اس دن زبیدہ، اکبر اور نسیم سے ملنے آ ئی تھیں اور یہ جان کر کچھ حیران ہوئی تھیں کہ شیراز اور شینا ان سب سے الگ رہ رہے تھے۔
محلے کا گھر چھوڑتے ہوئے ان سب نے ہر ایک سے یہی کہا تھا کہ وہ شیراز کے ساتھ اس نئے گھر میں منتقل ہو رہے ہیں اور اب انہیں بیٹے اور بہو سے الگ رہتا دیکھ کر اگر حیرانی ہوئی تھی تو یہ ایسی حیرت کی بات نہیں تھی۔ اکبر اور نسیم انہیں وضاحتوں پر وضاحتیں دیتے رہے ان میں سے کتنی وضاحتیں زبیدہ کو مطمئن کر سکی تھیں۔ وہ نہیں جانتے تھے۔
زبیدہ، ربیعہ کے ساتھ عمران کی منگنی ختم کرنے کے بعد اب عمران کے لیے نزہت کے رشتے کی خواہش مند تھیں اوراکبر اور نسیم خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ نسیم جو وقتاً فوقتاً زبیدہ کو ربیعہ کے ساتھ عمران کا رشتہ ختم کرنے کے لیے اکساتی رہی تھیں اس کے پس پشت ان کا یہی ارادہ کار فرما تھا جو اب ان کے سامنے پورا ہوتا نظر آرہا تھا۔
مگر شیراز کے سامنے اکبر اورنسیم نے اس شام جیسے ہی زبیدہ کی آمد اور عمران کے رشتے کی بات کی تو وہ بری طرح ہتھے سے اکھڑ گیا۔
”اب ایک پلمبر کے ساتھ میں اپنی بہن کی شادی کروں گا اور اپنے سسرال والوں اور ملنے والوں کو کس منہ کے ساتھ بتاؤں کہ کس کے ساتھ رشتہ داری ہونے والی ہے میری؟ میں نے کتنی مشکل سے اس محلے اور خاندان سے جان چھڑائی ہے اور آپ لوگوں کو ایک بار پھر وہی سب کچھ کھینچنے لگا ہے۔ صاف صاف بتا دیں خالہ زبیدہ کو کہ ہمیں ان کے بیٹے کے ساتھ نزہت کا رشتہ نہیں کرنا، وہ جہاں چاہیں رشتہ کریں۔”
شیراز نے تمام لحاظ بالائے طاق رکھتے ہوئے ماں باپ سے کہا۔
اکبر اور نسیم بے حد تشویش کے عالم میں ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔
”مگر بیٹا! خاندان میں ایک زبیدہ اور اس کا بیٹا ہی ہیں جو کچھ بہتر ہیں اکلوتا بیٹا ہے زبیدہ کا اور وہ بھی کویت میں۔ گھر بار بھی اپنا ہے، میری تو برسوں سے خواہش تھی کہ نزہت کی شادی عمران سے ہو یہ تو زبیدہ کے سر پر ربیعہ کو بہو بنانے کا بھوت سوار ہو گیا تھا، ورنہ میں تو اشارے کنائے میں کئی بار زبیدہ کو نزہت کے بارے میں جتاتی رہی ہوں۔ ابھی بھی میرے کہنے پر ہی ربیعہ کے ساتھ رشتہ ختم کیا ہے اس نے اور نزہت کا ہاتھ مانگا ہے۔” نسیم نے شیراز کو سمجھانے کی کوشش کی۔
”نہیں اب وہ اس لیے آپ کی بیٹی کا رشتہ مانگ رہے ہیں کیونکہ آپ کا بیٹا افسر ہے اور آپ اس گھر میں بیٹھے ہیں۔ میں دیکھتا اگر میں افسر نہ ہوتا تو زبیدہ خالہ کس طرح نزہت کے رشتے کی بات کرتیں۔ آپ انکار کر دیں انہیں۔ جب مجھے اپنی بہنوں کو لاکھوں کا جہیز دینا ہے تو پھر میں اپنی مرضی کے خاندان ان کے لیے منتخب کروں گا۔ آپ اس خاندان کو بھول جائیں۔”
