ایک بار پھر تپایا تھا۔
”تو پھر طلاق لینے کی کیا ضرورت تھی تمہیں اسی کے ساتھ رہنا چاہیے تھا۔”
”آئی ایگری۔ طلاق نہیں لینا چاہیے تھی، مجھے اسی کے ساتھ رہنا چاہیے تھا۔ میری بے وقوفی تھی وہ۔” شینا نے شیراز کو مزید تپایا۔
”تو پھر اب کر لو تم اس سے شادی۔”
”ڈونٹ وری۔ میں پہلے ہی اسے منانے کی کوشش کر رہی ہوں وہ اپنی بیوی کو چھوڑنا نہیں چاہتا جب چھوڑنے پر تیار ہو جائے گا تو میں ایک دن بھی نہیں لگاؤں گی اس سے شادی پر۔”
شینا نے جیسے اعلان کیا تھا اور پھر رکے بغیر اپنے بیڈ روم میں چلی گئی وہ وہیں کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ سہیل نے کیوں اپنے سر سے شینا نام کی بلا اتار پھینکی تھی۔ یہ وہ بہت اچھی طرح سمجھ سکتا تھا۔ شینا کسی بھی مرد کی گرل فرینڈ کے طور پر ایک آئیڈیل پارٹنر تھی۔ لیکن کسی مرد کی بیوی کے طور پر واقعی بلا سے کم نہیں تھی، وہ کسی بھی شوہر کا ذہنی توازن خراب کر سکتی تھی۔ وہ اپر کلاس کی ٹیپیکل بگڑی ہوئی لڑکی تھی جسے سعید نواز نے لوئر مڈل کلاس سے ایک گھوڑا فراہم کر دیا تھا، جسے اس طبقے کی کوئی بھی عورت آسانی سے سدھا سکتی تھی اور سدھانہ بھی پاتی تو بھی یہ وہ گھوڑا تھا جو ٹانگیں مارنے کے لیے گدھے جیسی جرأت بھی نہیں رکھتا تھا۔ سعید نواز داماد کے طور پر شیراز سے بہتر انتخاب واقعی نہیں کر سکتے تھے۔
وہ کئی دنوں کے وقفے کے بعد اکبر اور نسیم سے ملنے آیا تھا اور وہاں جاتے ہی اکبر اور نسیم نے اس کے نہ آنے پر شکایتوں اور گِلوں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا وہ بے اختیار جھنجھلا یا۔ وہ اس وقت کم از کم یہ سب کچھ سننے نہیں آیا تھا۔
”میرے پاس اتنا فالتو وقت نہیں ہوتا کہ میں ہر وقت آپ لوگوں کے پاس بیٹھا رہوں۔ آپ کو احساس ہونا چاہیے کہ میں ایک سرکاری افسر ہوں سو کام ہیں میرے، سو مصروفیات ہیں میری ، گھر ہے بیوی ہے مجھے ہر ایک کو وقت دینا پڑتا ہے اور آپ لوگوں کو ہر وقت صرف اور صرف اپنی پڑی ہوتی ہے کل نہیں آئے پرسوں نہیں آئے فون نہیں کیا، پورا ہفتہ گزر گیا۔ ہم نے کتنا یاد کیا ہم کتنے بے چین رہے دماغ خراب کر دیا ہے ایسی بات کر کر کے، اس سے تو اچھا تھا میں یہاں آتا ہی نہیں۔”
وہ بے حد غصے میں بولتا اٹھ کر چلا گیا اکبر اور نسیم اسے جاتا دیکھتے رہے۔
شیراز نے کبھی ان سے اس طرح بات نہیں کی تھی جس طرح اس نے آج کی تھی۔ وہ ان کی محبت بھری شکایتوں اور گلوں سے بھی چڑنے لگا تھا یہ وہ نہیں جانتے تھے مگر انہیں یہ خدشہ ضرور ہوا کہ وہ بیوی کے رنگ میں رنگنے لگا ہے، اسی لیے اتنا بد اخلاق ہو گیا ہے۔ بڑھاپے میں ان کا اکلوتا سعادت مند اور تابعدار بیٹا سرکش ہو گیا تھا اور اکبر اور نسیم کو جتنا رنج ہوتا کم تھا۔
اگلے کچھ دن انہوں نے شیراز کی واپسی کا انتظار کیا کہ شاید وہ اپنی غلطی کو محسوس کرے اور شرمندہ ہو کر معذرت کے لیے آئے مگر وہ نہیں آیا تھا۔ اکبر اور نسیم کچھ مضطرب ہو کر اس شام اس سے ملنے کے لئے اس کے گھر چلے گئے۔ شیراز گھر پر نہیں تھا مگر ملازم نے انہیں لاؤنج میں بٹھا دیا شیراز تھوڑی ہی د یر میں وہاں آنے والا تھا اکبر اور نسیم انتظار کر سکتے تھے۔
مگر شیراز کے آنے سے پہلے شینا سنی کے ساتھ وہاں آگئی تھی۔ وہ سنی کو ڈاکٹر کے پاس لے کر گئی تھی اور واپسی پر لاؤنج میں بیٹھے اکبر اور نسیم کو دیکھ کر اس کے ماتھے پر یک دم بہت سارے بل آگئے تھے۔ اکبر اور نسیم اسے دیکھ کر بری طرح حواس باختہ ہو گئے۔ اکبر نے آگے بڑھ کر شینا کے سر پر ہاتھ پھیرنے کی کوشش کی، جسے شینا نے بری طرح ان کا ہاتھ جھٹک کر ناکام کر دیا۔
”کیا کام ہے آپ کو؟ گھر لے دیا گاڑی لے دی۔ پھر بھی آپ دونوں کو اس بڑھاپے میں اپنے گھر میں چین نہیں آتا بھاگتے پھرتے ہیں یہاں آنے کے لیے۔”
شینا نے بے حد تلخی سے ان دونوں سے کہا۔
اکبر اور نسیم کو بے حد تذلیل محسوس ہوئی۔
”بیٹا ہم شیراز سے ملنے آئے تھے۔” نسیم نے کمزور آواز میں وضاحت دینے کی کوشش کی۔
”تو اس کے آفس جاتے یہاں کیوں آئے۔ یاپھر فون کر کے اسے اپنے گھر بلا لیتے لیکن نہیں، شوق ہے یہاں آنے کا کچھ نہ کچھ پھر چاہیے ہو گا۔”
”ممی… ممی… لیٹس گو۔”
وہ ابھی کچھ اور بھی کہتی لیکن سنی نے مداخلت کر کے اس کی شرٹ کھینچنے کی کوشش کی تھی۔ شینا اپنی بات ادھوری چھوڑ کر پنے پاس کھڑے سنی کی طرف متوجہ ہوئی اور اس نے اس کو گود میں اٹھاتے ہوئے بے حد تلخی سے اکبر اور نسیم سے کہا۔
”ناؤگیٹ آؤٹ اور دوبارہ کبھی میرے گھر نہ آئیں، ورنہ مجبوراً مجھے آپ دونوں کے بیٹے کو بھی آپ لوگوں کے پاس بھیجنا پڑے گا۔”
وہ یہ کہہ کر وہاں نہیں رکی تھی۔ مگر اس کے ان لفظوں نے اکبر اور نسیم پر کوئی اثر نہیں کیا تھا۔ وہ ابھی تک صرف اس بچے کے منہ سے نکلنے والے لفظ سن کر بے حس و حرکت کھڑے تھے۔ وہ شینا کو ممی کہہ رہا تھا۔ کیوں؟ اور اس کیوں کا جواب دنیا کا بے وقوف سے بے وقوف آدمی بھی دے سکتا تھا۔
٭٭٭
اگلے کئی ہفتے کرم علی نے گونگوں کی طرح دن رات گزارے تھے۔ اپارٹمنٹ میں اس کے دوسرے ساتھی اس سے پوچھ پوچھ کر تھک گئے تھے پھر سب کو لگا اس پر صابر قیوم کی موت کا اثر ہو گیا ہے۔ مجاہد اور تنویر نے جتنی تسلیاں ہو سکتی تھیں اسے دی تھیں۔ پھر انہیں لگا وہ اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں اور نیو یارک میں کوئی وقت ضائع نہیں کرتا، زندگی ضائع کرنا ایک الگ چیز تھی۔
کرم علی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا وہ بات کرے تو کس چیز کے بارے میں بات کرے، دنیا میں یک دم وہ ساری چیزیں ختم ہو گئی تھیں جن کے بارے میں اسے سوچنا اسے بات کرنا اچھا لگتا تھا یا وہ بات کر سکتا تھا۔ خاموشی اور تنہائی کا مکسچر… تیزاب کی طرح اسے اندر سے گلاتا رہا۔
اس کے گھر والوں نے عارفہ سے نکاح کے اگلے ہی دن اسے بڑے خوشی اور جوش کے عالم میں اس کے نکاح کی خبر سنائی تھی، وہ شاید ان کی زندگی کا پر مسرت ترین دن تھا۔ راستے کی واحد رکاوٹ خود بخود دور ہو گئی تھی۔ ان کے بیٹے کو اب کوئی ان سے نہیں چھین سکتا تھا کرم علی نے دس منٹ تک فون پر عارفہ کے بارے میں ماں کی باتیں سنی تھیں پھر اس نے فون رکھ دیا۔