شیراز نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”لیکن بیٹا! تمہارے سامنے کتنے لوگ نزہت کو دیکھ کر گئے اور پھر واپس نہیں آئے اب۔۔۔۔”
شیراز نے نسیم کی بات کاٹ دی۔
”وہ تب ہوتا تھا جب ہماری جیب خالی تھی امی! اب کوئی ایک افسر کی بہن کر ریجیکٹ کرتے ہوئے دو بار سوچے گا۔”
شیراز نے بے حد تنفر سے کہا اور وہاں سے اٹھ گیا اس نے جو کچھ کہاغلط نہیں تھا۔
اگلے تین ماہ میں سعید نواز کے توسط سے ایک بہت اچھی جگہ پر نزہت کا رشتہ ہو گیا تھا۔ اس کی کم تعلیم اور واجبی شکل و صورت کے باوجودوہ ایک بزنس مین فیملی تھی اور اچھے خاصے کھاتے پیتے لوگ تھے۔
اکبر اور نسیم پھولے نہیں سما رہے تھے۔ انہوں نے کبھی خواب میں بھی نزہت کے لیے ایسے خاندان میں رشتہ کا نہیں سوچا تھا۔ ورنہ زبیدہ کو انکار کرنے کے بعد وہ دونوں اندر ہی اندر خاصے متفکر تھے اور اس پریشانی میں مختلف لوگوں سے ان باتوں کو سن کر اضافہ ہو رہا تھا جو خاندان کے لوگ ان کے بارے میں کر رہے تھے۔ زبیدہ کو خاص طور پر ان پر بہت غصہ تھا۔
شیراز کی شادی جتنی خاموشی اور سادگی سے ہوئی تھی نزہت کی شادی اتنی ہی دھوم دھام سے ہوئی تھی اور اس دھوم دھام کا سہرا بلا شبہ شیراز کے سر ہی تھا۔ اس نے نزہت کی شادی پر دونوں ہاتھوں سے پیسہ خرچ کیا تھا۔
زندگی میں پہلی دفعہ یہ پورا خاندان کل کی فکر کیے بغیر پیسہ خرچ کر رہا تھا اور کچھ اس لیے بھی کیونکہ یہ دھوم دھام نزہت کے سسرال والوں کی ڈیمانڈ بھی تھی۔
اگرچہ ان لوگوں نے باقاعدہ طور پر شیراز یا اکبر اور نسیم سے کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا کہ انہیں نزہت کے گھر والوں سے کس قسم کے جہیز کی توقع تھی مگر شیراز نے ان کی ہر توقع پور ی کی تھی۔
شادی کے انتظامات پر خرچ ہونے والی رقم کا ایک بڑا حصہ سعید نواز نے دیا تھا۔
شیراز کی شادی کی طرح نزہت کی شادی پر بھی اکبر اور نسیم نے اپنے خاندان کے کسی فرد کو مدعو کیا تھا نہ خاندان کے افراد کو، نہ ہی محلے میں اپنے شناسا گھروں کے افراد کو۔ یہ سب شیراز کے کہنے پر ہوا تھا۔ شادی کی تقریب میں صرف شیراز کے ملنے والے افراد تھے اور یہ سب وہ لوگ تھے جن سے اکبر اور نسیم واقف نہیں تھے۔ مگر ان میں سے کسی کو اس بات پر کوئی شرمساری نہیں تھی کہ وہ سب اپنے خاندان سے کٹ گئے تھے۔
وہ اس بات پر بے حد مطمئن تھے کہ وہ بالآخر اس ماضی اور اس خاندان کوچھپانے میں کامیاب ہو گئے تھے جو ان سب کے لیے شرمندگی کا باعث تھا۔