اگلے کئی ہفتے اس نے پاکستان میں کسی سے فون پر بات نہیں کی۔ صدمہ، دکھ، رنج، تکلیف، اذیت، بے یقینی میں سے کون سی چیز تھی جس نے اس کے سوچنے اور سمجھنے کی حسسّیات کو یوں مفلوج کر دیا تھا اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
فون پر اس کے کہے ہوئے الفاظ بار بار اس کے ذہن میں گونجتے تھے بار بار… صبح اٹھتے ہی، رات کو سوتے ہوئے، گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے کھانا کھاتے ہوئے، نہاتے ہوئے۔ دوسرے لوگوں کے ساتھ بیٹھے دنیا میں موجود، ہر قسم کی آواز صرف ایک آواز میں تبدیل ہو گئی تھی عارفہ کی آواز۔
تین مہینے کے بعد اس کی رخصتی بھی ہو گئی تھی۔ یہ خبر اسے اس کی ماں نے تب دی، جب اس نے کئی ہفتوں کے بعد ایک بارپھر نارمل ہونے کی پہلی کوشش کرتے ہوئے اپنے گھر والوں کو فون کیا تھا۔ اس بار کرم علی بار نہیں گیا اس دفعہ کرم علی نے کسی عورت کو نہیں خریدا۔ وہ صرف اگلے تین دن کچھ کھانا بھول گیا۔
تیسرے دن اس کی ملاقات شوکت زماں سے ہوئی تھی۔ وہ ٹیکسی چلا رہا تھا اور شوکت زماں نے اس سے کہیں چلنے کے لیے کہا تھا۔ ان دونوں نے ایک دوسرے کو نہیں پہچانا تھا۔ شوکت زماں پہلے کی طرح اس بار بھی شراب کے نشے میں تھا اور ٹیکسی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا مسلسل مزید شراب اپنے اندر انڈیلتا رہا، کرم علی سڑک پر دوڑتی بھاگتی ٹریفک میں خالی ذہن کے ساتھ اس راستے کو ڈھونڈنے میں مصروف رہا جس پر جانے کے لیے اسے شوکت زماں نے کہا تھا۔
آدھ گھنٹہ کے بعد جب بالآخر وہ شوکت زماں کو اس کے بتائے ہوئے پتہ پر لے کر آیا اور اس نے شوکت زماں سے مطلوبہ کرایہ مانگا تو شوکت زماں دس منٹ اپنے لباس کی ہر جیب چھان مارنے کے باوجود اپنا والٹ برآمد نہیں کر سکا تھا۔ اور یہ ایسا وقت تھا جب کرم علی نے شوکت زماں کو پہچان لیا تھا۔ اور صرف اسی نے نہیں شوکت زماں نے بھی اسے پہچان لیا تھا۔
”اوئے کرم علی! یہ تو ہے۔۔۔۔” شوکت زماں نے بے اختیار اس کا نام لیا کرم علی کو حیرت ہوئی۔ اتنی شراب پینے کے باوجود اس کے اعصاب ٹھیک کام کر رہے تھے۔ وہ کئی ماہ پہلے ملے ہوئے ایک شخص کو اس کے پورے نام سے پکار رہا تھا۔
”کیا حالت بنا لی ہے تو نے…؟ کیا ہو گیا ہے تجھے؟ ہڈیاں کیوں نکل آئی ہیں تیری؟ اوئے تو نے کہیں میری طرح شراب وغیرہ پینا تو نہیں شروع کر دی؟ یا کوئی بیماری وغیرہ تو نہیں لگ گئی تجھے؟”
وہ کسی سوال کے جواب کا انتظار کیے بغیر پے در پے سوال کر رہا تھا کرم علی چپ چاپ اسے دیکھتا رہا پھر اسے چھوڑ کر جانے لگا۔
”اوئے شوکت زماں کو کتا سمجھ رہا ہے جو خوا مخواہ بھونکتا جا رہا ہے اور اس کو کسی جواب کی ضرورت ہی نہیں۔”
شوکت زماں نے اس کے اس طرح پلٹنے کا برا مانا تھا۔ کرم نے ایک بار پھر پلٹ کر دیکھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا، وہ شراب کے نشے میں دھت اس شخص سے کس طرح بات کرے… وہ ہمیشہ اسی حالت میں ملا تھا۔ شوکت زماں اب اس کی خاموشی پر کچھ اور گرم ہو رہا تھا۔
”اور کرایہ اس طرح چھوڑ کر جا رہا ہے جیسے کسی رئیس کی اولاد ہے تو۔۔۔۔”
شوکت زماں نے اس جملے کے ساتھ اسے تین چار ناقابل اشاعت گالیاں بھی دی تھیں۔ کرم علی نے زندگی میں بہت لوگوں سے بہت دفعہ گالیاں سنی تھیں۔ اسے کبھی غصہ نہیں آیا تھا۔
وہ نہیں جانتا شوکت زماں کے سامنے کھڑے اس وقت اسے کیوں شدید غصہ آیا اس کی خاموشی اس بار بھی نہیں ٹوٹی تھی مگر اس نے آگے بڑھ کر پوری قوت کے ساتھ شوکت زماں کے جبڑے پر ایک گھونسہ مار دیا۔ منہ اور ناک سے نکلتے ہوئے خون کے فواروں کے ساتھ شوکت زماں نے اسے بے یقینی سے دیکھا پھر کرم علی نے اسے زمین پر گرتے دیکھا، کرم علی کو تب اپنی غلطی کا احساس ہوا مگر تب تک دیر ہو چکی تھی۔ وہ بے حد گھبراہٹ میں زمین پر گرے شوکت زماں کو ہلاتا جلاتا رہا۔ اور اس سے پہلے کہ وہ ٹیکسی میں ڈال کر کسی قریبی ہاسپٹل لے جاتا، وہاں سے گزرتے کسی آدمی نے کچھ فاصلے پر کھڑے ایک پولیس والے کو اس واقعہ کی اطلاع دے دی تھی۔
پندرہ منٹ کے اندر کرم علی ہتھکڑیوں کے ساتھ ایک پولیس اسٹیشن میں لایا گیا۔ لاک اپ میں بیٹھے ہوئے بھی اسے اس با ت کی تشویش نہیں تھی کہ وہ لاک اپ میں بند ہو جائے گا۔ اسے صرف شوکت زماں کی فکر تھی۔ پتا نہیں اسے کتنی چوٹ آئی تھی۔
”تم واقعی پاگل ہو گئے ہو کرم علی؟ تم واقعی پاگل ہو گئے ہو۔”
اس نے کئی بار خود کو دھتکارا تھا اور شاید لعنت و ملامت کا یہ سلسلہ مزید طویل ہو جاتا اگر وہاں آنے کے پورے دو گھنٹے کے بعد ایک پولیس والا اس کے پاس آ کر اسے یہ اطلاع نہ دیتا کہ اس پر چارجز ختم کر دیے گئے تھے اس آدمی نے جس پر اس نے حملہ کیا تھا۔ ہوش میں آنے کے بعد یہ بیان دیتے ہوئے شرمندگی کا اظہار کیا تھا کہ اس نے شراب کے نشے میں کرم علی کو گالیاں دیتے ہوئے اپنے آپ پر حملے کے لیے اکسایا۔ وہ ایسا نہ کرتا تو وہ کبھی مشتعل ہو کر ایسی حرکت نہ کرتا۔
کرم علی بے حد ندامت کے عالم میں لاک اپ سے نکلا اور اس کی ندامت میں اس وقت مزید اضافہ ہو گیا جب اس نے شوکت زماں کو جبڑے پر لگی ہوئی پٹیوں کے ساتھ لاک اپ کے باہر اپنا منتظر پایا۔
اس بار وہ مکمل ہوش میں تھا اور کرم علی کو دیکھ کر اس نے مسکرانے کی کوشش بھی کی تھی، جو جبڑے پر لگی پٹیوں کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوئی۔
کرم علی نے اس کے قریب آکر کچھ کہنے کی کوشش کی تھی مگر وہ بول نہیں پایا۔ اس نے جواباً شوکت زماں کو کچھ کہنے کی کوشش کرتے پایا۔ کرم نے کان اس کے قریب لے جا کر اس کی بات سننے اور سمجھنے کی کوشش کی تھی اور وہ کامیاب رہا تھا۔ شوکت زمان اسے ایک بار پھر وہی گالیاں دے رہا تھا، جن گالیوں کو سننے پر اس نے اس کے جبڑے پر گھونسہ مارا تھا۔
کرم علی بے اختیار گہرا سانس لے کر سیدھا ہو گیا۔ اس لاک اپ میں کھڑے اس کا احسان مند ہوتے ہوئے اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اپنی زندگی کے اگلے چند سال اس کے ساتھ اسی طرح گالیاں کھاتے گزارے گا شوکت زماں کینیڈا کے امیر ترین ایشیائی افراد کی لسٹ میں چوتھے نمبر پر تھا اور اسے دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وہ کینیڈا کا پہلا ایشیائی ایڈز پیشنٹ تھا۔
*****




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۵

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!