شینا نزہت کی شادی پر شیراز اور اس کے گھر والوں کی منتوں اور اصرار کے باوجود شامل نہیں ہوئی تھی اور صرف یہی نہیں اس نے شادی کے بعد بھی نزہت کے شوہر یا سسرال کو گھاس نہیں ڈالی تھی۔ یہاں تک کہ تب بھی نہیں، جب شیراز نے اپنے گھر پر نزہت اور اس کے شوہر کو کھانے پر بلایاتھا۔ شیراز کے لیے اتنا ہی کافی تھا شینا نے ان دونوں کو اپنے گھر کھانے کے لیے بلانے پر اعتراض نہیں کیا تھا۔
نزہت کے شوہر اور سسرال والوں کو اگر منہ مانگا جہیز نہ ملا ہوتا اور شیراز ایک سی ایس پی آفیسر نہ ہوتا تو شینا کی یہ بے اعتنائی اور یہ رویہ نزہت کو خاصا مہنگا پڑتا مگر فی الحال اس کے سسرال والے اس کی جی حضوری میں لگے ہوئے تھے اور شینا کی وجہ سے شیراز اور نزہت کو محسوس ہونے والی خفت کو مکمل طور پر نظر انداز کیے ہوئے تھے۔
٭٭٭
تقریباً چھ ماہ بعد شیراز بالآخر اپنے ماں باپ کے لیے ایک گھر خریدنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اس گھر کی خریداری کے لیے ایک بار پھر اس نے سعید نواز کے سامنے جھولی پھیلائی تھی اور سعید نواز نے ہمیشہ کی طرح اسے بار بھی اس خالی ہاتھ نہیں بھیجا تھا۔ اگر چہ وہ گھر شیراز کی حسب خواہش کسی پوش علاقے میں نہیں خریدا گیا تھا۔ لیکن پھر بھی وہ اچھے علاقوں میں سے ایک تھا اور اس گھر میں منتقل ہوتے ہی اکبر اور نسیم نے ایک بار پھر اپنے خاندان کے کچھ قریبی لوگوں اورچند پرانے محلے داروں سے میل جول دوبارہ شوع کر دیا تھا۔
وہ جب سے اس محلے کو چھوڑ کر آئے تھے ان کی زندگی بے حد عجیب اور بے رنگ ہو گئی تھی۔ گھر میں اب ایک آدھ ملازم کے ہونے کی وجہ سے گھر کا کام نہ ہونے کے برابر تھا۔ اکبر اور نسیم سارا دن ٹی وی دیکھتے یا اپنی بیٹیوں سے باتیں کرتے جو شروع میں تو ان ہی کی طرح اس گھر میں آکر خوشی سے پھولے نہ سماتی تھیں لیکن پھر آہستہ آہستہ بولائی پھرتی تھیں۔ آس پاس کے گھروں میں رہنے والے لوگوں سے ان کا رابطہ نہ ہونے کے مترادف تھا۔
ان میں اور آس پاس رہنے والے لوگوں کی کلاس اور مزاج میں بہت زیادہ فرق تھا۔ وہاں زیادہ تر ورکنگ کلاس کے گھر تھے جہاں گھروں میں پیسے کی افراط نہ سہی مگر تعلیم کی افراط تھی اور گھر کے تقریباً سب ہی افراد تو جابز کرتے تھے یا پھر تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ صرف ان ہی کا گھر ایسا تھا جہاں تین لڑکیاں میٹرک کے بعد گھر میں بیٹھ گئی تھیں۔
نزہت کی شادی کے بعد یہ تعداد دو رہ گئی تھی اور گھر تبدیل ہو گیا تھا مگر علاقہ ایک بار پھر ویسا ہی تھا اور اس علاقے میں اکبر اور نسیم کے لیے اپنی عمر کے افراد کو تلاش کرنا اتنا مشکل نہیں تھا جتنا اسی طرح کے افراد کو ڈھونڈنا۔
ان کے محلے میں شیراز ایک ہی افسر تھا اورنہ وہ واحد افسر کے والدین… اس علاقے میں تقریباً ہر دوسرے گھر میں کوئی نہ کوئی سرکاری ملازمت میں کم و بیش اس گریڈ میں تھا جس میں شیراز۔ اس لیے کوئی افسر بیٹے کے تعارف پربھی کسی خاص اور غیر معمولی جوش اور رشک کا اظہار نہیں کرتا تھا۔
جس اعزاز نے ان کے قد میں اضافہ کیا تھا۔ وہ اعزاز اس علاقے میں کئی لوگوں کے پاس تھا۔ وہ سب ایک بار پھر خود کو بونا محسوس کرنے لگے تھے اور اس حالت میں ایک بار پھر یہ ضروری ہو گیا تھا کہ وہ ان لوگوں سے ملتے جنہیں مل کر انہیں اس کی ذہنی کیفیت سے نجات ملتی۔
اس میل جول کے بارے میں شیراز کو پتا نہیں تھا۔ اگر پتا ہوتا تو وہ ہنگامہ برپا کر دیتا۔ اکبر اور نسیم بڑی ہوشیاری سے اس سے یہ بات چھپائے ہوئے تھے کہ وہ ایک بار پھر اس محلے میں جانے لگے ہیں اور وہاں کے لوگ ان کے گھر میں وقتاً فوقتاً آنے بھی لگے ہیں۔
اکبر اور نسیم اگر خاندان کے لوگوں سے دوبارہ رابطے بڑھانے میں مشغول تھے تو دوسری طرف شیراز اپر کلاس میں قدم جمانے میں۔ جن چیزوں کو اس نے سب سے پہلے چھوڑا تھا۔ ان میں سے ایک اپنی زبان تھی۔ وہ ساری زندگی پنجابی بولتا رہا تھا اور اب اگر بھولے سے بھی پنجابی کا کوئی لفظ اس کی زبان سے نکل جاتا تو اسے جیسے کرنٹ لگتا۔ شینا اور سعید نواز اور ان کے رشتہ دار اور دوست احباب آپس میں زیادہ تر انگریزی میں بات کرتے تھے۔ وہ لوگ اردو بھی بولتے تو انگریزی نما اردو۔
خود شیراز کے آفس میں بھی یہی زبان بولی جاتی تھی۔ سول سروسز اکیڈمی اور اس کا ڈیپارٹمنٹ زبان کے معاملے میں اسے اتنا محتاط نہیں کر سکا تھا جتنا شینا اور اس کے سسرال والوں نے کر لیا تھا۔
وہ انگلش روانی سے بول سکتا تھا مگر اس طرح کی اور اس لہجے میں نہیں جو وہ شینا اور اپنے سسرال والوں سے سنتا تھا اور وہ ان جیسا بننے کے لیے سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھا۔ وہ، وہ پرندہ تھا جس نے دوسرے پرندوں کے پروں کے خوب صورت رنگوں کو دیکھ کر ان جیسا بنانے کے لیے اپنے پروں کو مصنوعی رنگوں میں ڈبونا شروع کر دیا تھا اور ہر بار پانی پڑنے پر اس کا سارا رنگ دوسرے پرندوں کے سامنے اتر جاتا اور وہ کوئی سبق حاصل کرنے یا شرمندہ ہونے کے بجائے ایک بار پھر اپنے جسم کو رنگنے میں مصروف ہو جاتا۔
وہ اب ان کلبز اور جگہوں پر جاتا جہاں پہلے جانے کے وہ صرف خواب دیکھتا تھا۔ سعید نواز کے داماد کے لیبل نے جیسے اسے اپر کلاس کے سوشل سرکلز میں وائلڈ کارڈ انٹری دے دی تھی۔
شینا کی ساری بدتمیزیوں اور تذلیل کے باوجود شیراز کو شینا جیسی بیوی کا شوہر ہونے پر فخر تھا۔ اس کے اعتماد، لباس اور شخصیت نے جیسے شیراز کے اندر سارے کمپلیکس کو ختم کر کے رکھ دیا تھا۔ اس کا لباس جتنا قابل اعتراض بھی ہوتا شیراز کو وہ ہمیشہ اسٹائلش لگتا تھا کیونکہ وہ اس سوشل سرکل کو اسٹائلش لگتا تھا، جس میں وہ موو کرتے تھے۔
شینا بہت کم ہی اس کے ساتھ کسی پارٹی میں جاتی تھی۔ شیراز زیادہ تر سعید نواز کے ساتھ ہی پارٹیز میں جایا کرتا تھا۔ مگر جس پارٹی میں شینا اس کے ساتھ جاتی اس میں شیراز کو واقعی یہ لگتا کہ اس کے قدو قامت میں اضافہ ہو گیا تھا۔ اسے لگتا ایسی ہر پارٹی میں ہر کوئی شینا کے شوہر کو دیکھنا اور اس سے ملنا چاہتا تھا۔ شیراز کو ایک عجیب سا غرور ہوتا تھا۔
وہ لاہور کی سب سے زیادہ اسٹائلش اور ماڈرن لڑکیوں میں سے ایک کا شوہر تھا مگر وہ زیادہ عرصے تک اپنے آپ کو یہ فریب بھی نہیں دے سکا تھا۔
شادی کے چھٹے ماہ ایک سہ پہر وہ کسی کام سے گھر سے نکلا تھا جب پورچ میں ایک گاڑی سے اترتے ایک بے حد ہینڈسم لڑکا اسے دیکھ کر مسکرایا اور پھر اس بچے کو گاڑی سے اتارنے لگا جو ہاتھ میں ایک کھلونا پکڑے ہوئے تھا۔
شیراز نے بے حد حیرانی اور الجھے ہوئے انداز میں اس لڑکے کو دیکھا۔ وہ کون تھا شینا کا کوئی کزن…؟ کیونکہ جتنے اطمینان سے وہ شیراز کو مکمل طور پر نظر انداز کیے گاڑی سے اترا تھا اس انداز میں کوئی اجنبی تو نہیں اتر سکتا تھا۔
”جی… میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔”
شیراز نے بے حد شائستہ انداز میں اس لڑکے کو متوجہ کیا۔ وہ چونک کر اس کی طرف پلٹا پھر بے حد خوشگوار اور بااخلاق انداز میں آگے بڑھ کر شیراز سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
”سوری، میں اپنا تعارف کروانا تو بھول ہی گیا۔ میں سہیل ہوں۔”
”سہیل کون؟ میں نے ابھی بھی نہیں پہچانا۔” شیراز نے قدرے معذرت خواہانہ انداز میں اس سے کہا۔ وہ اپنے ذہن پر زور دیتے ہوئے سہیل نامی کسی کزن کو برآمد کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
”آپ نے اس لیے نہیں پہچانا کیونکہ ہم دنوں کبھی ملے ہی نہیں۔” اس لڑکے نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”ہاں اسی لیے۔” شیراز اس بار مسکرایا۔
”میں شینا کا ایکس ہزبینڈ ہوں۔” اس لڑکے نے اسی خوشگوار انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔
کسی نے شیراز کے سر پر جیسے بم دے مارا تھا۔
شیراز کو کچھ دیر کے لیے لگا جیسے اسے سننے میں کچھ غلط فہمی ہوئی تھی۔ وہ ہونقوں کی طرح سہیل کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ پھر اس نے اپنی غلط فہمی دور کرنے کے لیے گلا صاف کیا اور پوچھا۔
”آپ نے کیا کہا؟”
”میں شینا کا ایکس ہزبینڈ ہوں، سہیل۔۔۔۔”
سہیل نے اسی فراٹے سے کہا۔لیکن اس بار وہ قدرے محتاط لہجے میں بولا۔ شاید اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ شیراز کو اس کے ”محل وقوع” کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہے۔